از بشی میمن
قسط نمبر 12
لگتا یوں تھا جیسے اللہ نے ہری سپیرے کی مدد کے لیے اس شخص کو وہاں بھیج دیا تھا. وہ گاؤں میں آیا تو اسے بھی ہری کا حال معلوم ہوا.
ایک دن ہری اپنی بیٹی کے لیے گھر میں پریشان بیٹھا تھا کہ صبح کے 3 بجے کسی نے دروازے پر دستک دی.
کون ہے اس وقت …. ہری ناگواری سے بولا.
میں جمال ہوں ایک مسافر …… ایک کام کے لیے نکلا تھا کہ یہاں آن پہنچا ہوں.
ہری نے جمال کے لیے دروازہ کھول دیا.
جوان کا بارعب چہرہ چاند کی طرح روشن تھا. ہری نے جمال کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور مہمان کو عزت سے اپنے پاس بٹھا لیا.
میرا نام جمال شاہ ہے. میں ایک گاؤں گیا ہوا تھا کسی خاص کام سے. آندھی طوفان کی وجہ سے میری گھوڑی راستہ بھٹک گئی, اور ہم اس طرف آگئے. جمال نے اپنا تعارف اور سفر کی نوعیت بیان کی.
میں ہری چند ہوں. پیشے سے ایک سپیرہ ہوں, پتنی مر چکی ہے. ایک بٹیا ہے وہ بھی آج کل بیمار ہے. ہری نے جمال کو اپنا تعارف دیا.
کیا بیماری ہے بیٹی کو؟ جمال شاہ نے پوچھا.
جانتا ہوتا کہ کیا بیماری ہے تو اب تک کچھ بھی کر کے اپنی بٹیا کو ٹھیک کر چکا ہوتا. ہری نے افسردگی سے جواب دیا.
میں ویدوں کا علم بھی جانتا ہوں. میرے ہاتھ میں اللہ تبارک و تعالی نے شفا رکھی ہے. میں اللہ کے کلام قرآن مجید سے لوگوں کو ٹھیک کرتا ہوں. جمال بولا تو ہری یہ سن کر رونے لگا اور ساری بات من و عن جمال کو بتادی.
جمال نے کہا کہ وہ لڑکی کے پاس جانا چاہتا ہے. وہ اسے دیکھ کر ہی کچھ بتا سکے گا.
ہری نے بتایا کہ رتیکا کمرے میں بند رہتی ہے. پتہ بھی نہیں چلتا کب حملہ کر دے کسی پر.
اس کا دروازہ کھولو, میں اندر جا کر دیکھتا ہوں. جمال شاہ لڑکی کے پاس چلا گیا۔ وہ اوندھے موںھ زمین پر لیٹی ہوئی تھی. جمال شاہ نے لڑکی کو سیدھا کیا تو اس نے آنکھیں کھول دیں. جمال نے اپنی چادر اس کے اوپر ڈالی اور اس سے پوچھا کہ وہ ایسی حالت میں کیوں ہے.
کیا ہوا ہے تمہیں. جمال شاہ نے رتیکا سے دریافت کیا
لڑکی کچھ نہ بولی. جمال شاہ نے کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری جس سے اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی لیکن اس کی مجموعی.صورتحال قابل رحم تھی.
بہت پوچھنے پر بھی لڑکی کچھ نہ بولی تو جمال نے اس کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی پکڑ کر کچھ پڑھنا شروع کر دیا.
جمال آنکھیں بند کر کے پڑھتا رہا جس باعث اسے وہ سب دکھائی دیا جس کے بعد رتیکا کی ایسی حالت ہوئی تھی. جمال شاہ کے پڑھنے کا اثر تھا کہ لڑکی اب مزید بہتر محسوس کر رہی تھی.
ہری نے جمال شاہ سے دریافت کیا کہ انہوں نے کیا پڑھا تھا, تو جمال نے اسے سب کچھ بتا دیا.
