ایک گاؤں کی خوفناک آب بیتی آپ سے بیان کررہا ہوں رات کو وقت تھا گھپ اندھیری رات تھی جنگلی گیڈروں کی آوازیں ہر طرف گونج رہی تھی جمگاڈر چیخ رہے تھے ایک گھر میں 9 یا 10 سال کی بچی پانی پینے کی غرض سے اٹھی جیسے ہی گلاس کو ہاتھ لگایا اچانک ایسے آواز آئی جیسے کوئی دیوار پھلانگ کے اندر آیا ہو بچی نے مڑ کر جیسے ہی دیکھا چیخنے چلانے لگی گھر کے باقی افراد بھی جمع ہوگے لڑکی نے سامنے کی طرف اشارہ کیا گھر والوں نے دیکھا چار درندے سفید کفن پہنے آنکھوں کے گردسیاہ حلقوں سے بھرے ہوئے دانتوں میں خون ہے لمبے قد سینا موٹا موٹی آنکھیں ماتھے سے باہر آئی ہوئی تھی لمبے ہاتھ لمبے لمبے دانت گندے کفن آیسے لگ رہے تھے جیسے ابھی قبر سے اٹھ کے آئے ہوں گھر والوں نے شور مچانا شروع کردیا درندے بھاگے کبھی کسی کے گھر کبھی کسی کے گھر اسطرح پورے گاؤں میں شور مچ گیا لوگ گھروں سے باہر نکل آئے کتے ہر طرف بھوکنے لگے ماؤں نے اپنے بچوں کو اپنے دوپٹوں میں چھپا لیے گاؤں کے ایک بزرگ جن کا نام شمس دین تھا گاؤں والوں سے مخاطب ہوکر کہا نوجوان ہتھیار اٹھا لو درندوں کو گروپ کی شکل میں تلاش کرو جوانوں کو جو ملا اٹھا لیا کیونکہ ایسی خوفناک صورتحال کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا خیر نوجوانوں نے گاؤں کا چکر لگایا کچھ نہیں ملا سب آپنے گھروں میں چلے گئے صبح تک گاؤں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا انسانی نقصان کوئی نہیں ہوا لیکن ایک گھر کے 2 بھیڑیں غائب تھی گاؤں کے بزرگوں نے درندوں کے پاؤں کے نشانوں سے سوراخ لگانا شروع کیا کے نشان کہاں تک جاتے ہیں پاؤں کے نشانات قبرستان تک جا پہنچے جب قبرستان دیکھا گیا جو بھیڑیں غائب ہوئی ان کا سر اور ہڈیاں پڑی تھی گاؤں میں مزید خوف پھیل گیا گاؤں میں ہر طرف خوف ویرانی پھیل چکی تھی ہر جگہ ہر کھیت دوپہر سے پہلے خالی ہو جاتے گاوں کے سمجھدار بزرگ شمس دین نے گاؤں والوں سے کہا ہمیں پولیس کو اطلاع دینی چاہئے لہذا چند افراد پولیس کے پاس گئے آفیسر نے کہا آپ رات کو گاؤں کے نوجوان کو ہوشیار رکھیں کوشش کریں انھیں پکڑ لیں ہم صبح آئے گے اسطرح اگلی رات سب ہوشیار تھے جب اندھیرا شدت اختیار کر گیا اور سردی میں جوانوں کو آگ کی گرمائش میں سونے لگے اچانک ایک کتے کی خوفناک آواز نکلنے لگی جیسے کوئی اسے جان سے مار رہا ہوں نوجوان اچانک اٹھے کانپنے لگے ساتھ گیڈروں نے شور مچانا شروع کردیا اچانک ایک درندہ آیا اور نوجوان پر جھپٹا اسے خنجر مار کر زخمی کردیا باقی جوان ادھر آدھر بھاگنے لگے گاؤں والے گھروں سے نکلے بھاگنا شروع کردیا بچے چیخنے لگے کچھ ہر دیر میں گاؤں ویران ہوگیا صبح کا سورج طلوع ہوا سب آہستہ آہستہ کھیتوں سے لوگ باہر جمع ہوئے خیر گاؤں کے باقی لوگ اپنے گھر گئے تو معلوم ہوا مویشی غائب تھے کچھ کی گردنیں پڑی تھی گھروں میں کہی خون تھا کچھ پالتو کتے مرے ہوئے تھے دو نوجوان زخمی تھے ایک کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی اسے ہسپتال کے گئے تھے صورتحال کنٹرول سے باہر ہوگئی بزرگ شمس دین نے سب کو اکھٹا کیا پولیس اسٹیشن گئے پولیس بھی ان کے ساتھ گاؤں آگئی پولیس نے کہا کے رات کو ہم آپ کے گاؤں میں رہے گے شمس دین نے کہا کے بہتر ہے آپ انھیں کسی جال میں پھنسائیں پولیس والوں نے جال بچھایا رات ہوگئی درندے گاؤں میں داخل ہوئے دیکھا کے دو بکریاں گھوم رہی ہیں ایک نوجوان ان کو ہانک رہا ہے پہرے دار کوئی نہیں ہے درندوں اچانک حملہ اور ہوئے پولیس ہر طرف چھپی ہوئی ایک سپاہی باہر آیا چانک ایک درندے نے خنجر مارا سپاہی زخمی ہوگیا دوسرے درندے نے کو اٹھا جیسے ہی بھاگنے لگے پولیس نے گھیر لیا درندوں کوشش کے بعد گرفتار کر لیا گیا گاؤں والوں نے پہلے اللہ کا پھر پولیس کا شکریہ ادا کیا پولیس نے جب پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا وہ آدم خور تھے آفیسر نے پوچھا اپنے بارے میں بتاو سب کچھ آدم خوروں نے بتایا ہم کافی دور سے آئے ہیں ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا تو ہم کتوں کو مار کو ان کا گوشت کھاتے تھے ان کا خون پیتے تھے ان کی انتڑیاں چھبا جاتے تھے ہمیں عادت ہوگئی ہے جب وہاں کے لوگوں کو خبر ہوئی انہوں نے ہمیں قتل کرنا چاہا پھر ہم یہاں اس گاؤں میں آئے اور مویشی چوری کرنا شروع کیا اگر ہمیں ایک دن خون والا گوشت نہ ملے تو ہم پاگل کتے کی طرح ہوجاتے ہیں اور خود کو کاٹنے لگتے ہیں ہمارا دماغ پھٹنے لگتا ہے
یہ کہانی میں نے خود سے لکھی ہے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ حقیقت نہیں ہے آخر میں اس لیے لکھا ہے کیونکہ ہم لوگ پاکستانی نفسیاتی مریض ہیں میری سٹوری کی وجہ سے مرد و خواتین جنات وغیرہ سے ڈرنے لگتے جعلی پیروں کے چکروں میں پڑ جاتے اور سب اہم بات یہ کہ جس کا مجھے ڈر تھا لوگ قبرستانوں میں جانا چھوڑ دیتے اسلیے
مصنف زین العابدین