ان تینوں نے لاہور کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ تینوں ہی اپنے اپنے کالج ہونہار طالب علم جانے جاتے تھے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے آکسفورڈ یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ وہاں پر ہی ان کی آپس میں ملاقات اور میل جول ہوا تھا۔ ان کا مضمون بھی ایک ہی تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کا شمار دنیا کے مشہور آثارِ قدیمہ میں ہونے لگا۔ اور حکومتِ مصر نے ان تینوں کی خدمات حاصل کر لیں۔ اور ان کا شمار مصر کے ممتاز اور ماہر آثارِ قدیمہ میں ہونے لگا۔
حکومتِ مصر نے ان کی قابلیت کی بنا پر انہیں پروفیسر کا لقب دے رکھا تھا۔ حکومتِ مصر کے ملازم نہ ہونے کے باوجود ان کو وی۔ آئی۔ پی کا درجہ دیا گیا تھا۔
پروفیسر خیام اور پروفیسر سکندر ایک دوسرے کے پرانے حریف تھے ۔ ان کی رنجش اور مخالفت کی وجہ پروفیسر لیلیٰ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس رنجش کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا مضمون بھی مشترک تھا۔۔۔۔۔۔ اور تینوں کا ملک بھی تو ایک ہی تھا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ پاکستان۔ فرق اگر تھا تو بس اتنا کہ پروفیسر سکندر کو اعزازی طور پر حکومتِ مصر نے شہریت دے رکھی تھی اور پروفیسر خیام کو برطانیہ نے۔۔۔۔۔۔۔ دوہری شہریت کے حامل ان دونوں ماہرین کی آپس میں چپقلش چلتی رہتی تھی۔
خیام اور سکندر دونوں ہی مردانہ حسن وجمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان کی وجاہت کا چرچا یونیورسٹی میں بھی عام تھا۔ وہ جہاں کھڑے ہوتے تو لگتا تھا جیسے دیو مالائی قصے کہانیوں کے کردار سامنے آ گئے ہوں۔ لڑکیاں ان کی ایک التفات نظر کی طلبگار رہتی تھیں۔ مگر وہ دونوں صرف اور صرف لیلیٰ کو چاہتے تھے۔ لیلیٰ۔۔۔۔۔۔۔ حسن کی دیوی کا ارضی روپ تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ مصر کے روایتی لباس میں جنت کی حور لگتی تھی۔ بوجھل پلکوں اور خمار بھری آنکھوں کے ساتھ وہ ان کے قریب سے گزرتی تو وہ پلکیں جھپکانا اور سانس لینا بھول جاتے۔
لیلیٰ جانتی تھی کہ خیام اور سکندر دونوں ہی اس کے طلب گار ہیں۔ اس لئے وہ ان کے ساتھ آزادانہ گپ شپ لگاتی تھی۔ مگر وہ ابھی تک ان دونوں میں سے کسی کا انتخاب نا کر پائی تھی۔ سکندر ایک تیز طرار اور جذباتی قسم کا نوجوان تھا۔ اسے اپنے حسن اور مہارت پر ناز تھا۔ وہ کئی بار لیلیٰ پر اپنی چاہت کا اظہار کر چکا تھا۔
سکندر کے برعکس خیام دھیمے لہجے کا عادی تھا۔ وہ کسی بھی کام میں جلد بازی کا قائل نہ تھا حتیٰ کہ لیلیٰ سے اظہارِ محبت کے معاملہ میں بھی وہ سست روی کا شکار تھا۔ اسے اپنی چاہت پر یقین تھا کہ وہ لیلیٰ کو حاصل کر کے رہے گا۔ وہ اگر لیلیٰ کو یونیورسٹی کے کسی گوشے میں سکندر سے باتیں کرتے دیکھ لیتا تو اس کے اندر حسد کی تند موجیں کروٹیں لینے لگتیں۔ اسے لیلیٰ سے زیادہ سکندر پر غصہ آتا مگر وہ اس کا اظہار نہ کرتا۔ اس کے برعکس سکندر اگر لیلیٰ اور خیام کو اٹھتے بیٹھتے دیکھ لیتا تو وہ خیام سے الجھ پڑتا۔ ایک بار ان دونوں میں ہاتھا پائی اور تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
لیلیٰ نے بالآخر سکندر کے حق میں فیصلہ دے دیا۔۔۔۔ دونوں کی شادی ہو گئی۔ خیام کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ وسطی امریکا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تین سال میں تاریخ اور فلکیات کا قابل ترین استاد بن چکا تھا۔ سکندر اور لیلیٰ نے قدیم مصری تحریروں اور فن تعمیر کے بارے میں ریسرچ مکمل کر لی تھی۔ ان کی رائے اب مستند مانی جاتی تھی۔ اس لئے حکومتِ مصر نے ان کی خدمات مستعار لے رکھی تھیں۔ سکندر اور لیلیٰ نے اپنا ایک بڑا سا شاندار دفتر بنا رکھا تھا۔
