رائیٹر دیمی ولف ( Dimy Wolf ) + سحر دیمی
دوستو کچھ ہی سال پہلے کی بات صدر بازار میں ایک آصف نامی درزی (ٹیلر ) کی دوکان ہوا کرتی تھی جو کہ بہت ہی کمال کا درزی تھا جو کہ لیڈز سوٹ کی سلائی میں بہت مہارت رکھتا تھا اسی وجہ سے اس کے پاس بہت دور دور سے عورتیں اپنے سوٹ کی سلائی کروانے آیا کرتی تھیں یوں تو آصف بہت ہی کمال کا درزی تھا پر وہ بہت ہی زیادہ کنجوس قسم کا بھی آدمی بھی تھا اور اسی وجہ سے آصف کے گھر والے اس سے زیادہ خوش نہیں تھے کیونکہ وہ اکثر ہر کام میں کنجوسی ہی کرتا رہتا تھا جیسے گھر میں کسی جگہ پر دو بلب لگنے ہیں تو وہاں ایک بلب لگا دیتا جہاں تین کمروں میں تین پنکھوں کی ضرورت ہوتی وہاں دو لگا دیتا اور تیسرے کمرے میں کھڑکیاں کھول دیتا اور بولتا اس کمرے میں پنکھے کی ضرورت نہیں ہے ادھر تو کھڑکیوں سے بھی ہوا آجائے گی اور اسی طرح گھر کے ہر کام میں کنجوسی کرتا اس کے اعلاوہ آصف کرایا کے مکان میں رہا کرتا تھا جبکہ اس کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ اپنا گھر لے سکتا تھا اور بہت بار لوگوں نے کہا بھی کہ بھائی اپنا گھر لے لو پر آصف کسی کی سنتا ہی نہیں تھا ۔ اس کے گھر میں آصف کی والدہ جو کہ اکثر ہی بیمار رہتی تھیں اور دو چھوٹے بھائی توصیف اور کاشف جو کہ تقریباً 22 سے 25 سال کے ہونگے اور کسی دکان وغیرہ پر پر کام کرتے تھے اور اپنی ساری تنخواہ آصف کو لا کر دیتے تھے جو کہ آصف ان سے یہ کہہ کر لے لیتا تھا کہ ہم سب اپنا گھر لیں گے اور اسی کے لیئے پیسے جمع کر رہا ہوں آصف کی بیوی رخسانہ اور آصف کے دو بیٹے تھے بڑا بیٹا عظیم جو کہ پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا اور وسیم جو کہ تیسری کلاس میں پڑھتا تھا اور آصف کے والد تو بہت سال پہلے فوت ہو چکے تھے تو ایک دن ایک عورت آصف سے کپڑے سلوانے کے لیئے آئی اور ساتھ میں اس عورت کا شوہر بھی تھا آصف عورت سے کپڑوں کے بارے بات کر رہا تھا کہ اتنے میں عورت کے شوہر کو کسی کی کال آئی اور وہ اس کال کا جواب دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ہاں ملک صاحب بہت سے مکان ہیں آپ جب چاہیں گے جیسا چاہیں گے مل جائے گا اور آپ جب چاہیں گے میں آپ کو دکھا بھی دوں گا ملک صاحب۔ تبھی آصف نے عورت سے بات چیت بند کی اور اس عورت کے شوہر کی طرف دیکھنے لگا اور جیسے ہی اس آدمی نے فون بند کیا تو آصف نے اس سے پوچھا بھائی جان آپ کیا کام کرتے ہیں ؟؟ اس عورت کے شوہر نے کہا جی میں پراپرٹی ڈیلر ہوں اور مکان کی خرید وفروخت کرتا ہوں آصف نے اپنے ہاتھ میں پکڑ ہوا اس عورت کا سوٹ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا ارے بھائی کیا آپ مجھے کوئی سستا سا گھر دلوا سکتے ہیں ؟؟ جو کہ کافی بڑا بھی ہو اور اس میں تین چار پورشن ہوں اور تین چار فیملیاں آرام سے رہ سکیں لیکن اس کے پیسے بھی کم ہوں ؟؟ اس پراپرٹی ڈیلر نے کہا کتنے تک کا گھر چاہیئے آپ کو ؟؟ آصف نے کہا بھائی جان دراصل بات یہ ہے کہ میرے دو بھائی ہیں اور انھوں نے مجھے گھر لینے کے لیئے تیس لاکھ روپے دیئے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ میں بھی اپنے حصے کے پیسے ڈال کر پینتالیس یا پچاس لاکھ کا کوئی گھر لے لیں جس میں ہم سب آرام سے رہ سکیں تو میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسا گھر لے دیں جو کہ تیس یاں پینتیس لاکھ میں مل جائے اور اس میں میرے پیسے کم سے کم لگیں ؟؟ ڈیلر نے کہا ارے آصف بھائی یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں بھلا آپ کو ایسا گھر کہاں ملے گا جو کہ بڑا بھی ہو اور تین چار پورشن والا بھی ہو اور سستا بھی ہو ایسا گھر تو اگر جنگل میں بھی ہو تو بھی آج کل کے دور کے حساب سے پینتیس چالیس لاکھ کا ملے گا اور آپ تو شہر میں ایسا گھر لینے کی بات کر رہے ہیں وہ بھی تیس پینتیس لاکھ میں ؟؟۔ آصف نے کہا ارے آپ تو پراپرٹی ڈیلر ہیں آپ کو تو پتہ ہی ہو گا کہ آج کل سستے گھر کہاں کہاں مل سکتے ہیں ۔ پراپرٹی ڈیلر نے کہا ہاں گھر تو بہت ہیں پر جیسا آپ چاہتے ہیں اور جتنے پیسوں میں چاہتے ہیں اتنے میں نہیں ہے کوئی اتنے میں پراپرٹی ڈیلر کی بیوی جو اپنا سوٹ سلوانے آئی تھی وہ اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی آپ ان کو شائستہ وغیرہ کا گھر دیکھا دیں وہ بھی تو بیچ رہے ہیں اور وہ بلکل ویسا ہی ہے جیسا آصف بھائی چاہ رہے ہیں ؟؟ ڈیلر نے کہا ارے نہیں نہیں وہ گھر بہت ہی خوفناک اور خطرناک ہے اسی لیئے تو آج تک وہ بک ہی نہیں رہا جو بھی لیتا ہے وہ فوراً اونے پونے بیچ کر بھاگ جاتا ہے جبکہ شائستہ کے ابو نے اس کو دوبارہ سے بہت اچھے سے تعمیر کروایا تھا اور بہت ہی خوبصورت بنا دیا تھا لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں اس گھر میں کوئی ٹکتا ہی نہیں ہے۔ تحریر دیمی ولف۔ آصف نے حیرت سے ڈیلر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھائی آپ یہ کس گھر کی بات کر رہے ہیں ؟؟ ڈیلر نے کہا یار ایک گھر ہے جو کہ چونیاں کے راستے میں ایک گاؤں جیسے علاقے میں آتا ہے جب کہ وہاں بہت آبادی بھی ہے لیکن وہ گھر سب سے الگ تھلگ ہے اور اس گھر میرے ایک کے بارے میں مجھے ایک ڈیلر نے بتایا تھا کہ بہت سستا فروخت ہو رہا ہے اس وجہ سے میں نے وہ گھر اپنے ایک رشتے دار سکندر صاحب یعنی (شائستہ کے ابو) کو دلوایا تھا لیکن ہمیں اس وقت یہ پتا نہیں تھا کہ وہ گھر اتنا سستا کیوں ہے جبکہ وہاں کی جگہ کے حساب سے صرف خالی پلاٹ کی قیمت میں ہمیں اچھا خوبصورت بنا ہوا گھر مل گیا تھا اور وہ بھی مکمل رجسٹری کے ساتھ۔ اس وجہ سے سکندر صاحب نے بنا سوچے سمجھے اس کے اوپر بھی دو پورشن نئے تعمیر کروا لیئے تھے اور کافی پیسہ بھی لگا لیا تھا اس پر لیکن اسی دوران دو مزدور بھی اپنی جان گنوا بیٹھے تھے اس سب ہی کہہ رہے تھے ان مزدوروں کو شیطانی چیزوں نے مارا ہے جو کہ اس گھر میں رہتی ہیں اور وہ کسی کو اس گھر میں زیادہ دیر تک نہیں برداشت کرتیں اور انہی شیطانی چیزوں نے دونوں مزدوروں کو چھت سے دھکا دے کر چوتھی منزل سے نیچے پھینک دیا تھا جس سے وہ اسی وقت جاں بحق ہو گئے جبکہ انہی مزدوروں کے ساتھی بھی یہ بات کر رہے تھے کہ کوئی ڈراؤنی سی چیز نے دونوں مزدوروں کی پہلے گردنیں مڑوڑی اور پھر اٹھا کر نیچے پھینک دیا تھا اسی وجہ سے باقی مزدور وہاں سے کام چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور دوبارہ کسی بھی مزدور کی ہمت نہیں ہوئی اس جگہ کام کرنے کی اور پتا ہے جب ان دونوں مزدوروں کو ہسپتال لے کر گئے تھے تو ڈاکٹروں نے بھی یہی کہا تھا کہ ان کی موت گرنے سے پہلے ہی ہو چکی تھی کیونکہ ان کی گردنیں ایسے ٹوٹی ہوئیں تھیں جیسے کسی نے موڑ کر منہ کو کمر کی طرف لگا دیا ہو ۔ اور ڈاکٹروں کی یہ بات سن کر سب لوگوں میں دہشت پھیل گئی تھی اس گھر کو لے کر ۔ اسی وجہ سے آج تک چوتھی منزل کا کام ویسے ہی ادھورا پڑا ہوا ہے۔ تحریر دیمی ولف ۔ آصف نے کہا پر بھائی وہ گھر ہے کتنے مرلے کا ڈیلر نے کہا دس مرلے کا ہے اور بہت ہی خوبصورت گھر بنا ہوا ہے لیکن کسی کے رہنے کے قابل نہیں ہے ۔ آصف نے جلد بازی میں کہا ارے بھائی آپ وہ گھر مجھے دلا دیں کتنے کا مل جائے گا مجھے ؟؟ ڈیلر نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے آصف بھائی آپ کیوں اپنی جان کے دشمن بن گئے ہو وہاں رہنے کا مطلب ہے کہ موت کے سائے میں جینا ۔ آصف نے کہا بھائی یہ بھی تو ہو سکتا ہے لوگ فضول ہی باتیں کرتے ہوں اور ان مزدوروں کو انہی کے ساتھیوں نے دھکا دے کر مار دیا ہو یاں ان کی کوئی آپس کی لڑائی ہو ؟ ڈیلر نے مسکراتے ہوئے کہا یار سکندر صاحب بھی ایک بار اپنی فیملی کو وہاں لے کر جا چکے ہیں اور ایک ہی رات میں وہاں سے بھاگ کر واپس آگئے ۔ اتنے میں ڈیلر کی بیوی نے کہا ہاں ہاں جب سکندر بھائی کی چارپائی کسی نے اٹھا کر پھینک دی تھی اور اسی رات شائستہ نے بھی کسی ڈراؤنی سی چیز کو سیڑھیوں میں لیتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ سب وہاں سے راتو رات واپس آگئے تھے یہ مجھے بتایا تھا شائستہ نے ۔ آصف نے کہا ارے باجی تو ہم وہاں پڑھائی کروائیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈیلر نے کہا آصف بھائی یہ سب سکندر صاحب کروا چکے ہیں وہاں سے بہت سے لوگ جو کہ جن کو قابو کرنے کے دعوے کرتے تھے وہ سب وہاں سے بھاگ چکے ہیں اور وہ بولتے ہیں وہ جگہ بہت زیادہ بھاری (آسیب زدہ) ہے اور وہاں رہنے والی شیطانی چیزیں کسی انتقام کے چکر میں ہیں اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ آپ اس گھر کے بارے میں نا سوچیں اور آپ کو میں ساٹھ ستر لاکھ میں کوئی اچھا سا گھر دلوا دوں گا اور وہ بھی کسی سکیم میں ۔ آصف نے عجیب سا منہ بتاتے ہوئے کہا اچھا ٹھیک ہے پر ابھی میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اپنے ذاتی تیس چالیس لاکھ خرچ کر دوں وہ بھی اپنے بھائیوں کے تیس لاکھ کے لیئے ۔ یہ کہتے ہوئے آصف نے ڈیلر کو کہا آپ ایسا کریں مجھے اپنا فون نمبر دے دیں تاکہ اگر میرا کوئی موڈ ہوا گھر لینے کا تو میں آپ کو فون کرلوں گا۔ تحریر دیمی ولف ۔ ڈیلر نے مسکراتے ہوئے کہا ہاں ہاں ٹھیک ہے آپ لکھ لیں میرا نمبر اور صفیان کے نام سے سیو کر لیں آصف نے نمبر سیو کیا اور اس کے آصف نے ڈیلر کی بیوی کے کپڑوں کے بارے میں بات کی پھر ڈیلر کی بیوی نے آصف کو کپڑوں کی سلائی کے بارے میں سمجھایا اور پھر ڈیلر اور اس کی بیوی وہاں سے چلے گئے اور ان کے جاتے ہی آصف پھر سے اس آسیب زدہ گھر کے بارے میں سوچنے لگا اور پھر جب آصف رات کو دوکان بند کر کے اپنے گھر گیا تو اس نے بیوی سے کہا یار جلدی سے کھانا لگا دو بہت بھوک لگی ہے تو رخسانہ نے کہا ہاں ہم سب بھی آپ کا ہی انتظار کر رہے تھے کہ آج رات کا کھانا ہم سب مل کر کھائیں گے کیونکہ توصیف اور کاشف بھائی بھی کہہ رہے تھے کہ آصف بھائی سے کوئی بات کرنی ہے اس لیئے ان کے ساتھ ہی کھانا کھائیں گے امی اور بچوں کو میں نے کھانا دے دیا تھا اور وہ سو گئے ہیں آصف نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے انہوں نے آج پھر سے مجھے گھر کا کہنا ہے چلو بلا لو ان کو بھی رخسانہ نے دسترخوان لگایا اور توصیف اور کاشف کو بھی بلا لیا اور سب مل کر کھانا کھانے لگے اور آصف کھانا سامنے رکھ کر کچھ سوچ رہا تھا اتنے میں توصیف کی نظر آصف پر پڑی تو آصف گہری سوچ میں پڑا ہوا تھا توصیف نے کہا آصف بھائی کیا ہوا کیا سوچ رہے ہو ؟؟ آصف نے جیسے توصیف کی آواز ہی نہیں سنی اور ویسے ہی سوچ میں کھویا رہا پھر توصیف نے حیرت سے کاشف اور رخسانہ کی طرف دیکھا تو رخسانہ نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے آصف کا ہاتھ پکڑ کر ہلاتے ہوئے کہا عظیم کے ابو کیا سوچ رہے ہیں تو آصف نے اک دم سے چونک کر کہا ہاں۔۔۔ ہاں ۔۔ کیا ہوا ؟؟ تو رخسانہ نے کہا توصیف آپ کو بلا رہا تھا پر آپ کہاں کھوئے ہوئے تھے ؟؟ تو آصف نے کہا کچھ بس ایسے ہی پھر توصیف کی طرف دیکھتے ہوئے آصف نے کہا ہاں توصیف کیا بات کرنی تھی تم نے ؟؟ توصیف نے کہا آصف بھائی سب خیریت تو ہے پہلے تو کبھی ہم نے آپ کو ایسے نہیں دیکھا کچھ ہوا ہے کیا ؟؟ آصف نے کہا نہیں سب ٹھیک ہے دراصل آج میری دوکان پر ایک ڈیلر آیا تھا اور اس نے مجھے ایک گھر کے بارے میں بتایا تھا اور وہ گھر تقریباً دس مرلے کا ہے اور اس کے چار پورشن ہیں جس میں سے تین پورشن کا کام بلکل مکمل ہو چکا ہے اور چوتھے پورشن کا کچھ کام باقی ہے اور گھر پوری طرح سے ویسا ہی ہے جیسا کہ ہم سب چاہتے ہیں اور اس کی قیمت بھی مناسب ہے۔ ابھی آصف یہ بات کر رہی رہا تھا تو توصیف جھٹ سے بولا تو بھائی اس میں سوچنے والی کونسی بات ہے اتنا بڑا گھر اور اوپر سے پورشن بھی ہیں اس میں تو ہم سب آرام سے رہ سکتے ہیں میں تو کہتا ہوں جلدی سے بیانہ کروا دیں ورنہ کوئی اور نہ لے لے ؟؟ آصف نے کہا ارے نہیں نہیں اسے کوئی نہیں لے سکتا اتنے میں رخسانہ نے کہا پر وہ گھر ہے کہاں کس جگہ ہے یہاں سے کتنا دور ہے ؟؟ آصف نے کہا چونیاں کے راستے میں ایک علاقہ ہے وہاں پر ہے کاشف نے کہا کیا وہ کوئی گاؤں ہے ؟ آصف نے کہا گاؤں تو ہے پر وہ شہر ہی لگتا ہے کیوں وہاں پکی سڑکیں ہے اور بہت آبادی ہے اور کسی جگہ سے بھی گاؤں جیسا نہیں لگتا ۔ توصیف نے کہا تو بھائی ہم کل صبح ہی جا کر دیکھ لیتے ہیں اور اسی وقت بیانہ بھی کروا دیں گے ۔ یہ سن کر آصف ہاتھ میں روٹی کا نوالہ پکڑے پھر سے سوچ میں پڑ گیا کیونکہ آصف نے ابھی تک اپنے گھر والوں کو پوری بات نہیں بتائی تھی جو کہ اس ڈیلر نے آصف کو اس گھر کے بارے میں بتائیں تھیں پھر رخسانہ نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا بات ہے آپ پھر سے سوچ میں پڑ گئے ہو آخر بات کیا ہے ؟؟ آصف نے نے چونک کر کہا نہیں کچھ نہیں بس میں اس گھر کے بارے میں سوچ رہا تھا رخسانہ نے کہا کیا سوچ رہے تھے آصف نے کہا نہیں بس ایسے ہی چلو اب سب کھانا کھاؤ آرام سے ۔ یہ کہتے ہوئے آصف کھانا کھانے لگا اور کھانے کے بعد آصف جب سونے کے لیئے اپنے کمرے میں گیا تو اس وقت بھی آصف رات دیر تک جاگ کر یہی سوچ رہا تھا کہ اگر میں نے گھر میں سب کو بتا دیا کہ وہ گھر کسی کے رہنے کے لائیک نہیں ہے تو ہو سکتا ہے اس کے بھائی اس گھر کو خریدنے میں راضی نہ ہوں اور اگر ایسا ہوا تو ہمیں پھر کوئی سستا گھر نہیں ملے گا ۔ آصف کا کبھی دل چاہتا کہ سب کو اس گھر کی اصلیت بتا دو پھر وہ سوچتا کہ نہیں بتاؤں گا بس یہی سوچتے ہوئے وہ سو گیا ۔ اگلے دن صبح جب آصف اٹھا تو اس کے دونوں بھائی اس کے پاس آئے اور انہوں نے آصف سے کہا بھائی آج ہم دونوں نے کام سے چھٹی کی ہے اور آج ہم ناشتہ کر کے آپ کے ساتھ وہ گھر دیکھنے چلیں گے ۔ آصف حیرت سے اپنے بھائیوں کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دیر اپنا سر کھجاتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگا اور پھر اس نے اپنے بھائیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اچھا ٹھیک ہے لیکن اس سے پہلے مجھے اس ڈیلر سے فون پر بات کرنی ہو گی کیونکہ ابھی تو میں نے بھی وہ گھر نہیں دیکھا اور نہ ہی ڈیلر کو پتا ہے کہ ہم وہ گھر لینا چاہتے ہیں اس لیئے پہلے مجھے اس سے بات کرنے دو ۔ توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی پر جو بھی کرنا ہے آج ہی کرنا ورنہ کہیں وہ گھر فروخت نہ ہو جائے ۔ تو آصف کے منہ سے انجانے میں نکل گیا ارے کسی نے مرنا ہے کیا وہ گھر لے کر سب ڈرتے ہیں وہاں رہنے سے ورنہ وہ گھر کب کا فروخت ہو گیا ہوتا کوئی نہیں لینے والا اسے ۔ آصف کی یہ بات سن کر توصیف اور کاشف آصف کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بولے بھائی کیا مطلب ہے آپ کا اگر وہ گھر کوئی لے گا تو کوئی کیوں مرے گا اور کون مارے گا اسے ؟؟ تو آصف نے اچانک اپنی نظریں چراتے ہوئے سوچا یہ میں نے کیا کہہ دیا پھر آصف نے اپنے بھائیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یار تم لوگ کیا باتیں کر رہے ہو میں نے ایسا کب کہا جو اس گھر کو خریدے گا وہ مرے گا ؟؟ توصیف نے حیرت انگیز نظروں سے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آصف بھائی ابھی آپ ہی نے تو کہا کہ سب ڈرتے ہیں اس گھر میں رہنے سے ہمیں بتائیں اصل بات کیا ہے اور ایسا کیا ہے اس گھر میں جو وہاں رہنے سے لوگ ڈرتے ہیں ؟؟ آصف نے بات کو گول کرتے ہوئے کہا ارے نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میں تو اس وجہ سے کہہ رہا تھا کہ اتنا بڑا گھر ہے تو لوگ اتنے بڑے گھر میں اکیلے رہنے سے ڈرتے ہونگے کیونکہ کہ وہاں چور چکے بھی ہونگے نا ؟؟ یہ سن کر توصیف نے کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے ایک لمبی سانس لی اور کہا ارے آصف بھائی نے تو ہمیں ڈرا ہی دیا تھا میں سمجھا کہ کوئی دشمندار بندے کا گھر ہے جو آصف بھائی ایسا کہہ رہے تھے کاشف نے کہا ہاں میں بھی چونک گیا تھا آصف بھائی کی بات سن کر۔ تحریر دیمی ولف ۔ اتنے میں آصف نے کہا اچھا اب یہ باتیں چھوڑو اب ڈیلر سے بات کرتے ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے آصف نے اسی ڈیلر کو فون کیا پھر سلام دعا کے بعد اپنا تعارف کروایا اور پھر آصف نے کہا صفیان بھائی میں وہ چونیاں والا گھر دیکھنا چاہتا ہوں تو ڈیلر نے کہا ارے آپ وہ گھر کیوں دیکھنا چاہتے ہیں آصف نے کہا صفیان بھائی میں نے اپنے بھائیوں سے مشورہ کیا ہے اور وہ بھی اس گھر کو خریدنے پر راضی ہیں آپ بس ہمیں وہ گھر دیکھا دیں تو ڈیلر نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کو لیئے چلتا ہوں آپ لوگ میرے گھر کے قریب آجائیں وہاں سے ہم سب اس گھر کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ڈیلر نے اپنے گھر کا پتا بتایا اور آصف وغیرہ ناشتہ کرنے کے بعد اس ڈیلر کے گھر گئے اور وہاں سے اس گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور جب اس آصف وغیرہ اس گھر کے قریب پہنچنے ہی والے تھے کہ وہاں اس گھر کے پیچھے والی سائیڈ پر لوگوں کا رش لگا ہوا تھا یہ دیکھتے ہی ڈیلر اور آصف وغیرہ اس رش کے پاس پہنچے تو وہاں دو تین جانوروں کے چیتھڑے سے پڑے ہوئے تھے جس میں ایک بکری کی کچھ کھال کا حصہ اور آنتیں اور اس کے ساتھ ہی گائے بھینسوں کے آدھے کھائے ہوئے کچھ حصے پڑے ہوئے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی جنگلی جانور نے انہیں چیڑپھاڑ دیا ہو اور ایک شخص اپنا سر پکڑ کر ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا ڈیلر نے اس شخص سے پوچھا بھائی یہ سب کیا ہوا ؟؟ اس شخص کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور وہ ڈیلر کی طرف دیکھ کر روتے ہوئے بولا بھائی پتا نہیں یہ کیا ہوا ہے میرے جانور گزشتہ رات سے غائب تھے اور میں نے ان کو ہر جگہ تلاش کیا تھا پر یہ مجھے کہیں ملے تو مجھے کسی نے بتایا کہ اس نے میرے جانور اس گھر کے قریب دیکھے تھے اور جب میں اس گھر کے پاس آیا تو یہاں بھی جانور نہیں تھے اس کے بعد میں تھک کر اپنے گھر چلا گیا اور آج صبح ہی جب میں ان کو ڈھونڈتا ہوا اس طرف آیا تو یہ جانور مجھے اس حال میں ملے ہیں اب میں کیا کروں ان کا ۔ ڈیلر نے اس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا بھائی جو ہوا اس کے لیئے مجھے بہت افسوس ہے لیکن ایسے تو لگتا ہے جیسے اس علاقے میں کوئی شیر چیتا گھس آیا ہے جس نے یہ سب کیا ہے ۔ اتنے میں اس رش میں کھڑا ہوا ایک شخص بولا ارے بھائی یہ شیر چیتے کا کام نہیں ہے بلکہ یہ کسی اور چیز کا کام ہے جو اس بھوتیا گھر میں رہتی ہیں ۔ اس آدمی کی بات سن کر توصیف اور کاشف چونک گئے اور آصف کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ۔ بھائی یہ بندہ کیا کہہ رہا ہے ؟؟ آصف نے گھبراہٹ میں کہا ارے کچھ نہیں ہے یہ شخص تو ایسے ہی پاگل ہو گیا ہے اس کے اعلاوہ کوئی بول رہا ہے بھلا ؟؟ آصف کی اپنے بھائیوں کے ساتھ یہ گفتگو سنتے ہی ڈیلر نے آصف کی طرف دیکھا تو آصف نے ڈیلر کو آنکھ ماری دی اور ڈیلر نے حیرانی سے چپ چاپ نہ میں سر ہلا دیا ۔ پھر آصف نے ڈیلر سے کہا چلیں صفیان بھائی ہمیں گھر کی طرف لے چلیں اور جیسے ہی آصف وغیرہ اس گھر کے گیٹ کے پاس پہنچے تو توصیف نے گھر کو نیچے سے اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے واہ کیا گھر ہے دیکھو تو کتنا پیارا بنا ہوا ہے اور اوپر سے ٹائیل پتھر (ماربل) بھی بہت خوبصورت لگا ہوا ہے کاشف نے بھی کہا ہاں بھائی یہ تو کسی خوبصورت کوٹھی کی طرح لگ رہا ہے آصف بھی گھر کو دیکھ کر پاگل سا ہو گیا اس گھر کو اندر سے دیکھے بنا ہی گیٹ کے باہر ہی ڈیلر کو کہنے لگا صفیان بھائی آپ جلدی سے ہمیں اپنی ڈیمانڈ بتا دیں ؟؟ ڈیلر نے حیرت سے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے آصف بھائی پہلے گھر کو اندر سے تو دیکھ لیں پھر ڈیمانڈ بھی بتا دیتا ہوں آصف نے کہا صفیان بھائی اندر سے بھی دیکھ لیا سمجھو بس آپ ڈیمانڈ بتائیں ؟؟ ڈیلر نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور چابی گیٹ پر لگا کر گیٹ کھولا اور سب گھر میں داخل ہو گئے اور داخل ہوتے ہی توصیف اور کاشف ادھر اُدھر پھرنے لگے اور آصف ڈیلر کے پاس کھڑا رہ کر گھر کا معائنہ کرنے لگا اور گھر کی بناوٹ کی تعریفیں کرنے لگا اتنے میں توصیف اوپر کی منزل پر جانے کے لیئے سیڑھیوں کی طرف گیا اور کاشف سامنے کے کمرے کی طرف گیا اور اس کمرے کا دروازا کھول کر اندر چلا گیا ابھی آصف اور ڈیلر آپس میں باتیں ہی کر رہے تھے کہ اتنے میں جس کمرے میں کاشف گیا تھا اس کے ساتھ والے کمرے کا دروازا اچانک خود ہی کھلا گیا اور پھر جہاں کاشف گیا تھا اس کمرے کا دروازا اچانک جھٹ سے بند ہو گیا جیسے کے کوئی ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں چلا گیا ہو ڈیلر اور آصف نے جب یہ دیکھا تو وہ دونوں بھاگ کر اس کمرے کی طرف گئے جہاں کاشف گیا تھا تو وہ دروازا کھل ہی نہیں رہا تھا ڈیلر اور آصف نے بہت زور لگایا لیکن دروازا تو ایسے بند تھا کہ جیسے اندر سے کسی نے بند کر دیا ہو آصف نے جلدی سے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہا کاشف دروازا کھولو ؟؟ جلدی کھولو ؟؟ ڈیلر نے بھی آواز لگائی کاشف تم ہمیں سن سکتے ہو کیا ؟؟ لیکن کمرے سے کوئی آواز نہیں آئی اب آصف نے دہشت بھری نظروں سے ڈیلر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھائی کچھ کریں میرا بھائی اندر ہے ڈیلر نے پھر گھبراہٹ میں زور سے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہا کاشف میری آواز سن سکتے ہو ؟؟ اتنے میں اندر سے کاشف نے دروازا کھول دیا اور کاشف نے باہر آتے ہی آصف کی طرف دیکھا تو آصف کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ کاشف کو گھورے جا رہا تھا۔ تبھی کاشف نے کہا آصف بھائی کیا ہوا آپ کو ؟؟ آپ ڈرے ہوئے کیوں لگ رہے ہیں لیکن آصف ابھی تک جیسے ایک ہی جگہ کھڑا ہوا کاشف کو دیکھے جا رہا تھا تو کاشف نے حیرانی سے ڈیلر کی طرف دیکھا اور پھر آصف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا صفیان بھائی یہ آصف بھائی مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟؟ کیا ہوا ہے ان کو ؟؟ تو ڈیلر نے آصف کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ارے آصف بھائی کیا ہوا یہ تمہارا بھائی ہی ہے ایسے کیا دیکھ رہے ہو اسے ؟؟ تو آصف اک دم سے چونک گیا اور کاشف کے چہرے پر ہاتھ لگاتے ہوئے بولا یہ باہر آگیا صفیان بھائی میرا بھائی ٹھیک ہے اور یہ کہتے ہوئے آصف نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کاشف کا چہرہ پکڑتے ہوئے کہا تم ٹھیک ہو میرے بھائی ؟؟ کاشف نے حیرانی سے جواب دیتے ہوئے کہا جی آصف میں تو بلکل ٹھیک ہوں پر ہوا کیا ہے ؟؟ آصف نے کہا تو تمہیں اندر کچھ نظر نہیں آیا ؟؟ کاشف نے کہا کیا مطلب آصف بھائی آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ؟؟ آصف نے کہا یہ دروازا خود ہی بند ہو گیا تھا اور ہمارے کھولنے سے کھل ہی نہیں رہا تھا ہم نے تمہیں کتنی آوازیں بھی دیں پر تمہارا کوئی جواب نہیں آیا تو میں سمجھا کہ شاید تم کسی مشکل میں پڑ گئے ہو ۔