رات کا آخری پہر تھا۔۔۔۔ خوبصورت سی سترہ سالہ لڑکی اپنے سیاہ رنگ کے گھنے گھنگرالے بال جو کمر سے تھوڑا نیچے تک تھے۔ بڑی بڑی گرے رنگ کی آنکھیں نازک نقوش گلابی لب سرخ و سفید وہ لڑکی جسکے گال ہمیشہ سرخ ہی رہتے تھے کھڑکی کھولے کھڑی تھی جب کے کھلے ہوۓ بال ہوا سے اٹھکلیاں کر رہے تھے۔۔۔
ہر چیز سے بےخبر وہ کھڑکی سے سامنے گھنے درخت پر بیٹھے اس ادھیڑ عمر آدمی کو دیکھ رہی تھی جو اس پر نظریں مرکوز کیے بہت آہستہ سے کچھ تیز تیز پڑھ رہا تھا
"یکدم اسکے کانوں میں بھنبھناہٹ ہونے لگی جانے کونسی زبان تھی جس سے وہ نا آشنا تھی دھیرے دھیرے آنکھیں بند کرتی وہ پلٹ کر اپنے پیچھے بستر پر جا کر چت لیٹ گئی۔۔۔۔ کمرے میں اچانک کوئی ہیولہ چلتا ہوا اسکے اوپر جھک گیا تیز گرم سانسیں اسے اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
اس سے قبل وہ ہیولہ اسکی گردن کو نوچ لیتا دروازہ زور سے بجا دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوکر سب نارمل ہوگیا جیسے کسی بھی پراسرار چیز کا کوئی وجود سرے سے تھا ہی نہیں۔۔
اگلے دن اسکی آنکھ کھلی تو انگڑائی لے کر بستر سے اتر کر باتھروم کی طرف بڑھ گئی رات کا واقع جیسے یاد ہی نہیں تھا۔۔۔ جسم بری طرح درد سے ٹوٹ رہا تھا کتنی ہی دیر وہ شاور کھولے آنکھوں کو موندے گرم پانی کے نیچے کھڑی رہی۔۔۔۔اچانک شاور سے لمبے لمبے بال پانی کے ساتھ نیچے کی طرف آتے اسکے چہرے سے ہوتے پورے جسم پر پھیلنے لگے۔۔۔گھبرا کر پٹ سے میسا نے اپنی آنکھیں کھول کر خود کو جھرجھری لیکر جھٹک کر دیکھا ۔۔۔
"ہاہ!!!! لمبی پرسکون سانس لیکر ٹیب بند کرتی باتھ گاؤں پہن کر واشروم سے باہر آئی جہاں اسکی ماما پہلے سے ہی موجود تھیں۔۔
"میسا تمہاری گردن پے کیا ہوا ہے۔۔۔ مرتہ بیگم کی نظر جیسے ہی اسکی صراحی دار گردن پر پڑی تو پریشانی سے اسکی طرف آکر دیکھنے لگیں جہاں کوئی زخم کا نام و نشان نہیں تھا۔۔
"ماما آئی ایم اوکے۔۔۔۔وہ مسکرا کر اپنی ماں کو دیکھنے لگی۔۔۔میسا کے مسکرانے سے دونوں گالوں پے گڑھے بنے جس کی وجہ سے وہ اور حسین لگنے لگتی تھی لیکن مرتہ کو جانے کیوں اسکے مسکرانے سے خوف سا آتا تھا یہ بھی کچھ مہینے سے ہی مرتہ کو محسوس ہونے لگا تھا۔۔
"ٹھیک ہے میسا لیکن اس میں مسکرانے والی کیا بات ہے جاؤ کپڑے چینج کر کے لاؤنج میں آؤ تمھارے بابا کب سے تمہارا ناشتے پر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔مرتہ سنجیدگی سے اسے ٹوکتیں کمرے سے نکل گئیں
جب کے وہ گہری سانس بھرتی وارڈروب کی طرف بڑھی
کچھ ہی دیر میں وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کا مکمل جائزہ لے رہی تھی
جب اسے محسوس ہوا کھڑکی کے ساتھ کوئی چپک کر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
میسا نے آہستہ سے سر گھما کر دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا جلدی سے سر جھٹک کر وہ کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔
"میسا تمہیں امی بلا رہی ہیں۔۔۔۔میسا جو گھر سے کالج کے لیے نکل رہی تھی سات کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھا جو اسکے دیکھنے پر منہ پھیرتی اپنے کمرے کی طرف نکل گئی تھی۔۔۔
میسا اسے جاتا دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر اپنی تائی کے کمرے کی طرف چل دی۔۔
اجازت ملتے ہی وہ اندر بڑھی جہاں بھاری وجود کی عورت شکل سے ہی خرانٹ لگتی تھی مگر انکا شیریں لہجہ انکی شخصیت سے میل نہیں کھاتا تھا۔۔۔ میسا کو دیکھتے ہی کرنا بیگم مسکرائیں۔۔
"ہاں میسا آؤ۔۔۔ تم کالج جا رہی ہو۔۔۔
"جی ہاں۔۔۔ آپ کو کوئی کام تھا
"ہاں آج شام کو کچھ لوگ آرہے ہیں سات کو دیکھنے اگر تمہیں برا نہ لگے تو اپنے کمرے سے مت نکلنا پلیز یا اگر تم کالج سے ہی کسی فرینڈ کے ساتھ مووی دیکھنے چلی جاؤ میں تمہیں پیسے بھی دے دیتی ہوں۔۔۔
"نہیں تائی اس کی ضرورت نہیں ہے موویز دیکھنا مجھے پسند نہیں ہے اور سینما جا کر دو ڈھائی گھنٹے ایک ہی جگہ بیٹھے رہنا یہ مجھے سب سے بیکار لگتا ہے پتہ نہیں لوگ کیسے اتنی دیر ایک ہی سیٹ پر جمے رہتے ہیں اینی ویز میں اپنے کمرے سے نہیں نکلونگی آپ بے فکر رہیں۔۔۔۔ چلتی ہوں اللّه حافظ۔۔۔ سپاٹ لہجے میں اپنی بات مکمّل کرتی میسا کمرے سے نکل گئی۔۔
