از بشری میمن
قسط نمبر 11
جب وہ چلتے چلتے تھک گئے تو منان نے تھوڑی دیر بیٹھنے کا کہا. یہ دونوں ابھی بیٹھے ہی تھے کہ شور سن کر اٹھ کھڑے ہوئے.
یہ شور کیسا ہے! غضنفر نے کہا.
آئیں دیکھتے ہیں. منان بولا
وہ اٹھے اور شمال کی سمت چل پڑے جہاں انہیں تھوڑی دور ایک گاؤں دکھائی دیا. چلتے چلتے وہ گاؤں میں داخل ہو گئے جہاں سب سے پہلے انہیں ایک کچا سا گھر نظر آیا. مٹی کا گھر جس میں لکڑی کا دروازہ اور ایک کھڑکی نظر آ رہی تھی.
غضنفر اب کسی کے رابطے میں بھی نہیں تھا کیوں کہ موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی تھی. کمال یہ تھا کہ دونوں کی کلائیوں پر بندھی گھڑیاں بھی بند ہو گئی تھیں. گھر دیکھ کر دونوں اس جانب چل پڑے کہ شاید کوئی انہیں سستانے کو جگہ فراہم کرے یا ادریس گوٹھ کا راستہ دکھا دے.
غضنفر صاحب! میرے خیال سے عشاء کا وقت ہے, نماز نہ پڑھ لیں. منان بولا.
لیکن منان! وضو کرنے کو پانی بھی تو ملے. غضنفر بولا. سامنے والے گھر میں شاید کچھ میسر ہو سکے, ورنہ پھر تیمم سے ہی کام چلانا پڑے گا. غضنفر اور منان نماز عشاء کی نیت سے اس گھر کی طرف بڑھنا شروع ہوئے. بھوک سے منان کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا کیونکہ بہت دیر سے دونوں نے کچھ نہیں کھایا تھا. راستے میں کوئی چھوٹا موٹا ہوٹل تو دور کی بات, کوئی ڈھابہ بھی نہیں تھا جہاں رک کر بھوک اور پیاس مٹائی جا سکتی. یہاں آتے وقت اگر کوئی گھر ہی مل جاتا تو وہاں صاحب خانہ کی منت سماجت کر کے زاد راہ حاصل کر لیتے. حیرت کی بات یہ تھی کہ اس گاؤں میں ان لوگوں نے کسی انسان کو ابھی نہیں دیکھا تھا. سارا گاّؤں سنسان پڑا ہوا تھا. سامنے کی گلی ویران نظر آ رہی تھی.
گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر دونوں نے گاؤں کی جانب دیکھا تو وہاں کوئی دکھائی نہ دیا. حیرت ہے عبدالمنان! اتنا بڑا گاؤں ہے لیکن کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہیں ہے. غضنفر بولا
یہی گفتگو کرتے ہوئے غضنفر نے گھر کے دروازے پر دستک دی, لیکن کوئی باہر نہ آیا.
شاید گھر ویران ہے. غضنفر بولا
یہ بول کر دونوں اس گھر میں بلا اجازت داخل ہو گئے.
جیسے ہی وہ دونوں گھر میں داخل ہوئے, انہیں ایک آدمی کی بارعب آواز سنائی دی.
"اندر کدھر گھسے آ رہے ہو؟” اچانک ان کے سامنے ایک عجیب وضع قطع کا بوڑھا آدمی آن کھڑا ہوا جسے دیکھ کر دونوں ہی گھبرا گئے. بوڑھے کی داڑھی, مونچھوں حتیٰ کہ بھنوؤں کے بال بھی سفید تھے. ناک لمبی, سپاٹ چہرہ, آنکھیں عام انسانوں کی نسبت دگنا بڑی. بوڑھے کا سر مکان کی چھت سے ٹکرا رہا تھا جبکہ اس نے ہاتھ میں بڑا سا عصا تھام رکھا تھا.
"ہم اجنبی ہیں اس گاؤں میں.” غضنفر نے جلدی سے کہا. "دروازہ کھٹکھٹایا مگر یہ سمجھ کر اندر آ گئے کہ شاید گھر خالی ہے.” غضنفر نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے جواب دیا.
