از بشری میمن
قسط نمبر 13
واٹ ………….. منان کی زبان سے جوان کی بات سن کر بے ساختہ حیرت کا اظہار ہوا. تم کیسے برآت ہو سکتے ہو … برآت تو تمہارے والد کا نام ہے جو ہمیں یہاں بٹھا کر گئے تھے اور وہ بوڑھے تھے. منان جھنجھلاہٹ کا شکار تھا.
وہ بوڑھا بھی میں ہی تھا. جوان بولا
کیا مطلب …… منان کا مونھ حیرت سے کھل گیا ….. تم بوڑھے, تم باپ, تم ہی بیٹے اور تم جوان. یہ کیسے ہو سکتا ہے.
منان کو یہ باتیں عجیب سی لگ رہی تھیں لیکن غضنی ساری بات سمجھ چکا تھا.
وہ دونوں ٹائم لوپ میں تھے اور یہاں ایسا ممکن تھا. یہ بات غضنی کہیں پڑھ چکا تھا کہ ٹائم لوپ میں کردار ایک خاص وقت اور دورانیہ کے بیچ قید ہو جاتے ہیں اور وہ وقت خود کو دہراتا رہتا ہے. جس وقت برآت گھر میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کو باہر بھجواتا ہے وہ ٹائم لوپ کا اختتامیہ تھا. گھر سے باہر برآت ٹائم لوپ کے آغاز میں برآمد ہوا جب وہ کبھی جوان ہوا کرتا تھا. یعنی یہ ٹائم لوپ صدیوں پر مشتمل تھا اور غضنی منان کے ساتھ اس کے کناروں کا مشاہدہ کر رہا تھا. گویا یہ دونوں اس دورانیہ کے شاہد تھے مگر کردار نہ تھے. اس لیے لوپ کا اثر ان دونوں پر محض مشاہدہ کی حد تک تھا. مگر اس میں برآت کا کردار وقت کی قید میں رہتے ہوئے ایک خاص حد تک آزاد تھا. یہاں واقعات مختلف ہو سکتے تھے تاہم وقت ایک خاص حصار سے باہر نہیں نکل رہا تھا. یہ جگہ دنیا ہی میں ایک علیحدہ دنیا تھی جس کا علم بہت کم لوگوں کو تھا. اور شاید برآت کو یہاں قید کیا گیا تھا.
میں آپ لوگوں کو چھوڑ دوں گا ادریس گوٹھ آپ فکر نہ کریں. برآت نے کہا
وہ لوگ برآت کے گھر سے باہر نکلے. غضنی منان کو گھسیٹ کر برآت کے گھر سے باہر لایا جسے ابھی تک کسی بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی. گھر سے باہر نکل کر برآت نے دونوں مہمانوں کو نیک تمنائیں دیتے ہوئے رخصت کیا اور دعا دی کہ اللہ انہیں منزل مقصود تک پہنچائے. آپ لوگ آنکھیں بند کریں ……. اور ہاں ہمارے متلعق کسی سے کچھ مت کہنا ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ برآت نے غضنفر کو تاکید کی.
دونوں نے وعدہ کیا اور آنکھیں بند کر لیں. برآت نے سختی سے کہا …… کچھ بھی ہو آنکھیں مت کھولنا جب تک شور سنائی نہ دے.
دونوں نے آنکھیں بند رکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. ایک زور کا جھماکا ہوا اور دور سے ایک بکریاں چرانے والے کی آواز سنائی دی. غضنی نے آنکھیں کھولیں تو وہ اب واپس گاڑی کے پاس کھڑا تھا ۔۔۔ جب کہ منان گاڑی میں ہی سو رہا تھا. غضنی نے گاڑی سٹارٹ کی تو وہ ایکدم سٹارٹ ہوگئی. غضنفر کو سب یاد تھا لیکن منان کو کچھ بھی یاد نہیں تھا. منان کے مطابق وہ کوئی آدھا گھنٹا سویا ہوگا گاڑی میں۔ غضنفر مسکرایا اور گاڑی سے نکل کر چرواہے کی طرف لپکا. او بھائی! یہ کونسی جگہ ہے؟
بکروال نے پوچھا, تمہیں کہاں جانا ہے بھایا؟
غضنفر نے کہا, ادریس گوٹھ سید جلال شاہ سے ملنے.
لو بھایا! ادریس گوٹھ میں کھڑے ہوکر ادریس گوٹھ کا پتہ پوچھ رہے ہو. بکروال مسکرایا. واقعی …. غضنفر ادریس گوٹھ پہنچنے پر خوش ہو گیا. بہت بھٹکنے کے بعد وہ منزل مقصود پر پہنچے تھے.
ہاں بھایا, اس آدمی نے کہا.
اب غضنفر دل ہی دل میں برآت کا شکر گزار ہو رہا تھا.