میسا سیڑیاں اتر رہی تھی جب اپنے دائیں طرف سلاخوں والے سیاہ گیٹ کی طرف دیکھا آخری سٹیپ اتر کر گیٹ کے قریب گئی اندر پورا اسکول خالی تھا جو آج بند تھا دھوپ اور روشنی چھن چھن کر اندر پڑ رہی تھی۔۔۔۔ جب اچانک اسے یوں محسوس ہوا کوئی کلاس سے نکل کر بھاگا ہے ۔۔ میسا تیزی سے نیچے اتر کر بیرونی گیٹ سے نکل گئی۔۔۔
اس کے دو منٹ بعد ہی گیٹ کھول کر کالے رنگ والا لال انگارہ ہوتی آنکھوں۔۔۔۔۔ بڑا سا کتا نکل کر غائب ہوگیا۔۔۔
تیز تیز چلتی وہ کالج کی طرف جا رہی تھی انکے گھر سے کالج زیادہ دور نہیں تھا وہ ہمیشہ نقاب کر کے پیدل ہی چل کر گرلز کالج جاتی تھی۔۔نقاب کا شوق بھی اسے دوستوں کو دیکھ کر چڑھا تھا۔۔۔
"تم پریشان ہو؟ میسا کی دوست (سارا ) نے اسکے ساتھ بینچ پر بیٹھ کر پوچھا۔۔
"ہاں شاید۔۔۔کل پھر مجھے عجیب خواب آیا لیکن ایسا لگتا ہے جیسے وہ خواب نہیں حقیقت ہو۔۔۔۔سارا کہیں مجھے نیند میں چلنے کی بیماری تو نہیں ہے؟
میسا نے الجھ کر اس سے پوچھا جو اسکول سے اسکے ساتھ ساتھ تھی۔۔
"ہمم ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ ویسے اگر ایسا ہے تو تمہیں علاج کروانا چاہیے۔۔۔سارا نے کندھے اچکائے۔۔
جب کے میسا سوچ میں پڑ گئی
چھٹی کے بعد واپسی پر سڑک سنسان پڑی ہوئی تھی یا اسکے لئے تھی۔۔۔
کچھ دیر ہی چلی ہوگی جب میسا کو کسی لڑکی کے رونے کی آواز آئی۔۔ اس کے قدم یَکدم رکے پلٹ کر دائیں طرف دیکھا جہاں ایک لڑکی سپاٹ چہرے سے اسی پر نظریں مرکوز کے کھڑی تھی لیکن جو چیز میسا کو خوفزدہ کر گئی تھی وہ اسکی آنکھیں تھیں جسکے سیاہ بڑے بڑے ڈیلے کسی ڈائن کی طرح لگ رہے تھے
میسا کے دیکھنے پر وہ لڑکی اسی طرح دیکھتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر اسکی طرف بڑھنے لگی۔ . دیکھتے ہی دیکھتے وہ قریب آتی کالے دھویں میں بدل کر غائب ہوگئی۔۔
میسا کا سر چکرا کر رہ گیا۔۔۔
جانے کچھ مہینے سے روز اسکے ساتھ پراسرار سے واقع ہو رہے ہیں جن کا چاہنے کے باوجود وہ اپنی ماں سے تذکرہ نہیں کر پا رہی۔۔۔
اسد اور سیف دو بھائی تھے۔۔۔حیدرآباد کے پوش علاقے میں ساتھ رہتے تھے۔۔۔۔ ڈبل اسٹوری یہ گھر جہاں نیچے اسکول تھا۔۔۔جب کے اوپر وہ لوگ رہائش پذیر تھے۔۔۔
اسد اور کرنا کی ایک ہی بیٹی تھی سات جب کے ایک بیٹا جو پڑھائی کے لئے ملک سے باہر گیا ہوا تھا ایان
سیف اور مرتہ جن کی اکلوتی اولاد میسا تھی جو شادی کے پانچ سال بعد ہوئی تھی۔
کرنا بیگم اپنی بیٹی کی شادی کو لیکر آٙئے دن پریشان رہتیں کیوں کے جو بھی سات کو دیکھنے آتا میسا کو پسند کرلیتا۔۔۔ یہی وجہ تھی کرنا بیگم اسے گھر آنے سے منع کر رہی تھیں۔
"میسا کیا بات ہے نہ سلام نہ دعا اوپر سے اتنی دیر سے کیوں آئی ہو۔۔مرتہ بیگم اسے سیدھا کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر ڈانٹتے ہوۓ بولیں۔۔
"ماما سر میں درد ہے سونا چاہتی ہوں۔۔۔میسا، مرتہ بیگم کی طرف دیکھے بغیر کہتی تیزی سے کمرے میں چلی گئی۔۔
"یہ کس طرح بات کر کے گئی ہے آپ سے چاچی توبہ میں نے آج تک امی سے اس طرح بات نہیں کی چاہے میرے سر میں جتنا بھی درد ہو اف ابھی سے اس طرح کی ہے آگے اللّه بچائے۔۔۔ سات جو صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی آنکھیں گھما کر لہک لہک کر کہتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔
مرتہ بیگم حیران تھیں میسا نے کبھی اس طرح بات نہیں کی تھی اسے تو غصّہ بھی نہیں آتا تھا۔۔
میسا کمرے میں آتے ہی باتھروم میں گھس گئی…کچھ دیر بعد بالوں کو تولئے سے باندھے باہر نکل کر ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ایک جھٹکے سے تولئے کو اتار کر قالین پر چھوڑ کر آیئنے میں خود کو غور سے دیکھنے لگی گرے ڈیلے سیاہ ہوتے محسوس ہوئے قریب ہو کر دیکھنے لگی لیکن آنکھوں کا اصل رنگ (گرے ) دیکھ کر ایک بار آنکھیں کو سختی سے بند کر کے کھولا۔۔۔
"اففف لگتا ہے سر میں زیادہ ہی درد ہو رہا ہے۔۔۔ میسا سر جھٹک کر سیدھی ہوتی بیڈ پر جاکر لیٹی یکدم جھٹکے سے اٹھی اسے لگا جیسے کوئی اسکے اوپر گرا ہو۔۔۔تھوڑی دیر اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ کر آنکھیں موند گئی۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد مرتہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں میسا کو گہری نیند میں دیکھ کر گہری سانس بھرتیں واپس چلی گئیں
