دریا کی لہروں پر تیرتا ہوا میں کئی میل تک نکل گیا۔ جس جہاز میں میں سفر کر رہا تھا وہ طوفان کے باعث تباہ ہو چکا تھا۔ بہت سے مسافر ڈوب گئے تھے چند ایک بچ گئے تھے جو میری طرح لہروں کے رحم وکرم پر بہتے گئے۔ اور کچھ دریا کی تہہ میں بیٹھ گئے تھے۔ مجھے تیرنا آتا تھا جو میں تیرتا ہوا کئی میل تک نکل آیا تھا۔ اب دریا کے دونوں طرف ایک گھنا جنگل شروع ہو چکا تھا۔
افریقہ کے جنگل سے ساری دنیا واقف ہےکس قدر گھنا اور خوفناک جنگل ہے۔ اس علاقے کے جنگلوں اور ان جنگلوں میں پائے جانے والے پھل دار درختوں سے میں اچھی طرح واقف تھا.
میں پانی سے نکل آیا اور سب سے پہلے میں نے ایسے درختوں کو تلاش کیا جن سے بھوک مٹانے کے لئے مجھے پھل دستیاب ہوسکیں۔ جلد ہی مجھے ایسے درخت مل گئے ۔ میں نے خوب پیٹ بھر کر پھل کھائے اور سیر ہو کر دریا کا سرد اور میٹھا پانی پیا۔
ان دونوں کاموں سے فار غ ہو کر میں جنگل کے اندر داخل ہو گیا تاکہ دوسری جانب نکل کر ایسی جگہ پہنچ سکوں جہاں پر کوئی بستی آباد ہو۔ جنگل میں جانے والے جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص جگل کے اندرونی حصے میں داخل ہوتا ہے تو جنگل میں بکھرے ہوئے سوکھے پتوں کے باعث اس کے ہر قدم پر تیز آہٹ ہوتی ہے
وہ کتنا ہی چاہے کہ آواز پیدا نہ ہو لیکن کوئی بس نہیں چلتا۔ چنانچہ جنگل کے باسیوں کو جن میں اکثریت سانپوں اژدھوں اور درندوں کی ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر میں پتہ چل جاتا ہے کہ کوئی شخص وہاں گھوم رہا ہے۔ پرندے ایک درخت سے اڑ کر دوسرے درخت تک جانا شروع کر دیتے ہیں۔ پرندوں کا شور شروع ہو جاتا ہے۔ ہر دس قدم کے بعد لومڑی کی تیز آواز اس طرح گونجتی ہے گویا وہ دوسرے چرندوں اور پرندوں کو دشمن کی آمد سے آگاہ کر ری ہے۔ پھنکاریں تو ہر قدم پر سنائی دیتی ہیں کبھی کبھار ایک آواز چنگھاڑنے کی بھی سنائی دے جاتی ہے۔
کبھی کبھی کوئی سانپ یا اژدھا اپنا پھن لہراتا ہوا مقا بلے پر آجاتا ہے. جس جنگل سے میں گزر رہا تھا اس میں جنگلی جانوروں کی کمی نہ تھی۔ میں نے ایک مضبوط درخت کی دو ٹہنیاں کاٹ کر نوکدار بنا لی تھیں۔ میں سمجھتا تھا کہ وحشی درندوں کے سامنے ان نوکدار ٹہنیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
پھر بھی اطمینان تھا کہ میں نہتا نہیں ہوں وقت پڑنے پر اپنی حفاظت کے لئے قدم اٹھا سکتا ہوں. سورج سر پر چمکنے لگا تھا۔ جس سے اندازا ہوتا تھا کہ دوپہر کا وقت ہو چکا ہے۔
دونوں ٹانگیں بھی درد کرنے گئی تھیں تھوڑی تھوڑی سی بھوک بھی محسوس ہورہی تھی۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ میں نے کتنا فاصلہ طے کیا۔ میرا اندازہ تھا کہ میں نے دس میل سے زائد کا سفر طے کر لیا تھا۔ مختصر یہ کہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں پھر چل پڑا… دن ڈھل گیا۔ شام ہونے والی تھی۔ اب مجھے رات گزارنے کے لئے پناهگاه چاہیے تھی لیکن کوئی پناہ گاہ سامنے نہ آئی
اب میں نے فیصلہ کیا کہ کسی درخت پر رات گزاری جائے۔ میں ایک درخت پر چڑھ گیا اور دو شاخوں کے درمیان خود کوٹکا دیا۔ یکایک مجھے احساس ہوا جیسے اسی شاخ پرمیرے قریب ہی سرسراہٹ کی پر اسرار اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی آواز بلند ہوئی