کیا آپ ہمیں سائیں جلال شاہ کے پاس لے جائیں گے. غضنفر نے پوچھا تو بکروال نے بسر و چشم انہیں ڈیرہ جلال شاہ تک لے جانے کی حامی بھری.
چلو بھایا, کیوں نہیں. اس آدمی نے کہا.
بکروال نے اپنی بکریاں ایک اور بندے کو دیں اور کہا کہ وہ مہمانوں کو چھوڑ کر واپس آتا ہے.
دونوں گاڑی میں سوار ہوئے اور بکروال کو بھی گاڑی میں بٹھا لیا.
بھایا, کیا کام ہے جلال شاہ سے. آدمی نے سوال کیا
یہ تو سائیں کو ہی بتائیں گے. منان نے کہا.
آدمی بہت ہی باتونی تھا. سارا رستہ اس کی باتیں ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں جس پر غضنی مسکرا رہا تھا … جب کہ منان کو برا محسوس ہو رہا تھا.
لو شروع ہوگیا جلال شاہ کا ڈیرہ. بکروال بولا
غضنفر وہ جگہ دیکھ کر حیران ہو گیا کیوں کہ جس کنویں کے پاس سے وہ گزر رہے تھے اسی کنویں پر اسے ماہین نے مدد کے لیے پکارا تھا. "غضنی ماموں بچاؤ …” وہ پورا خواب غضنفر کے دماغ میں فلم کی طرح چلنے لگا …. اس بندے نے دونوں کو درگاہ پر چھوڑ دیا. یہ لوگ اندر داخل ہوئے تو سامنے کچھ قبریں نظر آئیں. یہ چار قبریں تھیں, تین بڑے لوگوں کی اور ایک چھوٹے بچے کی. غضنفر نے دعا مانگنے کے بعد فاتحہ پڑھی اور قبروں کے کتبے پڑھنے لگا. ایک قبر پر لکھا تھا سید ادریس شاہ جیلانی. سن وفات 15 رجب 1213 ہجری. یکے بعد دیگرے اس نے تمام کتبے پڑھے تو حیران ہوگیا. سید جمال شاہ جیلانی سن وفات 21 شوال 1246 ہجری.
غضنی یہ دیکھ کر حیران ہو گیا. اس نے حساب لگایا تو یہ قبریں دو سو سال سے بھی زیادہ پرانی تھیں. مطلب افراب اور برآت تب سے اس درگاہ سے منسلک ہیں. غضنی نے سوچا۔ اس نے وہاں مجاور سے پوچھا کہ جلال شاہ سے ملنا ہے, وہ کہاں ملیں گے. تو مجاور نے بتایا کہ وہ کہیں نہیں ملتے کسی کو. ہاں انتظار کرو, اگر اللہ نے چاہا تو وہ مزار پر حاضری دینے ضرور آئیں گے. تب آپ ان سے مل لینا, لیکن وہ بھیس بدل بدل کر آتے ہیں. ان کو اچھا نہیں لگتا کہ لوگ ان سے عقیدت باندھ لیں.
شکریہ. غضنفر نے کہا
مجاور نے ان کو لنگر کھلایا اور وہیں انتظار کرنے کا کہا ….
غضنفر اور منان انتظار کرتے کرتے تھک چکے تھے لیکن جلال شاہ کا کوئی اتا پتہ نہ تھا. کیا پتہ شاہ جی کس روپ میں آتے ہیں. منان نے ہمت ہارتے ہوئے کہا.
اللہ پر بھروسہ رکھ, اللہ نے چاہا تو جلال شاہ ضرور آئیں گے. غضنفر نے ڈھارس بندھائی
اٹھو بابا, مزار کو تالہ لگانا ہے میں نے …… مجاور نے دونوں سے کہا
لیکن ہم کہاں جائیں گے. منان نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا
منان ….. ہم باہر انتظار کرتے ہیں غضنفر بولا.
نہیں, آپ لوگ وہاں مسجد میں آرام کریں. آپ سمجھیں میری بات کو …. مجبوری ہے میری بھی. اگر آپ کو شاہ سائیں کا انتظار نہ ہوتا تو میں آپ کو اپنے گھر لے جاتا. مجاور نے کہا.
نہیں کوئی بات نہیں ہم وہاں طے لیں گے ….. منان تم ایسا کرو مسجد میں آرام کرو, میں باہر ہی صحن میں قرآن پاک پڑھتا ہوں جب تک نیند نہ آئے. لیکن منان نے غضنفر سے کہا کہ وہ اندر جائے کیونکہ وہ سارا راستہ ڈرائیو کرتا رہا ہے اور زیادہ تھکا ہے. بہرحال, غضنفر کے اصرار پر مجبوراً منان کو مسجد میں جانا پڑا.
