از بشری میمن
قسط نمبر 14
سامنے خیام کا گھر تھا, دونوں گھر کی جانب چل پڑے. غضنی نے دروازہ کھٹکھٹایا مگر جلال شاہ سیدھا گھر میں داخل ہو گئے.
آؤ میرے پیچھے …… جلال شاہ بولے. مین گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے مکان کو نظر بھر کر دیکھا.
یہ گھر جنات سے بھرا پڑا ہے. اس گھر میں صرف ایک جن نہیں پورے خناس قبیلے کا بسیرا ہے. جلال شاہ نے غضنی اور منان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا.
یہ جگہ بہت خطرناک ہے غضنفر. یہ بگڑی ہوئی قوم ہے. ان کا کوئی دین ایمان نہیں ہے. ہمیں آج رات ہی عمل کرنا ہوگا ……. لیکن اس سے پہلے سارے گھر کا معائنہ کرنا پڑے گا …… چلو! پہلے خیام اور اس کی بچی کو دیکھتے ہیں. جلال شاہ بولے۔غضنفر اور شاہ جی جب گھر میں داخل ہوئے, ہر جانب وحشت زدہ خاموشی چھائی ہوئی تھی. جیسے گھر نہ ہو اک شہر خموشاں ہو …….
کتنی وحشت بھری ہے اس گھر میں. غضنفر جلال شاہ سے مخاطب ہوا.
خیام کہاں ہے اس کو ڈھونڈو. جلال شاہ نے پھر کہا.
وہ جیسے ہی صحن سے مکان کے اندر داخل ہوئے, ایک دم سے بجلی چلی گئی.
شاہ جی …….. غضنفر گھبرا کر بولا
گھبراؤ نہیں غضنفر, اللہ ہمارے ساتھ ہے. جلال شاہ بولے
اب جلال شاہ لاؤنج کے بیچو بیچ کرسی رکھ کر بیٹھ گئے.
غضنفر …… خیام کو ڈھونڈو جلال شاہ نے تیسری بار کہا اور خود قرآن پاک ہاتھ میں لے کر تلاوت کرنے لگے.
غضنفر سارے گھر میں ڈھونڈ چکا تھا لیکن خیام کہیں نہیں مل رہا تھا. ہر کمرہ, راہداریاں, کچن, باتھ رومز, سب کچھ وہ چیک کر چکا تھا.
یہ خیام کہاں رہ گیا …… کہیں اس کو کچھ ہو تو …… نہیں نہیں اللہ نہ کرے. غضنی سے آگے سوچا ہی نہیں جا رہا تھا.
کال کر کے دیکھتا ہوں, غضنفر بولا. اس نے خیام کو کال ملائی تو دور سے بیل بجتی ہوئی محسوس ہوئی. غضنفر کال بیل کی آواز کی سمت بڑھنے لگا. ٹی وی لاؤنج سے داہنے ہاتھ لان کی دوسری جانب …. گھپ اندھیرا …… اچانک وہ کسی چیز سے ٹکرایا اور مونھ کے بل جا گرا. اس کا موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پرے چلا گیا. موبائل ٹارچ کا رخ چھت کی جانب تھا جہاں ایک ہیولا دکھائی دے رہا تھا.
جل جلال تو …. یا اللہ کرم فرما. غضنفر موبائل اٹھانے آگے بڑھا اور جونہی واپس پلٹا تو ٹھوکر لگنے والی جگہ روشنی ڈالنے پر اس کی چیخ نکل گئی.
وہ بچی کسی لاش کی پیٹ میں مونھ ڈالے کچھ چبا رہی تھی اور فرش پر ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا.
اوہ خدایا …… اوہ خدایا ….. غضنفر کا شاید بلڈ پریشر لو ہو رہا تھا. ٹھنڈے پسینے اور ڈوبتی دھڑکن.
ماہین نے اس کی جانب چلنا شروع کر دیا. غضنفر بھاگنا چاہ رہا تھا لیکن اس کی ٹانگیں بے جان ہو چکی تھیں.