تمہاری بیٹی پر ایک خبیث جن کا سایہ ہو گیا ہے. جب تمہاری بیٹی شادی کی تقریب سے واپس آرہی تھی تب وہ جن بچے کی صورت میں اسے قبرستان کے قریب ملا.
ساری باتین سن کر ہری مزید پریشان ہو گیا کیوں کہ وہ ان باتوں کے بارے میں نہیں جانتا تھا. البتہ یہ ضرور تھا کہ ہری کو اپنی بیٹی اس روز قبرستان کے پاس ہی بے ہوش حالت میں ملی تھی.
ہمیں لڑکی پر پڑھائی کرنا ہو گی. جمال نے کہا
ساری تیاریاں مکمل کر لی گئیں. رتیکا کو گھر سے باہر ایک کنویں کے قریب باندھ دیا گیا اور جمال نے کنویں کے چاروں طرف آگ جلا لی کیونکہ سانپ کے کاٹے کا علاج اسی کا زہر اور آگ سے بنی مخلوق کا علاج ویسی ہی آگ ہو سکتی ہے.
جمال حصار کھینچ کر اس میں بیٹھ گیا اور ہری چند کو سمجھا دیا کہ کسی مکر و فریب میں نہ آئے. سامنے والا عفریت بہت مکار اور چالاک تھا.
یہ سب بتا کر جمال نے اپنا کام شروع کر دیا. وہ قرآن کی آیات پڑھتا جاتا تھا اور پانی پر پھونک مارتا جاتا تھا. جمال کی ہدایت کے مطابق وہی دم کیا ہوا پانی ہری لڑکی پر پھینکتا جاتا. دیکھتے ہی دیکھتے لڑکی کی حالت غیر ہونے لگی اور لڑکی کے کپڑے چرنا شروع ہو گئے. یہ دیکھ کر ہری نے آنکھیں موند لیں اور رتیکا کی طرف بھاگنا چاہا تاکہ اس پر چادر ڈال سکے.
رک جاؤ ہری ….. وہ مکار دھوکا کر رہا ہے …… میں نے جو کہا تھا اس پر عمل کرو اور حصار کی جانب مت آنا. جمال چلایا
جمال میرے پیارے جمال! آ …. میرے پاس ….. دیکھ میں تیرے لیے ترس رہی ہوں. مجھے اور مت ترسا. رتیکا عریاں حرکتیں کرنے لگی. ایسی حرکتیں جو کسی بھی عام انسان کا ایمان ڈانوں ڈول کر سکتی تھیں.
جمال اللہ سے دعائیں کر رہا تھا کہ اس کے دل میں کوئی فتور نہ آئے, ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا. وہ عفریت لڑکی کو تو نقصان دے ہی رہا تھا لیکن ساتھ ساتھ جمال اور ہری کی گردنیں بھی توڑ سکتا تھا.
بد ذات مکار …… میں تجھے جلا کر بھسم کردوں گا. جمال نے کہا. بتا …… کیوں پیچھے پڑا ہے رتیکا کے?
تو میرا بڑا ہے جو تجھے بتاؤں. عفریت کی آواز ایسی تھی جیسے ریڈیو فریکونسی درست کرتے وقت کئی آوازیں سنائی دیتی ہیں.
تیرا نام کیا ہے …. کہاں سے آیا ہے ….. بتا. جمال بولا
نہیں بتاؤں گا. عفریت چلایا
چل پھر جیسے تیری مرضی. جمال نے ہاتھ پر رکھ کر کچھ پڑھا اور آگ کی لکڑی پر ایسی پھونک ماری کہ اچانک وہ جن چیخنے چلانے لگا. جمال نے اب اٹھ کر لڑکی کو بالوں سے پکڑ لیا.
کون ہے تو بد ذات ….. کیوں لڑکی کے پیچھے پڑا ہے …. بول. جمال رعب دار آواز سے دھاڑا تو رتیکا چیخنے چلانے لگی. ابا مجھے بچا لے ….. ابا یہ خبیث مجھے مار دے گا …… یہ خود شیطان ہے. لیکن جمال کے ہاتھ کا اشارہ پا کر ہری خاموش ہوگیا. جمال نے پھر کچھ پڑھ کر لڑکی کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو اس کے موںھ سے عجیب و غریب آوازیں نکلنے لگیں.
