رات کے تقریباً ایک بجے کا وقت تھا۔سردیاں اپنے عروج پر تھیں۔میں مہر پور گاؤں جانے کے لیے بس اسٹاپ پر اتر چکا تھا۔۔۔۔۔بس اسٹاپ پر موجود اکادکا چھوٹی موٹی دکانیں بند ہوچکی تھیں۔کسی بشر کا شبہ تک نہیں ہوتا تھا۔دسمبر کی یخ بستہ چلنے والی ٹھنڈی ہواوں نے ہر طرف ہو کا عالم طاری کر رکھا تھا۔
میں بس سے اترنے کے بعد پریشانی کے عالم میں اپنا بیگ گھسیٹتا ہوا سڑک کنارے کھڑا ہوگیا۔
نور پور جانے کے لیے مجھے اس سے آگے کا راستہ معلوم نہیں تھا۔ایک منٹ میں نے اپنا تعارف تو کرایا ی نہیں۔میرا نام حسن علی ہے۔اور پیشے کے لحاظ سے میں ایک استاد ہوں۔میری عمر کوئی تینتیس سال ہوگی۔
شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہوں۔نور پور کے اسکول میں میرا تبادلہ ہوا تھا۔اسی سلسلے میں نور پور پہنچا تھا۔
اسکول کے پرنسپل نے مجھے خط میں بتا دیا تھا۔کہ اسکول کا چپڑاسی مجھے بس اسٹاپ پر تانگے سمیت ملے گا۔پھر وہی مجھے اسکول سے ملحقہ سرکاری رہائش میں لے جائے گا۔
مگر وہ بے چارہ شاید میرا انتظار کرتے کرتے واپس چلا گیا تھا۔۔۔۔کیونکہ نور پور جانے والی ایک بس مجھ سے چھوٹ گئی تھی۔
دوسری بس نے مجھے ایک بجے یہاں لا کر کھڑا کر دیا۔۔۔۔
دھند کی وجہ سے ہر طرف بیابان نظر آتا تھا۔میں پریشانی کے عالم میں جہاں تک ممکن تھا۔دیدے پھاڑ پھاڑ کے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔
سردی سے میری ٹانگیں کپکپانا شروع ہو گئیں تھیں۔یہ اس بات کا اشارہ تھا۔کہ جلد سے جلد مجھے اپنے لیے ٹھہرنے کا انتظام کر لینا چائیے۔جو کہ فی الحال نظر نہیں آ رہا تھا۔
میں نے بیگ میں رکھی ٹارچ نکالی ۔اور اسے بٹن دبا کر آن کیا۔اتنے میں میرے کانوں میں لاٹھی ٹیکنے کی آواز آنے لگی۔جیسے کوئی بوڑھا شخص آہستہ آہستہ سڑک پر لاٹھی ٹیکتے ہوئے میری طرف آ رہا ہو۔میرا دل اضطراب کے مارے بلیوں اچھلنے لگ گیا۔میں نے ٹارچ کا رخ آواز کی سمت کیا۔۔۔۔مگر دھند کی وجہ سے روشنی شرما کر جیسے واپس آ گئی تھی۔آواز بدستور میری طرف بڑھ رہی تھی۔مگر ہیولا تک نظر نہی آ رہا تھا۔۔۔۔۔کافی دیر تک آواز آتی رہی۔۔۔۔تو میں خود بے چین ہو کر آواز کی سمت بڑھا ۔۔۔۔۔شاید کسی کو میری ضرورت ہو۔
میں بیگ کو سائیڈ پر کر کے چل پڑا۔۔۔۔۔۔تھوڑی دور چلا مگر کوئی بندہ نہ۔بندے کی ذات نظر آ ئی۔۔۔۔آواز تھی جو آئے جا رہی تھی۔
میں حیران ہو۔کر کہ شاید کوئی واپس مڑ گیا ہوا
تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آواز کے تعاقب میں دوڑ پڑا۔دوڑتے دوڑتے میں یہ بھی بھول گیا۔۔۔۔۔۔کہ مجھے نور پور جانا تھا ۔اور میں کس چکر میں لگ گیا ہوں۔طیش میں آ کر میں نے ہوا میں مکا لہرایا۔
اور پلٹ کر واپس چل پڑا۔۔۔۔۔۔ابھی دو تین قدم ہی اٹھائیں ہونگے کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سخت سردی میں میرا بدن کپکپا رہا تھا۔مگر وہ ہاتھ تو جیسے برف کی مانند تھا۔