۔ میرادل یکبارگی اچھل کر حلق میں آ گیا اور میری خوفزدہ نگاہیں گہرے اندھیرے میں اپنے دشمن کو تلاش کرنے لگیں۔ مگر اس سے پہلے مجھے اپنے مقصد میں کامیابی ہوتی مجھے اپنے بائیں ہاتھ کی کلائی میں اچانک تیز قسم کی تکلیف دہ چبھن کا احساس ہوا اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے دشمن کو دیکھ لیا۔ جو مجھے ڈسنے کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ درخت کی گھنی شاخوں اور پتوں میں غائب ہوتا جا رہا تھا . سانپ میرے دیکھتے ہی دیکھتے میری نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا… اب میں اس کے زہر کا اثر ہونے کے بعد اب کسی معجزے سے ہی موت کے بھیانک جبڑوں میں پہنچنے سے بچ سکتا تھا۔ میرے سارے جسم میں ایک عجیب سنسنی پھیلی ہوئی تھی دل سینے میں ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور جسم کے مسامات تیزی کے ساتھ پسینہ اگلنے میں مصروف تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے خونخوار عفریتوں کی اس سرزمین پر میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوں۔ موت کا ظالم ہاتھ مجھے اپنی شہ رگ کی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
اور آ س پاس کے تمام درخت مجھے ناچتے نظر آرہے تھے۔
میرا سر بڑی شدت سے چکرا رہا تھا اور کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے میری مضبوط قوت ارادی مجھے اس درخت پر اپنا توازن برقرار رکھنے میں کسی طرح کی مدد نہیں دے سکے گی۔
میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی پوری کوشش کی اور درخت کو مضبوتی سے پکڑ لیا۔ لیکن جلد ہی میری ساری توانائی ختم ہونے لگی اور چند ہی لمحے بعد میں درخت سے زمین کی جانب گر رہا تھا… مجھے بس اتناہی یاد ہے کہ زمین پر گرتے ہوئے میرے
حلق سے ایک تیز اور دلخراش چیخ بلند ہوئی اور پھر اگلے ہی لمحے میرا ذہن تاریکیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکا تھا۔
بے ہوش ہونے سے پہلے مجھے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اب قیامت کے روز ہی میں ہوش میں آ سکوں گا۔ مگر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب آنکھیں کھلنے پر میں نے اپنے آپ کو ایک جھونپڑی میں پایا۔ زمین پر اگر اس وقت دن کا اجالا نہ ہوتا تو تاریکی کے باعث میں یقینا یہ سمجھتا کہ میں قبر میں ہوں لیکن تاریکیاں چھٹ چکی تھیں۔ جھونپڑی میں دن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور میں ایک نرم اور گداز بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے گذشتہ شب کا تار یک اور خوفناک جنگل چاروں طرف پھڑ پھڑ اتے عجیب و غریب پرندے اور زمین پر رینگتے ہوۓ حشرات الارض کسی فلم کے متحرک سین کی طرح گھومنے لگے اور میری عقلی ایک دفعہ پھر چکرا گئی۔ میں تو قیامت کے روز ہوش میں آنے کا یقین کر کے بے ہوش ہوا تھا۔ پھر اتنی جلدی کس طرح ہوش میں آ گیا۔ اور یہ جھونپڑی کس کی ہے؟ آخر یہاں تک مجھے کون لے کر آیا ہوگا ۔ میرا ذہن اپنے سوالات کا جواب تلاش کرنے میں بڑی شدت کے ساتھ مصروف تھا۔ لیکن مجال ہے کہ
کوئی بات سمجھ میں آ سکی ہو۔ عقل نے تو جیسے جنگل میں راستہ بدلنے کے بعد ہی ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر اگر کچھ سمجھ میں آتا بھی تو کیونکر ! سوچتا رہا اور الجھتا رہا اس وقت تک جب تک کہ انسانی قدموں کی آہٹ نے مجھے اپنی طرف متوجہ نہیں کرلیا۔ چونک کر نگاہیں اٹھائیں تو ایک نسوانی پیکر نظر آیا۔ رعنائیوں اور دلکشیوں کا مجموعہ۔