ماموں ………. ماہین بولی
غضنفر نے مشکل سے "جی” کہا اور ماہین نے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے اس کے سینے پر گہری خراشیں ڈال دیں.
غضنفر درد سے چلا اٹھا اور اس نے پوری جان لگا کر ماہین کو پرے دھکا دیا. اچانک خیام لنگڑاتا ہوا اندر داخل ہوا اور اس نے ماہین کو کمر سے دبوچ لیا.
غضنفر ……. خیام زور سے بولا
تم زندہ ہو خیام …. وہ لاش کس کی ہے. غضنفر نے پوچھا
خضر کی ….. ماہین خیام کی گرفت سے نکلی جا رہی تھی.
قاتل ….. قاتل …… قاتل ….. ماہین کے مونھ سے یہ لفظ یوں سنائی دے رہا تھا جیسے کوئی کنویں سے آوازیں لگا رہا ہو. قاتل قاتل بولتے ہوئے ماہین نے خیام کے ہاتھ پر کاٹ لیا. خیام نے تکلیف کے باعث ماہین کو چھوڑ تو دیا لیکن اس دھینگا مشتی کے دوران اس کا توازن بگڑا اور وہ پیچھے پڑے شیشے کے میز پر زور سے گرا جس باعث اس کا کاندھا نکل گیا.
***********************
جلال شاہ نے قرآن پاک بند کر کے سینے سے لگا لیا اور سورۃ الجن پڑھنا شروع کر دی. جلال شاہ کی آواز میں کمال تاثیر تھی جو یقیناً بیس سالہ ریاضت کی گواہی دے رہی تھی. جلال شاہ نے بیس برس تک کوئی نماز حتیٰ کہ نماز تہجد بھی قضا نہیں کی تھی. جلال شاہ کا ذریعہ معاش کتابت تھا جس سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی. اکل حلال نے شاہ جی کا چہرہ بارعب اور نمازوں کی کثرت نے ماتھا پرنور بنا دیا تھا. ایمان اپنی تابانیوں کے ساتھ اسی دل میں جلوہ افروز ہوتا ہے جو کثافت سے پاک کیا گیا ہو. حسد, بغض, کینہ, عداوت, نفرت, تعصب جس دل سے نکل جائیں اور اللہ کی کائنات سے محبت جہاں گھر کر لے وہ دل ناقابل شکست ہو جاتا ہے. جہاں اللہ کا خوف ہو وہاں ہر خوف قابو میں رہتا ہے. جہاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو وہاں پوری کائنات مطیع بن جاتی ہے. جلال شاہ خوبصورت لحن سے فضا مسحور بنا رہے تھے اور ہلکی رفتار سے چلتی ہوا لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی.
جھکڑ چلنا شروع ہوئے اور تیز ہوا کے ساتھ سیٹیوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں. قاتل …… قاتل ….. قاتل کی آوازیں تیز ہوا کی آواز کے ساتھ سنائی دے رہی تھیں.
غضنفر, خیام کو سہارا دے کر اب جلال شاہ کے پاس لے آیا تھا. ماہین پھر سے کہیں بھاگ گئی تھی. جلال شاہ سورۃ مکمل کرنے کے بعد خاموش ہو گئے. ان کے خاموش ہوتے ہی جھکڑ چلنا بند ہو گئے اور ہر طرف مکمل خاموشی چھا گئی.
جلال شاہ نے پانی پر دم کیا اور وہی پانی غضنفر کو اس کی چھاتی کے زخم پر گرانے کا کہا. غضنفر نے جیسے ہی چھاتی پر پانی بہایا, ماہین کے دئیے ہوئے زخم میں سے بدبودار پس بہنا شروع ہو گئی. درد اور تکلیف کے اظہار کے بعد غضنفر کا زخم بہتر ہو گیا اور تکلیف رفع ہو گئی.
