لیلیٰ ھمارے پڑوس میں رہنےآئی تھی-
اسے دیکھ کر تو میں اپنا آپ ہی بھول جاتا تھا
وہ سولہ سترہ سال کی خوبرو نازک حسینہ تھی-
اس کا قد بے حد خوبصورت تھا- درمیانہ سا اس کا
چلنے کا انداز ایسا دلربا تھا، جو بھی اسے دیکھتا وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا
مگر وہ گھر سے بہت کم ہی باہر نکلتی تھی
میں نے لیلیٰ کو جب سے دیکھا تھا ، اپنا آپ ہی بھلا دیا تھا
میں نے لیلیٰ کو دیکھا اور اس پر عاشق ہوگیا
میں کوئی عاشق مزاج لڑکا نہ تھا
مگر یہ لیلیٰ کا جادو ہی تھا وہ بے انتہا خوبصورت تھی
ھماری پہلی ملاقات فلمی سی تھی۔
وہ اس دن گھر سے باہر گلی میں نکل آئی تھی
میں بھی گھر سے باہر نکلا تو سامنے گلی میں خوبصورت
لڑکی نظر ائی۔
"ارے یہ گلی میں اتنی خوبصورت لڑکی کیا کر رہی ہے”
میں نے رک کر سوچا
"ہوسکتاہے کسی کے گھر مہمان آئے ہوں”
اپنی سوچ کو مطمئن سا کر کے قدم آگے بڑھا دیے
"اسلام علیکم ۔۔۔۔ میں نے اس کے قریب پہنچ کر اسے
سلام کیا ۔ پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا
میں بھی کنی کترا کر گزرنے لگا تو اس نے کہا
"رکیے ۔۔۔۔۔ ” میں رک گیا مجھے ایسا لگا کہ
میرے چاروں اور جلترنگ سا بجنے لگا
ماحول میں ہر طرف بھینی بھینی خوشبو چھاگئی ۔
"سنیے ۔۔۔” اس نے اپنی شیریں سی آواز میں کہا
اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے ہر طرف پھولوں کی
پتّیاں رقصاں ہوگئی ہوں
"جی کہیے..” الفاظ خودبخود میرے لبوں سے نکل گئے
"ھم اس محلے میں نئے نئے آئے ہیں ” لیلیٰ نے پیار ںسے کہا
"جی یہ شریفوں کا محلّہ ہے سب اہل شریف یہاں آکے بس گئے ہیں اور آپ لوگوں نے بھی اچھی جگہ کا انتخاب
کیا ہے” میں نے نہایت شرافت سے کہا
"آپ بھی اسی محلے کے ہیں ؟'” اس نے پوچھا تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلایا ” ہاں بلکل”
"آپ ھمارے لئے دکان سے ماچس لے آئیں گے؟ ھمارے سامان میں ماچس نظر نہیں ارہی” اس نے کہا
"ابھی لے کر آتا ہوں” میں گلی سے باہر نکلا
میں بلاوجہ ھنس رہا تھا میں نے ماچس خریدی اور دوبارہ
گلی میں جانے لگا ۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا وہ میری ہی منتظر تھی ” یہ لیجئے ماچس ۔۔۔!” میں نے کہا
"اوہ بہت شکریہ ۔۔۔” اس نے ماچس کی ڈبیہ لے لی
"اچھا اب میں چلتی ہوں” اس نے مجھے دیکھا اور گھر
کے اندر جانے لگی۔۔
"سنیے ۔۔! ” میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی آواز دی
"جی کہیے۔۔” اس نے مڑ کر مجھے کہا
‘”آپ کا نام کیا ہے ؟” میں نے دل کا سوال پوجھ لیا
"لیلیٰ ۔۔۔۔ ! اس نے دلربا انداز سے کہا