کیا بات ہے کہاں جا رہی ہو ؟ سیف صاحب نے لیٹتے ہوۓ مرتہ بیگم سے کہا جو اٹھ کر کمرے سے جا رہی تھیں۔۔
"میسا کو دیکھنے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا مغرب سے سو رہی ہے گیارہ بج رہے ہیں ہوسکتا ہے اٹھ گئی ہو۔۔۔
مرتہ بیگم جواب دے کر نکل گئیں۔۔۔پانچ منٹ ہی گزرے تھے جب مرتہ بیگم گھبراتے ھوے کمرے میں آئیں۔۔۔
"میسا کمرے میں نہیں ہے میں نے باتھ روم بالکنی ہر جگہ دیکھ لیا۔۔۔
"سات کے کمرے میں ہو شاید۔۔ سیف صاحب نے بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"میں دیکھتی ہوں۔۔۔ مرتہ بیگم سوچتے ہوۓ کہ کر سات کے کمرے کی طرف بڑھنے لگیں جب گھر کا دروازہ تھوڑا سا کھولا ہوا نظر آیا۔۔ مرتہ بیگم حیران ہوتیں کمرے کی طرف جانے کہ بجائے گیٹ سے نکل کر زینہ اتر کر نیچے جانے لگیں لیکن نیچے پہنچنے سے پہلے ہی انکے قدم زمین میں گڑھ گئے۔۔۔ آنکھیں پھیل گئِں۔۔۔ اس سے پہلے میسا انہیں دیکھتی مرتہ بیگم لرزتے دل کے ساتھ اپنے قدموں کو حرکت دیتیں چھپنے کے لیے پیچھے ہونے لگیں لیکن چاہنے کے باوجود وہ ایک قدم الٹا لیکر دوسرا قدم نا اٹھا سکیں۔۔۔
میسا نے آہستہ آہستہ گردن گھوما کر سرد نظروں سے انہیں دیکھا
"م می میسا کک کیا کر رہی ہو یہاں۔۔۔ مرتہ بیگم بمشکل ہمت کرتیں زور سے بولنے لگی لیکن آواز جیسے صرف اپنے آپ کو ہی سنائی دی جب کے میسا مسکرائی وہی پر اسرار سی مسکراہٹ۔۔
مرتہ بیگم کو جب کچھ سمجھ نہ آیا تو آیت الکرسی پڑھنے لگیں۔۔۔
"ماما!!!۔۔۔۔۔ میسا زور سے چیختے ہوئے اٹھ کر اوپر انکی طرف آنے لگی۔۔۔
مرتہ بیگم کی زبان تالو سے جا لگی۔۔۔
"گھر میں سب سو گئے تھے تبھی یہاں آگئی تھی چلیں اب۔۔۔ سپاٹ لہجے میں کہتی میسا اوپر چڑھتی چلی گئی جب کے مرتہ بیگم ویسے ہی کھڑی رہ گئیں۔۔
اگلے دن اتوار تھا اس لئے سب گھر پر ہی تھے جب اچانک ہی سات کا ہونے والا منگیتر اور ساس آگئے۔۔۔ کرنا بیگم بوکھلا گئیں۔۔۔
سب سے پہلا خیال انہیں میسا کا آیا وہ بلکل نہیں چاہتی تھیں سات کے سسرال کا کوئی بھی فرد اس سے ملے جب تک شادی نہیں ہوجاتی۔۔
اس سے قبل وہ کمرے میں جاتیں میسا شب خوابی کے لباس میں ہی آنکھیں مسلتی لاؤنج میں داخل ہوئی۔۔۔کرنا بیگم کا اسے دیکھ کر خون کھول گیا۔۔۔۔
دانش جو سات کو دیکھ رہا تھا یکدم نظر اس پر پڑی تو دیکھتا چلا گیا۔۔ لاپرواہ حسن اسکی نظروں میں قید ہوتا چلا گیا۔۔
مرتہ بیگم اپنی بیٹی کو دیکھ کر شرمندہ ہوگئیں۔۔
زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اسکا تعارف کروایا میسا کی تو جیسے ساری نیند ہی اڑ گئی اسکے تو سر میں شدید درد تھا تبھی جاگتے ہی سیدھا لاؤنج میں آگئی تھی۔۔۔
جتنی دیر وہ بیٹھی رہی دانش اسے ہی دیکھتا رہا۔۔۔ سات کا بس نہیں چل رہا تھا دانش کے سامنے بیٹھی اپنی کزن کو غائب کردے
کرنا بیگم کو جو ڈر تھا وہی ہوا دانش کے گھر والوں نے کال کر کے کرنا بیگم کو کہا دوسری لڑکی کیوں چھپائی گئی ساتھ ہی سات سے رشتہ توڑ کر میسا کے لئے کہا کرنا بیگم تو سنتے ہی پھٹ پڑیں اچھی خاصی بھڑاس نکال کر کال کاٹ کر میسا کے روم کی طرف بڑھیں اندر داخل ہونے سے پہلے ہی روک کر کچھ سوچتے شیطانیات سے دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔۔
سب رشتہ ختم ہونے پر سات کو اور خود کو تسلی دینے لگے۔۔جب کے میسا کو سات کے لئے دکھ ہوا جب کے ان لوگوں پر شدید غصّہ آیا۔۔۔
کھانے کا وقت تھا مرتہ بیگم ڈش میز پر رکھتے ہوۓ سات کو آتا دیکھ کر میسا کو بلانے کا کہ کر سیف صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئیں۔۔
سات نے منہ بنا کر دروازے پر نوک کیا دو بار نوک کرنے کے باوجود کوئی جواب نہ ملا تو آنکھیں گھوما کر اندر داخل ہوئی لیکن سامنے کا منظر دیکھتے ہی اسکے پیر زمین میں جم کر رہ گئے۔۔۔
دروازہ کھولنے کی آواز پر میسا جو قالین پر سر جھکا کر بیٹھی ہاتھ میں بڑا سا چاقو لیے اپنے ہاتھ پر کٹ لگا کر ہنس رہی تھی روک کر سر گھما کر دروازے کے سامنے کھڑی سات کو دیکھ کر مسکرائی۔۔
"تم کیا کرنے آئی ہو یہاں؟ میسا نے یَکدم بھاری آواز میں اس سے پوچھا تھا بظاہر تو چہرے پر کوئی ایسے خوفناک تاثرات نہ تھے لیکن اسکی مسکراہٹ اور آواز سے سات کا دل کانپ گیا تھا ۔۔۔