پہلی بار خوف کے مارے میرے پورے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔اور میں نے ڈرتے ہوئے اپنی گردن پیچھے موڑی۔
میرے سامنے ایک بوڑھا جس نے سردی کی وجہ سے منہ پر دیہاتیوں کے جیسے کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔کپکپاتے ہاتھ سے لاٹھی تھامے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا۔بوڑھے کو یوں سردی میں ٹھٹھرتا دیکھ کر میرا سارا غصہ کافور ہوگیا۔اور میںں نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔۔ بابا جی۔۔۔۔آپ کہاں تھے۔۔۔۔۔اپ کی لاٹھی کی آواز سن کر میں نے آپکو بہت ڈھونڈا۔۔۔۔مگر آپ نظر نہی آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا میں چلتے چلتے تھک گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ذرا دیر کے لیے سستانے بیٹھ گیا۔
اوہ میرے خدایا۔۔۔اچانک میرے منہ سے نکلا۔۔۔آواز کے پیچھے میں پاگل ہو کر دور رہا تھا۔شاید اس بے چینی میں میری نظر بیٹھے ہوئے بوڑھے پر نہ پڑی ہو۔میں نے دل ہی دل میں خود کو کوسا۔۔۔۔۔اور بوڑھے کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا ۔۔۔۔۔اپ نے کہاں جانا ہے
بوڑھے نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا
اور کہا۔۔۔۔۔تم۔اس علاقے میںں نئے آئے ہو شاید
میں بوڑھے کی نظر اور پہچان کا قائل ہو گیا۔
جی بابا جی ۔۔۔۔میں ابھی ابھی یہاں آیا ہوں
نور پور سکول کا نیا استاد ہوں۔۔۔۔۔شہر سے یہاں تبادلہ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے بوڑھے کے سوال کا جواب دیا۔۔۔۔۔
تو یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔بوڑھے نے ذرا غصیلے لہجے میں کہا
ابھی بس سے اترا ہوں۔نور پور کا راستہ معلوم۔نہی
انتظار میںں کھڑا تھا۔۔۔۔۔کوئی آئے تو راستہ معلوم ۔کروں۔۔۔۔۔۔۔۔چلو آو۔۔۔میرے پیچھے۔۔۔۔۔ بوڑھے نے کہا
اور وہ لاٹھی ٹیکتا ہوا بنا میری بات سنے چل پڑا۔
حیرت انگیز طور پر اس کے چلنے کی رفتار اچھی خاصی تھی۔۔۔۔۔میں باوجود کوشش کے اس کے برابر نہی چل پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ یہ فاصلہ بڑھنے لگا
۔۔۔۔۔اتنے میں ہم بس اسٹاپ پہنچ گئے۔۔۔۔۔میں نےلپک کر اپنا سامان اٹھایا۔۔۔۔۔۔۔۔اور بوڑھے کے پیچھے چل پڑا۔ایسے لگ رہا تھا میرے ایک قدم کے مقابلے میں وہ تین قدم اٹھا رہا ہے۔بھاگ بھاگ کر مجھے سانس چڑھ گیا تھا۔۔۔۔میںں نے آوازیں دے کر بوڑھے کو روکا بھی۔۔مگر۔بوڑھا آہستہ آہستہ دھند میں غائب ہوتا جا رہا تھا۔اس ساری بھاگ دوڑ میں مجھے تھکاوٹ کی وجہ سے پسینہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔بوڑھا ہیولے کی طرح مجھے نظر آ رہا تھا۔
میںں نے تھک کر بیگ نیچے پھینکا اور بیٹھ کر سستانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک سے پھر کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔میں بدکے ہوئے گھوڑے کی طرح اچھلا