کاشف نے مسکراتے ہوئے کہا ارے نہیں آصف بھائی یہ دروازا خود بند نہیں ہوا تھا بلکہ میں جب اس کمرے میں تھا تو اچانک سے میرا ہاتھ اس دروازے پر لگا تو یہ دروازا بند ہو گیا تھا اور اسی وقت میری نظر اس کمرے کے دوسرے دروازے پر پڑی جو کہ اس گھر کے بیکیارڈ کی طرف کھلتا تھا تو میں اس دروازے سے گھر کے پیچھے والے لاؤن میں چلا گیا تھا اور تبھی مجھے لگا کہ جیسے مجھے کوئی بلا رہا ہے تو میں واپس کمرے میں آیا تو مجھے صفیان بھائی کی آواز سنائی دی تو میں نے جلدی سے دروازہ کھول دیا جو کہ واقعی میں اندر سے لاک تھا جبکہ میں نے تو اس کو لاک نہیں کیا تھا پھر یہ کیسے خود ہی لاک ہو گیا بس اس بات کی سمجھ نہیں آئی مجھے یا پھر اس دروازے کا لاک ہی خراب ہو گا جو کہ خود ہی لگ جاتا ہے ۔ باقی تو گھر بہت کمال کا ہے اور اس گھر کے بیکیارڈ میں بہت سے خوبصورت پھول بھی لگے ہوئے ہیں مجھے تو یہ گھر بہت پسند ہے ۔ آصف نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے ہوئے کہا ارے تم نے تو ہمیں ڈرا ہی دیا تھا اتنے میں اوپر کی منزل سے توصیف کے زور سے چلانے کی آواز سنائی دی تو کاشف آصف اور ڈیلر پھر سے دوڑ کر اوپر کی منزل پر گئے تو ایک کالی سی بلی اوپر کے کمرے کی کھڑکی سے باہر نکل کر بھاگی اور جیسے ہی آصف وغیرہ اس کمرے میں گئے تو سامنے توصیف کھڑا ہنس رہا تھا آصف نے غصے کہا توصیف یہ کیا تماشا ہے تم اتنا زور سے کیوں چلا رہے تھے تو توصیف نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا آصف بھائی سوری دراصل جب میں اس کمرے میں آیا تو ایک کالی سی بلی نظر آئی جو کہ اس کمرے کے کونے میں بیٹھی ہوئی تھی میں نے اس کو شی شی کر کے بھگانے کی کوشش کی تو وہ بھاگ نہیں رہی تھی تو میں نے زرو دار آواز سے اس کو ڈرا کر بھگا رہا تھا اور اوپر سے یہ ہال کمرا ہے اس وجہ سے میری آواز کچھ زیادہ ہی گونج اٹھی اس کمرے میں ۔یہ سب سن کر ڈیلر نے پھر سے مسکراتے ہوئے نہ میں سر ہلا دیا اور آصف نے ڈیلر سے کہا صفیان بھائی اپنے بھائی کی طرف سے میں معافی چاہتا ہوں تو ڈیلر نے کہا ارے نہیں کوئی بات نہیں آصف بھائی دراصل آپ کے بھائی اس گھر کو لے کر کچھ زیادہ ہی خوش ہیں تو اس وجہ سے یہ چھوٹی موٹی باتیں ہو رہی ہیں خیر اب آپ سب لوگ اوپر والی منزل بھی دیکھ لیں اس کے بعد ہمیں واپس جانا ہے آصف نے کہا جی جی ضرور اتنے میں توصیف نے کہا میں تو اوپر کے باقی دونوں پورشن دیکھ آیا ہو تیسرے پورشن تک تو سب ٹھیک ہے پر سب سے اوپر والی منزل پر مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا جیسے کہ وہاں کوئی موجود تھا لیکن جب میں نے اچھے سے چیک کیا تو لگا میرا وہم تھا کیونکہ اوپر کی منزل پر اینٹیں اور ریت بجری وغیرہ بکھری پڑی ہیں تو اس وجہ سے میں اسے دور سے ہی دیکھ کر آگیا ہوں باقی تو پورا گھر مجھے بہت پسند آیا ہے تو آصف نے ڈیلر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو پھر چھوڑیں صفیان بھائی اب اوپر اور کیا چیک کرنا ہے باقی ہم لوگ دیکھتے رہیں گے اب آپ بس ہمیں اپنی ڈیمانڈ بتا دیں اب تو ہم نے سب دیکھ لیا ہے ڈیلر نے اپنے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس پورے کی طرف نظریں گھومائیں اور کچھ سوچا اور پھر آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آصف بھائی میں تو بولتا ہوں ایک بار پھر سے سوچ لیں کیا یہ گھر واقعی آپ کے لیئے ٹھیک ہے ؟؟ آصف کچھ بولتا اس سے پہلے توصیف اور کاشف کہنے لگے جی جی صفیان بھائی یہ گھر ہمارے لیئے بلکل ٹھیک ہے اور ہمیں یہ بہت پسند آیا ہے ڈیلر نے مسکراتے ہوئے کہا ارے وہ سب تو ٹھیک ہے پر میں پھر ایک بار آپ کے بھائی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی میں آصف اس گھر کو خریدنا چاہتا ہے کہ نہیں کیونکہ میں نے تو دونوں سائیڈ سے اپنی کمیشن لے لینی ہے اس لیئے میں چاہتا ہوں کہ آپ سب ایک بار سوچ لیں آصف نے ڈیلر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پر اعتماد طریقے سے کہا یار صفیان بھائی بڑی ہو گئی سوچ وچار اب آپ ہمیں ڈیمانڈ بتائیں بس اور کوئی بات نہیں کرنی اب۔ تحریر دیمی ولف ۔ تو ڈیلر نے کہا تو ٹھیک ہے آصف بھائی اس علاقے میں صرف جگہ کا ریٹ چار لاکھ روپے فی مرلہ ہے اس حساب سے چالیس لاکھ کی تو سیدھی سیدھی آپ کی جگہ ہی ہو گی اور اوپر سے بیس لاکھ روپے سکندر صاحب نے اس گھر پر ایکسٹرا لگائے ہیں یہ جو باقی کے پورشن اور فنشنگ کے لیئے تو آپ کو یہ گھر ستر لاکھ میں مل جائے گا ۔ یہ سن کر آصف نے کہا ارے صفیان بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھلا اتنے پیسے ہم کہاں سے دیں گے آپ نے تو ہمیں کہا تھا کہ وہ سستا گھر ہے ؟ ڈیلر نے کہا جی آصف بھائی یہی گھر اگر تھوڑا باہر والی سائیڈ پر ہو تو کم سے کم دو کروڑ کا ہو گا لیکن اس گھر کو لے کر جو لوگوں نے باتیں بنائی ہیں اس کی وجہ سے ہی یہ گھر ہم چاہ کر بھی مہنگا نہیں بیچ سکتے ۔ آصف نے کہا ارے صفیان بھائی پھر بھی ہم اس گھر کو لینے کا رسک لے رہے ہیں تو آپ بھی تو کچھ تعاون کریں نا اب ستر لاکھ تو ہمارے پاس تھوڑی نا ہیں آپ کی مہربانی ہے ہے کوئی مناسب بات کریں ؟ ڈیلر نے کہا اچھا میں آپ کی سکندر صاحب سے بات کروا دیتا ہوں کیونکہ یہ گھر انہی کا ہے تو آپ انہی سے بات کر لینا پھر جیسے وہ بولیں گے ویسا کر لیں گے آصف نے کہا ٹھیک ہے تو آپ ہمیں سکندر صاحب کے پاس لے چلیں پھر ۔ ڈیلر نے اسی وقت سکندر صاحب کو فون کیا اور ان سے کہا کہ میں آصف لوگوں کو آپ کے گھر لے کر آرہا ہوں تو سکندر صاحب نے فوراً کہا ہاں ہاں لے آؤ میں گھر پر ہی ہوں اس کے بعد سب لوگ گھر سے باہر نکلے اور جیسے ہی ڈیلر گھر کے باہر والے گیٹ کو بند لگا تو وہی دروازا جو خود کھلا تھا وہ اتنی زور سے جود ہی بند ہوا کہ اس کی آواز باہر کے گیٹ تک سنائی دی جسے سن کر آصف اور اس کے بھائیوں نے ڈیلر سے کہا یہ کسی آواز تھی صفیان بھائی تو ڈیلر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے جلدی سے گیٹ کو لاک کیا اور آصف کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ تحریر دیمی ولف ۔ آصف نے حیرت سے ڈیلر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کیا ہوا صفیان بھائی آپ چپ کیوں ہیں یہ کیسی آواز آئی تھی گھر میں سے ؟؟ ڈیلر نے آصف کے بھائیوں کی طرف دیکھا اور پھر آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کچھ نہیں چلو سب سکندر صاحب کی طرف چلتے ہیں آصف نے کہا جی جی چلیں اور پھر جب ڈیلر اور آصف وغیرہ اس گھر سے دور جا رہے تھے تو آس پاس کے لوگ ان کو بڑی حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کاشف نے کہا آصف یہاں کے لوگ ہمیں عجیب طریقے سے کیوں دیکھ رہے ہیں آصف نے کہا ارے ہم لوگ اس علاقے میں پہلی بار جو آئے ہیں اس وجہ سے یہ ہمیں ایسے دیکھ رہے ہیں توصیف نے کہا پر کچھ لوگ تو ہماری طرف دیکھ کر اپنے کانوں کو بھی ہاتھ لگا رہے ہیں یہ کیا چکر ہے ڈیلر نے کہا ارے کچھ نہیں ہے بس کئ لوگوں کی عادت ہوتی ہے ایسا کرنے کی چھوڑو ان کو جب آپ لوگ یہاں رہنے لگ جاؤ گے تو یہی لوگ آپ میں گھل مل جائیں گے تو کاشف نے کہا ہاں سہی کہا ۔ اس کے بعد آصف وغیرہ سب ڈیلر کے ساتھ سکندر صاحب کے پاس جا پہنچے اور سکندر صاحب سے ان کے گھر کے بارے میں بات کی تو سکندر صاحب نے کہا دیکھو آصف مجھے وہ گھر بہت مہنگا پڑا ہے جو کہ میں نے اس پر بنا سوچے سمجھے بہت پیسا لگا دیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وہ سب پیسا میرے لیئے برباد ہی ہے ..
1 پارٹ
2 پارٹ
3 پارٹ
4 پارٹ
5 پارٹ
[…] سستا گھر اور شیطانی طاقت – قسط ١ […]