میں اس دنیا کا
امیر ترین شخص ہوں۔ اس دنیا میں کسی کے پاس اتنی دولت نہیں جتنی کہ میرے پاس ہے۔ مگر بدقسمتی سے میں اولاد کی دولت سے محروم ہوں۔ میری زندگی کے بعد یہ مال ودولت ضائع ہو جائے گا۔ کیونکہ میں اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکوں گا۔ میں اپنی زندگی میں اس خزانے کو استعمال میں لانا چاہتا ہوں۔ میں اس خزانے کو اپنے علاوہ کسی کو اس کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر فرعون کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ اس کی زندگی میں ہی اس کا مقبرہ تعمیر ہو جائے۔ اسی طرح میں بھی ایک نہایت ہی عالیشان اور مظبوط مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروانا چاہتا ہوں۔ جس میں میری لاش کے ہمراہ میرا خزانہ بھی محفوظ ہو جائے۔ چونکہ تم نہایت ہی قابل ماہر تعمیرات ہو۔ اس لئے میں تمہیں ایک نہایت ہی عالیشان مقبرے کی تعمیر کا حکم دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ مقبرہ یکتائے زمانہ ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔ اس کے بدلے میں ۔۔۔۔۔ میں تمہیں ایسی خوشیوں اور مال ودولت سے نوازوں گا کہ تم ان کا تصور بھی نہ کر سکو گے۔”
” اے ارضی خدا !!” میں نے ادب سے کہا۔۔۔۔۔ ” میں ایسے مقبرے کا نقشہ آپ کو دکھاؤں گا مگر اس کے لئے کافی وقت درکار ہو گا۔”
” تمہیں اجازت ہے۔ جتنا وقت چاہے لے لو۔ اگر تم نے نقشہ میری خواہش کے مطابق بنایا تو میں تم پر نوازشوں کی بارش کر دوں گا۔ مگر یاد رکھو! پسند نہ آنے کی صورت میں تمہارا عہدہ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تمہاری زندگی بھی ختم کی جا سکتی ہے۔”
میں سر جھکا کر وہاں سے نکل آیا فرعون کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نقشے کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا۔ کیونکہ فرعون سے کسی بھی قسم کے سلوک کی توقع کی جا سکتی تھی۔
فرعون سے قبل اس کی بڑی بہن مصر کے تخت وتاج کی وارث تھی۔ اس لئے فرعون نے اس کے ساتھ شادی کی اور اس کی بدولت تخت و تاج کا وارث بنا۔ وہ مر گئی تو مصر کے تخت وتاج کی وراثت اس کی دوسری بہن کے حصے میں آئی۔ پروہتوں نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی چھوٹی بہن سے شادی کر لے۔ فرعون نے ایسا ہی کیا۔ اور اپنی بادشاہت قائم رکھی۔ لیکن وہ اس کے باوجود بھی اولاد کی دولت سے محروم رہا۔
کئی دنوں کی سوچ بچار کے بعد میں نے نقشہ سوچ لیا۔ اور پھر نقشہ بنا کر فرعون کی خدمت میں پش کر دیا۔ وہ کئی منزلہ ایک ایسی گول عمارت کا نقشہ تھا جس کا دروازہ صرف ایک تھا۔ تہہ خانہ بھی تھا۔ جس کے اوپر کی منزل میں غلام گردش تھی جو گھوم کر آخری منزل تک جاتی تھی۔ اس کی بیرونی دیوار میں برابر کے فاصلہ کی کئی کھڑکیاں تھیں۔ ہر کھڑکی کے اوپر روشن دان اور اس کے سامنے ایک درازہ تھا۔ جن کی تعداد سو تھی۔ ان میں سے ہی ایک راستہ اس کمرے تک جاتا تھا جو خزانے کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ میں نے نقشہ جب فرعون کی خدمت میں پیش کیا تو اس وقت میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ وہ لمحہ میری زندگی یا موت کا لمحہ تھا۔ میں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ نقشہ فرعون کو پسند آ جائے۔ فرعون کافی دیر تک اس نقشے کو نہایت غور سے دیکھتا رہا۔ اور پھر خوشی سے بولا۔
” واہ! تم نے کیا کمال کر دیا۔۔” پھر اس نے مجھے خلعت فاخرہ سے نوازا اور کہنے لگا۔ ” میں تمہاری بہن سے شادی کروں گا۔ میں نے اسے کسی تقریب میں دیکھا تھا۔ وہ بہت ہی حسین ہے۔ اور میری بیوی بننے کے قابل ہے۔ جاؤ اسے یہ خوشخبری سنا دو۔”