"واہ ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔! بہت خوبصورت نام ہے” میں نے کہا
"اور آپ کا ؟” اس نے دونوں ہونٹ ایک ادا سے جوڑ دئے
"مجنوں ۔۔۔۔۔” میں نے بے ساختہ کہ دیا
"کیا؟” وہ حیرت سے پوچھ کر اسپرنگ کی طرح اچھلی
"جی میرا نام قیص ہے، اور قیص کا مطلب مجنوں ہے”
میں نے سنبھل کر کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے، اب ملاقات ہوتی رہے گی۔
اس نے کہا اور گھر کے اندر چلی گئی اور میں بے چین سا اپنے گھر کو چلا ایا۔
______ ________ _______ _______۔ _______ _____
پہلے جو میں کبھی بھی گلی میں بے وجہ پھرتا نہیں تھا۔
اب ہر دوسرے دن آوارہ سا پھرنے لگا۔
میں نے سوچا ہوسکتا ہے کہ لیلیٰ ابھی باہر نکل کر اجائے۔
میں نے اس دن کوئی تیس چالیس چکر لگائے ۔
مگر لیلیٰ اپنے گھر سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
شام تک میں بلاوجہ گلی میں
بے چینی سے پھر پھر کر تھک گیا رات کو بستر پر لیٹا
تو لیلیٰ ، لیلیٰ کی گردان کرتا رہا
پتہ نہیں لیلیٰ اس چھوٹی سی ملاقات کے بعد
نہ جانے کہاں چلی گئی تھی ۔
اب بستر پر لیٹا تھا تو جتنے بھی لیلیٰ کے نام والے گانے تھے
وہ سب سن لئے۔ پھر بھی کجھ سکون حاصل نہ ہو سکا۔
ابھی بھی موبائل پر لیلیٰ کا گانا شروع تھا
گانوں کی جان تب چھوٹی جب موبائل میں چارج ختم ہوگیا ۔
"لیلیٰ میں لیلیٰ ایسی ہوں لیلیٰ
ہر کوئی چاہے مجھ سے ملنا اکیلا”
اس گانے کے بول تو مجھے جیسےزبانی یاد ہوگئے تھے ۔
نیند آنکھوں سے کوسوں میل دور تھی۔
آنکھوں میں وہ معصوم سی صورت بس گئی تھی۔
آنکھیں بند کرتا تو اس کی من موہنی صورت اور اس کی آواز کانوں میں جلترنگ بجانے لگتے
"میرا نام لیلیٰ ہے ” اور جب
یہ سنتا ۔ آنکھیں کھول دیتا
مگر کجھ بھی نہ ہوتا تھا
میں اکیلا ہوتا تھا ۔
بستر میں دھنسا تھا ۔ لیلیٰ
کے خیالوں میں کب سویا پتا ہی نہ چلا
______ ________ ________
"ہائے لیلیٰ تیری لے لے گی
تو لکھ کر لے لے
اوئے لیلیٰ تیری لے لے گی
تو لکھ کر لے لے
جان تیرا لے لے گی
مال تیرا لے لے گی
ایمان تیرا لے لے گی
تو لکھ کر لے لے "
لیلیٰ کا ایک اور گانا زبانی یاد ہوچکا تھا ۔
صبح اٹھ کر میں "اوئے لیلیٰ تیرے لے لے گی "
کئی بار سن چکا تھا
آج سے پہلے تو مجھے ان گانوں کی شاعری بھی
سمجھ نہیں آتی تھی پر اب سمجھ آنے لگی تھی
اور مجھے ایسے لگ رہا تھا یہ گانے میرے لئے لکھے گئے ہوں
” تو میری لیلیٰ میں تیرا مجنوں
تو میری دنیا میں تیرا جنوں
میں تیرا چیلا تو میرا سکوں”
ہائے گانے تھے اور میں تھا ایک ملاقات نے میری دنیا ہی بدل ڈالی تھی خود سے دن بھر گانے کی مشق کرتا رہتا
میری آواز تو بے حد بری تھی۔ اماں نے جب میرے مونہ سے لیلیٰ کا گانا سنا۔ چپل اٹھا کر میرے مونہ ہر ماری