خیام کو خبر نہیں تھی کہ لیلیٰ اور سکندر نے حکومتِ مصر کی ملازمت اختیار کر لی ہے۔ وہ تو لندن آ گیا تھا اور وہاں سے باہر نکلتا ہی نہیں تھا۔ اب لائبریری اور آبزرویری ہی اس کی دنیا تھی۔ اس کی شہرت آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی تھی۔ اسکی شہرت ہی تھی جس نے مصری حکومت کو متوجہ کیا اور ان لوگوں نے خیام کو قاہرہ آنے کی دعوت دے دی۔ یہاں اس کے لئے وسیع کینوس تھا۔ کھلی تاریخ تھی۔ اس کي دلچسپی کے تمام لوازمات موجود تھے۔ اس لئے اس نے بھی حکومتِ مصر کی دعوت قبول کر لی۔ یہاں آکر اسے معلوم ہوا کہ لیلیٰ اور سکندر بھی یہیں ہیں۔ وہ عمر کے اس دور میں پہنچ کر بھی لیلیٰ کو دل سے نکال نہ پایا تھا۔ مجرد ہونے کی وجہ سے اس کی ساری توجہ اپنے کام پر ہی رہتی تھی۔ جب وہ اپنے کام میں مصروف ہوتا تو اسے دنیا کی کسی چیز کا ہوش نہ رہتا تھا۔۔۔۔۔۔ سوائے کافی کے۔ اس کا ملازم کافی کا تھرماس اس کی میز پر رکھ کر کمرے کا دروازہ بند کر دیتا کیونکہ پروفیسر خیام کسی قسم کا شور اور سرسراہٹ بھی برداشت نہ کرتا تھا۔
۔
ان دنوں حکومت مصر فرعون کے مقبروں سے برآمد ہونے والے عجائبات اور تحریروں کے تجزیے پر کام کر رہی تھی۔ اس سلسلے میں جب بھی حکومت کے ہاتھ کوئی ایسی چیز لگتی تو پروفیسر خیام یا پروفیسر سکندراور لیلیٰ کو بھیج دیتے وہ اس پر تحقیق کرکے اپنی رائے دیتے۔۔ دونوں ہی اپنے فن میں کامیاب جا رہے تھے۔ یہ کام کرتے انہیں کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ اپنی عمروں کا بیشتر حصہ ان تینوں نے قدیم زبانوں اور قدیم تحریروں کو پڑھنے پر صرف کر ڈالا تھا۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی بن چکے تھے۔ ان دونوں کے دفاتر اور گھر میں قدیم تاریخی کتابوں کے ڈھیر تھے۔ اس کے علاوہ وہاں مٹی کی مورتیاں، مٹی کی تختیاں، اور پتھر کی کئی سلیں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ جن پر قدیم مصری زبان کی تحریریں کنندہ تھیں۔ یہ سب چیزیں ان قبروں اور مقبروں سے برآمد ہوئی تھیں جن کو کسی غیر ملکی سیاح یا مصر کے محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے دریافت کیا تھا۔
سکندر اور لیلیٰ کی نسبت حکومت مصر پروفیسر خیام پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرتی تھیں ۔ کیونکہ اسے اپنے کام کے سوا کسی اور چیز سے غرض نہ تھی۔ وہ دن اور رات اپنے کمرے میں رہتا تھا۔ اس کا جب جی چاہتا سو لیتا اور جب جی چاہتا کام شروع کر دیتا۔ اس لئے وہ اپنے کام کا ماہر ہو گیا تھا۔ جب کبھی اسے حکومت کی جانب سے کوئی مشن سونپا جاتا تو وہ پہلے اس کی قدیم تحریروں پر کام کرتا اور اگر ضرورت پڑتی تو وہ ان مقبروں کی طرف نکل جاتا جہاں سے کوئی تحریر یا تختی برآمد ہوتی تھی۔
مصر کے محکمہ آثار قدیمہ کی سروے پارٹی حسبِ معمول اپنے گشت پر تھی۔ صحرا میں چلتے چلتے رات ہو گئی تو پارٹی کے افراد راستہ بھول گئے۔ راستے کی تلاش میں وہ اتنی دور نکل گئے کہ ان کو مزید ایک دن اور ایک رات اسی صحرا میں گزارنی پڑی۔ اس سفر کے دوران ان کو ایک بہت بڑا اور ہیبت ناک مقبرہ نظر آیا۔ پارٹی کے لوگ رستے کی تلاش اور تھکن کو بھول کر اس مقبرے کو نہایت دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ وہ مقبرہ قدیم مصری فن تعمیر کا نادر شاہکار تھا۔ اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ یہ مقبرہ کئی صدیوں سے اس بے آب وگیاہ صحرا میں تنہا کھڑا ہے۔