غضنفر …… سیڑھیوں سے لے کر اوپر سامنے والے کمرے تک میرا دم کیا پانی چھڑکو. جلال شاہ بولے.
غضنفر نے حکم کی تعمیل کی اور گھر کے ہر کونے میں پانی چھڑکنا شروع کر دیا. شروع میں تو مکمل سکون رہا لیکن پھر اچانک گھر کے ہر کونے سے کاکروچ نکلنا شروع ہو گئے. درجنوں, سینکڑوں اور پھر پورے گھر سے لاکھوں کاکروچ باہر کی طرف دوڑے. غضنفر اتنے کاکروچ دیکھ کر واپس لاؤنج کی طرف بھاگا جہاں جلال شاہ اور خیام کے سامنے خون سے لتھڑی ماہین چوپائے کی طرح کھڑی تھی.
اس کی آنکھیں لال انگارا ہو رہی تھیں اور مونھ پر خون لگا ہوا تھا جو اب بھی اس کے ہونٹوں سے ٹپک رہا تھا.
بچی کو چھوڑ کر باہر آؤ ….. جلال شاہ بولے.
نہ نہ نہ نہ …. جا جا جا جا جا جا ….. تو جا تو جا ….. قاقاقاقاتل ….. قاقاقاقاتل …… اب ماہین غضب ناک انداز سے خیام کی طرف دیکھ رہی تھی. وہ جلال شاہ کی باتوں کا جواب ایسے لہجے میں دے رہی تھی جیسے کسی توے پر کوئی لوہے کا راڈ مار رہا ہو. مگر آواز کہیں دور سے آ رہی ہو. اٹک اٹک کر لفظ ادا ہو رہے تھے. کڑکڑاتے آہنگ سے.
چھوڑ دو اس بچی کو …… سامنے آکر بات کرو. تمہاری بات سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ بچی کمزور ہے اور تم مضبوط ہو. دس کلو کے تھیلے میں تم نے سو کلو وزن ڈال رکھا ہے. جلال شاہ نے ماہین کے اندر موجود مخلوق سے کہا
نہ نہ نہ نہ ….. نہ نہ نہ نہ ….. ہم ہم ہم ہم…. کھر کھر کھر …. نہ نہ نہ نہ ….. چچ چچ چچ چچ ….. اب ایک ساتھ بہت سی مختلف آوازیں ماہین کے اندر سے آنے لگیں اور اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا.
تو تم لوگ نہیں مانو گے؟ جلال شاہ چلائے اور ماہین کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سورۃ الرحمن پڑھنا شروع کر دی. جب جلال شاہ یہاں پہنچے
"خلق الانسان من صلصال کالفخار وخلق الجان من مارج من نار”
چھو چھو چھو چھو …… نہ نہ نہ نہ نہ ….. قاقاقاقاتل ……. قاقاقاقاتل …. کٹ کٹ کٹ کٹ. جلال شاہ نے اپنے ساتھ لایا ہوا پانی ماہین کے مونھ میں ڈال دیا. جھینگروں اور مینڈکوں کی تیز آوازیں آنا شروع ہو گئیں. پانی پیتے ہی ماہین نے الٹی کر دی. اس کے مونھ سے آنتوں پھیپھڑوں کے ٹکڑے اور کلیجہ نکلا جو وہ غالباً خضر کے کھا چکی تھی. الٹی کرتے ہی ماہین بے ہوش ہوکر گر پڑی جس کو خیام نے اپنے بازوؤں میں سنبھال لیا.
یہ آیات ہیں ….. بچی کے گلے میں ڈال دو. جلال شاہ نے تعویز خیام کے حوالے کیا جس نے وہ تعویز ماہین کے گلے میں باندھ دیا. آیات گلے میں ڈالتے ہی وہ سامنے آگیا …….
یا رب العالمین. خیام کا حیرت سے مونھ کھل گیا.
یا اللہ یہ کیا چیز ہے. غضنفر بولا ………….