"میسا۔۔۔آواز ہلک میں اٹک کر رہ گئی جب کے میسا زور سے قہقہ لگا کر ہنسی۔۔۔
سات اسکے قہقہ کو سن کر کانپ کر پورے قد سے نیچے گری۔۔
یکدم جیسے میسا نیند سے جاگی ہاتھ میں خون والا چاقو اور اپنے ہاتھ کو زخمی دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی۔۔۔تیزی سے ہاتھ سے چاقو نیچے پھینک کر باتھروم کی طرف بھاگی۔۔۔
کرنا بیگم نے جیسے ہی دروازہ کھولا اپنی بیٹی کو زمین پر گرا دیکھ کر چیخ مارتی سب کو آوازیں دینے لگیں۔۔
"میسا سات کیا کہ رہی ہے تم اپنے آپ کو کیوں زخمی کر رہی تھی بتاؤ مجھے کچھ دن سے کیا حرکتیں کر رہی ہو تم۔۔
سب سات کے کمرے میں جمع تھے ڈاکٹر چیک کر کے جا چکے تھے۔۔۔
مرتہ بیگم نے انکے جاتے ہی میسا کو کندھوں سے تھام کر جھنجھوڑ ڈالا جو آنکھوں میں نمی لئے خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔
"مجھے کچھ نہیں پتا ماما میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے میں سچ کہ رہی ہوں میرا یقین کریں۔۔
میسا پریشانی سے کہ کر اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔۔ اسد اور سیف صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا جو کچھ سمجھ نہیں پارہے تھے۔۔
خاموشی میں اسکی گنگناہٹ پورے اسکول میں گونجھ رہی تھی جو بال کھولے بنا ڈوپٹے زمین پر بچوں کے انداز میں گھپ اندھیرے میں بیٹھی ہل ہل کر گنگنانے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔
ہر طرف ہو کا عالم تھا یکدم دور کلاس کا دروازہ چرچرایا ساتھ ہی کسی چیز کے گھسیٹنے کی آواز نے اسکی گنگناہٹ روکی بہت آہستہ سے وہ کھڑی ہوئی جب زینے سے چڑھ کر کُتا بھونکتا ہوا اندر آیا۔۔۔
میسا نے . غرا کر اس پر حملہ کیا کلاس کا دروازہ دھاڑ کر کے کھولا اور پھر بند ہوا.
کچھ ہی لمحوں میں وہاں خاموشی کے ساتھ خون کی بدبو پھیل گئی۔۔۔
صبح ہوتے ہی اسکی آنکھ کھلی اٹھ کر دونوں ہاتھوں سے بالوں کو لپیٹ کر اٹھ کر باتھروم کی جانب بڑھی۔۔۔
منہ دھونے کے لئے جیسے ہی نل کھول کے چہرے پر چھینٹا مار کر دوبارہ ہاتھ نل کے نیچے کیا ہاتھوں میں بال اور خون جما ہوگیا۔۔۔ دلخراش چیخ کر ساتھ دونوں ہاتھوں کو جھٹک کر تڑپ کر پیچھے ہوتی کپکپاتے ہاتھوں کو دیکھا تو سن ہوگئی۔۔۔
ہاتھ ہر چیز سے پاک تھے۔۔۔
خوف کے مارے وہ جلدی سے باتھروم سے نکل گئی۔۔۔۔
کمرہ لاک کر کے شب خوابی کا لباس بدلنے لگی جب اسے محسوس ہوا کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔
ہاتھ میں تھامی قمیض کو سختی سے پکڑے وہ چاروں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی۔۔۔
اچھے سے تسلی کر کے جلدی سے قمیض پہن کر جیسے ہی لاونج میں آئی۔۔۔۔۔جہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔
ابھی وہ آواز دینے کا سوچ ہی رہی تھی جب گھر کے دروازے سے سیف صاحب اور مرتہ بیگم کو آتے دیکھا۔۔۔
"ماما کیا ہوا آپ سب اس وقت کہاں چلے گئے تھے؟
"نیچے پرینسپل کے پاس سے آرہے ہیں ۔۔ گیٹ کے اندر سامنے ہی کُتا مرا ہوا تھا اففف جانے کب مرا بیچارہ وہ تو شکر تھا آج اسکول بند نہیں تھا ورنہ تو کیڑے کھا جاتے پورا۔۔۔ مرتہ بیگم جھرجھری لیتیں بتا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں جب کے میسا انہیں جاتا دیکھتی رہی۔۔۔
دو دن پرسکون گزرے نا تو میسا کو صبح اٹھتے جسم میں درد ہوتا نہ ہی کوئی پراسرار حرکت ہوئی۔۔۔۔
"میسا سات کو پانی دے آؤ۔۔ کرنا بیگم صوفے پر بیٹھیں اسے آتے دیکھ کر بولیں۔۔ میسا سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
"آجاؤ۔۔۔ سات بیڈ پر بیٹھی فرنچ فرائز کی فل سائز کی پلیٹ ہاتھ میں پکڑے مووی دیکھتے ہوۓ کھانے میں مشغول تھی۔۔۔
"سات آپی پانی لائی ہوں۔۔۔میسا آگے بڑھ کر سائیڈ ٹیبل پر گلاس رکھتے ہوۓ بولی ۔۔
سات نے پلیٹ نیچے رکھ کر گلاس اٹھا کر گلاس کو منہ سے لگایا نظریں مووی پر مرکوز تھیں یکدم تڑپ کر سات نے گلاس کو قالین پر پھنک کر قہہ کرنے لگی ۔۔
اچانک میسا پراسرار طریقے سے مسکرائی آنکھیں کا ڈیلا سیاہ ہوکے واپس اپنے اصل رنگ میں بدلہ۔۔
میسا نے فرش پر گرے گلاس کو دیکھا جس میں بے تحاشا بال تھے۔