سروے پارٹی کے سربراہ نے وہیں کیمپ لگا لیا تاکہ اس مقبرے کے بارے میں تفصیلات حاصل کر سکے۔ مقبرے کی اینٹیں کالی سیاہ ہو چکی تھیں، کہیں کہیں سے کوئی اینٹ معمولی سی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس میں شگستگی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ مقبرہ مستطیل شکل میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ مقبرہ کب تعمیر ہوا ، اسے کس نے تعمیر کروایا، اور کس نے تعمیر کیا، یہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ کیونکہ ابھی تک وہ دنیا کی نظروں سے پوشیدہ تھا۔ یوں بھی صحرا کے اس حصے میں کوئی آتا نہیں تھا۔
2
ایک حیرت زدہ کر دینے والی بات یہ تھی کہ پارٹی کے لوگوں کو باوجود کوشش کے مقبرے میں داخل ہونے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ بالآخر انہیں نہایت اونچی جگہ پر بنی ہوئیں سنگی جالیاں نظر آ گئیں جو نہایت ہی مضبوط تھیں۔ انہیں بڑی مشکل سے توڑ کر اندر جانے کا راستہ بنایا گیا۔ لیکن وہ راستہ اتنا تنگ تھا کہ اس میں سے ایک آدمی بمشکل اندر داخل ہو سکتا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد پارٹی کے سربراہ نے ایک نہایت ہی ماہر اور تجربہ کار کارکن کو بڑی مشکل سے مقبرے کے اندر جانے کو تیار کیا۔ کیونکہ تمام کارکنان مقبرے کی ہیبت دیکھ کر ہی خوفزدہ ہو گئے تھے۔ ہر کوئی واپس جانے کا خواہش مند تھا مگر اپنے انچارج کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کوئی قدم اٹھانے کا مجاز نہ تھا۔ اب مقبرے کے اندر جانے کو کوئی بھی تیار نہ تھا کیونکہ مقبرے کی جالیاں توڑتے وقت انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس مقبرے کے اندر جانا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بالآخر ایک کارکن ضروری آلات سے لیس ہو کر رسی کی سیڑھی کی مدد سے مقبرے میں داخل ہونے کو تیار ہو گیا۔
جب وہ اس سوراخ سے اندر داخل ہوا تو مقبرے کے اندر گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ اس نے ٹارچ جلا کر جائزہ لیا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا ۔ وہ ایک بہت بڑے تہہ خانے میں کھڑا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے ایک انسانی ڈھانچہ نظر آیا ۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور اس ڈھانچے کو غور سے دیکھنے لگا۔ ڈھانچے کے قریب پتھر کی کچھ سلیں اور تختیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس ڈھانچے کے دائیں ہاتھ میں لوہے کا ایک اوزار نما نوکیلا قلم تھا جو کہ پوری طرح زنگ آلود ہو چکا تھا۔
قلم کی نوک ایک سل پر ٹکی ہوئی تھی جیسے وہ اس پر کچھ لکھ رہا ہو۔ اس نے ٹارچ کی روشنی سے اردگرد کا جائزہ لیا۔ پھر وہ احتیاط سے ڈھانچے کے پاس گیا۔ اس نے دیکھا کہ تمام سلوں اور تختیوں پر عجیب قسم کی تحریریں کندہ تھیں۔ اس نے ڈھانچے کو غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ وہ ڈھانچہ پاؤں کی جانب سے لوہے کی ایک موٹی سی زنجیر سے بندھا ہوا ہے۔ زنجیر کا دوسرا سرا مقبرے کی دیوار میں گڑے ہوئے لوہے کے ایک کنڈے میں بندھا ہوا ہے۔ جوں ہی اس نے زنجیر کو ہاتھ لگایا، وہ ریزہ ریزہ ہو کر زمین پر بکھر گئی۔ اس طرح جب اس نے قلم کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ڈھانچے کے قریب ایک برا سا پتھر کا بنا ہوا پیالہ پڑا تھا۔ اس نے غور سے پیالے کو دیکھا مگر اس کے اندر اور کچھ نہ تھا۔ وہ بالکل خشک ہو چکا تھا۔ اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو ان چیزوں کے علاوہ اسے اور کچھ نظر نہ آیا۔ اس نے ڈھانچے کو ہاتھ لگا کر ٹٹولا مگر وہ اپنی جگہ اسی حالت میں کھڑا رہا۔ پھر اس نے نہایت احتیاط سے وہ سلیں اور تختیاں ایک ایک کر کے سوراخ سے باہر پہنچائیں اور پھر آخر میں خود بھی سوراخ سے باہر نکل آیا۔
ٹیم کے ارکان نے سلوں اور تختیوں پر لکھی تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ پھر بھی وہ سب خوش تھے۔ انہوں نے کسی اہم مقبرے کا سراغ لگا لیا ہے۔ سروے ٹیم بڑی مشکلوں سے ان سلوں اور تختوں کو سنبھال کر واپس قاہرہ پہنچی تو ان کا نہایت ہی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان میں سے آدھی سلیں اور تختیاں پروفیسر خیام کو اور آدھی پروفیسر سکندر اور لیلیٰ کو بھیجی جائیں۔ کیونکہ وہ کافی زیادہ تعداد میں تھیں۔ پھر یہ فیصلہ منسوخ کر دیا گیا اور ان سب سلوں اور تختیوں کی بڑی اور نمایاں تصاویر بنائیں گئیں۔ ان تصویروں میں ان کی لکھائی واضح تھی۔ اب ان تصویروں کی ایک ایک کاپی دفتر کے ریکارڈ میں رکھی گئی اور ایک ایک کاپی پروفیسر سکندر اور لیلیٰ کو بھیجی گئیں جبکہ اصلی سلیں اور تختیاں پروفیسر خیام کو بھیجی گئیں۔
ان کے ساتھ ان دونوں کو ایک ایک خط لکھ کر تمام تفصیل بھی بتا دی گئی کہ یہ تختیاں ان کو کہاں سے اور کیسے ملی ہیں۔ اس خط میں یہ استدعا بھی تھی کہ آپ ان تحریروں پر خصوصی توجہ دیں اور ہمیں ان راز ہائے پوشیدہ سے آگاہ کریں جو اس ناقابلِ فہم اور قدیم زبان میں لکھی گئی ہیں۔ اس سرکاری خط میں یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ اس اہم مشن کے لئے پروفیسر خیام، سکندر اور لیلیٰ تینوں کو منتخب کیا گیا ہے۔
پروفیسر سکندر اور لیلیٰ کے جوش و اشتیاق میں اضافہ ہو گیا۔
” میں اس مہم میں بھی پروفیسر خیام کو شکست دوں گا۔” پروفیسر سکندر رعونت سے بولا۔
” یقیناً ” پروفیسر لیلیٰ سکندر کی تائید کرتے ہوئے بولی۔ ” ہم دو ہیں اور وہ اکیلا۔۔۔۔۔۔ ہم جلد از جلد ان تحریروں کو پڑھ کر اس کے مطابق وہ سب کچھ کر لیں گے۔ تب تک خیام ان تحریروں میں ہی کھویا رہے گا۔ جب وہ ان کو پڑھنے کے بعد عملی طور پر گھر سے باہر نکلے گا تب تک ہم اس مہم میں کامیاب ہو کر لوٹ چکے ہوں گے۔”
پروفیسر سکندر اور لیلیٰ خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کام کا آغاز کر دیا اور کسی کو بھی اس میں مداخلت سے منع کر دیا۔
پروفیسر خیام کا بھی جوش و خروش دیکھنے والا تھا۔ وہ حکومتِ مصر کا مراسلہ پڑھ کر خوشی سے کرسی پر اچھل پڑا۔ اور بے چینی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ سلیں اور تختیاں اس کے خاص کمرے میں ایک بڑی سی میز پر پڑی تھیں۔ اس نے دیر نہ کی اور اپنے ملازم کو تاکید کر دی کہ جب تک وہ خود نہ بلائے کوئی بھی اس کمرے میں نہ آئے۔
کافی سے بھری ہوئی تھرماس بھی اس کی میز پر رکھی تھی اور وہ منہ میں پائپ دبائے ان تختیوں پر جھکا ہوا تھا۔ ان کے مطالعہ کے دوران وہ کبھی کبھی خوشی سے یوں اچھلتا جیسے اسے کوئی اہم راز معلوم ہو گیا ہو۔ وہ میز پر پڑے ہوئے کاغذات پر کچھ لکھتا۔ کبھی کبھی اس کے چہرے پر مایوسیاں ڈیرا ڈال لیتیں۔ اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتا۔ کام کے دوران جب وہ بہت تھک جاتا تو کرسی کی پشت پر ٹیک لگا کر پائپ کے ہلکے ہلکے کش لیتا اور ساتھ ہی کافی کا گھونٹ بھی حلق میں ٹپکانے لگتا۔ اسے اپنے اوقاتِ کار کی بھی پرواہ نہ رہی تھی۔