اشتخ شدوس ……. جلال شاہ زور سے بولے
یہ کیا چیز ہے . غضنفر نے حیرت سے جلال شاہ کی طرف دیکھا
اشتخ شدوس ……. جلال شاہ دوبارہ زور سے پکارے
ایک کریہہ المنظر شے چار ٹانگوں پر چلتی ہوئی تینوں کے سامنے آ گئی. اس جانور نما شے کا دھڑ بھینس جیسا تھا مگر قد کتے جتنا تھا. اس شے کی صورت خنزیر جیسی تھی مگر جیسے کسی نے چہرے پر چھریوں سے ہزاروں چرکے لگائے ہوں. جسم کی چمڑی یا کھال ایسی جیسے کسی نے آگ میں جھلسا دیا ہو.
غضنفر کی حالت خوف کے مارے پتلی ہو رہی تھی لیکن وہ جلال شاہ کی طرف حیران ہو کر دیکھ رہا تھا جو غضبناک نظروں سے خنزیر نما شے کو گھور رہے تھے.
کیوں تنگ کر رہے ہو بچی کو تم. جلال شاہ بولے. اتنا پوچھنا تھا کہ بہت سے جنات سارے گھر میں کھڑے ہوئے نظر آئے جو خیام کو غصے سے گھور رہے تھے.
بول اشتخ شدوس … جلال شاہ نے جانور کو مخاطب کیا.
اشخ شدوس ایسی عجیب آواز اور زبان میں بولا جس کی سمجھ سوائے جلال شاہ کے غضنفر اور خیام کو نہ آ سکی.
انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارا بیٹا ہے. جلال شاہ نے اس جانور کے رینکنے کا جواب دیا. لاعلمی میں کیے گئے عمل کی پکڑ نہیں ہو سکتی. یہ قانون ہے اشتخ شدوس اور تم اس قانون کا جانتے ہو.
خنزیر پھر تیز آواز سے بولا.
نہیں. اسلام میں بے گناہ جانور کا خون بہانا بھی جائز نہیں ہے. بلامقصد اس قسم کا کوئی فعل درست نہیں ہے. جلال شاہ نے خنزیر کو جواب دیا.
خنزیر نے رینکنا شروع کر دیا.
تمہیں انہیں چھوڑنا پڑے گا. بچی کے بلیدان کی بات مت کرو. تمہارا بیٹا انہوں نے جان بوجھ کر نہیں مارا. جلال شاہ نے اشتخ شدوس سے کہا
یار یہ کیا ہو رہا ہے. غضنفر زمین پر بیٹھ کر خنزیر نما جانور اور جلال شاہ کی گفتگو سنتے ہوئے بولا. کیوں انہیں خنزیر کے سوالات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی.
خاموش ہو جاؤ. جلال شاہ نے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے غضنفر کو اشارا کیا.
چھوڑ دو بچی کو اشتخ شدوس. اور باقیوں کو لے کر اس گھر سے نکل جاؤ. جلال شاہ بولے
خنزیر کے مونھ سے چل چل چل چل نکلا. شا شا شا شا ….. شاید وہ اپنی آواز میں جلال شاہ کا نام لے رہا تھا. غضنفر نے اشتخ شدوس کی طرف حیرت سے دیکھا.
اچانک جلال شاہ کا چہرہ متغیر ہو گیا اور غصے سے کان اور چہرہ سرخ ہو گئے.
تم نے کئی گھرانے تباہ کیے ہیں اشتخ شدوس, آج میں ویسے بھی تجھے معاف کرنے کا سوچ کر نہیں آیا تھا. ویسے بھی بدلہ اس چیز کا ہوتا ہے جو ناجائز کی گئی ہو. کب اور کیوں مارا خیام اور اس کی بیوی نے تمہارے بیٹے کو. جلال شاہ نے اشتخ شدوس سے پوچھا.
یہ پوچھنا تھا کہ خنزیر غائب ہو گیا اور خیام بے ہوش ہو گیا.
(جاری ہے)
بشریٰ علی میمن