امی امی۔۔۔۔بچائیں امی امی۔۔۔سات نے فرش پر گرے گلاس کو دیکھا تو ڈر کر اپنی ماں کو آوازیں دینے لگی۔۔۔
کرنا بیگم جلدی سے اندر آئیں پیچھے ہی مرتہ بیگم بھی ساتھ ہی انکے آئیں۔۔۔۔۔
"کیا ہوا سات ایسے کیوں چلّا رہی ہو؟
"امی اس نے۔۔۔۔اس نے مجھے پانی میں بال بھر کر دیے یہ لڑکی پاگل ہوچکی ہے اس دن اپنے آپ کو زخمی کر کے خوش ہو رہی تھی آج ابھی مجھے اس نے جانے کون سا کالا جادو کر کے مجھے بالوں سے بھرا پانی پلایا اخخخ۔۔۔۔
سات اپنی ماں کو دیکھ کر سب بتانے لگی مرتہ بیگم اپنی بیٹی کو دیکھنے لگیں جو خود حیران و پریشان اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
"کہاں ہے گلاس ؟ مرتہ بیگم نے یکدم پوچھا۔۔
"وہ رہا۔۔۔۔سات نے ہاتھ کے اشارے سے گلاس کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
مرتہ بیگم نے گلاس جیسے ہی اٹھا کر دیکھا جہاں بالوں کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔
سات تو دیکھتے ہی آنکھیں جھپکنا بھول گئی۔۔
جب کے میسا ناسمجھی سے کھڑی رہی۔۔۔
"میسا سات تمھارے برابر کی ہے جو اسکے ساتھ اس طرح کا مذاق کر رہی ہو معافی مانگو۔۔۔مرتہ بیگم نے بازو پکڑ کر سخت لہجے میں کہا۔۔۔
"میری کیا غلطی ہے اور جب وہ میرے برابر کی ہیں ہی نہیں تو میں کیوں کرونگی مذاق۔۔۔ میسا چڑ کر کہتی بازو چھڑوا کر کمرے سے نکل گئی۔۔۔
"دیکھا اسکے تیور دن با دن بدتمیز ہوتی جارہی ہے.۔۔۔کرنا بیگم غصّے سے بول کر گلاس اٹھانے لگی لیکن خالی گلاس کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔۔۔
"مرتہ بیگم نے سلگتی ہوئی نظر سات پر ڈالی۔۔۔
"تم سے ایسی امید نہیں تھی۔ مرتہ بیگم چبا کر کہتیں کمرے سے نکل گئیں۔۔
بارہ بجے کا وقت تھا میسا کا کل ٹیسٹ تھا اسلئے وہ لاؤنج میں ہی بیٹھی پڑھ رہی تھی جب کے سب کمرے میں سونے جا چکے تھے۔۔
اچانک خاموش فضا میں دروازہ زوردار آواز میں دروازہ کھولنے اور بند ہونے کی آواز گونجی اچانک ہونے والی آواز پر میسا کی انگلیوں میں دبا پین چھوٹ گیا۔۔۔
گھبرا کر اس نے دروازہ کی طرف دیکھا یکدم دوبارہ دروازہ کھول اور بند ہوا۔۔۔ میسا ڈر کر اٹھ گئی۔۔۔
اس سے پہلے وہ کمرے میں جاتی دروازہ کے پار کسی لڑکی کے تڑپ تڑپ کر رونے کی آواز آرہی تھی ۔۔۔
خوف سے وہ اپنی جگہ سے حل نہ سکی لڑکی کے رونے کی آواز بھاری سے بھاری ہوتی چلی گئی میسا کا خون خشک ہوگیا۔۔۔
دھاڑ سے آواز کے ساتھ کوئی اسکے آرپار ہوا زور دار کھٹکا لگنے سے وہ لڑکھڑائی ہمت کرتی اپنے کمرے میں جاکر بند ہوگئی۔۔۔۔
میسا صبح اٹھی تو وہی درد جسم میں محسوس ہوا انگڑائی لیکر جیسے ہی وہ اٹھی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں سامنے ہو اسکی ماں خون سے لت پت صوفے پر پڑی ہوئی تھیں پورا چہرہ خون سے بھرا ہوا پورے جسم پر خون سے کپٹرے بھیگے ہوۓ تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے خون سے نہلا دیا ہو۔۔۔
میسا کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی لرزتے وجود کے ساتھ بیڈ سے نیچے اتری جب پیروں کے نیچے گیلا گیلا محسوس ہوا آہستہ سے سر جھکا کر اپنے پیروں کی۔ طرف دیکھ کر ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔۔
ہر طرف خون ہی خون تھا اپنی ماں کی حالت دیکھ کر اسکے آنسوں بھی نہیں نکل پائے۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ قہقہ کی آواز پر میسا نے جھٹکے سے سر اٹھایا سامنے ہی سات کھڑی بڑا سا بیلچہ پکڑے قہقہ لگا رہی تھی بیلچہ بھی خون سے بھرا تھا
سیاہ بڑی آنکھیں اسی کو دیکھ کر ہنس رہی تھی یکدم میسا کو شدید غصّہ عود کر آیا سائیڈ ٹیبل پر شیشے کا بھاری واس اٹھاتے ہی میسا نے اس پر حملہ کر دیا۔۔۔
گھر کے سبھی افراد ٹی وی لاونج میں بیٹھے تھے جب زور زور سے چیخوں کی آواز پر سب سے پہلے مرتہ بیگم میسا کے کمرے کی طرف بھاگیں۔۔
"دروازہ کھولتے ہی سب لرز کر رہ گئے میسا جنونی طریقے سے سات کو بری طرح زخمی کر چکی تھی جب کے سات کا سر پھٹنے سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔۔۔
"ہائے میری بچی مار دی کوئی بچاؤ میری بیٹی کو۔۔۔ بچاؤ کوئی بچاؤ۔۔۔ کرنا بیگم سینہ پیٹتیں تڑپ کر چیخ چیخ کر بول رہی تھیں اسد صاحب نے آگے بڑھ کر اسے زبردستی پکڑا جب کے سیف صاحب تو اپنی بیٹی کو پتھرائی آنکھوں سے دیکھنے لگے انھیں اس سے خوف محسوس ہو رہا تھا غصّے سے لال چہرہ عجیب سا ہورہا تھا۔۔