میں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور خوشی خوشی گھر لوٹ آیا ۔ کیونکہ مجھے تو ایک نئی زندگی مل چکی تھی۔ فرعون نے میری بہن کو ہرم میں داخل کر لیا۔ اس نے اپنی پہلی بیوی کو جو اس کی بہن بھی تھی۔ نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ میری بہن وہاں بہت ہی خوش رہنے لگی۔ فرعون بھی اسے بہت چاہتا تھا۔ میں بہت خوش تھا کہ میری بہن اب راج کرنے لگی ہے۔ وہ فرعون کی صحبت اور فراخدلی کی بہت تعریفیں کرتی تھی۔
ایک روز فرعون نے مجھے ہرم میں بلایا اور دور صحرا کی وسعتوں میں ایک عظیم الشان مقبرے کی تعمیر کا حکم دیا۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ اور اپنی نگرانی میں مقبرے کی تعمیر کرانے لگا۔ اس کی تعمیر میں کئی ہزار مزدور اور بے شمار معمار اور فن تعمیر کے ماہر دن رات کام کر رہے تھے۔ اصل نقشہ فرعون نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ مقبرے کے درمیانی حصے میں ایک وسیع کمرہ تعمیر کیا گیا تھا۔ جس میں خزانہ محفوظ کیا جانا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس قسم کئی اور کمرے تعمیر کئے گئے۔ جن کا خزانے والے کمرے سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ اندرونی حصے میں چاروں طرف دروازے تھے۔
مقبرے کی تعمیر مکمل ہوئی تو فرعون کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔ اس کی دیرینہ آرزو پوری ہو گئی تھی۔ اس نے جب مقبرے کا معائنہ کیا تو اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا۔ کیونکہ وہ مقبرہ بظاہر بالکل سیدھا سادھا اور گول شکل کا تھا۔ لیکن اندر سے وہ انتہائی پیچیدہ تھا۔ کیونکہ میں نے وہ نقشہ نہایت ہی محنت سے اور علم نجوم کی روشنی میں بنایا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے دیوتاؤں کی مدد بھی حاصل کی تھی۔ اس کی بناوٹ میں اس قدر پیچیدگیاں رکھی گئی تھیں کہ وہ کسی کے گمان میں بھی نہ آسکتی تھیں۔ میں نے اس مقبرے کا اصل راز فرعون کو بتایا کہ اس کا خزانہ جب اس بڑے کمرے میں منتقل ہو جائے گا تو ان سو دروازوں میں سے صرف ایک ایسا دروازہ رہ جائے گا جس کے راستے خزانے تک رسائی ہو سکے گی۔ ہم اس دروازے کو ” زندگی کا دروازہ” کہہ سکتے ہیں۔ جب کہ باقی ننانوے دروازے ” موت کے دروازے” کہلائیں گے۔ اگر ان دروازوں میں سے کسی نے گزرنے کی کوشش کی تو وہ لمحوں میں زندگی ہار بیٹھے گا۔ بس یہی وہ خاص راز تھا۔
جسے مقبرہ تعمیر کرتے وقت اہمیت دی گئی تھی۔” زندگی کا دروازہ ” تلاش کرنا نہایت ہی مشکل کام تھا۔ بلکہ ناممکن۔ اس راز کو میں اور فرعون جانتے تھے۔
مقبرے کی تکمیل کے بعد فرعون کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ اس کے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ نمایاں تھی۔ پھر اس نے اپنا خزانہ کئی ہزار اونٹوں پر لاد کر وہاں پہنچا دیا۔ جب پورا خزانہ مقبرے تک پہنچ گیا تو مزدوروں کے ذریعے وہ خاص کمرے تک پہنچایا گیا۔ اس کے بعد فرعوں نے اعلان کروایا کہ وہ تمام مزدور ، معمار اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے دس سال کا عرصہ لگا کر اس مقبرے کو تعمیر کیا تھا۔ وہ ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں ۔ ان کو انعام سے نوازا جائے گا۔ جب وہ سب لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو گئے تو فرعون مسکراتا ہوا میری طرف بڑھا۔ لگتا تھا آج فرعون کی طرف سے ان لوگوں پر اور مجھ پر انعامات کی بارش ہو جائے گی۔ فرعون نے میری طرف نظر بھر کر دیکھا اور کہنے لگا۔