"٫ہائے اماں ۔۔۔۔! اب بندہ چین سے گا بھی نہیں سکتا "
ناں ۔۔۔۔! تو مجھے یہ بتا مینڈک جیسی بھدی آواز ہے تیری تو لیلیٰ والا گانا گاکر زرہ بھی اچھا نہیں لگتا "
"ہائے اماں ۔۔۔! اس کی آواز تو بھینس جیسی بھاری ہے۔
مینڈک تو پھر بھی اچھا گاتا ہے”
میری بہن ناظمہ نے دہائی دی
"حق با ۔۔۔۔! تم دونوں کو میری آواز ایسے ہی پسند نہیں ۔
انڈیا سے مجھے گانے کی آفر آئی تھی۔ ملکی حالات کی وجہ سے میں نے انکار کردیا” میں نے فرضی کالر چھاڑے
"چل جا ۔۔۔ خشکی مارا ( بے پرکی اڑائی ) ” میرے بھائی نے
چائے کا کپ لبوں پر رکھ کر کہا
میں نے بھی جھگڑے کو طول دینا مناسب نہ سمجھا۔
اور اپنا کالج کا بیگ اٹھاکر گھر سے نکل ایا۔۔۔
گلی میں داخل ہوتے ہی بلند آواز میں گانا شروع کردیا
میں قصداً ایسا کر رہا تھا میں نے بے ہنگم سی چیخ ماری
اور لیلیٰ کے گھر کے پاس رک گیا۔
لیلیٰ میری جان
لیلیٰ میری شان
تجھ پر کروں میں
اپنی زندگی قربان
میں گانا گاتا رہا۔ مگر نو رسپانس نے قدم آگے بڑھانے پر مجبور کردیے اب میں صبح صبح کالج جارہا تھا۔
کالج جانے کے بعد سارا دن دوستوں سے لیلیٰ کی باتیں کرتا
وہ بھی نئے نئے لیلیٰ نامی گانوں کے بارے میں بتاتے رہے
"قیص تیرا اور لیلیٰ کا نام بھی بہت پیارا ہے”
میرے دوست کامی نے کان میں کہا
"یار قیص تونے” لیلیٰ مجنوں ” مووی دیکھی ہے؟”
"نہیں آج سب سے پہلے جاکے یہی مووی دیکھوں گا”
میں نے اپنے دوست اسد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"یار قیص ھمیں بھی لیلیٰ کی کوئی تصویر دکھاؤ ناں ۔۔۔۔!
"کمینوں جب لیلیٰ تصویر دے گی تو دکھاؤں گا "
"ہائے تو اس سے صرف ایک بار ملا ہے اور اس کا دیوانہ ہوگیا ہے” سعد نے مجھے کہا
"سعد۔۔۔! اگر تو ایک بار اسے دیکھتا تو زندگی۔۔۔ جینے کا مطلب سمجھ میں آجاتا” میں نے زندگی لمبی کرکے کہا
"اچھا۔۔ پھر تو تیری لیلیٰ سے ملنا پڑے گا”
اسفر نے فوراً کہا
"کب مل رہے ہو اپنی لیلیٰ سے؟ اس بار اس سے کہہ دینا کہ
میرے دوست بھی تم سے ملنا چاہتے ہیں۔”
نوید نے بھی خاموشی توڑ دی
"ناں ۔۔۔۔ ! تم لوگ پاگل تو نہیں ہوگئے ہو
کہ میں تم لوگوں کو اپنی لیلیٰ سے ملواؤں گا۔
میں تم لوگوں کو اس کی صرف تصویر دکھاؤں گا”
"اچھا تو پھر تصویر ہی دکھادو”
اسفر نے مایوس ہوکے کہا
"ہاں۔۔۔! جب وہ مجھے تصویر دیگی تو ضرور دکھاؤں گا”
میں نے چھٹ ہامی بھرلی
"یار قیص آپنی لیلیٰ سے کہو ھمارے لئے بھی کوئی
گرل فرینڈ ڈھونڈ لے ۔ اکیلی زندگی بہت بور سی لگ رہی ہے۔
میرے دوست شاہ میر نے کہا
"ابے سالے تم نے میری لیلیٰ کو سمجھ کیا رکھا ہے؟
اپنے لئے گرل فرینڈ خود جاکے ڈھونڈو ” میں نے غصہ ہوکر کہا
