از بشری میمن
قسط نمبر 09
ماہین نے اچانک آنکھیں کھول دیں. خیام ابھی تک رو رہا تھا. ماہین بولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس کے مونھ سے سوائے خرخراہٹ کے کچھ نہیں نکل رہا تھا. وہ رو رہی تھی مگر اس کی آواز کہیں دور دب چکی تھی.
قاتل پاپا قاتل پاپا. ماہین کی آواز آ تو رہی تھی مگر یوں جیسے کوئی کنویں کی گہرائی سے بول رہا ہو.
کون ہے قاتل. خیام ماہین کو گود میں لیے اس سے پوچھنے لگا. بیٹا بولو, قاتل کون ہے اور کس کا قتل ہوا ہے. میرے بچے بول کچھ. خیام کی حالت غیر ہو رہی تھی.
پاپا, پاپا …… قاتل پاپا. ماہین کے نرخرے سے عجیب آوازیں آ رہی تھیں. اس بچی کی اذیت نے خیام کو نیم پاگل کر دیا تھا. یوں لگ رہا کہ اس کی روح کو ذبح کیا جا رہا ہے. کسی بالغ کو اس حالت میں دیکھنا مشکل تھا چہ جائیکہ اتنی چھوٹی گڑیا اور اس قدر دردناک حالت میں. تکلیف ماہین کو تھی اور چرکے خیام کے دل پر لگ رہے تھے. آج اگر کوئی اس سے ماہین کے بدلے اس کی زندگی مانگ لیتا تو وہ اقرار کرنے میں ذرا سا تؤقف نہ کرتا.
ماہین کا جسم اور ہڈیان چٹخ رہی تھیں. وہ یوں بل کھا رہی تھی جیسے کوئی رسی کو مروڑتا ہے.
پاپا مجھے بچاؤ پاپا. ماہین کے مونھ سے صاف آواز برآمد ہوئی. خیام نے بچی کو بے اختیار اپنے سینے سے لپٹا لیا.
مجھے بچاؤ پاپا وہ مجھے مار دے گا ….. وہ بہت گندا ہے پاپا.
ماہین کی تکلیف پر خیام رونے لگا اور اس کے چہرے پر بوسے دینے لگا.
میرا دل نکال لو, مگر اس کو چھوڑ دو. خیام زیر لب بڑبڑایا. میری بچی کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی.
پاپا, مجھے فرش پر چھوڑ دیں. ماہین نے خیام سے کہا. کیوں میرا کاکا. خیام نے پوچھا.
پاپا مجھے پیاس لگی ہے. ماہین کی بات سن کر خیام نے قریب رکھا شیشے کا جگ اٹھایا اور اس سے شیشے کے گلاس میں پانی انڈیل کر ماہین کو پلایا. پاپا, گلاس مجھے دے دیں. ماہین نے خیام سے گلاس لیتے ہی کھینچ کر اس کے سر پر دے مارا. ماہین نے گلاس اس شدت سے خیام کے سر پر مارا کہ گلاس کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا اور خیام کے سر سے خون رسنے لگا. خضر ڈر کے مارے ایک طرف دبکا یہ تمام منظر دیکھ رہا تھا. اس نے آگے بڑھ کر خیام کو سنبھالنا چاہا مگر ماہین نے پاس پڑا شیشے کا جگ اس کے سر پر کھینچ مارا اور کمرے سے نکل کر دوڑ لگا دی.
**********************
آپ نے ہمیں کہاں پھنسا دیا غضنی بھائی, اس سے تو ہم رینٹ کے گھر میں اچھے تھے. اللہ پاک میری بچی پر اپنا کرم فرما, پتہ نہیں میری بچی کس حال میں ہو گی. نیلم پریشانی میں ہاتھ کی تلیاں مسل رہی تھی.
میں خود پریشان ہوں بھابھی. کیا خیام کے بچے میرے بچے نہیں ہیں. غضنی روہانسا ہو کر بولا. کہاں پھنسا دیا ہے, وہ بڑبڑا رہا تھا.
مجھے کیا پتہ تھا کہ اس گھر میں اس طرح کی آفات ہی, بخدا اگر پتہ ہوتا تو بہن میں کسی کو بھی ایسے گھر میں داخل ہونے نہ دیتا چہ جائیکہ اپنے بھائیوں اور اپنے بچوں کو ایسی منحوس جگہ دلواتا. غضنفر شرمندگی اور خفت میں بولے چلا جا رہا تھا.