اسد صاحب نے اسے قابو کر کے تھپڑ در تھپڑ مارنے شروع کیے یکدم میسا ہوش میں آئی اپنی ماں کو صحیح سلامت سامنے کھڑا دیکھ کر آنکھیں جھپکنا بھول گئی۔۔
سات کو جلدی سے سب ہسپتال لیکر جانے لگے لیکن راستے میں ہی اسکی ڈیتھ ہوگئی ایک قیامت تھی جو انکے سروں پر ٹوٹی تھی۔۔۔
کرنا بیگم غم و غصّے میں پاگل ہوگئیں تھیں۔۔۔جب کے میسا کو کمرے میں لاک کر کے گئے تھے جو سرک کر نیچے قالین پر بیٹھی دونوں ہاتھوں کو ٹانگوں کے گرد باندھے سمٹ کر بیٹھی ہوئی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی سات کا خون اسکے دونوں ہاتھوں پر لگا ہوا تھا میسا دیکھتے دیکھتے اچانک رونے لگی اس نے اپنی کزن کو مار ڈالا۔۔۔ آواز سے روتی وہ پاگلوں کی طرح خود کو مارنے لگی یکدم اسکی نظر بیڈ کی دوسری طرف اٹھی کالی سیاہ آنکھوں والی لڑکی اسی کی طرح بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔۔
میسا کے رونے میں شدّت آنے لگی سامنے بیٹھی لڑکی کا چہرہ بدلنے لگا دیکھتے ہی دیکھتے لڑکی بھیانک ہوتی۔ چلی گئی میسا تیزی سے لڑکھڑا کر کانپتی ٹانگوں کے ساتھ بھاگتی دروازہ پیٹنے لگی۔۔۔
کھولو۔۔۔۔ بچاؤ مجھے وہ وہ مجھے مار دے گی ۔۔۔میسا کی آواز پھٹ رہی تھی
دروازہ پیٹ پیٹ اسکے ہاتھ سرخ ہو چکے تھے جب کان کے قریب سرگوشی سن کر اسے کرونگتے کھڑے ہوگئیے
"میں تمہیں ساتھ لے جاؤں گا۔۔۔۔بھاری خوفناک سرگوشی ہوئی میسا گرتی اس سے پہلے ہی دروازہ کھول کر کرنا بیگم اندر آئیں کسی چیل کی طرح اسکے اوپر حملہ کر بیٹھیں۔۔۔
کرنا بیگم اندر آتے ہی لگاتار اسکے چہرے پر اپنے بھاری ہاتھ سے تھپڑوں کی بارش کر رہی تھیں۔۔۔
میسا جس کی جان ویسے ہی لڑکی کو دیکھ کر آدھی ہوگئی تھی اچانک ہی بھاری ہاتھ پڑنے سے خود کو بچا نہیں پا رہی تھی۔۔
مرتہ بیگم روتی ہوئی اسے بچانے بڑھیں۔۔۔
"مت ماریں چھوڑ دیں پلیز چھوڑ دیں۔۔۔ مرتہ بیگم بچاتے ہوۓ رو رو کر کہ رہی تھیں جب کے کرنا بیگم ایک ہی بات دوہرا رہی تھیں۔۔۔ "میری بیٹی کو مار دیا اس پاگل نے'”
کرنا بیگم نے اسکے بالوں کو اپنی سخت گرفت میں جکڑا اور کمرے سے اسی طرف گھسیٹ کر باہر لیکر جانے لگیں ایک کہرام برپا ہوا تھا گھر میں میسا تکلیف سے چیخ رہی تھی۔۔۔ مرتہ بیگم اپنی نازک سی بیٹی کو بچانے میں لگی ہوئی تھیں۔۔۔ یکدم ہی سیف صاحب اندر داخل ہوۓ۔۔۔ سامنے کا منظر دیکھ کر جلدی سے آگے بڑھ کر چھڑوایا میسا تڑپ کر رو رہی تھی۔۔
"میری بیٹی کو مار دیا اس بدذات نے کیا بگاڑا تھا اس نے تیرا۔۔۔۔کرنا بیگم غم و غصّے سے چیخ رہی تھیں میسا بری طرح روتی اپنے باپ کے پیچھے چھپ گئی جو بےبس تھے کیوں کے میسا کو خود سب نے اپنی آنکھوں سے پاگلوں کی طرح سات کو مارتے دیکھا تھا۔۔۔مرتہ بیگم کا دل پھٹنے کو آگیا میسا کی حالت دیکھ کر جسے کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا تھا آج اسکی یہ حالت تھی ہونٹ پھٹے گال اور پیشانی سوجی ہوئی تھی۔۔۔
"کیوں کیا میسا ایسی کیا بات ہوئی تھی بتاؤ۔۔۔مرتہ بیگم نے جھنجھوڑتے ہوۓ کہا جو کچھ بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی اچانک میسا یر کپکپاہٹ طاری ہوئی کرنا بیگم کے تڑپ تڑپ کے رونے میں قہقہے گونجنے لگے۔۔۔ مرتہ بیگم کے ساتھ سیف صاحب بھی اپنی بیٹی کو دیکھنے لگے جو اتنا پیٹنے کے بعد قہقہ لگا رہی تھی کرنا بیگم بھی اپنا رونا بھول کر اسے خوف سے دیکھنے لگیں۔۔ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔۔۔
"قہقہے لگاتے لگاتے میسا تیزی سے کمرے کی طرف بھاگی۔۔
"میسا!!! سیف پیچھے بھاگے
اندر کا منظر دیکھ کر ساکت ہوگئے میسا اسٹدی ٹیبل سے لیمپ اٹھا کر تار کو دانتوں سے کاٹ رہی تھی۔۔
"یہ یہ پاگل ہوگئی ہے سیف۔۔۔ مرتہ بیگم خوف سے بولیں جو اب تار کاٹ کر ہر چیز کو قہقہے لگا کر زمین بوس کر رہی تھی
"مار دیا اسے میں نے ہاہاہا مار دیا۔۔ قہقہے لگانے کے ساتھ میسا زور زور سے بول رہی تھی دونوں دروازے کے پاس کھڑے برستی آنکھوں سے اپنی سترہ سالہ بیٹی کو دیکھ رہے تھے مرتہ بیگم کا تو دماغ ہی سن ہوچکا تھا میسا کی حرکتیں کافی پراسرار ہو رہی تھیں کاش وہ پہلے ہی اپنے شوہر سے اس بارے میں بات کرلیتیں تو شاید آج ایسا نا ہوتا۔۔۔
