آفس سے چھٹی کے بعد ساحل گھر کی طرف جا رہا تھا یہ رات کا وقت تھا ۔۔۔۔۔۔چاروں طرف اندھیرا تھا اور اس رات عجیب بات یہ ہوئی تھی کہ اچانک بہت تیز بارش شروع ہو گئی ۔۔۔۔ اور ساحل کو گھر جانے کے لئے کوئی ٹیکسی یا رکشہ نہ ملا ۔۔۔۔ پھر اس نے سڑک پر وقت ضائع کرنے کی بجائے گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔ اب چونکہ بارش بھی تھوڑی کم ہو چکی تھی اس لئے وہ پیدل ہی گھر کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔۔۔ اس نے گھر جانے کے لئے شارٹ کٹ کچے راستے کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔۔۔ جو کہ اکثر سنسان اور ویران رہتا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس کچے راستے میں تو عام حالات میں بھی زیادہ آمدرفت نہیں ہوتی تھی اور وہ تو تھا بھی رات کا وقت اور بارش بھی ہو رہی تھی اس لئے وہ راستہ بالکل خالی تھا ۔۔۔۔۔۔ ساحل تیزی سے قدم اٹھاتا گھر کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔
تیز تیز ہوائیں چل رہی تھیں بارش کا رفتار آہستہ آہستہ بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔ ساحل بارش سے بچنے کے لئے راستے پر موجود ایک درخت کے نیچے آ کر کھڑا ہو گیا ۔۔ لیکن بارش نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا پھر اچانک آسمان سے برف باری شروع ہو گئی ۔۔۔ اب سچ میں ساحل کو گھبراہٹ ہونے لگی ۔۔۔ بارش تو وہ جیسے کیسے برداشت کر ہی لیتا لیکن برف باری سے کیسے خود کو بچاتا ۔۔۔۔۔۔
ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اچانک ساحل کی نظر سامنے ایک پرانےچھوٹے گھر پر پڑی ۔۔۔۔وہ گھر پرانا کھنڈر اور خالی نظر آ رہا تھا ۔۔ ساحل بنا کوئی وقت ضائع کیے اس گھر کی طرف چل پڑا اور بھاگتے ہوئے تیزی اس چھوٹے گھر کے اندر داخل ہو گیا ۔۔۔جو ہر طرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا ۔۔۔۔
ساحل کے گھر کے اندر داخل ہوتے ہے پیچھے سے دروازہ بند ہو گیا ۔۔۔ ساحل نے سوچا شاید تیز ہوا سے بند ہوا ہوگا ۔۔۔ پھر ساحل ایک پرانے کمرے میں آیا ۔۔۔ اس کمرے میں ایک پرانا بیڈ تھا اور کچھ ٹوٹی پھوٹی کرسیاں ۔۔۔۔۔ ساحل نے کمرے میں پہنچ کر سکون کا سانس لیا اب کم از کم یہاں بارش اور برف باری سے تو وہ بچ سکتا تھا ۔۔
ساحل کو اس کمرے میں ایک عجیب خوشبو کا احساس ہوا ۔۔ بارش کی رفتار بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔۔ ساحل وہیں کمرے میں بیٹھا بارش ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔ ساحل کو اس کمرے میں بیٹھے ہوئے دس منٹ کے قریب ہو گئے کہ اچانک ساحل کو ایک لڑکی کے ہنسنے کی آواز آئی ۔۔۔۔
ساحل کافی حیران ہوا اور اس نے کھڑے ہو کر باہر دیکھا ۔۔۔۔ لیکن باہر کوئی نہیں تھا ہر طرف بارش اور پانی تھا ۔۔۔۔ ساحل ایک بار پھر آ کر کمرے میں بیٹھ گیا ۔۔اسے اپنا وہم لگا ۔۔ دو منٹ بعد ساحل کو ایک لڑکی کے رونے کی آواز آئی جیسے کوئی آہستہ آہستہ سسک رہا ہو ۔۔۔۔ ساحل اٹھ کر ایک بار پھر باہر دیکھنے لگا ۔۔۔ لیکن باہر کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔۔
ساحل ایک بار پھر آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔ اسے وہ گھر کافی عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔ اس نے سوچا جیسے ہی برف باری ختم ہوگی وہ فورا یہاں سے نکل جائے گا پتا نہیں وہ آوازیں کس کی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
ل0۔۔۔ پھر اچانک آسمانی بجلی چمکی ۔۔۔ باہر گھر کے آنگن میں روشنی ہوئی ۔۔۔ اور اس روشنی میں ساحل نے دیکھا گھر کے بالکل آنگن میں ایک درخت کے نیچے بہت بڑی قبر تھی ۔۔۔۔ جو کہ بہت پرانی معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔
ساحل نے حیران ہو کر اس قبر کو دیکھا ۔۔۔۔وہ قبر گھر کے آنگن میں کیوں تھی ۔۔۔۔اور وہ کس کی قبر ہو سکتی تھی ۔۔۔۔ ایک بے اختیار سی کیفیت میں ساحل کھڑا ہوا اور گھر کے آنگن میں موجود اس قبر کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔۔
قبر کے پاس پہنچ کر ساحل اس قبر کو غور سے دیکھنے لگا ۔۔۔ اس قبر پر ایک تختی لگی تھی ۔۔۔وہ کسی لڑکی کی قبر تھی جس کا نام ‘ نشودرا ‘ تھا ۔۔۔ اور وہ کوئی سو سال پہلے مر گئی تھی ۔۔۔ لیکن اتنی پرانی قبر اس گھر کے آنگن میں کیسے ۔۔۔۔۔۔ اس قبر کے بالکل پاس ایک چراغ رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔
اور ماچس بھی ۔۔۔۔ ساحل نے سوچا کمرے میں اندھیرے پہ بیٹھنے سے بہتر ہے یہی چراغ کمرے میں لے جا کر روشنی کرے ۔۔۔۔ یہی سوچ کر ساحل نے وہ چراغ قبر کے پاس سے اٹھائی اور اندر کمرےمیں لے آیا ۔۔۔۔۔۔۔
ساحل وہ چراغ جلانے ہی والا تھا ۔۔۔کہ اچانک ساحل کو ایک لڑکی کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔
‘ تم آ گئے میں بیس سال سے تمہارا انتظار کر رہی تھی ‘ ساحل نے گھبرا کر آواز کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ لیکن کمرے میں کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔
اب ساحل کو گھبراہٹ ہونے لگی ۔۔۔ اس نے ماتھے سے پسینہ صاف کیا ۔۔۔ اور ڈرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔۔۔ بارش رک چکی تھی ۔۔۔ ساحل نے سوچا اب گھر واپس چلتا ہوں ۔۔۔ یہی سوچ کر وہ کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔۔
اچانک ساحل کو کسی لڑکی کے رونے کی آواز آئی ۔۔۔ ساحل نے سامنے دیکھا
تو جیسے پتھر ہو گیا ۔۔۔ سامنے قبر کے پاس ایک خوبصورت دلہن ہاتھوں میں موم بتی لئے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔ ساحل حیران ہو کر رک گیا ۔۔ ۔۔۔ وہ دلہن اس قبر کے پاس کب آئی تھی یا پھر وہ پہلے ہی قبر کے پاس موجود تھی ۔۔۔ لیکن اگر وہ پہلے قبر کے پاس موجود تھی تو اس نے اسے دیکھا کیوں نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ دلہن مسکراتے ہوئے ساحل کو دیکھ رہی تھی ۔ ۔۔پھر ساحل سے بولی ۔۔۔⁰
‘ مجھے یقین تھا تم ایک دن واپس آو گے ۔۔۔۔ ‘
ساحل نے گھبراتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔
‘ ۔۔کو ۔۔ کون ہو تم ۔۔۔۔ اور یہاں کیا کر رہی ہو ‘ ساحل کی بات سن کر اس لڑکی نے زور دار قہقہ لگایا ۔ اور بولی