جو ہونا تھا وہ ہوچکا, اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے. لیکن آگے جو ہونے والا ہے اس کو روکنا ضروری ہے. مگر کون ہوگا جو اس سب کو روکنے میں ہماری مدد کرے گا. مسئلہ اب یہ ہے کہ اس مشکل سے باہر کیسے نکلا جائے. اے پاک پروردگار! مدد فرما, اپنے حبیب کے صدقے مدد فرما. غضنفر نے روتے ہوئے آسمان کی جانب نگاہ اٹھائی.
**********************
مولوی ہارون صاحب نے اپنے شاگرد کے ہاتھ خیام کے لیے ایک چٹھی بھیجی تھی. اس چٹھی میں لکھا تھا, سید جلال شاہ جیلانی سے رابطہ کریں اور گوٹھ محمد ادریس شاہ جائیں.
مولوی ہارون بذات خود یہ بتانے سے قاصر تھے کہ گوٹھ محمد ادریس جانے کا راستہ کون سا ہے. بس انہیں اتنا معلوم تھا کہ گوٹھ مولوی محمد لطیف کی شرقی جانب یہ گوٹھ ہے. سید جلال شاہ کی ظاہری شباہت بارے بھی مولوی ہارون کچھ بتانے سے قاصر تھے.
میں نے انہیں نظر بھر کر نہیں دیکھا ہوا. رنگ ان کا گندمی ہے غالبا یا سانولا ہے. سچ تو یہ ہے کہ میں نے انہیں کبھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا.
+++++++++++++++++++
عابد حسین شاہ کے دیے ہوئے تعویز کا اثر تھا کہ ماہین گھر سے باہر نہیں نکل پائی. وہ اسی گھر میں چوپائے کی طرح گھوم رہی تھی رہی تھی. خیام کے سر سے خاصا خون نکل گیا تھا اور وہ فرش پر لیٹا اپنا سر سہلا رہا تھا. خضر کے سر کی پچھلی جانب گہری چوٹ آئی تھی جس باعث وہ بے ہوش ہو چکا تھا. خیام نے اس کے سر پر پٹی کر دی تھی اور ایمرجنسی کو کال ملا رہا تھا مگر نمبر ڈائل نہیں ہو رہا تھا. خیام نے خضر کو بستر پر لٹایا اور ماہین کی تلاش میں کمرے سے باہر نکل گیا.
ماہین کو ڈھونڈتے ہوئے خیام کچن کی طرف نکل آیا جہاں سے اسے بے ہنگم انداز سے کچھ کھانے کی آواز آ رہی تھی گویا کوئی جانور کچا گوشت چبا رہا ہو.
خیام نے جیسے ہی کچن میں جھانکا تو اس کے ہوش اڑ گئے. ماہین, ایک مری ہوئی بلی کی لاش بھنبھوڑ رہی تھی. ماہین کا مونھ گال اور ناک بلی کے خون سے لتھڑے ہوئے تھے اور وہ بلی کی آنتیں چبا رہی تھی.
خیام کو یہ منظر دیکھ کر قے ہو گئی. اس نے ماہین کے ہاتھ سے مردہ بلی چھین کر باہر لان میں پھینک دی اور اس کا مونھ دھلوا کر اسے کمرے میں لے گیا.
خیام سوچنے لگا کہ سید جلال شاہ کے پاس کیسے جایا جائے. ماہین کو اس گھر سے باہر نکالنے کا معنی اس بچی کی موت ہے. عابد شاہ کے تعویزوں کا اثر ہے جو ہم تینوں ابھی تک زندہ ہیں. لیکن جلال شاہ تک پہنچنا بھی ضروری ہے جن کے بارے میں مولوی ہارون نے سخت تاکید کر رکھی تھی.
***********************
نیلم کچھ کھا لو, کب تک یونہی روتی رہو گی, اللہ بہتر کرے گا ان شاءاللہ. ماہین ٹھیک ہو جائے گی, غضنفر گئے ہیں. بول رہے تھے خیام بھائی نے کسی پیر صاحب کا بتایا ہے وہ اس کو لینے جائیں گے. صائمہ نے نیلم کو تسلی دی.
کیسے چپ رہوں صائمہ, میری ماہین, میرا خیام وہاں اکیلے ہیں. پتہ نہیں ان پر کیا گزر رہی ہو گی. میری بچی ماہین, اللہ کوئی راستہ دکھا. کیوں ہو رہا ہمارے ساتھ یہ سب. ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے. ہم نے تو کسی کا برا نہیں چاہا, پھر کیوں کوئی مخلوق ہمارے پیچھے لگ گئی ہے ……
ہم وہ گھر چھوڑ دیں گے. ہم چلے جائیں گے جہاں سے آئے تھے. اللہ ہماری مدد فرما. نیلم دعائیں کیے جا رہی تھی اور گڑگڑا رہی تھی.