وہ اس حد تک یقیناً خوبصورت نہیں تھی کہ اس کا
تعلق سفید فاموں سے تھا لیکن سفید چمڑی ہی کو تو خوبصورتی اور دلکشی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ سفید فام نہ ہونے کے باو جود دلکش اور خوبصورت تھی اس کی جلد کا رنگ سانولا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی اور معصومیت سے بھر پور تھیں اور جسم کسی ماہر بت تراش کے فن کا عدیم المثال کارنامه معلوم ہوتا تھا اس کے سر کے بال لمبے گھنے اور سیاه تھے۔ کمرپتلی لمبی لچکدار اور جنسی کشش کی حامل تھی اور اس کے جسم پر برائے نام لباس نظر آتا تھا۔ لباس بھی بڑے بڑے پتوں سے بنایا گیا تھا۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر وہ تیزی کے ساتھ میرے قریب آ گئی۔ اس کی آنکھوں میں تیز چمک پیدا ہو گئی تھی اور ہونٹ مسکراتے ہوئے لگ رہے تھے ۔ میں نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی تو اس نے جلدی
اپنے سڈول اور خوبصورت ہاتھوں کو آگے بڑھاتے ہو ئے اور آہستگی سے میرے کندھوں کو پکڑتے ہوئے کہا۔
نہیں نہیں ۔۔۔۔۔لیٹے رہو۔۔۔۔۔ ابھی تمہیں مکمل ، آرام کی ضرورت ہے۔ اس کی زبان سے صاف اور شسته انگریزی سن کر میں حیرت میں پڑ گیا۔
میں اب ٹھیک ہوں“ میں نے جواب دیا۔
مگر میں یہاں آیا کیسے؟ یہ جھونپڑی کس جگہ واقع ہے۔۔۔۔ اور تم کون ہو؟ ۔۔۔۔۔گذشتہ شب تو مجھ پر ملک الموت نے حملہ کیا تھا۔
گذشته شب۔۔۔۔۔؟؟
وہ مسکرائی۔۔۔۔۔۔۔۔ تم پورے 72 گھنٹے بعد ہوش میں آئے ہو۔
ہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔
یہ حقیقت ہے کہ تم پرسوں رات کو بابا کو جنگل میں بے ہوش پڑے ملے تھے۔ تمہیں افریقہ کے بے حد زہریلے سانپ نے ڈس لیا تھا۔ جس کی وجہ سے تمہارے جسم پر نیلا ہٹ پھیلنے لگی تھی۔
اگر بابا نے تمہیں دیکھ نہ لیا ہوتا تو چند منٹ کے اندر اندر مر جاتے ۔
اوہ میرے خدایا۔۔۔۔۔ کس قدر ہولناک حقیقت تھی میں جھرجھری لے کر رہ گیا۔
جب آدمی کی زندگی باقی ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اس پر مسلط نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگر وہ سانپ انتہائی خطرناک اور زہریلا تھا تو مجھے حیرت ہے کہ میری جان کیسے بچی؟ ۔۔۔کیا تمہارے
بابا سانپ کے کاٹنے کا علاج کر سکتے ہیں؟ اور کیا تمہارا گھر اسی جگہ سے قریب ہے؟؟
نہیں وہ جگہ یہاں سے کم از کم ایک میل دور ضرور ہوگی اور میرے بابا کوئی ڈاکٹر نہیں وہ ایک بہت بڑے وچ جادوگر ہیں اور اگر چاہیں تو اپنے جادو سے مرده جسموں میں جان ڈال دیں۔
اس حسینہ نے بڑے فخر سے کہا۔
"و جادوگر! تمہارا مطلب ہے کہ انہوں نے مجھے جادو کے زور سے ٹھیک کیا ہے“
اب میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ افریقی جادو اور وچ ڈاکٹروں کے بہت سے قصے میں نے ناولوں میں پڑھے تھے۔
لیکن میں ان کا قائل نہ تھا۔ جادو اور جادوگری میرے خیال میں سب بکواس باتیں تھیں لیکن اب میری میزبان لڑکی اس پر مصر تھی کہ اس کا باپ میری زندگی محض جادو کے بل بوتے پر بچانے میں کامیاب ہو سکا ہے۔
اپنی الجھنوں اور حیرت کو دور کرنے کے لئے میں نے اس سے لگاتار سوالات کرڈالے اور پھر اس نے جواب میں جو کچھ بتایا اسے مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