"ادھر کیا ہورہا ہے ؟” اچانک سر معراج نے کرخت آواز میں کہا
"سر۔۔ میں ان لوگوں کو کل کے کام کے بارے میں بتارہا تھا”
میں نے سر معراج کی طرف دیکھا۔ جانے وہ کب آکر ھمارے پیچھے کھڑے ہوگئے تھے۔
"اچھا ۔۔۔۔! ویسے میں نے تو تم لوگوں کی گفت وشنید میں
صرف لیلیٰ نامہ ہی سنا ہے
شاہ میر تم بتاؤ یہ لیلیٰ کون سے بک کےکس پیج پر ہے ؟”
سر معراج بال کی کھال اتارنے کے ماہر تھے
"سر ۔۔۔۔ یہ لیلیٰ ۔۔ کون سی لیلیٰ؟'”
میں نے جلدی سے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا
"سر ۔۔۔! قیص فلمی لیلیٰ کی بات کر رہا تھا”
نوید نے جلدی سے کہا
"اوہ۔۔۔! تم لوگ گروپ بناکر فلم سٹار لیلیٰ کی باتیں کر رہے
تھے ” سر نے عینک درست کرتے ہوئے کہا
"نن ۔۔۔۔ نہیں سر ۔۔۔! کون سی فلمی لیلیٰ ؟ قیص تو اپنی
لیلیٰ کی باتیں کر رہا تھا جو اس کے محلے میں نئی آئی ہے”
شاہ میر نے بات بتادی اور میرا دل کر رہا تھا کہ
شاہ میر اور سر معراج کے سر آپس میں جوڑ دوں
"کیا ۔۔۔۔؟”سر معراج نے اس کیا کو اتنا لمبا کیا کہ میں اگر ناپوں تو ریل گاڑی بن جائے۔
"سر ۔۔۔۔ شاہ میر تو بکواس کر رہا ہے ۔۔ میں کسی لیلیٰ کو نہیں جانتا ” میں نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں چٹخائی
"اچھا۔۔۔! ویسے اگر جانتے بھی ہو تو سن لو
جتنا یہ لیلیٰ نام ڈینجرس ہے، اس سے زیادہ لیلیٰ خطرناک ہوتی ہے۔” سر معراج نے مجھے غصے سے دیکھا اور چلے گئے
میں نے شاہ میر کو غصے سے گھورا۔
"سوری یار مونہ سے نکل گیا”
شاہ میر نے مسکین سی صورت بنالی۔
"تو اس قابل ہی نہیں کہ تجھے کوئی راز کی بات بتائی جائے اب میں تجھے کبھی بھی لیلیٰ کی تصویر نہیں دکھاؤں گا ” میں نے اسے آنکھیں دکھائیں
"دیکھو قیص۔۔۔ ھم نے کجھ نہیں کیا ہے ، ھمیں تو دکھاؤ گے نا ؟” باقی دوستوں نے کہا
"ہاں ۔۔۔ ! باقی تم سب تو میری جان ہو” میں نے اسفر سے تاڑی ملاتے ہوئے کہا۔۔
_______ _________ _______
کالج سے واپسی پر ہزاروں بار لیلیٰ سے سامنا کرنے کی دعائیں مانگتا رہا۔ اس بار جیسے ہی میں آپنی گلی میں داخل ہوا وہ دشمن جان اپنے دروازے کے بلکل سامنے کھڑی تھی میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
اس بار تو وہ بھی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
میں بھی اسے دیکھتے مسکرانے لگا۔
"لیلیٰ ۔۔۔! تم کہاں گم ہوگئی تھی” میں نے اس کے قریب پہنچ کر شکوہ کیا۔
"یہیں تو تھی، مگر اپنے گھر کے اندر تھی
میرے والد غصے کے بہت تیز ہیں اس وجہ سے میں
آپ سے نہیں مل سکتی تھی۔”
اس نے ایک ادا سے کہا
"اچھا۔۔۔۔۔! مگر میں نے تمہارے علاؤہ کسی کو بھی اس محلے میں نہیں دیکھا۔ تم کتنے بہن بھائی ہو” میں وہی کھڑے ہوکر اس سے پوچھ گچھ کرنے لگا