” ہم تمہاری ذہانت اور کام کے معترف ہو گئے ہیں ۔ آج ہم بتائیں گے کہ ہم اس مقبرے کی تعمیر کرنے والوں کو کتنا بڑا انعام دیتے ہیں ۔ ” یہ کہہ کر فرعون اپنے مصاحبین کے ہمراہ مقبرے سے باہر نکل آیا۔ اور کچھ دیر رکا اور مڑ کر ہماری طرف دیکھا۔ پھر میری ان آنکھوں نے وہاں ایک دردناک منظر دیکھا۔ لا تعداد انسانوں کے سر قلم کر دئے گئے۔ انسانی لاشیں تڑپنے لگیں۔ انسانی خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا ۔ جبکہ فرعون کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ عیارانہ مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اندر فرعون کے خلاف نفرت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ لیکن میں خاموشی سے اور وہ خون کے آنسو رلانے والا دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ جب کبھی بھی کسی فرعون نے اس قسم کا پر اسرار مقبرہ تعمیر کروایا تو اس کی تعمیر کرنے والوں کو زندہ نہ رہنے دیا گیا۔ کیونکہ فرعون کو یہ شبہ ہوتا تھا کہ وہ خزانے اور مقبرے کا راز فاش نہ کر دیں۔ مگر اس معاملے میں ہمیشہ میرے آباؤ اجداد کا خیال رکھا گیا۔ انہیں کچھ نہ کہا گیا۔ اس لئے مجھے امید بلکہ یقین تھا کہ فرعون مجھ پر نظر کرم کرے گا۔ کیونکہ اب تو میری بہن اس کی بیوی تھی۔
میں انعامات اور اعزازات کا حقدار تھا۔ فرعون قہقہے لگانے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا۔
” دیکھ لیا تم نے انجام ان لوگوں کا۔ اب مطمئن ہوں کہ میرا خزانہ محفوظ ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر نہیں۔ تمہیں بھی تو یہ راز معلوم ہے۔ مجھے تمہارا حساب بھی تو چکانا ہے۔ میں اس معاملے میں تمہارے ساتھ امتیازی سلوک کروں گا۔ تمہاری موت ان سب سے مختلف اور انوکھی ہو گی۔ میں تمہیں جلاد کے سپرد کر کے قتل نہیں کروں گا۔ تمہارے آباؤاجداد ہمیشہ سے فراعنہ کے عنایات خاص کے مستحق رہے ہیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے ساتھ اس قسم کی کوئی عنایت یا رعایت نہیں کروں گا۔ کیونکہ اب میرے اور تمہارے سوا کوئی بھی اس مقبرے کے راز سے آگاہ نہیں ہے۔ مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے علاوہ کوئی اور بھی اس راز سے آگاہ ہو۔ اس لئے میں نے تمہاری موت کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔
میں تمہیں اتنی رعایت دے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ کہ تمہاری کوئی آخری خواہش ہے تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہاری آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔
اپنی موت کا حکم سن کر میرے جسم میں جان ہی نہ رہی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں جانتا تھا کہ فرعون کے آگے رحم کی اپیل کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ ظالم لوگ اپنے فیصلے نہیں بدلا کرتے۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ بذات خود ایک قانون ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے فریاد نہ کی اور حالات کے سامنے بے بس ہو گیا۔ میں نے نہایت ہی احترام کے ساتھ۔ اپنی خواہش بیان کرتے ہوئے کہا۔
” اے ارضی خدا! میری موت کا فیصلہ آپ نے کر لیا ہے ۔ تو میں اسے قبول کرتا ہوں۔ میری آخری خواہش یہ ہے کہ مجھے اس مقبرے کے تہہ خانے میں بند کر دیا جائے۔ میرے پاس زہریلے دودھ کا ایک پیالہ رکھ دیا جائے ۔ اس کے ساتھ سلیں تختیاں اور لوہے کا ایک قلم دے دیا جائے۔ کیونکہ مجھے علم وفن سے لگاؤ ہے۔ میں زندگی کی آخری سانسوں تک ان تختیوں پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں گا۔ تا کہ میں مصروف رہوں۔ میں جب تھک ہار کر بھوک پیاس سے نڈھال ہو جاؤں گا۔ تو میں یہ زہریلا دودھ پی لوں گا۔ یوں میری زندگی موت میں ڈھل جائے گی۔
”بس یہی یا کچھ اور؟” فرعون قہقہہ لگا کر بولا۔ ”
” بس یہی کچھ”۔۔۔۔۔۔۔