بتاتا ہوں …. بتاتا ہوں ….. میرا نام افراب ہے. اب عفریت چیخ رہا تھا.
لڑکی کے پیچھے کیوں لگا ہے …… بتا ….. جمال نے پوچھا.
رتیکا مجھے اچھی لگتی ہے. افراب بولا
جو اچھا لگے اسے تکلیف بھی دیتے ہیں? جمال نے پوچھا. تم نے کدھر دیکھا تھا اس لڑکی کو. جمال نے سوال کیا.
ایک دفعہ کا ذکر ہے بہت سال پرانی بات ہے ایک عورت مر گئی تھی. اس عورت کو بیری کے پیڑ کے نیچے دوسری عورتیں نہلا رہی تھیں. ان عورتوں میں یہ دوشیزہ بھی تھی. میں اسی روز اس پر عاشق ہوگیا تھا. لیکن ہمارے قبیلے کے سردار نے ہمیں منع کیا ہوا تھا کہ ہم کسی انسان کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے. پھر ہمارے قبیلے میں جنگ ہوئی اور سردار یاندوس کی سرداری ختم ہو گئی. اب میرا باپ کلکائیل قبیلے کا سردار بن گیا. تبھی میں واپس رتیکا کے پاس آگیا. پہلے میں اسے دور سے دیکھتا تھا, لیکن اس رات میں ایک بچے کی صورت میں اس پر حاوی ہو گیا. میرے اس کے ساتھ بہت آگے کے تعلقات ہیں. یہ میرے بہت سے بچے جَن چکی ہے. اب بھی یہ پیٹ سے ہے. جمال یہ سب سن کر پریشان ہوگیا کیوں کہ لڑکی کا پیٹ واقعی بڑا تھا اور ہری نے بھی جمال شاہ سے کہا کہ لڑکی کی طبیعت پہلے بھی خراب ہوتی رہی تھی مگر پھر خود ہی ٹھیک ہوجاتی تھی. جمال نے لڑکی پر کچھ پڑھا اور اس کے گلے میں سورۃ یاسین ڈال دی. افراب ایسا کرنے پر چیخنے چلانے لگا. جس سے عشق ہو افراب ان کو دکھ نہیں دیتے. تم تو رتیکا کو مارتے بھی ہو جو کہ غلیظ حرکت ہے. جلال بولا
میں اس لیے مارتا تھا کہ یہ کسی کو بھی نہ دیکھے اور اس کے قریب کوئی بھی نہ آئے. افراب بولا
تم اپنی محبت کا ثبوت دو افراب ….. چھوڑ دو لڑکی کا پیچھا. جمال بولا
یہ ممکن نہیں ہے. افراب نے کہا
مجھے وہ سب کرنے پر مجبور مت کرو افراب جو میں نہیں کرنا چاہتا. جمال نے کہا
ٹھیک ہے ….. میں اس لڑکی کو نہیں دوں گا تکلیف, لیکن ایک شرط پر. جن نے کہا
کیا شرط? جمال نے پوچھا
یہی کہ میں رتیکا کے اندر رہوں گا اور اس کی شادی کا سوچا بھی نہیں جائے گا ورنہ میں رتیکا کو مار دوں گا.
پھر تو تم اپنے قول میں جھوٹے ہو افراب. جمال عفریت کو جذباتی کر رہا تھا.
تمہیں پتہ ہے افراب ….. میں ایک لڑکی سے عشق کرتا تھا, لیکن لڑکی کو مجھ سے محبت نہیں تھی. میں طاقت ور تھا ….
