اس کا دوست قادر اس کی ھو ممکن مدد کرنا چاھتا تھا مگر کر نہیں پا رھا تھا اسے کوی اس پاے کابندہ نہیں مل رھا تھا کہ وہ اس مسلے کو حل کر سکے اب تو قادر نے شہر سے باھر بھی لوگوں سے ملنے کی کوشش شروع کر دی تھی وہ لوگ ڈھونڈ رھے تھے اپنے عزیزوں اور ملنے والوں سے کسی ایسے بندے کے بارے میں معلومات لے رھے تھے کہ جو انھیں اس پریشانی سے نجات دلا سکے ..اس کی تلاش جتی تیز ھو رھی تھی مسلہ الجھتا جا رھا تھا اب گھر کے کسی بھی فرد کو ٹچ بھی کر لیا کرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ کسی نے ھاتھ پکڑا ھے پہلے ایسا واقع شمیم کی بیوی کے ساتھ پیش آیا اسے ایسا لگا کہ کسی آگ جیسے گرم پلاس سے اس کے ھاتھ کو کس دیا گیا ھو اس جگہ جلد جل گءی تھی شام کو شمیم گھر آیا تو اس کی بیوی نے اپنا ھاتھ دیکھایا یہ تو کام خراب ھو رھا تھا کیا کیا جاے یا خدا میری مدد کرو وہ خود سے بڑ بڑا رھا تھا اس کا دماغ جیسے بند ھو گیا تھا جام ھو گیا تھا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ھو کر رھ گءی تھی اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رھے تھے ایک سیلاب تھا جو نہ جانے کب سے رکا ھوا تھا وہ واش روم میں چلا گیا اور خاموشی سے اس طوفان کو گزرنے دیا رو کر جب ھلکا ھو گیا تو منہ ھاتھ دھو کر باھر آگیا یہ بچوں کے سامنے روتا تو ان کو تسلی کون دیتا.. آج اس نے بڑے توٹے دل سے خدا کو یاد کیا تھا دل بڑا ھلکا ھوا تھا رات بھر جو چلتا رھا وہ چلا..صبح کو اس نے اللہ کا نام لیا اور گھر سے روانہ ھو گیا وہ دھاڑی دار مزدور آدمی تھا دن بھر محنت مزدوری کرتا رھا کہیں جا نہ سکا…شام کو آیا تو بیوی حد درجہ خوف زدہ تھی اس کے پوچھنے پر بولی…آج مجھے ھاتھ پکڑ کر گھر سے باھر کر دیا تھا اور کہا ھے کہ یہ گھر خالی کردو تم لوگوں کو سناءی نہیں دیتا …ایسا نہ ھو کہ تمھیں پچتانا پڑے… دوپہر کو ارشد کو بھی باھر کر دیا تھا وہ جب سے روے جا رھا ھے بہت ڈر گیا ھے…ھم لوگ سب گھر سے باھر تھے کچھ دیر پہلے تو ھمت کر کے اندر آے ھیں اس کی بیوی نے دن بھر کی داستان سناءی…شمیم یہ سب سن کر بڑا پریشان ھوا ..اور جلد آنے کا کہہ کر باھر چلا گیا..وہ جاتا جا رھا تھا اور کسی معزے کے انتظار میں روے جا رھا تھا کہ اچانک اسے ایک جاننے والا مل گیا حمید اس کے ساتھ پہلے کام کرتا تھا اس کو بھی شمیم کے ساتھ مسلے کا پتہ تھا..شمیم بھاءی کہاں جا رھے ھو.
شمیم نے روتے ھوے آج جو کچھ ھوا حمید کو بتایا…حمید نے تسلی دی اور بولا..چلو ایک بابا ملے ھیں زبردست قسم کے لگتے نہیں ھیں مگر کام میں ان کی گرفت بہت زبردست ھے پکا کام کرتے ھیں میرے ایک دوست نے ان سے کام کروایا تھا لوھا لاٹ کام کیا ھے وہ تو بابا کو دعاءیں دیتا ھے بابا کوءی پیسے نہیں لیتے خلوص نیت سے کام کرتے ھیں گارنٹی سے..چلو چلتے ھیں حمید نے اسے دھکیلتے ھوے کہا…چلو بھاءی شاید ان کے ذریعے میرا مسلہ حل ھو جاے شمیم نے تیز قدموں سے چلتے ھوے کہا..دونوں جلدی میں تھے اور چند منٹ میں بابا کے پاس پہنچ گءے وہ ایک عام انسان تھے کوءی پگڑ نہیں کوءی ھاتھ میں انگھوٹھی نہیں کوءی چھڑی نہیں کوءی عطروں اور اگر بتیوں کی دھونی نہیں بس ایک دوکان کے باھر فرش پر بیٹھے تھے. سلام رعا کے بعد شمیم نے سارا مسلہ بیان کیا اور ان کے جواب کا انتظار کرنے لگا…انھوں نے ایک تسبی پڑھی اور شمیم پر دم کیا اور کہا پریشان کیوں ھوتے ھو اللہ نے فضل کیا ھے سب ختم ھو جاے گا کل بتانا…یہ کہہ کر بابا نے انھیں جانے کا اشارہ کیا ..شمیم نے اپنے دوست حمید سے کہا بھاءی انھوں نے تو کوءی تعویز نہیں ریا..کام کیسے ھو گیا… شمیم بھاءی بے فکر ھو جاءیں بابا بڑے پہنچے ھوے ھیں دیکھنا ضرور فرق پڑے گا…شمیم کو پریشان دیکھ کر حمید اسے چھوڑنے گھر تک گیا… رات کو خاموشی رھی کوءی شور شرابہ کوءی پھتراو نہیں شمیم کو یقین نہیں آرھا تھا کہ پانچ گھنٹے گزر گءے اور کوءی پھتر نہیں آیا..وہ لوگ رات سکون سے سوے کافی دنعں کے بعد ایسا ھوا تھا رات سے صبح ھو گءی کوءی بندہ بھی نظر نہیں آیا نہ پھتر آے شمیم کی خوشی کا ٹھکانہ نا تھا اس کی بیوی بچے بھی خوش تھے اور بابا کو رعاءیں دے رھے تھے…شمیم کام کی تلاش میں چلا گیا اور شام کو آکر حال احوال پوچھا بیوی نے کہا اللہ کا شکر ھے کچھ نہیں ھوا اس نے بھی خدا کا شکر ادا کیا..اس دن کے بعد ان کے گھر میں ایسا کوءی مسلہ پیش نہیں آیا کوءی بندہ بھی نظر نہیں آیا زندگی پرسکون ھو گءی.