اس کا بابا اس علاقے کا ایک بہت بڑا جادو گر تھا اور دور دور کے قبیلے کے لوگ اس سے خوف کھاتے تھے۔
اپنے دشمنوں کو سسکا سسکا کر مار دیا کرتا تھا اور اس کے دوست ہمیشہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے دیکھے گئے تھے۔
اسے اپنی جادو کی قوتوں کا اس قدر بھروسہ تھا کہ ناممکن کو ممکن بنادینا اس کے خیال میں ایک معمولی سی بات تھی ۔۔۔۔۔۔۔اندھیری راتوں میں وہ اکثر رات رات بھر گھر
سے غائب رہتا … اس رات بھی وہ حسب معمول جنگل میں جارہا تھا کہ میں اسے موت کے منہ میں جاتا نظر آیا۔ ۔
لومبا ایک خطرناک اور خوفناک آدی تھا لیکن سلوانا کی پرورش اس نے بڑے پیار سے کی ۔۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد لومبا اندر آیا۔۔۔۔۔سیاہ رنگت۔۔۔۔۔ پتلا سر۔۔۔۔۔ مضبوط جسم۔۔۔۔۔ بے ڈھنگا اور غیر معمولی حد سے بڑا پیٹ ۔۔۔۔۔۔گول مٹول چہره۔۔۔۔ ۔۔۔ سر پر چھوٹے چھوٹے گھنگریالے بال تھے۔۔۔۔۔۔ آنکھیں گول اور روشن تھیں جن میں ایک شیطانی چمک۔۔۔۔۔ بظاہر وہ ہر اعتبار سے ایک انسان نظر آ رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود
اس کے چہرے میں ایک بات ضرور تھی جو اسے انسان سے زیادہ کوئی شیطانی مخلوق ظاہر کرتی تھی۔ مجھے ہوش میں دیکھ
کر اس کے موٹے موٹے اور بھدے ہونٹوں پر ایک مکروہ مسکراہٹ پھیلنے لگی۔
اس رات لومبا نے جھونپڑی سے باہر جانے سے پہلے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔
میں ایک ضروری کام سے جار ہا ہوں۔ ہو سکتا ہے واپسی میں دیر ہو جائے یا شاید صبح تک نہ آسکوں۔ بہرحال میری غیر حاضری میں سلوانا تمہارے ساتھ ہوگی۔ اسی جھونپڑی میں تنہا۔“
اس کی تیز اور چمکدار آنکھیں مجھے اپنی روح میں اترتی محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے جلدی سے نگاہیں ہٹا لیں۔۔۔ لومبا نے مجھے خاموش دیکھ کر اپنے مخصوں چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
” مجھے امید ہے کہ میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے۔ میں نے تمہاری اس وقت جان بچائی جب تم موت کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے تمہیں نئی زندگی دے کر میں نے تم پر احسان کیا ہے اور شریف لوگ اپنے محسنوں کی عزت سے کھیلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلوانا معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ جوان بھی ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ مرد کا قرب کیا ہوتا ہے لیکن وہ شباب کے نشے سے مخمور ہے اور بھرے ہوئے جام کو چھلکانے کے لئے اسے معمولی سی ٹھیس کافی ہوتی ہے۔
کیا تم سمجھ رہے ہو ۔۔۔۔میرے دوست۔
!ہاں میں تمہارا مطلب سمجھ رہا ہوں ؟
تم ذہین نوجوان ہو اور شاید شریف بھی! مجھے امید ہے کہ تم میری عدم موجودگی میں سلوانا کی جوانی اور معصومیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرو گے۔
ویسے عقلمندی کا تقاضا تو یہی تھا کہ رات ہونے سے پہلے میں تمہیں روانہ کر دیتا لیکن تمہیں ابھی مزید آرام کی ضرورت ہے” . . اس میں آپ کا شکرگزار ہوں یقین کریں میں ایک شریف آدی ہوں اور حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں نے کبھی نہیں کی۔