"کیسے آئے ہو ادھر تم لوگ؟” بزرگ نے سوال کیا.
راستہ یہاں لے آیا ہمیں. کہیں جا رہے تھے ہم. غضنفر نے جواب دیا دونوں خوش تھے کہ بالآخر انہیں کوئی انسان نظر تو آیا جس سے بات ہو سکے.
اچھا اچھا! وہ سامنے گھڑے سے پانی پی لو. تم دونوں کو کچھ کھانے کی بھی ضرورت ہے. بزرگ نے دونوں کی حالت دیکھ کر جواب دیا.
پانی پینے اور کمرے میں دھری چٹائی پر براجمان ہونے کے بعد غضنفر نے بزرگ سے اس کا نام پوچھا.
کیا ہم آپ کا نام جان سکتے ہیں؟
برآت! بزرگ بولا.
جی میرا نام غضنفر ہے اور یہ ہیں …… غضنی ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ بزرگ نے کہا, منان ہیں آپ …….. منان ہیں. برآت نے دونوں کو حیران کر دیا.
ان کو کیسے پتہ ہمارے ناموں کا.
دونوں کو پریشان دیکھ کر برآت مسکرایا.
پریشان نہ ہوں. میں بہت دیر سے کھڑکی میں کھڑا تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا. تم لوگ تھوڑا آرام کرو, میں تمہارے کھانے کا بندوبست کرتا ہوں. برآت نے کہا اور دونوں کو مکان میں چھوڑ کر باہر نکل گیا.
کچھ ہی دیر بعد برآت ہاتھ میں چنے, گڑ اور کچھ پتے لے کر واپس آیا. اس نے چنے اور گڑ غضنفر اور منان کے سامنے رکھے اور پتے لے کر صحن کی جانب چلا گیا.
یار یہ چنے میرے حلق میں پھنس جائیں گے. غضنفر نے منان سے کہا. اللہ کا بندہ چنے لے آیا ہمارے لیے. بھئی کوئی روٹی ساگ لاؤ جس سے پیٹ بھر سکے بندہ. غضنفر کو اب غصہ آ رہا تھا
جناب والا! اس کو غنیمت جان کر کھا لیں. ہمیں تو پورے رستے کھانے کو صرف گرد ہی ملی ہے. میرا تو مشورہ ہے کہ چنے گڑ کھا کر پانی پیتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے اس بیابان میں کچھ تو حلق سے اتارنے کو دیا. منان کے سمجھانے پر غضنفر نے چنے اور گڑ پھانکنے شروع کر دئیے.
اتنی دیر میں برآت ان کے سامنے قہوہ بنا لایا.
لو پیو یہ قہوہ ساتھ ساتھ. یہ مسلون کے پتوں سے بنا قہوہ ہے. تمہاری تھکاوٹ دور کرے گا.
مسلون کیا ہوتا ہے؟ منان نے پوچھا
یہ بھی کچھ ہوتا ہے. برآت نے منان کو اپنی بڑی بڑی آنکھیں دکھائیں تو اس نے پیالہ تھامنے میں ہی عافیت جانی.
بزرگوار آپ سے ایک بات پوچھوں, اگر اجازت ہو تو. غضنفر نے ادب سے پوچھا.
بزرگوار کیا ہوتا ہے, برآت کہو مجھے. بابا غصے سے ان دونوں کو گھورنے لگا. کیا پوچھنا چاہتے ہو, پوچھو. برآت نے کہا.
اس گاؤں میں ہم جیسے ہی داخل ہوئے …….. یا اس سے پہلے بھی, سارا دن گھومتے رہے لیکن کوئی بھی انسان نہیں ملا. کیا اس پورے علاقے کے لوگ کہیں گئے ہوئے ہیں. غضنفر نے سوال کیا.
برآت خاموش رہا. پھر بولا, تم کسی سے ملنے نکلے ہو.
ہاں چچا جی! کسی سے ملنے نکلے ہیں, پر وہ مل ہی نہیں رہے. امید ہے جلدی مل جائیں گے. منان بولا.
اب برآت غصے سے منان کی طرف دیکھنے لگا.
برآت یہ نادان ہے اس کو معاف کردیں آپ. غضنفر سمجھ چکا تھا کہ برآت کو چچا یا بزرگ کہنے پر غصہ آتا ہے.