میں چاہتا تو اس سے زبردستی بھی کر سکتا تھا. وہ میرا کیا کر لیتی. لیکن نہیں افراب … محبت قربانی مانگتی ہے. ضروری نہیں جس سے ہم محبت کریں وہ بھی ہم سے اتنی ہی محبت کرے. مزا تو تب ہے جب سامنے والے سے کوئی امید بھی نہ ہو اور پھر بھی ہم بے لوث ہو کر اس کی تابعداری کریں. اس کے ہر حکم پر لبیک کہیں. جمال بولتا رہا. افراب خاموشی سے سنتا رہا ……. ایسا کرو دوست, یہ پیالا پیو اور چھوڑ دو رتیکا کا پیچھا.
میں پیتا ہوں پیالا …. لیکن رتیکا کے وجود میں میرا وجود ہے. اس کا وقت آئے …… میں اپنا بچہ لے کر چلا جاؤں گا. اس نے وعدہ کیا اور غائب ہوگیا.
رتیکا بے ہوش ہوکر گر پڑی. اس پر جو بھی گزری اس کو یاد ہی نہیں تھا. جمال کچھ ماہ ان کا مہمان رہا.
پھر ایک صبح رتیکا کی طبیعت بہت خراب ہوئی. سب پریشان ہو گئے. رتیکا نے بہت تکلیف سے گوشت کا ایک لوتھڑا جنا.
جیسے ہی لوتھڑا اس کے بطن سے نکلا, رتیکا کا پیٹ بن بیاہی لڑکی جیسا ہو گیا.
تھوڑی دیر بعد افراب ہری کے گھر انسانی روپ میں آیا اور جمال سے اجازت چاہی …… ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جمال اسے ایسا تعویز دے جس سے وہ رتیکا کو بھول جائے. یہ سب بولتے ہوئے افراب کی آنکھیں اداس ہو رہی تھیں. وہ جمال کے سامنے چارپائی پر بیٹھا تھا. اس کی آنکھیں عام انسانوں سے دوگنا بڑی تھیں. جمال نے اسے ایک تعویز کھلایا اور وہ چپ چاپ اپنا بچہ لے کر ہری کے گھر سے نکل گیا. گھر سے نکلتے وقت افراب نے ایک بکرے کا روپ دھارا اور اس کا بچہ ایک چھوٹے میمنے کی صورت میں اس کے ساتھ چلنے لگا. افراب ہمیشہ کے لیے اس بستی سے نکل گیا.
نوجوان نے کہانی ختم کر دی.
اوہو …… تو جنوں کو بھی عشق ہوتا ہے. منان نے ہنستے ہوئے کہا
اب کی بار اس جوان نے منان کی طرف غضب کی نگاہ سے دیکھا. غضنفر نے جلدی سے معذرت کر لی. منان کی تو عادت ہے مذاق کرنے کی. غضنفر کی بات سن کر جوان خاموش ہو گیا.
تمہیں بھی یقین نہیں آرہا میری باتوں کا. وہ جوان غضنفر سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا
غضنفر تذبذب کا شکار تھا. جوان نے ہنس کر کہا. میرا باپ ہے افراب اور میں اسی افراب کا بیٹا ہوں برآت.
جوان کی بڑی بڑی آنکھیں چمکنے لگیں.
*************************
وہ ایک طرف دبکا بیٹھا ہوا تھا. اسے محسوس ہوا کہ وہ شیطان اس پر حملہ آور ہونے آرہا ہے. اس کو قدموں کی چاپ سنائی دی تھی. وہ ڈر کر, سہم کر ایک سائیڈ پر بیٹھ گیا کہ اچانک اسے پاؤں کی آہٹ سنائی دی. قریب تھا کہ خضر چیخ مار کر بھاگتا, اسے سامنے سے ہانیہ آتی دکھائی دی.
ہانیہ …… تم …… تم یہاں کیسے آئیں, تمہیں کیسے پتہ چلا یہاں کا …… خضر حیران ہو رہا تھا.
تم کہاں گم ہوگئے ہو خضر, سب پریشان ہیں. گھر پر آنٹی نے نیلم سے رابطہ کیا تو مجھے پتہ چلا کہ تم ان کے گھر پر ہو. چلو میں تمہیں اپنے ساتھ لے چلوں. اور یہ تم نے اپنا کیا حشر کیا ہوا ہے. تمہارا سر کیوں زخمی ہے. ہانیہ خضر کے گلے لگ گئی.