"ھم دو بہنیں اور ایک بھائی ہے
میرا بھائی اس وقت کام پر جاتا ہے۔
والد بھی کام پر جاتے ہیں
کل وہ نہیں گئے تھے تو میں گھر پر تھی۔”
"اچھا ۔۔۔۔ ! تمہاری والدہ محترمہ گھر پر ہوتی ہیں ؟”
میں نے بات بڑھانے کے لئے پوچھا۔
"نن ۔۔۔۔ نہیں تو اس کا تو میرے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا” لیلیٰ نے دوپٹہ مونہ پر لپیٹ لیا
اب صرف اس کی خوبرو آنکھیں نظر آرہی تھیں۔
"تمہاری بہن کا کیا نام ہے؟ وہ تم سے بڑی ہیں یا چھوٹی
اور بھائی کیا کام کرتا ہے؟”
میں نے کئی سوالات ایک ساتھ کردیے۔
"میری بہن کا نام شیلا ہے اس کی شادی ہوچکی ہے
بھائی شہر میں کام کرتا ہے ویسے تم کیوں پوچھ رہے ہو؟”
لیلیٰ نے گردن گھمائی ہھرائی اس کی گردن راج ھنس کی طرح بہت پیاری لگ رہی تھی
"ہوں ۔۔۔۔! اس کا مطلب ہے تم گھر پر اکیلی ہوتی ہو”
میرے دل کی جیسے قلعی کھل گئی
"ہاں ۔۔۔۔۔ ! کیوں ؟” اس نے ناز سے بتایا
"میں تمہارے گھر چل سکتا ہوں؟” میں نے کان کھجاتے کہا
"ایسا سوچنا بھی مت” لیلیٰ نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا
” کیوں” میں نے ابرو اچکائے
"اس لئے کہ کہیں میرا باپ یا بھائی آگیا تو پھر جانتے ہو قیص کیا ہوگا” اس نے کہا
"کجھ نہیں ہوگا تم بس دروازاکھول دینا میں چھت پر چھپ جاوں گا” میں نے شرارت سے کہا
"نہیں قیص ایسا نہیں ہوسکتا” اس نے صاف انکار کر دیا
"لیلیٰ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں” میں نے اس کا ھاتھ پکڑلیا
اس نے مچھلی کی طرح تڑپ کر میرے ھاتھ سے اپنا ھاتھ چھڑالیا۔ اس کا ھاتھ بے حد سرد تھا۔
"ہاں ۔۔ میں بھی تم سے ملنا چاہتی ہوں لیکن ابھی نہیں
رات کو ” اس نے جلدی سے کہا
"لیلیٰ کیا تمہیں سردی لگ گئی ہے؟ تمھارا ھاتھ بے حد سرد ہے” میں نے حیرانی سے پوچھا
"اچھا ہوسکتا ہے کہ ایسا ہو,مگر کیا تمہیں پتہ ہے جن کے ھاتھ سرد ہوں، وہ وفا پرست ہوتے ہیں” لیلیٰ نے آخر میں اپنی بات کا مزہ لیا
"تمہارا موبائل نمبر کیا ہے؟”
میں نے اپنا موبائل جیب سے نکالتے ہوئے پوچھا
"میرے پاس کوئی موبائل نہیں”
لیلیٰ نے بیچینی سے کہا
"کیا؟ اس جدید دور میں تمہارے
پاس موبائل نہیں” میں نے حیرت سے اسے دیکھا
"ہاں ۔۔۔! میرے والد اس چیز کے خلاف ہیں” اس نے افسردہ ہوکر کہا
"تو ان کا تم سے رابطہ کس طرح رہتا ہے؟” میں نے موبائل
کا کیمرہ آن کر دیا۔
"وہ دن میں کئی بار چکر لگاتے ہیں” لیلیٰ نے غور سے میرے ہاتھوں کو دیکھنا شروع کیا
"پھر تو ٹھیک ہے۔ میں تمہاری ایک تصویر بنالوں” میں نے موبائل اس کے چہرے کے سامنے
کردیا۔ موبائل میں نے اس کی طرف رکھا تھا۔