مرتہ بیگم روتے ہوۓ سیف صاحب کے بازو کو تھام کر آنکھیں میچے رونے لگیں جو اپنی بیٹی کم ایک پاگل کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
سات کا جنازہ گھر آچکا تھا جوان مرگ پر ہر آنکھ اشک سے لبریز تھی کرنا بیگم جو اپنی بیٹی کو دلہن کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں سفید کفن میں دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر سینہ کوپی کر رہی تھی جب کے مرتہ بیگم بھی سات کو دیکھ کر ضبط کھو بیٹھیں۔۔۔
دوسری طرف میسا زمین پر بچوں کی طرح لیٹی چھت پر نظریں مرکوز کیے ہوۓ تھی کبھی ہستی کبھی گھورتی۔۔۔
یکدم کمرے میں خون کی بو آنے لگی میسا نے آہستگی سے سر گھوما کر کمرے کے کونے میں دیکھا جہاں وہی ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تیز تیز کچھ پڑھ رہا تھا۔۔
میسا اسکے ہلتے ہونٹوں پر نظریں مرکوز کیے دیکھتی رہی جب کمرے میں بھاری قدموں کی دھمک سنائی دینے لگی۔۔
میسا درد سے کراہ کر اپنے حواس میں آتی اپنے ارد دیکھ کر خوف سے چلانے لگی ٹانگوں سے جیسے جان نکلنے لگی جب خون کی بوند آکر اسکے چہرے پر گری۔۔۔آدمی کی بھنبھناہٹ کانوں میں تیز ہوتی چلی گئی میسا زبان کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگی جب یوں محسوس ہوا منہ میں زبان نہیں ہے ہاتھ اٹھا کر دیکھنا چاہا جب ہاتھوں کو سن پایا۔۔
سات کو تدفین کے لئے لے جایا گیا کرنا بیگم کو اس پڑوس کی عورتیں سمبھال رہی تھیں۔۔
تدفین کے بعد گھر آئے جب کرنا بیگم نے اپنی بیٹی کے مجرم کو پولیس کے حوالے کرنے کو کہا۔۔
"جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا مجھے لگتا ہے میسا بیمار ہے ورنہ وہ یہ سب کبھی نہیں کرتی۔۔
"بیمار ؟ میری بیٹی کو بے رحمی سے مار دیا اور تم کہ رہے ہو وہ بیمار ہے معاف کرنا لیکن میسا نے جو کیا ہے اسے سزا ضرور ملے گی چاہے وہ بیمار ہو یا پاگل۔۔۔سیف صاحب کی بات سن کر اسد صاحب غصّے میں بولتے کال کرنے لگے مرتہ بیگم زاروقطار فرش پر بیٹھتی رونے لگیں۔۔
"میسا یہ کیا کر دیا یہ کیا کردیا۔۔۔ مرتہ بیگم سر پیٹ رہی تھیں۔۔ لاؤنج میں ہی سب کھڑے تھے۔۔۔
دھاڑ سے میسا کے کمرے کا دروازہ کھلا سب نے گھبرا کر درواز ے کی طرف دیکھا جو دوبارہ بند ہوچکا تھا دروازے کے نیچے سے خون بہتے ہوئے نکل رہا تھا
"میسا سیف میسا۔۔۔ مرتہ بیگم چیخ کر بولتی ہوئی اندر بھاگیں۔۔
سناٹے میں دلخراش چیخ کے ساتھ سب اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا
"ایسی کیا بیماری تھی آپ کی بیٹی کو کیا انکا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا؟
"ایسا کچھ نہیں انسپکٹر صاحب ہماری میسا تو بلکل ٹھیک تھی کالج جاتی تھی پڑھتی تھی نارمل تھی بلکل۔۔۔ سیف صاحب مردہ آواز میں بولے۔۔
"ہمم ایک بات سمجھ نہیں آئی آپ کے گھر میں بیلچہ کہاں سے آیا؟ مقتولہ کے والدین کا یہی کہنا ہے انکی بیٹی کو بیلچے سے مارا گیا ہے۔۔۔پوسٹ مارٹم انکے والدین نے ہونے نہیں دیا کے انھیں اپنی بیٹی کی مجرم اور گواہ یہیں ہیں کہیں ایسا تو نہیں آپ نے اپنی بیٹی کو خود مار دیا ہو۔۔۔
انسپکٹر مشکوک نظروں سے دیکھتا پوچھنے لگا۔۔۔
"ہم اتنے بغیرت نہیں ہیں
"لیکن آپ کی بیٹی نے ثبوت دیا ہے سیف صاحب اپنی کزن کو قتل کر کے خود کو پنکھے میں تار ڈال کر اپنے آپ کو مار ڈالا آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔۔۔
"دیکھیں ہمیں کچھ نہیں پتہ وہ کچھ دنوں سے پراسرار حرکتیں کر رہی تھی مجھے لگا ایسا کوئی مسلئہ نہیں ہے لیکن میں غلط تھی اس کے دماغ میں جانے کیا چل رہا تھا۔۔۔ مرتہ بیگم نے روتے ہوۓ سب بتانا شروع کر دیا سیف صاحب اپنی بیوی کو غصّے اور صدمے سے دیکھ رہے تھے کاش تو اسکی طرف سے اتنی لاپرواہی نہ برتتی تو شاید کچھ بھی ایسا نہ ہوتا۔۔
وقت کی رفتار اسی تیزی سے چلتی رہی۔۔۔۔میسا کے خود کو مار لینے سے کیس نہیں ہوسکا ہاں اتنا ضرور ہوا مرتہ کے اسکے بارے میں بتائی گئی باتوں سے لوگ میسا کو پاگل سمجھنے لگے تو کچھ لوگ میسا کی پراسرار حرکتوں کا سن کر "اس پر کوئی آسیب ہوگا ” کہہ کر باتیں کرتے۔۔۔
مرتہ بیگم کو ایک پل قرار نہیں آتا۔۔
ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے سب خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔۔۔سات کی موت اور میسا کی خود کشی سن کر انکا بیٹا ایک ہفتے کے لئے بیوی بچوں کے ساتھ آ کر چار دن رہ کر واپس چلا گیا تھا۔۔
"سیف۔۔۔اچانک اسد صاحب نے اپنے بھائی کو مخاطب کیا۔۔
"جی کہیں
"جو ہوا اس میں کسی کا قصور نہیں تھا لوگ کیا کہتے ہیں۔ کیا نہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے نا میری سات واپس آسکتی ہے نا ہی میسا۔۔۔اس لئے میں نے کل ہی کرنا کو اپنے فیصلے کو آگاہ کر دیا ہے اور تم دونوں کا جاننا بھی ضروری ہے۔۔۔اسد صاحب ٹھہر ٹھہر کر بول رہے تھے سب انکی۔ طرف متوجہ تھے
"میں نے ایک گھر دیکھا ہے ہم دو دن بعد شفٹ ہورہے ہیں
"اسد بھائی۔۔
"میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی ۔۔ اسد صاحب نے ہاتھ اٹھا کر سیف صاحب سے کہا۔۔
"ہم میں میرا مطلب ہے ہم چاروں۔۔۔ مجھے وحشت ہوتی ہے گھر سے اب ایسا لگتا ہے ارد گرد بہت سی مخلوق ہمارے ساتھ اس گھر میں رہ رہی ہیں۔۔۔۔تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔اسد نے کہ کر مرتہ اور سیف کو دیکھا کرنا بیگم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کل ہی تو رات کو کسی چیز کے چبانے کی آواز سے آنکھ کھلی تھی لاؤنج میں دیکھنے گئی تو میسا کے کمرے کا پورا دروازہ کھولا تھا اندر لائٹ جل رہی تھی۔۔۔
اچانک لاؤنج کا ٹی وی اون ہوگیا کرنا بیگم جو کمرے کو دیکھ رہی تھیں ٹی وی کھلنے پر خوف سے اپنے کمرے میں جاکر دوبارہ لیٹ گئیں۔۔۔
ایک مہینے بعد :
گیٹ کھول کر وہ آدمی کے پیچھے چلنے لگیں۔۔ ارد گرد عورتیں دیوار کے ساتھ لگیں بینچوں پر بیٹھیں اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی جب کے وہ کچھ نوٹ ساتھ چلتے آدمی کو دے کر پہلے جا رہی تھیں۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی نیم اندھیرے میں اگربتیوں کی خوشبو نے پورے کمرے کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔۔۔ جگہ جگہ موم بتیاں لگی ہوئی تھیں جو اندھرے کو کم کرنے کا باعث بن رہی تھیں۔۔۔
آؤ۔۔۔ کیسے آنا ہوا۔۔۔ کمرے میں ادھیڑ عمر آدمی کی آواز گونجی جو زمین پر بیٹھا کالے چولے میں اپنے لمبے لمبے بالوں کو پھیلائے کھوپڑیاں َرکھے بیٹھا تھا لکڑی کا زیور َ انگوٹھیاں سجائے کچھ پڑھتا سرمے لگی آنکھوں کو اس پر مرکوز کیے دیکھ رہا تھا۔ ۔
وہ چلتی ہوئیں اس آدمی کے سامنے زمین پر بیٹھی۔۔
"مجھے معلوم ہو چکا ہے تمہارا راستہ اب صاف ہے۔۔۔۔۔ آدمی نے اسکے بیٹھتے ہی کہا جو خاموشی سے اس آدمی کو دیکھ رہی تھی جو آج ایک بھیانک شکل کا لگ رہا تھا کرنا بیگم کا دل کیا کاش وہ اسے بھی مار دیں۔۔
"کیسا کام۔۔۔ آپ نے کہا تھا لڑکی پاگل ہوجائے گی پر اس پاگل لڑکی نے میری بیٹی کو جان سے مار ڈالا اور خود بھی مر گئی جب کے آپ نے کہا تھا آپ کا جادو کبھی ناکام نہیں ہوتا پھر ایسا کیوں ہوا۔۔۔
"مجھے افسوس ہوا۔۔لڑکی پر جن عاشق ہوگیا تھا اپنے ساتھ لے گیا اسے باقی جو تمہاری بیٹی کے ساتھ ہوا ضرور اس۔ شرارتی جن نے کیا ہوگا۔۔۔ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
"یہ کیسا کالا جادو تھا کے ایک جن آپ کے قابو میں نہیں رہا میں کتنی امید سے آئی تھی کے اس لڑکی کو پاگل خانے بھجوا دونگی تاکہ میری بیٹی کو سب دیکھیں پسند کریں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اس آگ میں میری بیٹی جل گئی۔۔۔کرنا بیگم روتے ہوۓ کہہ رہی تھیں۔۔ پھر آنسو پونچھ کر پرس سے چالیس ہزار روپیے نکال کر اس شخص کو دئے جو للچائی ہوئی نظروں سے پیسے دیکھ رہا تھا۔۔
"چلتی ہوں۔۔۔ کرنا بیگم کام کے بعد کے پیسے دینے آئیں تھی شاید وہ نہ دیتیں اگر وہ اپنا مرشد نہ پیچھے لگواتا جو پیسے نہ دینے کا سن کر دھمکی دینے لگا تھا۔۔۔
کرنا بیگم کے نکلتے ہی اس آدمی نے کسی آدمی کو بلایا۔۔
"جی بابا۔۔
"اس عورت کو دوبارہ یہاں آنے مت دینا کہیں اپنی بیٹی کے غم میں آکر ہمارے حلق میں ہی نہ پھنس جائے۔۔ آدمی پیسے کی گڈی کا سونگھتا ایک نوٹ اسے دے کر بولا جو شیطانیت سے مسکرا کر سر ہلا کر باہر نکل گیا تھا. ۔۔۔
کچھ بھی نہیں چاہا تھا بس اپنی اولاد کی خوشیوں کے لئے غلط راستہ ہی تو چُنا تھا جس راستے نے سب سے پہلے اسی کی اولاد کو کھایا تھا۔۔۔
ختم شد!!!