اللہ بہتر کرے گا نیلم بھابھی, جیسے اللہ نے میری جھولی بھر دی ہے ویسے ہی اللہ آپ کی مرادیں بھی پوری کرے گا. ان شاءاللہ
جھولی بھری مطلب …… صائمہ … نیلم نے پوچھا.
ٹینشن چل رہی ہے اتنی تو اس وجہ سے بتا ہی نہیں پائی, میرا تیسرا ماہ چل رہا. صائمہ نے بتایا
مبارک ہو صائمہ, اللہ مبارک کرے اور نیک صالح اولاد عطا کرے. نیلم نے دعا دی
صائمہ نے آمین کہا ……
تم جس کنڈیشن میں ہو, ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم تمہارا خیال رکھیں, الٹا تم ہمیں سنبھال رہی ہو صائمہ. نیلم نے افسوس بھرے لہجے میں کہا.
نیلم ایک بار پھر دکھی ہوگئی تھی.
ایسے مت کہو نیلم بھابھی, خیام بھائی اور آپ میرے اپنے ہیں.
آپ کا بیٹا روشن ہمارے لیے مبارک ثابت ہوا. اسی کو گود میں لیا تو اللہ نے میری سنی. اور ویسے بھی بھابھی آپ نے بھی تو مجھے سنبھالا تھا, جب میں نے خود کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی, یاد ہے.
ہاں یاد ہے صائمہ, ہم کتنے خوش تھے نا۔ نیلم نے رندھی آواز میں کہا
اللہ بہتر کرے گا, مت روئیں بھابھی, صائمہ نیلم کو سمجھانے لگی۔
************************
ماریہ آنٹی …… ماہین کو کیا ہوا ہے. ماہرہ نے پوچھا تو ماریہ دکھی ہوگئی.
وہ بیمار ہیں ماہرہ بی بی. ماریہ نے جواب دیا
امی بھی روتی رہتی ہیں۔ پاپا بھی نہیں ملنے آئے, مجھے ماہین یاد آ رہی ہے, وہ ہمارے بنا کیسے رہتی ہو گی. ماہرہ رونے لگی ۔۔۔
صائمہ نے سنا تو موںھ پر ہاتھ رکھ کر ہچکیوں سے رونے لگی, لیکن وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ صائمہ ہمت ہارتی تو نیلم کو کون سنبھالتا
***********************
چاند کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں, اس لیے زمین کو کالی چادر نے ڈھانپ رکھا تھا. ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا تھا. تب ہی وہ چھپتا چھپاتا گیٹ سے اندر کود گیا۔ بڑی جان لیوا خاموشی تھی, اتنا گہرا سناٹا کہ وہ اپنی سانسوں کی آواز صاف سن سکتا تھا۔
اتنے میں موبائل کی سکرین جل اٹھی. ہاں خیام میں گھر کے اندر پہنچ چکا ہوں۔ غضنی خیام سے فون پر ہمکلام ہوا.
رکو ….. تم اندر مت آنا. اندر آکر پھر باہر جانے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا ہے. میں زخمی ہوں لیکن خضر شدید زخمی تھا, نجانے ہوش میں آکر کہاں چلا گیا ہے. خضر پتہ نہیں کہاں بھاگ گیا ہے. میں نے ڈھونڈا مگر نہیں مل رہا. تم اندر آؤ گے تو پھنس جاؤ گے. میں جانتا ہوں یہ آسیب مجھے مارنے سے زیادہ تڑپانا چاہتا ہے. اگر اس نے مجھے مارنا ہوتا تو شاید اب تک مار چکا ہوتا. یہ شاید مجھ سے کوئی انتقام لے رہا ہے. تم ایسا کرو غضنی, سید جلال شاہ جیلانی سے ملو جا کر ۔ گوٹھ ادریس جاؤ۔ وقت بہت کم ہے, ایک وہی آخری امید ہیں۔ ہو سکے تو مولوی ہارون صاحب کا ایک بندہ ساتھ لیتے جاؤ. خیام غضنی کو بتانے لگا.