اتنے دنوں بعد تو خضر نے ہانیہ کا چہرا دیکھا تھا, ورنہ تو اس کو لگتا تھا کہ وہ خناس خضر کو نگل ہی لے گا پوری ملک فیملی کے ساتھ ہی.
تم ادھر کیوں آئی ہو ہانیہ. وہ خناس تمہیں مار ڈالے گا۔ خضر بولا
مجھے کوئی نہیں مار سکتا خضر …… چلو اپنے گھر چلیں. میں دروازے سے اندر آئی ہوں. مجھے تو کوئی شیطان دکھائی نہیں دیا. ہانیہ بولی
خضر نے ہانیہ کو اپنی باہوں میں بھر لیا تھا لیکن پھر اسے ہانیہ سے بہت تیز بدبو آنے لگی. ایسی بدبو جیسے کوئی جانور مر گیا ہو. خضر نے ہانیہ کو پیچھے دھکا دیا تو اسے ایک سوکھا کریہہ صورت آگ کا گولا نظر آیا جو اب خضر کو گھور رہا تھا.
تو ادھر کیوں آگیا ہے؟ مرنے آیا ہے حرام زادے …… تو ہمیں ختم کروائے گا پِلّے. تو ادھر خود نہیں آیا, بلکہ تجھے تیری موت کھینچ لائی ہے. اتنا بول کر اس کریہہ صورت مخلوق نے خضر کو پکڑنا چاہا. خضر خوف کے مارے پیچھے کی طرف بھاگا جہاں بالکنی سے نیچے گھر کا بیک یارڈ نظر آ رہا تھا.
دور ہو ….. دور ہو ….. خضر چلایا. گھبراہٹ میں پیچھے ہٹتے وقت اس کا پاؤں کسی شے سے الجھا اور وہ چھت سے نیچے پکے فرش پر سر کے بل جا گرا. اس اچانک افتاد نے خضر کو چیخنے کا موقع بھی نہ دیا. اس کی آواز اس کے حلق میں ہی دب کر رہ گئی. گھر کا فرش اس کے سر کے خون سے بھر چکا تھا.
+++++++++++++++++
سارا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ….. ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا. ماہین کے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں. بچاؤ پاپا ….. بچاؤ مجھے.
خیام اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اٹھ نہیں پا رہا تھا. اس کے سر کا زخم خراب ہو چکا تھا جس باعث اسے تیز بخار بھی تھا.
ماہین …… میری بچی … پاپا کی جان …. خیام نے ماہین کو آواز دی.
پاپا میں ادھر ہوں ….. بچاؤ مجھے پاپا ….. خیام نے کمرے سے نکل کر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیوں کہ ماہین پانی کے بڑے پلاسٹک ٹب میں مونھ کے بل بے ہوش پڑی تھی. ٹب پانی سے لبالب بھرا تھا اور ماہین کا سر پانی کے اندر جبکہ دھڑ باہر تھا.
وہ جلدی سے بھاگتا ہوا آگے بڑھا اور ماہین کو ٹب سے باہر نکالا. یا اللہ میری مدد کر, اپنے پیارے حبیب کے صدقے سے میری مدد کر. خیام سورۃ الاخلاص اور آیت الکرسی پڑھتا جا رہا تھا. اس نے ماہین کو اپنی باہوں میں بھر لیا. ننھی پری اب بے ہوش ہو چکی تھی. خیام نے ماہین کی گردن پر ہاتھ رکھ کر چیک کیا تو محسوس ہوا کہ اس کی سانسیں بند ہو چکی ہیں. اس نے ماہین کا موںھ کھول کر اس کے پھیپھڑوں میں اپنی سانس پھونکنی شروع کر دی.
ماہین …… ماہین ….. آنکھیں کھولو بیٹا, دیکھو پاپا آپ کو بلا رہے ہیں. ماہین ……
خیام روئے جا رہا تھا لیکن ماہین کی سانس رک چکی تھی.