*********************
رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب اس کو گھوڑوں کے کھروں کی ٹاپ سنائی دی. آہستہ آہستہ آواز نزدیک ہوتی جا رہی تھی. غضنفر وہیں مسجد کے صحن میں بیٹھا رہا لیکن بولا کچھ نہیں۔ جیسے ہی تانگہ گاڑی قریب آئی, غضنفر نے دیکھا کہ ایک شخص اس سے اترا. اس شخص کے پیچھے سفید کپڑوں میں ملبوس چار مزید لوگ تھے لیکن سب کے سب خاموش. جیسے ہی وہ باریش آدمی بگھی سے اترا, غضنفر نے اس کا حلیہ غور سے دیکھنا شروع کیا. اس شخص نے کالی دستار باندھ رکھی تھی, کپڑے دھاری دار تھے, معلوم نہیں کپڑوں کا رنگ سرخ تھا یا سیاہ لیکن چہرہ سفید کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا. اچانک ہوا کا جھونکا آیا اور اس باریش بزرگ کا چہرہ دیکھائی دیا.
سبحان اللہ ……… غضنفر کے مونھ سے بے اختیار اللہ کی ثنا بیان ہوئی. کیا چاند سا چہرہ ہے. وہ تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا. بندے کا رنگ شاید سانولا ہے لیکن کتنا پرکشش اور بارعب ہے. غضنفر کے سوچتے سوچتے وہ بزرگ مزار کے دروازے پر آ کر رکے. انہوں نے اپنی دستار اتار کر مزار کی چوکھٹ پر رکھی اور اپنا دامن پھیلایا تو مزار کے دروازے کھلتے ہی چلے گئے. غضنفر سمجھ چکا تھا کہ ہو نہ ہو یہی بزرگ سید جلال شاہ ہیں۔
اب غضنی بھی ان لوگوں کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور آہستہ چلتے ہوئے مزار میں داخل ہو گیا. اس نے دیکھا کہ ایک بندہ بڑا سا مٹکا ہاتھ میں لیے آگے بڑھا. اس نے مٹکے سے تھوڑا سا پانی سید ادریس شاہ جیلانی کی قبر مبارک پر ڈالا پھر سید جمال شاہ جیلانی کی. غضنفر یہ سب دیکھتا رہا. پھر ان سب نے مل کر قرآن پاک پڑھنا شروع کر دیا. وہ قرآن ایسے لحن سے پڑھ رہے تھے کہ غضنی کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا. قرآن خوانی کے بعد جب وہ لوگ جانے لگے تو غضنفر جلال شاہ کو پکار اٹھا. السلام علیکم یا سیدی! مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے. میں بڑی امید لیے آپ کے پاس آیا ہوں.
تم کون ہو اور ادھر کیا کر رہے ہو. ان میں سے ایک نے پوچھا
جلال شاہ نے اس آدمی کو خاموش رہنے کا اشارا کیا اور غضنفر سے کہا. تم اٹھو ….. نماز پڑھو, کل ان شاءاللہ ملاقات ہوگی تم سے.
غضنفر نے سر جھکا لیا اور سید جلال شاہ کی چادر تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا لی.
غضنفر اچانک اٹھ بیٹھا. یہ کیا تھا …. میں خواب دیکھ رہا تھا کیا. ابھی تو کچھ لوگ ادھر سے گزرے تھے. بگھی آئی تھی, لوگ تھے, سید جلال شاہ تھے. میں نے خود جو دیکھا. غضنفر نے گھڑی میں وقت دیکھا تو ابھی 4 بج رہے تھے جب کہ شاہ جی نے کہا تھا کہ نماز پڑھو, تب تو اذان ہو رہی تھی. یہ سب کیا ہے. غضنفر بڑبڑایا, لیکن اس کو یاد آیا کہ میں نے شاہ جی کی چادر تھامی تھی. غضنفر نے اپنا ہاتھ ناک کے قریب لایا تو حیران ہوگیا کیوں کہ جو خوشبو شاہ جی کی چادر مبارک میں تھی وہی خوشبو اب غضنفر کو اپنے ہاتھ سے آ رہی تھی.
منان اٹھو …… منان! شاہ جی آئیں گے, آج ہم ملیں گے ان سے.
سونے دیں نا غضنفر صاحب … آپ کو کس نے کہا کہ وہ آئیں گے. منان نے آنکھیں ملتے ہوئے غضنفر سے پوچھا.
بس کہا کسی نے. غضنی بولا. اٹھو نماز پڑھ کر ان کا انتظار کرتے ہیں.
نماز کے بعد انہوں نے درگاہ سے ملحق قبرستان کا بھی چکر لگایا. یہ قبرستان مختصر سا تھا.
غضنفر وہ دیکھو …… منان نے اشارہ کیا. مسلمانوں کے قبرستان میں ہندوؤں کی قبریں. منان نے حیران ہوتے ہوئے کہا.