اور گھوم کر دیکھا ۔۔۔۔۔تو وہی بوڑھا کھڑا مجھے دیکھ رہا۔تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا جی آپ
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا اور میں دوسری طرف اس ہیولے کو بھی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔جو ابھی تک مجھے نظر آ رہا تھا۔
پیاس لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ پی لو۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک بوتل مجھے تھما دی۔۔۔۔۔میرا گلہ خشک ہو رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے جلدی سے ڈھکنا کھولا اور بوتل منہ سے لگا کر غٹا غٹ پینے لگ گیا۔
پانی کا ذائقہ مجھے ذرا نمکین لگا اور گاڑھا بھی
میں نے بوتل منہ۔سے ہٹا کر ٹارچ کی روشنی میں دیکھی۔۔۔۔۔۔۔تو فوراً قے آ گئی
بوتل میں لیس دار گاڑھا خون تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کھانستے ہوئے زور لگا کر قے کی۔۔اور سارا خون باہر نکال کر رکھ دیا۔۔۔اور غصے سے بوڑھے کو دیکھا ۔۔۔۔۔جو میری کیفیت دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا۔۔۔۔۔
اور ساتھ ہی اپنے چہرے سے لپیٹا ہوا کپڑا اتارنا شروع کر دیا۔جیسے جیسے وہ کپڑا اتار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ کپڑا خون آلود ہو رہا تھا۔پورا کپڑا اس کے چہرے سے اتر چکا تھا۔اس کی خوفناک شکل دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔منہ پر صرف دانت تھے۔۔جن سے خون رس رہا تھا۔۔اوپر نیچے کے دونوں ہونٹ غائب تھے۔ناک کی جگہ بس گڑھے تھے۔اوپر سے اسکی شیطانی ہنسی جو میری جان نکالے جا رہی تھی۔اور اسکے غلیظ چہرے کو اور بھیانک۔۔۔۔
میں نے جلدی سے بیگ چھوڑا۔۔۔۔۔۔اور ٹارچ ہاتھ میں لیے چیختا چلاتا سمت کا تعین کیے بغیر بھاگ پڑا۔بس اتنا پتہ تھا۔۔۔۔۔جہاں بھاگا جا رہا ہوں
وہ جگہ جھاڑیوں سے اٹی پڑی تھی۔کانٹے دار جھاڑیاں میری ٹانگوں کو لگ لگ کر زخمی کر رہی تھی۔پتہ نہی کتنا بھاگا۔۔۔جب ٹانگوں میں بھاگنے کی سکت ختم ہو گئی تو کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور کسی گڑھے نما چیز میں جا گرا ۔
اور سانس روک کر بے سدھ ہوگیا۔۔۔۔جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر ہوجاتا ہے۔جب سے بھاگا تھا ۔تب سے وہ شیطانی بلا نظر نہیں آئی تھی۔
میں گڑھے میں دبکا پڑا تھا۔۔۔۔۔کہ اتنے میں ایک بار پھر وہی لاٹھی کی ٹک ٹک سنائی دینے لگ گئی۔جو ایک بار پھر میری طرف بڑھ رہی تھی۔سر سے پاؤں تک جسم کے بال مارے خوف کے کھڑے ہوگئے تھے۔
جی کرتا تھا زور زور سے چلاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ ساری دنیا کو اپنی مدد کے لیے بلا لوں۔۔۔۔۔۔
جو میرے ساتھ بیت رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ایسا تو کہانیوں میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مگر زندگی بھی تو کبھی کبھی کسی کہانی کا روپ دھار لیتی ہے۔اور پھر یہ کہانی اپنی مرضی کا اختتام کرتی ہے۔