کس سے ملنا ہے. برآت نے پوچھا. کوئی اللہ والے ہیں سید جلال شاہ, ان سے ملنے جا رہے ہیں ہم دونوں.
کس جگہ جانا ہے. برآت نے سوال کیا.
ادریس گوٹھ جانا ہے ….. غضنفر بولا
ایسا گاؤں تو ہماری بستیوں میں نہیں ہے.
بستیوں میں نہیں ہے مطلب؟ غضنفر نے سوال کیا.
برآت مسکرا دیا. وہ سمجھ رہا تھا یہ خود نہیں آئے بلکہ یہ ایک اتفاق تھا ورنہ یہاں کیسے آتے.
اس نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے دوبارہ سے یوں پوچھا گویا وہ پچھلی باتیں بھول چکا ہو, اچھا گاوں کا نام کیا بتایا تھا تم نے؟
ادریس گوٹھ, منان نے جلدی سے کہا.
اچھا …….. وہ گاؤں, اس گاؤں کو چھوڑ کر ایک اور جہت میں ہے. برآت بولا.
تم نے کس شاہ کا نام لیا تھا؟
اگلا سوال ہوا.
سید جلال شاہ. غضنفر فورا بولا.
وہ تو کسی سے نہیں ملتے. برآت بولا, لیکن یہ سب سن کر تھوڑا پریشان ضرور ہو گیا. غضنفر سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ برآت نے پہلے انہی باتوں سے لاعلمی کا اظہار کیا, پھر علمیت کا اقرار کیا اور اب اچانک متفکر بھی ہو گیا ہے.
لوگ بیٹھے رہتے ہیں …… لیکن جلال شاہ کسی سے نہیں ملتے. ہاں اگر اللہ کا خاص کرم ہو کسی پر تب ملاقات ہو بھی جاتی ہے. برآت نے تفصیل بتائی.
لیکن ہم بڑی امید لے کر آئے ہیں. منان نے معصومیت سے کہا
ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے وہ ہمیں مایوس نہیں لوٹائے گا. غضنفر نے کہا.
کسی کو جانتے بھی ہو اُس گاوں میں؟ برآت نے پوچھا.
اللہ اور اس کے رسول کے آسرے پر آئے ہیں. ان کے علاوہ تو کوئی نہیں ہمارا. غضنفر بولا .
چلیں پھر میرے ساتھ, اللہ رسول کے مہمان ہیں آپ لوگ, مطلب میرے مہمان ہیں …… آئیں میرے ساتھ. وہ لوگ برآت کے ساتھ گھر سے باہر نکل آئے اور ایک جانب چل پڑے.
چند قدم چلنے کے بعد وہ جس گھر میں داخل ہوئے وہ جھونپڑی نما تھا. ایسا جیسے تنکے اکٹھے کر کے بنایا گیا ہو. گھر دیکھنے میں ایسا تھا گویا ہوا چلے تو اس کی چھت پلک جھپکتے میں اڑ جائے. دیواریں سرکنڈوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھیں اور دروازہ بانس کے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا تھا. تینوں اس گھر میں داخل ہوئے تو گھر صاف ستھرا دکھائی دیا.
برآت نے انہیں عزت سے اس گھر میں بٹھایا اور کہا کہ وہ تھک چکا ہے اور سونا چاہتا ہے.
میرا بیٹا آپ کے ساتھ بیٹھے گا اور باقی باتیں کرے گا. میں اسے بلاتا ہوں. برآت نے یہ کہا اور ایک کمرے میں چلا گیا.
تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان دوسرے کمرے سے آتا دکھائی دیا, جس کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی.
اس نے آتے ہی سلام کیا اور دونوں سے حال احوال پوچھا.
غضنفر حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا. خوبصورت جوان تھا لیکن نقش اس کے برآت جیسے ہی تھے.
وعلیکم السلام, غضنفر نے کھڑے ہو کر جواب دیا
آنے والے نے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو غضنفر بیٹھ گیا.
اس نے دونوں کے سامنے لایا ہوا کھانا رکھ دیا.
غضنفر اللہ کا شکر ادا کرنے لگا کہ انہیں آخرکار ڈھنگ کا کھانا نصیب ہوا.