‘ میرے گھر میں کھڑے ہو کر مجھ سے پوچھتے ہو کہ کون ہوں میں ۔۔۔ ‘ ساحل نے کچھ شرمندگی سے اس لڑکی کو دیکھا اور بولا ۔۔۔۔
‘ سوری ۔۔۔مجھے پتا نہیں تھا یہ آپ کا گھر ہے ۔۔۔ ‘ پھر ساحل نے اچانک پوچھا ۔۔۔
‘ یہ قبر کس کی ہے ‘
اس دلہن نے زور دار قہقہ لگایا اور بولی ۔۔۔۔
‘ میں نشودرا ہوں ۔۔۔ یہ قبر میری تھی ۔۔۔ میں سو پہلے مر گئی پھر ایک چڑیل نے کہا ۔۔۔۔ سو سال بعد ایک آدمی آئے گا اور وہ اس قبر کے چراغ کو جلائے گا اور تم اس سے شادی کر لینا پھر تم دوبارہ زندہ ہو جاو گی ۔۔۔۔ ‘
ساحل نے خوفناک انداز میں اس لڑکی کو دیکھا اور گھبراتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
مہ ۔۔۔مہ مجھے اب چلنا چاہیے ‘ یہ کہہ کر ساحل باہر کی طرف بڑھا جب اس لڑکی نے کہا ۔۔۔۔
‘ سو سال بعد اس گھر میں کوئی آیا ہے ۔۔۔ اب تم یہاں سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے ۔۔۔۔ ‘ آہستہ آہستہ اس خوبصورت دلہن کی شکل تبدیل ہونے لگی اس کے بڑے بڑے دانت نکل آئے ۔۔۔۔ساحل بھاگتے ہوئے گھر کا دروازہ کھولنے لگا لیکن گھر کا دروازہ کھل ہی نہیں رہا تھا وہ لڑکی باہر کھڑی ہنستی ہوئی ساحل کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ ساحل نے دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن دیوار پر ہاتھ رکھتے ہی اسے کرنٹ لگا ۔۔
وہ لڑکی بولی ۔۔۔۔
‘ یہ چڑیلیوں کا گھر ہے اب تم یہاں سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے ۔۔۔۔ ‘ ساحل نے جیسے اس کی بات نہیں سنی اور وہ ادھر ادھر بھاگتا رہا تا کہ اس گھر سے باہر نکل سکے لیکن اس گھر سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔ پھر ساحل ایک دوسرے کمرے میں گھس گیا اور دروازہ اندر سے بند کر دیا ۔۔۔۔
لیکن اس کمرے میں ایک بہت بڑی بلی تھی جو بیڈ پر سو رہی تھی وہ بلی ساحل کو کمرے میں دیکھتے ہی ساحل پر حملہ کرنے لگی ۔۔۔۔ ساحل جلدی سے دروازہ کھول کر باہر نکلا ۔۔۔۔ سامنے وہی دلہن کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
اس دلہن نے ساحل سے کہا ۔۔۔۔
‘ مجھ سے شادی کر لو نہیں تو مر جاو گے ۔۔۔۔ ‘ ساحل نے کہا ۔۔۔
‘ تم ایک چڑیل ہو اور میں انسان ہماری شادی کبھی نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔۔ ‘ وہ چڑیل آگے بڑھی اور بولی ۔۔۔۔
اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کی تو مر جاو گے ‘ یہ کہہ کر وہ دلہن جو اب چڑیل بن چکی تھی آگے بڑھی ۔۔۔ اور ساحل پر حملہ کرنے کی کوشش کرنے لگی لیکن ساحل وہاں سے بھاگا اور وہ چڑیل اس کے پیچھے بھاگنے لگی ۔۔۔۔
چڑیل کہہ رہی تھی
‘ مجھ سے شادی کر لو میں نے تمہارا اتنا انتظار کیا آج تمہیں جانے نہیں دوں گی ۔۔۔۔ ‘ ساحل بھاگتا رہا ۔۔۔۔ بھاگتے بھاگتے وہ ایک غار نما کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ لیکن وہ کمرہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا وہ بھاگتا جا رہا تھا لیکن اس کمرے کا کوئی دروازہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر وہ ایک خوفناک تہہ خانے میں پہنچ گیا جہاں ہر طرف خون کی بدبو تھی ۔۔۔۔ اور خوفناک کھوپڑیاں پڑی ہوئی تھیں ۔۔۔ وہ دلہن ساحل کے پیچھے پیچھے کمرے میں آئی اور بولی ۔۔۔۔