تاہم اگر آپ کو اعتماد نہیں تو میں اس وقت یہاں سے جانے کو تیار ہوں۔ اور اس کی ضرورت نہیں۔ بس میرا احسان یاد رکھنا …
اور یہ کہ تم نے میری عزت سے کھیلنے کی کوشش کی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں میرے ہولناک اور بھیانک انتقام سے نہ بچا سکے گی۔
لومبا نے مجھے گھورتے ہوئے کہا اور پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر جھونپڑی سے نکل گیا۔ اس کی دھمکی آمیز گفتگو نے مجھے کافی پریشان اور کسی حد تک خوفزدہ کردیا تھا۔ چنانچہ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور کروٹ لے کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ سلوانا اس وقت کسی کام سے جھونپڑی میں موجود تھی۔
کافی دیر گزر گئی۔ میں سونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میرے
گھاس پھونس کے بستر سے سلوانا زیادہ فاصلے پر نہ تھی۔
اچانک رات کے ہولناک سناٹے میں اس کی
مترنم آواز میرے
کانوں سے ٹکرائی۔
كياسو گئے مسٹر شاہد ؟
میں خاموش رہا۔۔۔۔۔۔۔ میں نے آنکھیں بھی نہیں کھولیں۔۔۔۔۔ مجھے ڈر تھا کہ رات کی تنہائی میں سلوانا کا جوان اور حسین جسم کہیں میرے ارادے کو کمزور نہ کردے۔
کیا سوگئے شاہد ………..؟ اس نے آواز دی۔
ابھی تو ایک پہر رات بھی نہیں گزری۔
میں خاموش پڑا رہا…… یکایک سلوانا نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اٹھو ۔۔۔۔۔۔میں تمہیں اتنی جلدی نہیں سونے دوں گی۔
میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔
تم اتنی جلدی نہیں سو سکتے۔۔۔۔۔ آج میں نے پورے پندرہ برس کے بعد کسی مہذب انسان کی شکل دیکھی ہے۔۔۔۔۔ میں تمہیں رات بھر سونے نہیں دوں گی۔۔۔۔ مجھے اپنی دنیا کے بارے میں بتاؤ۔
صبح بتاؤں گا میں نے جواب دیا۔۔۔۔۔ اس وقت مجھے بڑے زور کی نیند آرہی ہے۔ ۔۔۔۔تم بھی اپنی جھونپڑی میں جا کر سو جاؤ۔
ابھی نہیں۔۔۔۔ سونے سے پہلے میں تم سے بہت ساری باتیں کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ مجھے اپنی دنیا کے بارے بتاؤ۔۔۔۔۔میرے ذہن میں تو اب اس کا تصور بھی موجود نہیں رہا۔۔۔۔ پندرہ سال کا عرصہ بڑا طویل ہوتا ہے۔
مییں جانتا ہوں۔۔۔۔۔مگر تم اب سو جاؤ۔۔۔۔۔ باقی باتیں صبح ہوں گی۔
یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔ میں اس وقت سب کچھ جاننا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے بالکل نیند نہیں آرہی۔۔۔۔۔ ہاں آج میں تھک ضرور گئی ہوں۔۔۔۔۔ ایک طرف سرکو میں تمہارے پاس بیٹھوں گی۔
” کیا مطلب؟”
میں نے سر گھما کر دیکھا تو دماغ جھنجھنا اٹھا۔۔۔۔۔ سلوانا اپنے پتوں کے مختصر لباس سے بھی آزاد تھی۔
"میں بیٹھوں گی۔۔۔۔ سنتے نہیں مجھے اپنے برابر بیٹھنے دو
نہیں تم اپنے بستر پر جاکر کیوں نہیں بیٹھتیں؟
اس لئے کہ میں تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں اور دور سے باتیں کرنے میں مزہ نہیں آتا۔
لیکن یہ غلط ہے تمہیں میرے بستر پر نہیں بیٹھنا چاہیئے
کیوں؟ اس نے تیوریاں چڑھا کر پوچھا۔
اس لئے کہ میں ایک مرد ہوں.۔۔۔۔..جوان لڑکیاں مردوں کےبستروں پر نہیں بیٹھا کرتی۔۔۔۔میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
کیوں نہیں بیٹھا کرتیں ۔۔۔۔ میں تو اکثر اپنے بابا کے پاس بیٹھ جاتی ہوں۔
ابا کی بات اور ہے۔۔۔۔ انہوں نے تمہیں اپنی بیٹیوں کی طرح پالا ہے