میں نے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ لائٹ آن کر کے گڑھے میںں روشنی کی۔۔۔۔۔۔۔تو نیا دھچکا لگا ۔۔۔۔۔ جہاں میں گرا پڑا تھا ۔۔۔وہ گڑھا نہیں۔۔۔۔ ایک ٹوٹی ہوئی قبر تھی۔۔۔۔۔ مطلب میں بھاگتے بھاگتے کسی قبرستان میں آ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔قبرستان کا سوچ کر خوف کی ایک اور لہر پورے جسم میں پھیل گئی۔۔۔۔لاٹھی کی ٹک ٹک کی آواز ابھی بھی آ رہی تھی۔کہ یکایک ایک ہاتھ نے میری گردن پکڑی۔
ہاتھ کا لمس محسوس کر کے سمجھ گیا یہ وہی شیطانی بلا ہے۔۔۔۔۔ خوف کے مارے میری چیخ بھی نہ نکل سکی۔۔۔۔۔۔ہاتھ میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔اس نے مجھے تنکے کی طرح گڑھے سے نکال کر زمین پر پھینک دیا۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے روتے ہوئے کہا
مجھے مت مارو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے
میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔
ھاھاھاھاھاھاھاھاھا۔۔۔اس نے ایک لمبہ قہقہہ لگایا
اور بولا۔۔۔۔۔۔۔مجھے پیاس لگی ہے۔۔۔۔تیرا خون پینا ہے۔مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔تیرا گوشت کھانا ہے۔
رات کے اس پہر جب دنیا سو جاتی ہے۔تو شیطان اپنے شکار پر نکلتے ہیں۔۔۔۔۔آج میرا شکار تو ہے۔
تجھے میرے ہاتھوں سے بچانے والا کوئی نہیں۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔
وہ۔مجھ سے کافی دور کھڑا تھا ۔۔۔مگر اس کا ہاتھ لمبا ہوتا ہوتا میری گردن پر پہنچ چکا تھا۔
اس کے سخت کھردرے ناخن میری گردن میں چبھ رہے تھے۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور جھٹکا دے کر اپنی گردن آزاد کروائی۔۔۔۔۔اور ایک بار پھر کانپتی ٹانگوں سے بھاگنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔دہشت اور خوف کے مارے قبروں سے ٹکرا ٹکرا کر بار بار گر رہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھاگتے بھاگتے میری نظر قبرستان میں اگے درختوں پر پڑی۔وہاں چھوٹے چھوٹے بچے پرندوں کی مانند ٹہنیوں پر بیٹھے مجھے گھور رہے تھے۔ان کی الووں جیسی بڑی بڑی آنکھوں میں بلا کا طلسم تھا۔جو میری طاقت کو شل کر رہا تھا۔
اس اثنا میں میرا وجود کسی سے ٹکرا گیا۔
پورا قبرستان میرے منہ سے نکلنے والی چیخوں سے گونج اٹھا۔۔۔۔۔میں گر کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔
سامنے جو دیکھا تو ایک باریش سفید کپڑوں میں ملبوس نورانی چہرے والے ایک بزرگ کھڑے تھے۔میں جلدی سے بھاگ کر انکی طرف بڑھا۔۔۔۔۔
اور چیخنے لگا ۔۔۔۔۔مجھے بچا لو
مجھے بچا لو۔۔۔۔۔۔وہ شیطانی بلا میرے پیچھے پڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس بزرگ نے ہاتھ کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