”میری اور کوئی خواہش نہیں ہے۔” میں نے جواب دیا۔
فرعون نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ مجھے تہہ خانے میں لے جا کر میرے پاؤں میں ایک آہنی زنجیر ڈال دی جائے۔ فرعون کے حکم پر فوری عمل کیا گیا۔ پھر اس نے پتھر کا پیالہ منگوایا اور اپنی نگرانی میں دودھ میں زہر ملایا۔ سلیں ، تختیاں اور پیالہ میرے پاس رکھ دیا ۔ فرعون نے اپنی نگرانی میں تہہ خانے کو بند کروایا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ سب لوگ چلے گئے ہیں تو میں نے ان تختیوں پر اپنی روداد لکھنی شروع کر دی۔۔۔۔۔۔ میں اس کام میں جلدی کر رہا ہوں کہ میں اس مقبرے میں دفن راز کو ان تختیوں پر بکھیر دوں تا کہ جب میری یہ تحریر پڑھی جائے تو اس سے فائدہ اٹھا کر خزانہ حاصل کیا جا سکے۔ اور میری وہ قسم پوری ہو جائے جو میں نے اس راز کو افشا کرنے کے لئے کھائی تھی۔ کیونکہ فرعون نے جب میری موت کا حکم سنایا تھا تو میں نے قسم کھائی تھی کہ میں اس راز کو راز نہ رہنے دوں گا۔
اس لئے۔ اے تحریر پڑھنے والے انسان! جب تم یہ تحریر پڑھ لو تو تہہ خانے سے باہر نکل جانا۔ کیونکہ اس تہہ خانے کا خزانے والے کمرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ باہر نکل کر اس گول مقبرے کو دیکھو گے تو تمہیں اس کی دوسری منزل پر چاروں طرف کھڑکیاں نظر آئیں گی۔ تم ان میں سے کسی ایک کو توڑ کر بے خطر ہو کر اندر داخل ہو جانا۔ اور پھر کسی دروازے کے اندر قدم نہ رکھنا۔ کیونکہ ہر دروازے میں موت تمہاری منتظر ہو گی۔
4
۔
تمہیں ”زندگی کا دروازہ” تلاش کرنا ہو گا۔ جو دن کی روشنی میں تمہیں کبھی نہ مل سکے گا۔ اس کے لئے تمہیں رات کو جاگنا پڑے گا۔ اور اس وقت کا انتظار کرنا ہو گا جب قطبی ستارہ چمکتا ہے۔ کیونکہ زندگی کے دروازے کا قطبی ستارے سے گہرا تعلق ہے۔ غلام گردش میں داخل ہو کر اس کے ہر روشن دان سے آسمان کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنا۔ جس روشن دان سے قطبی ستارہ دکھائی دے، وہیں رک جانا۔ کیونکہ اس کے سامنے زندگی کا دروازہ ہو گا۔ بے خوف و خطر اس دروازے میں داخل ہو جانا۔ آگے ڈیوڑھی والا راستہ ہو گا۔ اس پر چلتے جانا۔ وہ راستہ تمہیں خزانے والے کمرے تک لے جائے گا۔ کمرے کا دروازہ اگر بند ہو تو کھول لینا۔ اگر نہ کھلے تو توڑ دینا۔ پورا کمرہ دولت سے بھرا پڑا ہے۔ جو صرف تمہارے لئے ہے۔ اور جب تم وہ خزانہ حاصل کر لو گے تو میری قسم پوری ہو جائے گی۔ میری روح کو سکون مل جائے گا ۔ اور فرعون کی روح جہاں بھی ہو گی تڑپ اٹھے گی۔
میں اس وقت بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہوتا جا رہا ہوں۔ مجھ میں اب مزید کچھ لکھنے کی سکت نہیں رہی۔ کیونکہ میں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ میں اب مزید زندہ بھی نہیں رہنا چاہتا۔ چاہوں بھی تو کب تک زندہ رہوں گا۔ پیاس کی شدت برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ میرے سامنے دودھ کا پیالہ پڑا ہے۔ جس میں زہر ملا ہوا ہے۔ اب میں بڑے اطمینان اور سکون سے اسے پی لوں گا۔ جس کے بعد مجھے ابدی حیات مل جائے گی اور میں سکون کی نیند سو لوں گا۔ ہمیشہ ہمیشہ کی نیند۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر خیام اس روز بہت ہی خوش تھا۔ اسے بہت بڑی کامیابی ملنے والی تھی۔ اس نے اس سے قبل کئی قدیم مصری تحریریں پڑھی تھیں۔ لیکن اب یہ تحریر پڑھ کر اسے جو کچھ حاصل ہونے والا تھا۔ اس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ پہلی بار فرعون کے اتنے بڑے اور قیمتی خزانے کے بارے میں جان پایا تھا۔ اس نے اس قدیم تحریر کا مطلب اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ پروفیسر خیام محکمہ آثارِ قدیمہ کے ہیڈ آفس کی طرف روانہ ہو گیا ۔ اس نے اس محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل کو بتایا کہ وہ ان قدیم تحریروں کا مطالعہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب جلدی سے اس مقبرے کی طرف جانے کی تیاری کی جائے۔ میں بھی ساتھ چلوں گا۔ کیونکہ میں خود اس مقبرے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