تو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔سلوانا نے بھولپن سے سوال کیا۔
وہ سچ مچ حیرت انگیز حد تک معصوم تھی ۔
اس کی معصومیت کودیکھ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"یہ بات نہیں۔۔۔۔ میں مسکراتا ہوا بولا۔۔۔۔
آخر تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی؟
کیا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتیں۔۔۔۔۔ تم نے ابھی تک کوئی ایک بھی ڈھنگ کی بات کی ہے۔
احمقانہ باتیں مت کرو! اگر بابا نے تمہیں میرے پاس بیٹھا ہوا دیکھ لیا تو وہ ہم دونوں کو ختم کردے گا۔
کیوں ختم کردے گا۔۔۔۔۔ کیا میں اس کے پاس نہیں بیٹھتی۔۔۔۔
مجھ میں اور اس میں بہت فرق ہے۔۔۔۔۔
کوئی فرق نہیں !۔۔۔۔۔ جس طرح وہ مرد ہے اس طرح تم بھی مرد ہو….۔۔۔۔ اور سچ پوچھو تو تم مجھے بابا کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھے لگتے ہو.۔۔۔۔ اس نے میری پرورش ضرور
کی ہے لیکن مجھے اس کی حرکتیں اور صورت بالکل پسند نہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے وہ انسان کی بجائے کوئی شیطانی روح ہو ۔۔۔۔۔۔خاص طور پر اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔ مجھے ان کی آنکھوں سے خوف آتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ اور سمجھانے کی کوشش کرتا۔ مجھے ایک طرف دھکیل کہ وہ بڑے اطمینان سے میرے برابر بیٹھ گئی۔
اس کی قربت نے مجھ پر ایک عجیب سی سرور انگیز کیفیت طاری کر دی۔ مجھے اپنے جسم میں چیونٹیاں رینگتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔ لیکن لومبا کی باتیں ابھی میرے ذہن سے نہیں نکلی تھیں…. چنانچہ میں ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
ارے ارے یہ کیا حرکت ہے؟
تم اٹھ کر کیوں بیٹھ گئے۔ کیا بابا نے تمہیں نہیں بتایا کہ ابھی تمہیں مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ “
لیکن میں تمہارے برابر نہیں لیٹ سکتا۔۔۔۔
کیوں؟ ۔۔۔۔کیا تمہیں مجھ سے خوف آتا ہے سلوانا نے حیرت سے پوچھا۔
یہ بات نہیں! ۔۔۔۔۔اب میں تمہیں کس طرح بتاؤں کہ انسان فرشتے نہیں صرف انسان ہوتا ہے اور انسان کو شیطان بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
پتہ نہیں تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔۔۔۔ میں تو ابھی
تک ایک لفظ بھی نہیں سمجھ سکی۔ آؤ! میرے پاس لیٹ جاؤ میں تم سے کچھ معلوم کرنا چاہتی ہوں کیا تم مجھے اپنے ساتھ وہاں لے جا سکتےہو۔۔۔؟
میں سوچوں گا.۔۔۔۔ مگر خدا کے لئے تم مجھے پریشان مت کروسلوانا۔۔۔۔
"میں اب تم سے ایک لفظ بھی نہیں کہوں گی۔ بشرط یہ کہ تم مجھ سے جھگڑنے کی بجائے خاموشی سے لیٹ جاؤ اور اپنی مہذب دنیا کے بارے میں دلچسپ باتیں بتا سکو اور پھر اس نے زبردستی مجھے اپنے برابر لٹا لیا۔ رات کا وقت تنہائی اور ایک جوان لڑکی کی قربت دل و دماغ پر بڑی تیزی کے ساتھ ایک نشہ سا چھاتا جارہا تھا میں نے خود کو اس سرور انگیز نشے سے آزاد کرانے کی بھر پور کوششیں کی لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میرے جذبات بھڑک اٹھے مجھ پر دیوانگی مسلط ہو گئی۔ میں نے اپنے کپڑے اتار پھینکے اور سلوانا کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھی۔ میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے پوری طاقت سے اسے اپنے قریب کر لیا اور ہم دونوں ہوس کے نشے میں ڈوبتے چلے گئے۔