تمہیں کیسے اکیلا چھوڑ کر جاؤں یار. غضنی رونے والا ہو گیا تھا. تجھے زیادہ تو نہیں لگی, وہ خیام سے پوچھنے لگا۔
مجھے کچھ نہیں ہوگا غضنی تو جلدی جا, گھر میں اب زیادہ راشن بھی نہیں بچا۔ پینے کا پانی بھی کم ہے. شاید چند دن مزید گزارا ہو جائے. غضنی, جاؤ اور جلال شاہ کو ڈھونڈ کر لاؤ.
عابد حسین شاہ غالبا ابھی تک عمل کر رہے ہیں, ان کے عمل کی تاثیر ابھی تک موجود ہے. لیکن ہمیں اس شیطان سے مکمل چھٹکارا چاہیے کیونکہ وہ ابھی تک ماہین کے وجود پر قابض ہے.
یہ شیطان بار بار پوچھنے پر بھی کچھ بتانے کے بجائے ماہین کو اذیت دیتا ہے. وہ اس ننھی شہزادی کو اذیت دے کر دراصل ہم سب کو ذہنی کرب میں مبتلا کر رہا ہے.
جاؤ ……. جلدی کرو۔ خیام غضنی پر چلایا.
میں جا رہا ہوں خیام, بچوں بھابھی کی فکر مت کرو وہ محفوظ پناہ میں ہیں۔ میں نے راشد انکل کو سب بتا دیا تھا. وہ ہماری طرف نکل چکے ہیں, سوری کہ تجھ سے بنا پوچھے ان کو بتا دیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ آ رہے ہیں. تجھ سے لاکھ غصہ سہی لیکن بات ان کے پوتے پوتیوں کی ہے۔ غضنی کی اطلاع پر خیام کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اللہ حافظ خیام. غضنی بولا
اللہ سفر مبارک کرے. آمین ثم آمین خیام نے دعا دی اور لائن کٹ گئی ۔۔۔
(جاری ہے)
تحریر: بشریٰ علی میمن#سایہ👤
از بشری میمن
قسط نمبر 10
وہ رو رو کر سو چکی تھی. رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا کہ اچانک گھر میں ہونے والی کھٹ پٹ سے اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ نیلم نے دیکھا سامنے ڈریسنگ ٹیبل کی جگہ خار دار جھاڑیاں تھیں اور چھوٹے قد کے آٹھ دس لوگ ایک مرے ہوئے انسان کو نہلا رہے تھے. اچانک ان میں سے ایک داڑھی والے چھوٹے قد کے بونے نے گیلا کفن اٹھا کر بیڈ پر پھینکا۔ جس کا پانی نیلم کے ماتھے پر لگا. نیلم اب بیڈ سے اٹھ چکی تھی لیکن یہ سب کچھ ایک سحر کی طرح اس پر طاری تھا. وہ صرف دیکھ سن رہی تھی, بول نہیں پا رہی تھی. لیکن جب بونے نے اس پر کفن پھینکا تو نیلم اٹھ بیٹھی اور اس بونے پر چلائی "اندھے ہو کیا, کفن کیوں مجھ پر پھینکا ہے تم نے” ان سب لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا. جس نے کفن پھینکا تھا اس نے کہا, "تجھے کس نے کہا ہے ادھر سونے کو, جا دفع ہو یہاں سے” اور پھر وہ لوگ اس مرے ہوئے انسان کو اٹھا کر دروازے سے باہر نکل گئے.
نیلم نے جلدی سے لائٹ جلائی تو سامنے کا منظر بالکل نارمل تھا, ڈریسنگ ٹیبل اپنی جگہ موجود تھا. وہاں نہ جھاڑی تھی اور نہ لوگ تھے.
نیلم شدید خوفزدہ ہو چکی تھی, وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی. آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو ماتھے پر پانی کے قطرے نظر آئے. مانگ اور ناک پر بھی پانی کے چھینٹے دکھائی دئیے. یہ دیکھ کر نیلم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے, وہ جلدی سے باتھ روم کی طرف بھاگی اور موںھ کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنے لگی۔ وہ یہ سب کرتے ہوئے مارے خوف کے روئے جا رہی تھی۔
اذان کی آواز پر اس نے وضو کیا اور جائے نماز بچھا لی. نماز کے بعد اب وہ اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں کر رہی تھی.
اے پاک پروردگار اپنے حبیب کے صدقے ہم پر رحم فرما, اس مشکل سے ہمیں نکال دے میرے اللہ. رحمت کر اپنے پیاروں کے صدقے سے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر کا سایہ ہو ہم پر.