ڈائریکٹر جنرل نے اگلے روز صحرا کی جانب روانگی کا پروگرام ترتیب دیا تو پروفیسر گھر لوٹ آیا۔ وہ تمام رات خوشی کے مارے سو نہ سکا۔ کچھ دیر کے لئے اس کی آنکھ لگتی بھی تو اسے خواب میں وہی مقبرہ ہی نظر آتا۔
خدا خدا کر کے صبح ہوئی تو ایک بڑا قافلہ اونٹوں پر سامان لاد کر مقبرے کی طرف روانہ ہوا۔ پروفیسر خیام بھی ان کے ہمراہ تھا۔ اس ٹیم میں وہی لوگ شامل تھے۔ جنہوں نے وہ مقبرہ دریافت کیا تھا۔ کچھ نئے لوگ بھی تھے۔ پرانے لوگوں کی وجہ سے ان لوگوں کو زیادہ دشواری کا سامنا نا کرنا پڑا۔ پانچ دن کے سفر کے بعد وہ لوگ مقبرے تک جا پہنچے۔ سب سے پہلے مقبرے کے نزدیک خیمے نصب کیے گئے۔ ایک رات انہوں نے وہاں آرام کیا۔
اگلے روز پروفیسر خیام نے مقبرے کے چاروں طرف گھوم کر اس کا جائزہ لیا۔ اس نے پہلی منزل کا وہ سوراخ بھی دیکھا جہاں سے داخل ہو کر سلیں باہر نکالی گئی تھیں۔ مگر انہیں تو دوسری منزل کی کسی کھڑکی سے اندر داخل ہونا تھا۔ اس نے دیکھا کہ دوسری منزل پر بھی ایک سوراخ کھڑکی توڑ کر بنایا گیا ہے۔ اس نے اس کو اہمیت نہ دی اور نہ ہی ٹیم کے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا کہ دوسری منزل پر کھڑکی کس نے توڑی تھی۔
پروفیسر نے تمام دن یوں ہی مقبرے کا جائزہ لیتے ہوئے گزار دیا۔ کیونکہ مقبرے کے اندر تو رات کو داخل ہونا تھا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد انہوں نے تیاری پکڑی ۔ سب سے پہلے پروفیسر خیام رسوں کی سیڑھی کی مدد سے دوسری منزل کی کھڑکی کے راستے اندر داخل ہوا۔ پھر دیگر لوگ بھی اندر داخل ہوگئے۔ وہ اس وقت غلام گردش میں کھڑے تھے۔ پروفیسر نے تمام لوگوں کو خبردار کیا کہ کوئی بھی کسی بھی دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔ کیونکہ ان سب دروازوں میں موت بانہیں پھیلائی کھڑی ہے۔ ان میں صرف ایک دروازہ ایسا ہے جو سلامتی کا دروازہ ہے۔ اصل مسئلہ اس دروازے کو تلاش کرنا ہے اور اس کو میرے علاوہ کوئی اور تلاش نہیں کر سکتا۔ اس لئے تم میں سے کوئی بھی میرے کہے بغیر کسی قسم کی حرکت نہیں کرے گا۔ جس کسی نے ایک بھی قدم آگے بڑھایا ۔ ” موت اس کا مقدر بن جائے گی۔”
سب نے پروفیسر کا حکم مانا۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک جگہ رک گئے۔ پھر پروفیسر خیام نے زندگی کے دروازے کی تلاش شروع کر دی۔ اس نے غلام گردش کی دیوار میں بنے ہر روشن دان میں سے آسمان کی جانب جھانکنا شروع کر دیا۔ ٹیم کے ارکان بھی اس کی پیروی کر رہے تھے۔ کئی روشن دان گزر گئے لیکن قطبی ستارہ نظر نہ آ رہا تھا۔ پروفیسر بڑی توجہ سے ستارے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی رات گزر گئی۔ پروفیسر کو کامیابی نہ ملی۔ حالانکہ وہ تحریر کے مطابق عمل کر رہا تھا۔ بالآخر پروفیسر کی محنت رنگ لائی اور وہ چلا اٹھا ” مل گیا۔ مل گیا۔”
ایک روشن دان میں سے قطبی ستارہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے اس روشن دان کی سیدھ میں غلام گردش کی اندرونی دیوار میں لگے ہوئے دروازوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ ”یہی زندگی اور سلامتی کا دروازہ ہے۔”