خیام ہمت ہارنے والا نہیں تھا. اس نے ماہین کو فرش پر لٹا کر اس کی چھاتی پر دباؤ ڈالا اور اس کے موںھ میں بار بار پھونک ماری تو ماہین کی سانسیں بحال ہو گئیں.
سانس بحال ہوتے ہی ماہین کے موںھ سے بہت سا بدبو دار پانی خارج ہوا. پانی کی سرانڈ سے خیام کو الٹی آگئی. اب ماہین آنکھیں کھولے خیام کو دیکھ رہی تھی. وہ زور زور سے رونے لگی. رات کی چادر آہستہ آہستہ سرکتی ہوئی روشنی میں تبدیل ہونے والی تھی. صبح کی کرن نمودار ہونے کو تھی. خیام اپنی بیٹی ماہین کو گود میں لیے اب سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ورد کر رہا تھا. ماہین اس کی باہوں میں مسلسل تکالیف سے ہلکان بے سدھ ہوئی سو رہی تھی. دن کا اجالا پھیلتے ہی وہ خناس غائب ہوگیا تھا.
خیام نے ماہین کو صوفے پر سلایا اور خود کچن میں آگیا. وہاں اس نے فریج سے ٹھنڈا پانی لے کر اپنے چہرے پر ڈالا جو بخار کی حدت سے تپ رہا تھا. پھر وہ کچھ کھانے کو ٹٹولنے لگا.
معلوم نہیں غضنفر کہاں رہ گیا ہے. خیام نے موبائل ڈھونڈا تو وہ اسے صوفے کے نیچے پڑا ہوا ملا. اس نے غضنی کو کال ملائی تو "یور نمبر از ناٹ رجسٹرڈ” کی اطلاع سنائی دی. ارے یہ کیا … نمبر بار بار نان رجسٹرڈ کیوں آ رہا ہے. چلو سگنلز پرابلم ہو تو ایک دو بار آئے, لیکن بار بار کیوں ….. غضنی سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا. خیام سوچ رہا تھا کہ ماہین کو اس گھر سے دن کے اجالے میں کہیں دور لے جائے یا پھر نیلم سے ملا لائے لیکن شاید اس کا کوئی فائدہ نہ تھا. رات ہوتے ہی وہی حالت ہو جائے گی میری بچی کی اور اگر شیطان نے راستہ دیکھ لیا غضنی کے گھر کا تو میرے دوسرے بچوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے. نہیں … میں کہیں نہیں جا سکتا. نہ خود جا سکتا ہوں اور نہ ہی ماہین کو چھوڑ سکتا ہوں.
خیام گھر سے باہر نکل کر سارے گھر کی تلاشی لینے لگا. دن کی روشنی میں سب اچھا لگ رہا تھا. چاروں طرف ہریالی تھی. یہ نظارہ دل کو کتنا بھلا لگ رہا تھا. کاش اس گھر میں کچھ بھی غلط نہ ہوتا. گھر کتنا خوبصورت ہے نا ….. خیام وہ گزرے دن سوچنے لگا. اس کو نیلم اور اپنے بچے شدت سے یاد آنے لگے. وہ دن جب وہ سب اس گھر کو دیکھنے آئے تھے, کتنے خوش تھے نا سب. خیام بچوں کی طرح رونے لگ گیا. کوئی بھی تو اس کے پاس نہیں تھا. وہ اپنے لیے خود ہی دعاؤں کے در بند کر آیا تھا. اس کے جان سے پیارے اماں ابا, اس سے ہر رشتہ ختم کر چکے تھے.
خیام سوچنے لگا …. ہو نہ ہو اسے شبنم کی بددعا لگ گئی ہے. "میں نے اس سے شادی سے انکار کیا تھا, جبھی میں اب تکلیف میں آگیا ہوں.” خیام سوچنے لگا کہ اسے شبنم سے معافی مانگنی چاہیے. وہ کبھی جائے گا گاؤں شبنم کی منت کرنے, شاید وہ اسے معاف کر دے. یہ سوچتے اور چلتے ہوئے خیام سارا گھر دیکھ چکا تھا لیکن کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا کہ اس گھر میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے.