اتنے میں میرے پیچھے وہی شیطانی بلا لاٹھی سے ٹک ٹک کرتی آ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔بزرگ نے مجھے کہا
بولو۔۔۔۔۔۔ زور سے بولو
حق ھو۔۔۔۔۔ اللہ ھو
ہر درد کی دوا۔۔۔۔۔اللہ ھو
مشکل کشاء۔۔۔۔اللہ ھو
جیسے اسکے منہ سے ھو کی آواز نکلی۔۔۔۔ درختوں پر بیٹھے بچوں نما پرندے پھڑپھڑا کر اڑنے لگے۔۔۔پورے قبرستان کی فضا ان سے بھر گئی۔۔۔۔۔وہ بوڑھا جو میرے قریب آ چکا تھا۔
بزرگ نے چیختے ہوئے مجھے کہا
بولو۔۔۔۔۔۔
حق ھو۔۔۔۔۔اللہ ھو
میں نے زور زور سے دیوانہ وار بولنا شروع کردیا۔
حق ہو ۔۔۔۔اللہ ھو
ہر درد کی دوا۔۔۔۔اللہ ھو
مشکل کشا۔۔۔۔اللہ ھو
بوڑھے کے ہاتھ سے لاٹھی گر گئی۔۔۔۔اور وہ سر تھامتے ہوئے زمین پر گر گیا۔
پھر ایک گدھ کی شکل اختیار کرکے اڑ گیا۔
میرے باختہ حواس ورد کرتے کرتے کنٹرول میں آ رہے تھے۔دل کی بے چین دھڑکنیں پر سکون ہونے لگی تھیں۔میں اس بزرگ کو دیکھے جا رہا تھا۔
جس کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہاتھا۔۔۔میں نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومنے چاہے۔۔۔۔مگر وہ تو ہوا کی مانند کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔۔۔۔ بیٹے انسان کے اندر خوف اور ڈر پیدا کرکے اس پر قبضہ کرنا شیطانی طاقتوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔۔۔۔اپنے دل کو ہر وقت اللہ کے ذکر سے پر سکون رکھو۔۔۔
پھر ہوا کے جھونکے کی طرح وہ بزرگ بھی ہوا میں تحلیل ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔میں انہیں جاتا دیکھ ہی رہا تھا
کہ میرے کانوں میں آواز پڑی
اللہ و اکبر۔۔۔۔۔اللہ و اکبر
فجر کی اذان کی آواز تھوڑے فاصلے سے آ رہی تھی۔
میں آواز کی سمت چل پڑا۔۔۔۔۔تھوڑی دیر میں ایک گاؤں میں داخل ہو گیا۔جس کے بورڈ پر نور پور لکھا ہوا تھا۔مسجد کے امام صاحب سے اسکول کے چپڑاسی کا پتہ معلوم کرکے اس سے اپنے لیے الاٹ کیا ہوا گھر کھلوایا۔۔۔۔۔میری حالت دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا۔۔۔۔۔اسکو میں نے بس اتنا کہا۔۔۔۔کہ آوارہ کتے میرے پیچھے لگ گئے تھے۔۔۔سامان والا بیگ بھی کہی گر گیا ہے۔۔۔۔۔۔بڑی مشکل سے یہاں پہنچا ہوں۔۔۔۔اس نے مجھے اپنے گھر سے دھوتی اور قمیض لاکر دی۔۔۔۔نہا دھو کر میں نے گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھی۔صبح ناشتہ گاؤں کے چودھری کے پاس کیا ۔۔۔وہی چپڑاسی میرا بیگ بھی تلاش کر کے آگیا۔وہاں سے سیدھا میں اسکول گیا۔۔۔جہاں میری کلاس کے بچے اپنے نئے استاد سے ملنے کو بے تاب بیٹھے تھے۔۔۔۔
اتنے میں کلاس کے مانیٹر نے کہا
کہ سر آج سبق کہاں سے شروع کریں گے۔
تو میں نے کہا
سبق وہی سے شروع کریں گے۔۔۔۔جو آج مجھے ملا ہے۔۔۔۔۔۔
حق ھو ۔۔۔۔اللہ ھو
ہر درد کی دوا ۔۔۔۔۔ اللہ ھو
مشکل کشاء۔۔۔۔۔۔اللہ ھو
حق ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد کلاس کے سب بچے دیوانہ وار یہ ورد دہرا رہے تھے۔