موبائل کا کیمرہ آن تھا
مگر میں موبائل میں اس کو دیکھ نہیں پارہا تھا
"تم کیا کر رہے ہو؟” اس نے چہرا پلو میں چھپایا اور دونوں ھاتھوں سے موبائل کو ھٹانے لگ گئی۔
"لیلیٰ میں کسی کو نہیں دکھاؤں گا” میں نے کہا
"نہیں یہ چیز بند کردو” وہ جیسے غصے سے غرائی۔
"اللہ پاک کی قسم۔ میں کسی کو نہیں دکھاؤں گا”
میں نے گردن پکڑ کر قسم کھائی
لیکن جب میں نے کیمرے میں دیکھا تو
میں کھانپ کر رہ گیا کیونکہ
کیمرے میں اس کے ہاتھ بنا گوشت کے نظر آرہے تھے
میں نے کیمرا ہٹا کر اسے دیکھا تو
وہ میرے سامنے کھڑی تھی دوبارہ موبائل اسکرین سے
دیکھا تو وہ چہرا چھپا کر کھڑی تھی میں نے موبائل کا کیمرہ اس کے پیروں کی طرف کردیا
پیر بھی بنا گوشت کے صرف ہڈیاں نظر آرہیں تھیں
"کون ہو تم؟” میں نے تھر تھر کانپتے ہوئے کہا
اچانک اس نے اپنے چہرے سے پلو ہٹایا تو موبائل اسکرین
پر اس کا چہرا نظر آیا
وہ گوشت سے عاری ایک ڈھانچے کا چہرا تھا
میرے ھاتھ تھر تھر کانپ کر رہ گئے اور میں لرزنے لگا
اس کے بال گنگریالے تھے
مگر وہ بال نہیں سانپ تھے
اس کی آنکھیں نہیں دو گہرے گھڑے تھے جو آگ کی طرح روشن تھے
میرے سارے وجود میں سنسناہٹ دوڑ گئی
خوف کے مارے ایک قدم بھی
اٹھانا محال تھا پھر میں کیسے
گرتے پڑتے گھر پہنچا یہ الگ داستان ہے۔۔۔
____ ______ ______ ______
چار دن بعد مجھے ہوش آیا
میرے گھر والے بہت پریشان تھے اور بار بار پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا تھا مگر میں ٹال گیا
میں نے محلے والوں سے معلومات کی ۔ اس خالی گھر
میں پچھلے ہفتے کوئی شفٹ ہوا تھا، سب نے انکار کردیا
گھر والے یہیں سمجھ رہے تھے
کہ مجھے سن اسٹروک ہوگیا تھا
میں شرم سے کئی دن تک کالج بھی نہیں گیا اور سوچتا رہا
کہ آخر یہ لیلیٰ کیا چیز تھی
ایک رات میں سورہا تھا تو لیلیٰ میرے خواب میں آئی
"قیص۔۔۔۔۔ ! تم قسمت والے ہو جو میرے شکنجے میں آنے سے پہلے ہی نکل گئے ہر سال میں کسی نہ کسی کو اپنا شکار بناتی ہوں اس سال تم میرے نئے شکار تھے
مگر تم نے میرا چہرا دیکھ لیا اور یوں میں ناکام ہوگئی
اب میں اگلے سال پھر آؤں گی کسی نئے شکار کی تلاش میں اور میں ھمیشہ شکار کو اس کی بے خبری میں
ہی شکار کرتی ہوں پر تم میری اصلیت جان گئے اس لئے
تجھے چھوڑ دیا ۔
میں نے چیخ مار کر آنکھ کھول دی مگر کجھ نہیں تھا
میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور پہلی بار تہجد کی نماز پڑھی
اس کے بعد میں نے کبھی خواب نہیں دیکھا اور نہ کبھی لیلیٰ نظر ائی میں نے آئندہ لڑکیوں سے دوستی کرنے سے توبہ کی
آپ بھی اپنا خیال رکھیں کہیں آپ کی بھی نہ لیلی سے ملاقات ہوجائے ۔۔ ختم شد