وہ اب گھر کے پچھلے حصے میں داخل ہوا. وہ سب جگہیں چیک کر رہا تھا تاکہ کوئی تو سراغ ملے لیکن ندارد. وہ آگے بڑھا کہ اچانک اسے ایک گڑیا نظر آئی, جو زمین پر پڑی ہوئی تھی خیام نے گڑیا اٹھالی. یہ گڑیا ماہین کی ہے جو میں نے اس کو سالگرہ پر لے کر دی تھی. خیام گڑیا دیکھتا رہا کہ اچانک سناٹے میں سسکیوں کا ایک شور ابھرا. اب کی بار کوئی بچی سسکیاں لے کر رو رہی تھی.
یہ کون رو رہا ہے. کہیں ماہین تو نہیں. خیام نے سوچا
نہیں, یہ آواز ماہین کی نہیں ہے. میں پہچانتا ہوں. خیام خود سے مخاطب ہوا. وہ آواز کی سمت بڑھتا رہا کہ اچانک اسے ایک بچی گھٹنوں میں موںھ دئیے روتی ہوئی نظر آئی.
کون ہو تم ….. رو کیوں رہی ہو. خیام نے سوال کیا
بچی نے جیسے ہی سر اٹھایا تو خیام بچی کا چہرہ دیکھ کر حیران ہو گیا. ماہرہ تم ….. پاپا کی جان ادھر کیا کر رہی ہو. بچی کے چہرے کی سنجیدگی دیکھ کر خیام ٹھٹھک گیا کہ ہو نا ہو یہ خناس کا مَکر ہے. گڑیا میری ہے مجھے دو یہ کہتے ہی لڑکی کا چہرا متغیر ہو کر عجیب سا ہو گیا. خیام نے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر پھونک ماری تو ایک دھماکا ہوا اور وہ لڑکی غائب ہوگئی. اب اس جگہ وہی گڑیا پڑی ہوئی تھی جو خیام کے ہاتھ میں تھوڑی دیر پہلے تھی.
یہ سب ہو کیا رہا ہے. کہیں تیز بخار کا اثر تو نہیں کہ مجھے غیر مرئی چیزیں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں. کیا یہ حقیقت ہے یا ایلوڏن ہے. خیام کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا. لڑکی جونہی غائب ہوئی, سامنے لگا جھولا خود بخود چل پڑا اور زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں. یہ سب دیکھ کر خیام اس جگہ سے جلدی جلدی نکل آیا …….
***********”************
وہ شام کے وقت چھت سے کپڑے اتارنے گئی تو اس کو گیٹ کی باہر ایک آدمی نظر آیا عجیب و غریب شکل کا, جو نیلم کی طرف دیکھ رہا تھا. نیلم اس کی شکل دیکھ کر ڈر گئی اور جلدی جلدی نیچے اتر آئی. ابا جی ….. نیلم نے راشد ملک کو آواز دی.
جی بیٹا. راشد ملک بولے
بہت دن سے ایک آدمی گیٹ کے پاس کھڑا ہوتا ہے. اب بھی کھڑا تھا. میں گئی تو ہمارے گھر کی طرف چھت کو گھور رہا تھا. راشد ملک نے باہر جا کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا. جو بھی تھا شاید چلا گیا تھا اب … بیٹا کوئی نہیں ہے اب. جب بھی وہ آدمی دیکھو مجھے اسی وقت بلانا. راشد ملک نے کہا
جی ابا جی. نیلم نے کہا … راشد ملک کے آنے سے سب کو ایک آسرا ہوا تھا ورنہ تو سب ڈر رہے تھے ……
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا کہ اس کی آنکھیں کھل گئیں. کوئی عورت گنگنا رہی تھی.