اچانک جھونپڑی کے باہر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ میں خود کو سلوانا سے علیدہ
کرنے نہ پایا تھا کہ لومبا اپنی مکروہ شکل کے ساتھ جھونپڑی میں داخل ہوا۔ مجھے اور سلوانا کو اس حالت میں دیکھ کر وہ دروازے میں ہی کسی سنگی مجسمے کی طرح کھڑا ہو گیا۔
بہت خوب۔۔۔۔۔اس نے تلخ اور زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
تو وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔۔۔۔۔ تم میرے احسان کو بھول گئے اور ایک جوان اور خوبصورت بھولی بھالی لڑکی کے قرب نے تمہیں انسان سے شیطان بنادیا۔
میری اس وقت کی حالت کا کیا پوچھنا۔۔۔۔ کاٹو تو جسم میں خون نہیں…….. ذہن پر بوکھلاہٹ اور خوف کا قبضہ تھا اور جسم کے مسامات بڑی تیزی سے پسینہ اگل رہے تھے۔ میں نے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن الفاظ ہی حلق میں پھنس کر رہ گئے۔ لومبا کی خونخوار نگاہیں میرے چہرے پر مرکوز تھیں۔۔۔۔۔ چند لمحے بعد وہ بولا۔
"میں تمہیں ذلیل اور اس قدر کمینہ نہیں سمجھتا تھا مگر خیر۔۔۔۔۔ تم نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کے لئے تمہیں ساری عمر پچھتانا پڑے گا۔ میں بہت بھیانک انتقام لینے کا عادی ہوں اس نے حلق سے عجیب و غریب آواز نکالی اور دوسرے ہی لمحے میں پانچ چھ مضبوط جسم کے جنگلی جھونپڑے میں داخل ہوئے۔
لومبا کے اشارے پر انہوں نے مجھے جکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئے ایک دوسری جھونپڑی میں لے جا کر باندھ دیا۔ مجھے لومبا کا ایک پیغام پہنچایا گیا۔۔۔۔
کہ کل صبح سورج نکلنے سے پہلے مجھے گرم پانی کے ایک بہت بڑے کڑاہے میں ڈالا جائے گا اور میری ہڈیاں بطور عبرت نشانی کے طور پر گاؤں کے مین گیٹ پر لٹکا دی جائیں گی۔
یہ سن کر میری جان نکل گئی۔۔۔۔۔ مجھے اپنی موت نظر آنے لگی۔ تمام رات یہاں سے فرار ہونے کے بارے میں سوچتا رہا مگر فرار ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی یعنی موت یقینی تھی۔۔۔۔صبح ہونے والی تھی اور ابھی تاریکی چھائی ہوئی تھی کہ جھونپڑی کے عقبی حصے میں کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔
چور راستے سے سلوانا اندر داخل ہوئی اور مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اور میراہاتھ پکڑ کر چور راستے سے ہی باہر نکلی اور دبے پاؤں جھاڑیوں میں راستہ بناتی ہوئی ساحل سمندر پر لے گئی۔ یہاں ایک پرانی کشتی کھڑی تھی۔۔۔۔ اس نے مجھے اس میں سوار کر کے یہاں سے فرار ہونے کے لئے کہا۔
میں سلوانا کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنےلگا
کاش میں سلوانا جیسی وفادار لڑکی کو اپنی دنیا میں لے جاتا مگر قبیلے والوں کے خوف سے ڈر گیا۔۔۔
میں کشتی میں سوار ہو کر کشتی چلاتے ہوئے اس سے دور ہونے لگا۔ سلوانا ابھی تک ساحل پر کھڑی ہاتھ ہلاکر الوداع
کہہ رہی تھی۔ میں کشتی چلاتے ہوۓ سمندر میں آگیا۔ اب ساحل نظروں سے اوجھل ہو چکاتھا۔
میری خوش قسمتی تھی کہ سمندر میں مجھے جہاز مل گیا اور انہوں نے مجھے جہاز میں سوار کر لیا۔ یوں میں اپنی مهذب دنیا میں واپس آ گیا۔۔۔۔ سلوانا اگر میری مدد نہ کرتی تو میں کبھی کا
گرم پانی کے کھولتے کڑاہے میں ابل چکا ہوتا۔
آج بھی کبھی تنہائی میں سلوانا بہت یاد آتی ہے۔