آپ برآت کے بیٹے ہیں. غضنفر نے سوال کیا.
آپ اکیلے رہتے ہیں. منان نے سوال کیا.
پہلے کھانا کھا لیں پھر کرتے ہیں بات. آنے والے نے کہا.
آپ بھی آئیں کھائیں ہمارے ساتھ. غضنفر نے کہا.
کھاتا ہوتا تو ضرور کھاتا. اس جوان نے کہا.
مطلب … غضنفر نے سوال کیا.
کچھ نہیں مطلب, میں کھا چکا تھا, آپ کھائیں. آپ کھانا کھا لیں بعد میں بات کرتے ہیں.
دونوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا.
آپ برا نا مانیں تو آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں. جوان نے سوال کیا.
جی پوچھیں. منان نے کہا.
کیا مصیبت آن پڑی ہے جو سید جلال شاہ سے ملنے نکلے ہو؟
وہ میرا دوست ہے ایک, اس کی بیٹی بہت بیمار ہے اسی وجہ سے.
اچھا اچھا ……. کیا بیماری ہے. جوان نے پھر سوال کیا.
غضنفر تذبذب کا شکار تھا, اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ بات ایک اجنبی کو بتائے یا نہ بتائے.
آپ لوگ جنوں بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں. جوان نے اچانک سوال کیا.
غضنفر چونک گیا.
پریشان مت ہوں غضنفر میاں. اللہ آپ کی مصیبتوں کو ٹال دے. آمین.
منان اور غضنی پریشان ہونے لگے کہ ان کو کیسے پتا ہے یہ سب.
جوان مسکرا دیا. بیٹا یہ داڑھی دھوپ میں سفید نہیں کی میں نے. آنکھوں میں چھپی الجھن پڑھ سکتا ہوں میں.
بھوتوں پر یقین رکھتے ہو؟ جوان نے پھر سوال کیا.
ہاں قرآن میں لکھا ہے کہ جن ہوتے ہیں. غضنفر نے کہا.
لیکن جنات کی بھی قسم ہوتی ہے دوست ……. ایک وہ جنہوں نے اللہ کے رسول کی بیعت کی, دوسرے وہ جنہوں نے انکار کیا. یہ بے ایمان جن اصل میں انسانوں کے دشمن ہوتے ہیں. جوان بول رہا تھا.
لیکن آپ کی داڑھی تو سفید نہیں ہے, ہاں البتہ آپ کہ ابا برآت کی داڑھی ضرور سفید ہے. منان نے جوان کو ٹوکا
جوان نے سنی ان سنی کر دی.
پھر وہ دونوں سے مخاطب ہوا.
بہت سال پہلے کی بات ہے, ایک گاؤں تھا جس میں بہت سے لوگ رہتے تھے. گاؤں میں ایک سپیرا تھا جس کی ایک نوجوان بیٹی تھی. شکل و صورت سے چند آفتاب, چند ماہتاب. اس کا جسم یوں دمکتا تھا جیسے دھوپ میں آئینہ دمکے. ستواں بدن, لمبے خوبصورت لپیٹ دار بال, سیاہ لمبی پلکیں. اس کا باپ اسے منع کیا کرتا تھا کہ یوں ہر وقت سجا سنورا نہ کر۔ لیکن وہ باپ کی کہاں مانتی تھی۔ پھر ایک دن وہی ہوا جس کا ہری سپیرے کو ڈر تھا. رتیکا ایک شادی میں گئی, جہاں سے گھر واپس آتے ہوئے قبرستان کے رستے پر اسے پانچ سال کا ایک بچہ روتا ہوا ملا.
رتیکا نے سمجھا کہ شادی میں آئے کسی مہمان کا بچہ ہوگا. وہ اس کے پاس گئی اور پوچھا, کس کے بیٹے ہو؟
وہ کچھ بول نہیں رہا تھا, بس رتیکا کو دیکھے جا رہا تھا.
"بھوک لگی ہے”, بچے نہ کہا.
رتیکا نے سوچا اگر بچے کو شادی والے گھر واپس لے جائے گی تو اور بھی دیر ہوجائے گی. ویسے بھی ابا نے جلدی آنے کو کہا تھا اور رتیکا کو تو پہلے ہی دیر ہو چکی تھی. اس لیے سوچنے لگی ……. کیا کرے اور کیا نہ کرے …… پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بچے کو گھر لے جاتی ہے اور پہلے اس کو کچھ کھلاتی پلاتی ہے.