پروفیسر خیام نے دروازہ کھولا اور جب ٹارچ جلائی تو اندر ڈیوڑھی والا راستہ روشن ہو گیا۔ مگر وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ اندر کا منظر انتہائی خوفناک تھا۔ اندر دو لاشیں اوندھی منہ پڑی تھیں پروفیسر خیام کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ آہستہ سے آگے بڑھا ۔ جوں ہی اس نے لاشوں کو سیدھا کیا تو اس کے لبوں سے بے اختیار نکلا ” پروفیسر سکندر اور لیلیٰ۔”
وہ دونوں لاشیں سکندر اور لیلیٰ کی تھیں۔ ابھی پروفیسر خیام ان لاشوں کو جھک کر دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں تین تیز دھار والے بھالے سامنے کی دیوار میں زور سے لگے اور اس میں پیوست ہو گئے۔ اگر پروفیسر خیام تھوڑا سا اوپر ہوتا تو اس کا کام بھی تمام ہو جاتا۔
”سکندر اور لیلیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تم دونوں نے کیا کر ڈالا۔ پروفیسر خیام نے آنسو سے بھیگی ہوئی آواز میں کہا۔ اتناا کہہ کر وہ تیزی سے رینگ کر دروازے سے باہر آ گیا۔ پروفیسر شرمندہ سا تھا۔ ٹیم کے لوگ اسے دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ موت کا سناٹا چھا گیا۔ بالآخر پروفیسر خیام نے سکوت توڑا اور بولا۔
” میں نہایت دکھ اور شرمندگی سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میری مہم ناکام ہو گئی ہے۔ کیونکہ یہ دروازہ زندگی کا نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ موت کا دروازہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں بچ گیا۔۔۔”
اتنا کہہ کر اس نے گردن جھکائی۔ ٹیم کے کسی فرد نے پروفیسر سے کسی قسم کا کوئی سوال نہ کیا۔ اور خاموشی سے واپس چل پڑے۔
قاہرہ پہنچ کر پروفیسر خیام نے اپنی ناکامی کی رپورٹ حکومت مصر کو پیش کر دی۔ اس نے اپنی ناکامی کا واضح طور پر اعتراف کیا۔ اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ اب وہ تحریروں کی پہچان کا کام نہیں کرے گا۔ بلکہ صرف اور صرف یونیورسٹی میں پڑھانے کی ڈیوٹی سر انجام دے گا۔
اپنی رہائش گاہ پر آ کر پروفیسر خیام گم سم اور خاموش سا رہنے لگا۔ اسے اپنی پہلی ناکامی کا افسوس ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی اسے اپنے رقیبوں ، سکندر اور لیلیٰ کی موت کا دکھ بھی کھائے جا رہا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہیں تحریر لکھنے والے نے جھوٹ نا بولا ہو۔ موت کے خوف سے اس کے ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو ۔ اور وہ کچھ غلط الفاظ لکھ گیا ہو۔ ایک لحاظ سے وہ مطمئن تھا کہ سکندر اور لیلیٰ نے ملکر تختیوں کی تحریریں جلدی میں پڑھ لیں اور اب وہ اس معماملے میں بھی اس پر بازی لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن وہ ہار گئے۔
قدرت نے ان کے مقدر میں مات لکھ دی ۔ اچھا ہی ہوا کہ وہ زندگی ہار گئے۔ ورنہ اس کی اپنی موت یقینی تھی۔ یا تو تحریر والے شخص نے جھوٹ لکھا ہے یا پھر ان تینوں پروفیسر خیام، سکندر اور لیلیٰ کے علم میں کمی تھی کہ وہ ان تختیوں کی تحریروں کا راز نہ جان سکے۔
اب پروفیسر خیام دن رات ان ہی سوچوں میں گم رہتا تھا کہ اس سے کیا غلطی ہوئی ہے کہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس نے پھر سے کئی بار تحریروں کو پڑھا۔ مگر اصل نقطہ نہ جان سکا۔ اصلی راز اسے معلوم نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس ناکامی نے پروفیسر خیام کو چڑ چڑا سا بنا دیا ۔اے مقبرے اور خزانے کی یاد آتی تو سرد سی آہ بھر کر خاموش ہو جاتا۔ اور کبھی خلاؤں میں گھورنے لگتا۔ راتوں کو اٹھ کر چھت پر چڑھ کر قطبی ستارے کو دیکھتا رہتا۔ مگر اس کیس میں ناکامی کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس کے طالب علم بھی اس کی دماغی کیفیت کو محسوس کرنے لگے تھے۔