اس وقت کون گا رہا ہے. صائمہ نے خود سے کہا …. اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو صبح کے تین بج رہے تھے. صائمہ کا سارا ماتھا پسینے سے تر تھا. وہ ہمت کر کے باہر آئی. اندھیرے میں اسے ایک عورت نظر آئی. تین بج رہے تھے لیکن اندھیرے میں بھی صاف دیکھا جا سکتا تھا اس عورت کو. اس عورت کی پیٹھ صائمہ کی طرف تھی. صائمہ ہمت کر کے اس کے قریب گئی تو مارے ڈر کے اس نے اپنے مونھ پر ہاتھ رکھ لیا, کیوں کہ وہ عورت ایک مرے ہوئے بچے کو نہلا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ گنگنا بھی رہی تھی. اب وہ عورت صائمہ کی طرف دیکھ کر ہلکا سا ہنسی تو صائمہ کی چیخیں نکل گئیں. عورت کے سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے اور اس کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے جو میل کی وجہ سے کالے ہو چکے تھے. صائمہ چیخ کر اٹھ بیٹھی. ماریہ جوزف صائمہ کی آواز سن کر بھاگتی ہوئی روم میں آئی تو صائمہ کی حالت دیکھ کر ڈر گئی.
کیا ہوا بی بی جی آپ کو. ماریہ بولی.
وہ …… وہ عورت ….. ایک بچہ ….. صائمہ کی حالت غیر ہو رہی تھی. ماریہ نے صائمہ کو پانی کا گلاس پکڑایا اور بھاگتی ہوئی نیلم کے پاس پہنچی. بی بی جی دروازہ کھولیں, وہ صائمہ بی بی …… ماریہ اتنا ہی بول پائی.
کیا ہوا صائمہ کو. نیلم نے پوچھا
وہ بھاگی ہوئی روم میں پہنچی تو صائمہ پسینے سے شرابور ہو رہی تھی. اس کی آنکھوں کی پتلیاں خوف کے مارے پھیلی ہوئی تھیں.
کیا ہوا صائمہ, تم ٹھیک تو ہو. نیلم نے پریشان لہجے میں پوچھا.
بی بی جی, صائمہ باجی نے خواب دیکھا ہے کوئی برا. میں ان کے چلانے کی آواز سن کر آئی تو ان کی حالت ……
ماریہ اتنا ہی بولی کہ راشد ملک نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کو کہا.
کیا ہوا بیٹا, کوئی خواب دیکھا برا ….. کچھ نہیں ہوتا …. سارا دن وہی باتیں دماغ پر سوار ہوتی ہیں اس لیے ایسا ہو رہا ہے. یہ سب برے خواب دن بھر کی گفتگو کے مطابق آتے ہیں. اتنا کچھ گزر گیا ہم لوگوں پر اس لیے بیٹا صبر اور نماز سے مدد لو۔
صائمہ بس روئے جا رہی تھی. اس کو غضنفر بہت یاد آ رہا تھا. اب صائمہ کو وسوسے ہو رہے تھے کیوں کہ غضنی اب نمبر بھی نہیں اٹھا رہا تھا.
تم پریشان نہ ہو صائمہ, غضنی بھائی کو کچھ نہیں ہوگا ان شاءاللہ. نیلم نے کہا تو صائمہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی.
مت ہو پریشان میری بہن. سب ٹھیک ہوجائے گا ان شاءاللہ
نیلم نے صائمہ کی ڈھارس بندھائی …
ہاں بیٹا اٹھو, وضو کر لو اور دو رکعت نفل پڑھ لو. شاباش پتر, اللہ سے بہتری کی امید رکھو. نا امید مت ہو. راشد ملک نے کہا اور روم سے چلے گئے.
صائمہ اٹھو چلو, ساتھ میں نماز پڑھتے ہیں.
جی بولتی صائمہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ اس کا ہاتھ گیلا ہو گیا.
صائمہ نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ کی طرف دیکھا تو وہ سرخ خون سے تر تھا. یہ ….. یہ کیا ہو رہا ہے. صائمہ پریشان ہو رہی تھی
نیلم نے موںھ پر ہاتھ رکھ لیا. صائمہ کا بچہ ضائع ہو گیا شاید ۔۔۔
(جاری ہے)
بشریٰ میمن