وہ مسلسل شب و روز اس کام میں مصروف تھا کیونکہ ان تختیوں پر کھدی ہوئی تحریریں خاص توجہ چاہتی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک ایسے مقبرے سے برآمد ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ جہاں کسی انسان کی رسائی اگر ناممکن نہیں تو محال ضرور تھی۔ جوں جوں پروفیسر خیام کو تختیوں اور سلوں کی عبارت سمجھ میں آ رہی تھی۔ توں توں اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی جا رہی تھی۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اکثر تحریروں میں فرعون کی رنگین داستان حیات یا ان روح فرسا مظالم کی روداد ہوتی جو اس نے اپنی رعایا پر توڑے تھے۔ یا پھر اس کے کسی بہت بڑے خزانے کا راز ہوتا تھا۔
ان تختیوں کی تمام تحریر پڑھنے کے بعد پروفیسر خیام کے رگ و پے میں ہلچل سی مچ گئی۔ اور اسے اپنی کامیابی کا پورا یقین ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ان سلوں اور تختیوں کا جو مطلب اخذ کرکے اپنے انداز میں لکھا وہ کچھ یوں تھا۔
۔
” میری اس تحریر کو پڑھنے والے عظیم انسان۔۔۔۔۔۔ سورج دیوتا تم پر مہربان ہو گیا ہے۔ تو کتنا بہادر ہے جو تو یہاں تک آ پہنچا ہے۔ یہ تو میں جان ہی نہیں سکتا کہ جب تو یہاں آیا تو کون سے فرعون کی حکومت ہے۔ کیونکہ میں تو سینکڑوں برس پہلے مر چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ بھی تو ممکن ہے کہ تو اسی فرعون کے دورِ حکومت میں یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جائے۔ اسی فرعون نے مجھے موت کے منہ میں پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے یہ صد فی صد یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی۔ کبھی نہ کبھی اس مقبرے کے اندر ضرور پہنچے گا۔ اس وقت شاید میری ہڈیاں بھی خاک ہو چکی ہوں گی۔مگر میں نےبھی قسم کھا لی ہے ۔ کہ میں کسی طریقے سے بھی انتقام لوں گا۔۔۔۔۔۔ میں بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں؟ میرا جرم کیا ہے؟ جس کے بنا پر میں موت کا راہی بن گیا ہوں۔ میں جلدی
میں جلدی میں اپنی تمام المناک کہانی سنا رہا ہوں۔ کیونکہ میری زندگی اور موت کے درمیان نہایت کم فاصلہ رہ گیا ہے۔ اس کے بعد میں یہ زہر کا بھرا پیالہ پی لوں گا۔
میں فن تعمیر کا ایک نہایت ہی قابل ماہر مانا جاتا ہوں۔ اس لئے مجھے فرعون کے دربار میں ایک اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ مجھے یہ مقام اپنے باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھی تعمیر کے بڑے ماہر تھے۔ ان کو بھی اعلیٰ مقام حاصل رہا تھا۔ ایک روز میں کسی کام کے سلسلہ میں فرعون کے کمرے میں گیا تو وہ کچھ پریشان سا لگ رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا۔۔۔۔۔۔ ” آؤ آؤ ۔۔۔۔۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔”
اس کے کمرے میں اور کوئی نہ تھا۔ اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔۔۔ میں بیٹھ گیا تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ ” مجھے تم سے ایک کام لینا ہے۔۔۔۔۔ کیا تم میری مدد کرو گے۔؟”
” آپ حکم کریں خداوند! میں آپ کے کام آ کر خوشی محسوس کروں گا۔” میں نے تعظیم کے ساتھ عرض کیا۔
وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ ” میں اس دنیا کا