غضنی نے دیوار سے تھوڑا اوپر اٹھ کر دیکھا تو وہ بھی حیران رہ گیا. سات آٹھ قبریں تھیں ہندوؤں کی. پہلی قبر پر پون کمار, مدراس انڈیا لکھا ہوا تھا. مطلب مسلمانوں کے قبرستان میں ہندو دفن ہیں وہ بھی انڈیا کے. منان نے کہا۔
ہاں, مرید ہونگے شاہ جی کے غضنی نے کہا۔
لیکن ہندو دفن تو نہیں کرتے. منان بولا
اب وہ دیوار پھلانگ کر اندر ان قبروں کی طرف نکل گئے جو ان کے خیال سے ہندوؤں کی تھیں. دوسری قبر سنگیتا دیوی کی تھی. یکے بعد دیگرے قبریں دیکھنے کے بعد غضنی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیوں کہ ایک قبر ہری چند سپیرے کی تھی اور اس کے پاؤں والی سائیڈ رتیکا کی قبر تھی۔
او مائے گاڈ منان ……. ہری چند اور رتیکا کی قبریں ادھر ہیں. غضنی کے موںھ سے ہری اور رتیکا کا نام سن کر منان غضنی سے پوچھنے لگا کہ یہ کون ہیں اور غضنفر اتنا خوش کیوں ہو رہا ہے. لیکن غضنی مزید کچھ نہیں بولا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ منان کو برآت سے ملاقات بالکل بھی یاد نہیں ہے.
ادھر کیا کر رہے ہو آپ لوگ قبرستان میں. چلیں, شاہ جی نے بلایا ہے. غضنفر نے مڑ کر دیکھا تو سامنے وہی مجاور کھڑا تھا جو اب ان کو اپنے ساتھ آنے کا بول رہا تھا.
دونوں, مجاور کے پیچھے چل پڑے. چلتے چلتے وہ ایک جگہ آ کر رکے.
وہ سامنے جھونپڑی ہے شاہ جی وہیں پر ملیں گے.
دونوں اس جھونپڑی کے قریب پہنچے تو غضنی حیران رہ گیا. کیوں کہ یہ وہی شاہ سائیں تھے جن کو غضنی نے خواب میں دیکھا تھا۔ لیکن شاید وہ خواب نہیں تھا حقیقت تھی. غضنفر مسکرایا.
غضنی نے دیکھا, شاہ جی قمیض میں خود ہی پیوند لگا رہے تھے.
شاہ جی! آپ خود کیوں کر رہے ہیں یہ کام ….. حیرت ہے, رات کو تو آپ کے ساتھ اتنے لوگ تھے اور اب … غضنی اتنا ہی بولا تھا کہ شاہ جی مسکرا دیے.
جن کے لیے یہ دنیا بنی وہ بھی اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے. ہم تو ان کے قدموں کی دھول کے بھی برابر نہیں ہیں. جلال شاہ بولے.
غضنی اور منان ان کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے.
شاہ جی میرا ایک دوست ہے خیام.
جانتا ہوں ….. اللہ بہتر کرے گا. جلال شاہ بولے. ہمیں آج رات تک نکلنا ہوگا …. وقت بہت کم ہے. جلال شاہ بولے.
رات کو نکلے تو کیسے جلدی پہنچیں گے سرکار. منان نے ہاتھ باندھ کر کہا.
میں تو سوچ رہا تھا ابھی نکلتے ہیں. غضنفر بولا
رات تک نکلیں گے غضنفر. شاہ جی بولے
جی اچھا. غضنفر نے حکم کی تعمیل کی.
********************
رات کو وہ لوگ جلال شاہ کا انتظار کر رہے تھے لیکن جلال شاہ پتہ نہیں کہاں رہ گئے تھے. منان بار بار سامنے سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک ان کو جلال شاہ آتے دکھائی دئیے. چلیں …… جلال شاہ نے کہا.
جی چلیں ….. غضنفر نے جواب دیا.
گاڑی میں چلاؤں گا ….. جلال شاہ بولے
جی ضرور. غضنفر نے جواب دیا
جلال شاہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اور گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں ہو گئی.
چلتے چلتے اچانک گاڑی کا توازن بگڑا. غضنی سمجھا مر گئے اب, لیکن یہ کیا …… جیسے ہی اس نے چاروں جانب نظر دوڑائی تو اسے خیام کا گھر داہنے ہاتھ دکھائی دیا.
یہ سب اتنی جلدی ….. ہمیں تو ادریس گوٹھ پہنچتے کئی دن لگ گئے تھے اور یہاں ہم ادریس گوٹھ سے کراچی تک دس سیکنڈ میں کیسے پہنچے. منان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے.
(جاری ہے)
بشریٰ میمن