‘ جب تک تم مجھ سے شادی کے لئے راضی نہیں ہوتے تم اسی تہہ خانے میں بند رہو گے ۔۔۔۔ ‘ یہ کہہ کر وہ دلہن وہاں سے چلی گئی ۔۔۔ تہہ خانے کا دروازہ خود بخود بند ہو گیا ۔۔۔۔۔ ساحل کا تہہ خانے میں دم گھٹنے لگا اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کرے اور کیسے نکلے اس تہہ خانے سے باہر ۔۔۔۔ ساری رات وہ یہی سوچتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور وہ تہہ خانے میں بند رہا ۔۔۔۔ صبح وہ چڑیل دلہن نشودرا ساحل کے پاس آئی ۔۔۔ اس دلہن کے ہاتھ میں کچھ پرانے زیور تھے اور اس نے ساحل سے پوچھا ۔۔۔۔
کیا تم مجھ سے شادی کرنے کے لئے راضی ہو ‘
ساحل نے کہا
ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم ایک روح ہو اور میں انسان ہم دونوں کی شادی کبھی نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔ تم پلیز مجھے جانے دو ‘
نشودرا نے غصے سے وہ زیور پھینک دئے اور بولی
‘ جب تک تم سے شادی کر کے تمہارا خون نہیں پیوں گی میں اس قبر سے آزاد نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔ جب تک تم مجھ سے شادی کرنے کے لئے راضی نہیں ہو گے اسی تہہ خانے میں بھوکے پیاسے سڑتے رہو ۔۔۔۔۔ ‘
یہ حکم دے کر نشودرا تہہ خانے سے باہر نکل گئی ۔۔ دروازہ خود بخود بند ہونے لگا ۔۔۔ ساحل کے لئے اس مصیبت سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔۔۔ دونوں طرف کھڑی موت تھی ۔۔۔ وہ بھوکا پیاسا دو دن سے اس تہہ خانے میں بند تھا اور اب موت اسے اپنے سامنے دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔ سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگی اور اسے نیند آ گئی ۔۔۔۔ ساحل نے خواب میں ایک عامل کو دیکھا اور اس عامل نے ساحل سے کہا ۔۔۔۔
‘ بیٹا تم اگر اس قبر والی دلہن سے چھٹکارا پانا چاہتے ہو تو تمہارے گلے میں جو تعویز ہے اسے اس قبر میں ڈال دو ۔۔۔۔ ‘
ساحل نیند سے جاگ گیا ۔۔۔
اور اس کے ماتھے پر پسینہ تھا ۔۔۔ اس نے اپنے گلے میں تعویز کو دیکھا اور فیصلہ کیا کہ اس تعویز کو اس قبر میں ڈال دے گا ۔۔۔۔۔ رات کو جب نشودرا دلہن اس کے پاس آئی اور اس نے ساحل سے اس کا فیصلہ پوچھا تو ساحل نے کہا ۔۔۔۔
‘ میں تم سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے شادی ہم اس قبر کے پاس کریں گے ۔۔۔۔ ‘
نشودرا خوشی خوشی راضی ہوئی اور ساحل کو باہر لے گئی ۔۔۔۔ پھر نشودرا تیار ہوئی اس نے زویور پہنے اور اس قبر کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ ساحل نے چپکے سے وہ تعویز گلے سے اتار کر قبر میں دفن کر دیا ۔۔۔۔۔ تعویذ دفن کرنے کے ایک منٹ بعد ہی ہر طرف دھماکے ہونے لگے ۔۔۔۔ ہر طرف دھواں اٹھنے لگا ۔۔۔ ساحل نے جب اپنے چاروں طرف دیکھا تو حیران رہ گیا ۔۔۔ وہ کسی قبر کے پاس نہیں ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا اور وہ خالی گھر بھی غائب ہو چکا تھا ۔۔۔۔ ساحل نے خدا کا شکر ادا کیا اور گھر کی طرف روانہ ہوا ۔