سو ….. رتیکا نے بچے کو جیسے ہی اپنی گود میں اٹھایا, اسے یوں لگا جیسے اس کے ہاتھ خالی ہوں ……. رتیکا پریشان ہوگئی. اس نے بچے کے موںھ کی طرف دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے کیوں کہ جسے اس نے اٹھایا تھا اس کا جسم ایک بچے کا لیکن چہرا داڑھی والے ایک جوان کا تھا جو اب ایک خبیث ہنسی ہنس رہا تھا.
رتیکا چلائی ……. بچاؤ بچاؤ اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگی مگر بھاگ نہ پائی.
گھر میں ہری سپیرا بہت پریشان تھا کہ رتیکا نے اتنی دیر کیوں کر دی ہے. جب وہ اپنی برادری کے لوگوں کو اپنے ساتھ لیے رتیکا کو ڈھونڈنے نکلا تو رتیکا اس کو قبرستان کے پاس بے ہوش حالت میں پڑی ملی.
اس رات کے بعد ہری نے اپنی بیٹی کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا. وہ گم سم بیٹھی رہتی تھی, لیکن کبھی کبھار اس پر دورہ پڑ جاتا تو اس کے مونھ سے عجیب آوازیں نکلنا شروع ہوجاتیں. بھیانک آوازوں سے سب کے کان پھٹتے محسوس ہوتے تھے.
بہت علاج کرائے گئے, بہت سے حکیموں کو دکھایا گیا لیکن کوئی اثر نہ ہوا. سب کا ماننا تھا کہ رتیکا پر دیو کا سایہ ہے.
کچھ حکیموں نے کہا, جوان لڑکی ہے اس لیے اس کو دماغ کا مسئلہ ہو رہا ہے. ویسے بھی جو شریف خاندانوں کی لڑکیاں ہوتی ہیں, شادی نہ ہونے کے باعث انہیں ایسے عارضے لاحق ہو جاتے ہیں.
طے یہ پایا کہ رتیکا کی جتنی جلد ہو سکے اس کے منگیتر کبیر سے شادی کرا دی جائے.
شادی کی تیاریاں ہوئیں. رتیکا پر دورے شدید سے شدید تر ہوتے گئے یہاں تک کہ اس پر جن ظاہر ہوگیا. لیکن کبیر پیچھے نہ ہٹا. وہ ہر صورت رتیکا سے شادی پر بضد تھا کیونکہ وہ رتیکا سے محبت کرتا تھا.
لیکن جن نے رتیکا اور کبیر کی شادی نہ ہونے دی اور کبیر کو مار دیا. اب یہ بات دور دراز تک پہنچنے لگی اور سب رتیکا سے دور ہوتے چلے گئے. جب بھی کسی سے کہا گیا کہ رتیکا کا رشتہ لو تو اس نے مارے ڈر کے انکار ہی کیا. کبیر کا حشر سب کے سامنے تھا. اس لیے رتیکا سے بیاہ پر کوئی تیار نہ ہوا. پنڈتوں کا کہنا تھا کہ رتیکا کی شادی ہوجائے تو جن چلا جائے گا, لیکن جن بیاہ ہونے ہی نہیں دیتا تھا.
حکیم نے سمجھایا بھی لوگوں کو کہ جن بھوت کچھ نہیں ہے, بس لڑکی بیمار ہے لیکن کوئی نہیں مانا. پھر رتیکا پر دوروں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا حالت یہ ہوئی کہ رتیکا مردوں سے نفرت کرنے لگی, حتی کہ باپ سے بھی چڑنے لگی. رتیکا گھر میں باپ پر بھی حملہ آور ہو جاتی, سب عزیز رشتہ دار لڑکی کی حالت دیکھ کر بہت پریشان تھے. قریب تھا کہ سبھی رتیکا کی صحت یابی کو ناممکن سمجھ بیٹھتے کہ ایک دن ایک اللہ والے کا اس گاؤں سے گزر ہوا.
(جاری ہے)
تحریر بشریٰ میمن