بالآخر پروفیسر خیام نے خود ہی یونیورسٹی کی سروس چھوڑ دی۔ کیونکہ اسے کسی پل چین نہ آرہا تھا۔ وہ یہ سمجھنے لگا کہ اس کا علم نامکمل ہے۔ وہ استاد نہیں ابھی تک ایک شاگرد ہی ہے۔ اس نے اپنے علم میں مزید اضافے کے لئے ادھر ادھر کی خاک چھاننی شروع کر دی۔ علمِ فلکیات پر لکھی گئی کئی کتابیں اس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنی شروع کر دیں۔ یوں ہی تین سال کا عرصہ گزر گیا مگر پروفیسر کی جستجو ختم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔
بالآخر اس کی جستجواور محنت رنگ لائی اور وہ ایک اہم نقطہ پانے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک مشہور ماہر فلکیات کی لکھی ہوئی کتاب پڑھنے کے دوران اس پر انکشاف ہوا کہ ہزار سال گزرنے کے بعد ستارے اپنی جگہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسنے لگے۔ وہ اپنا سر تھام کر رہ گیا۔
اس کے دل و دماغ میں ایک ہی جملہ گونجنے لگا۔
”ستارے ہزار سال بعد اپنی پوزیشن تبدیل کر لیتے ہیں۔”
اب اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی۔ وہ بہت پچھتایا کہ کاش تین سال قبل اس کے دماغ میں یہ بات آ جاتی۔ حالانکہ وہ یہ حقیقت بھی پڑھ چکا تھا۔ اگر اسے بر وقت یہ بات یاد آ جاتی تو تین سال قبل وہ مہم سے ناکام نہ لوٹتا۔ تختیوں اور سلوں پر جو لکھا گیا تھا۔ وہ درست تھا۔ نجانے اس مقبرے کو تعمیر ہوئے کتنی صدیاں بیت گئی تھیں۔
اس نے اپنے آپ کو ایک بار پھر اپنے گھر میں قید کر لیا اور پھر سے ان قدیم تحریروں کو باریک بینی سے پڑھنے لگا۔ بالآخر وہ یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کہ اس مقبرے کو تعمیر ہوئے دو ہزار سال بیت گئے تھے۔ پھر اس نے قطبی ستارے کی پوزیشن کا حساب لگایا کہ ابھی یہ ستارہ کس روشن دان میں نظر آئے گا۔ اس میں بھی کامیابی ہو گئی تو پروفیسر خوشی سے ناچنے لگا۔ اس کی دن رات کی محنت رنگ لے آئی تھی۔
سکندر اور لیلیٰ کی موت کا سبب بھی وہ موت کا دروازہ تھا۔ جسے وہ سلامتی کا دروازہ سمجھ کر اندر داخل ہو ئے تھے۔ وہ دروازہ دو ہزار سال قبل قطبی ستارے کی جگہ بدلنے کے باعث زندگی کا دروازہ نہیں رہا تھا۔
اگلے روز پروفیسر محکمہ آثارِ قدیمہ کے دفتر میں موجود تھا۔ اس نے اپنی مہم کی ناکامی کی تفصیل بتائی اور دوبارہ اس مہم پر جانے کی درخواست کر ڈالی۔ اس کی بات مان لی گئی۔ اور ایک بار پھر ایک نئے عزم کے ساتھ ٹیم پروفیسر کے ہمراہ مقبرے کی جانب روانہ ہوئی۔ ایک بار پھر ایک تھکا دینے والے سفر کے بعد جب قافلہ مطلوبہ جگہ پہنچا تو سب ہی حیران رہ گئے کہ وہاں مقبرے یا کسی عمارت کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ بلکہ وہاں ایک بڑی جھیل سی بنی ہوئی تھی۔ جس میں پانی لبالب بھرا ہوا تھا۔ جھیل کے قریب ایک بستی آباد ہو گئی تھی۔
پروفیسر حیرانی سے کبھی جھیل اور آبادی کو دیکھتا اور کبھی نقشے کو دیکھتا۔ نقشے پر جس مقام کی نشان دہی کی گئی تھی۔ وہ یہی جگہ تھی ارد گرد کے نشانات اسی جگہ کی پہچان میں مدد دے رہے تھے۔ ٹیم کے افراد بھی اس بات کی تائید کر رہے تھے کہ یہ وہی مقام ہے۔ جہاں وہ بھی دو مرتبہ آ چکے ہیں۔ ایک ممبر نے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
” لگتا ہے ہم راستہ بھٹک گئے ہیں۔”
” چلو ہم ان آبادی والوں سے معلوم کر لیتے ہیں۔” پروفیسر نے کہا۔
جب وہ بستی کے خیموں کے قریب پہنچے تو ان میں سےکئی بدو باہر آئے اور قافلے والوں سے آمد کا مقصد پوچھا ۔ پروفیسر نے اپنا اور ٹیم کا تعارف کرانے کے بعد اپنی آمد کا مقصد بتایا۔
آپ لوگ راستے سے نہیں بھٹکے۔ یہ وہی جگہ ہے۔ اس جگہ پر آج سے تین سال قبل ایک مقبرہ موجود تھا۔ بوڑھے سردار نے کہا۔
”تو پھر کہاں گیا وہ مقبرہ؟” پروفیسر نے بے چینی سے بولا۔
” بتاتا ہوں۔۔۔۔۔ بتاتا ہوں۔ سردار بولا۔ آئیں آپ خیمے میں بیٹھ جائیں۔”
پروفیسر اور قافلے کے سب لوگ اس بارے میں جاننے کے لئے بے تاب تھے۔ سردار کہنے لگا۔
” تین سال قبل ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے سفر کر رہے تھے۔ ہمارا گزر یہاں سے ہوا تو ہم اس صحرا میں اس وسیع و عریض مقبرے کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کیونکہ یہاں تک نہ تو کوئی رستہ آتا تھا اور نہ ہی کوئی سڑک۔ اس مقبرے کی عمارت گول دائرے کی شکل میں بنائی گئی تھی۔ ہم چونکہ سفر کی وجہ سے بہت تھک گئے تھے اس لئے ہم نے رات کو یہیں قیام کرنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔ اور ہم نے مقبرے سے کچھ فاصلے پر خیمے نصب کر دئے۔
آدھی رات کا وقت ہو گا ہم سب سوئے ہوئے تھے کہ اچانک ایک خوفناک گڑگڑاہٹ سنائی دی ایسا لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ قافلے کے سب لوگ جاگ گئے۔ اور خیموں سے باہر نکل آئے۔ ہماری آنکھوں نے ایک حیران کرنے وال منظر دیکھا کہ وہ مضبوط مقبرہ آہستہ آہستہ زمین کے اندر دھنستا چلا جا رہا تھا۔ وہ آوازیں اسی میں سے آ رہی تھیں۔ ڈر اور خوف کے مارے ہم سب کی چیخیں نکل گئیں۔ کئی عورتیں تو بے ہوش ہو گئیں۔ جبکہ مرد سہم گئے۔ ہم سب نے اپنی آنکھوں سے مقبرے کو زمین کے اندر دھنستے ہوئے دیکھا۔
جب مقبرے کی تمام عمارت زمین کے اندر گم ہو گئی تو وہاں پر ایک بہت بڑا گڑھا بن گیا۔ مگر گڑگڑاہٹ کافی دیر تک جاری رہی۔ گڑگڑاہٹ ختم ہوئی تو پھر بھی خوف کے مارے کسی کو نیند نہ آئی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ گڑھے میں پانی پھیلنے لگا۔ وہاں چشمہ سا بن گیا۔ اور پورا گڑھا پانی سے بھر گیا تو پانی رک گیا۔ اور اس گڑھے سے باہر نہ نکلا۔
سب قدرت کے اس کرشمے پر حیران تھے کہ اس لق و دق صحرا میں پانی کہاں سے آگیا۔ ہم صحرائی لوگ ہیں پانی ہمارے لئے سب سے اہم ہیں۔ پانی ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور یہ نعمت ہمیں قدرت نے عطا کر دی تھی۔ اس لئے ہم نے یہیں آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ تین برس بیت گئے ہیں ۔ ہم یہاں رہ رہے ہیں ۔ کچھ اور لوگ بھی یہاں ہی آباد ہو گئے ہیں ۔ اس لئے یہ ایک بستی بن گئی ہے۔
سردار خاموش ہوا تو پروفیسر نے اپنا سر پیٹ لیا۔ کہ کاش تین برس قبل ہی وہ خزانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اس نے ایک بار پھر نہایت ہی دکھ اور افسردگی سے مہم کی ناکامی کا اعلان کیا۔ قافلہ قاہرہ کی طرف روانہ ہوا تو۔ پروفیسر نے ان کو الوداع کہہ کر اعلان کر دیا کہ وہ اب واپس نہیں جائے گا۔ پھر وہ اس جھیل کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اور حسرت سے اس جھیل کو دیکھنے لگا۔ جس پر سورج کی سنہری کرنیں پھیل رہی تھیں۔ جو پروفیسر کی ناکامی پر شوخیاں منا رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے فرعون کی روح اس جھیل میں پھڑ پھڑا رہی ہو۔اور اس خزانے کی حفاظت کر رہی ہو۔ پروفیسر کے دل و دماغ میں سوچوں کی یلغار تھی۔ جو اسے پاگل کیئے جا رہی تھی۔
”فرعون تو کتنا ظالم ہے کہ تیری روح نے مرنے کے ہزاروں سال بعد بھی کسی انسان کو خزانے کے قریب نہ آنے دیا۔ سینکڑوں افراد کی بھینٹ لے لی۔ تو نے میری لیلیٰ کو بھی نہیں چھوڑا۔ ظالم ہے۔۔۔۔۔۔ تو بہت ظالم ہے۔”
اس کے ساتھ ہی پروفیسر کی آواز بلند ہوئی۔ ” میں آ رہا ہوں لیلیٰ۔۔۔۔۔ میں آ رہا ہوں”
پروفیسر نے اس کے ساتھ ہی جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ کافی تلاش کے باوجود بھی پروفیسر کی لاش دریافت نہ ہو سکی۔ شاید فرعون کی روح کو یہ بھی منظور نہ تھا۔ کہ کوئی کمروں کی تعداد اور سمت کے بارے میں بھی جان سکے۔
( ختم شد)