اس گندی چیز سے بچا ہمیں. وہ مارے خوف کے لرز رہی تھی. معلوم نہیں خواب تھا یا حقیقت تھی. اگر یہ خواب تھا تو ماتھے پر پانی کیسے لگا اور اگر یہ سچائی تھی تو پھر سارا منظر کیسے تبدیل ہو گیا.
**********************
پاپا بھوک لگی ہے. خیام نے نیم وا آنکھوں سے سامنے دیکھا تو ماہین کو کھڑے پایا.
پاپا سب لوگ کہاں ہیں۔ پاپا مجھے درد ہو رہا سارے بدن میں.
خیام جانتا تھا دن کی روشنی کے ساتھ وہ سایہ اب ماہین پر اپنا اثر نہیں کر سکے گا لیکن اندھیرا ہوتے ہی وہ واپس قابض ہوجائے گا۔
خیام نے ماہین کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
مجھے کیا ہوا ہے پاپا۔ ماہین نے معصومیت سے پوچھا
کچھ نہیں ہوا پاپا کی جان. آپ سیڑھیوں سے گر گئے تھے اور تو کچھ نہیں ہوا۔
مما کدھر ہیں, روشن اور ماہرہ آپی کہاں ہیں. ماہین نے پوچھا
خیام کوئی بے وقوفی نہیں کرنا چاہتا تھا. کیا پتہ وہ بتا دے اور وہ شیطان سن لے, کیوں کہ کسی کے جسم پر قابض ہونے کے بعد شیاطین جسم پر حاوی ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہی چیز جسم سے نکل کر اپنے اصلی رنگ میں آئے تو ہوا کی مانند ہو جاتی ہیں۔ معلوم نہیں کیسے مگر یہ باتیں مرشد نے بتائی تھیں.
مما کو چھوڑیں بیٹا, ادھر آئیں پاپا کے پاس۔ خیام نے ماہین کو عابد حسین شاہ کا دیا ہوا زم زم پلا دیا جس سے اس نے الٹی کردی. اس کے موںھ سے خون کے چھوٹے چھوٹے لوتھڑے نکلے. پھر گندا بدبو دار خون اور کٹی ہوئی آنتیں نکلیں. ماہین قے کرتے وقت رو رہی تھی اور اسے دیکھ کر خیام کا جگر کٹ رہا تھا. اس نے ماہین کا چہرہ صاف کیا, اس کا مونھ دھویا اور تمام جگہ صاف کی. خضر ابھی تک غائب تھا. معلوم نہیں زخمی حالت میں کہاں چلا گیا تھا. خیام کے سر میں شدید درد تھا کیونکہ اس کا زخم ٹھیک نہیں ہوا تھا.
++++++++++++++++++
وہ سفر کرتے کرتے تھک چکا تھا اس لیے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گیا. اس کی آنکھ لگ گئی لیکن تھوڑی ہی دیر میں اچانک شور سے کھل گئی. دیکھا تو سامنے سے ایک بہت بڑا قافلہ جا رہا ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو ان قافلے والوں کو مار رہے ہیں. لوگوں کی آہ و بکا, چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں. غضنفر یہ سب دیکھ کر پریشان ہو گیا.
یہ ہو کیا رہا ہے اور یہ کیا جگہ ہے. میں تو ادریس گوٹھ کے لیے نکلا تھا, راستے میں گاڑی خراب ہو گئی, کوئی مکینک نہ ملا تو ہم پیدل ہی چل پڑے. میرے ساتھ منان تھا جسے میں ساتھ ہی لے آیا تھا, منان کو مرشد نے ساتھ بھیجا تھا. لیکن ……. لیکن یہ کون سی جگہ ہے اور منان کہاں گیا. وہ تو میرے ساتھ ہی سستانے کو بیٹھا تھا.
غضنفر پریشان تھا اس تمام صورتحال سے اور تذبذب کا شکار تھا. اچانک چند لوگوں نے اسے پکڑا اور دھکے دیتے ہوئے قیدیوں میں شامل کر لیا. اسے تمام قیدیوں کے ہمراہ ایک جگہ پر لایا گیا جہاں کچھ لوگوں کو بیدردی سے کوڑوں کے ساتھ پیٹا جا رہا تھا. یہ سب مار کٹائی دیکھ کر غضنفر کا کلیجہ مونھ کو آ گیا.
وہ گھبراہٹ کے مارے چاروں طرف دیکھ رہا تھا, اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ کوئی پھانسی گھاٹ ہے. یہاں چھوٹے بچے بھی نظر آئے جس پر غضنفر حیران ہوا کہ یہاں بچوں کا کیا کام ہے. لیکن پھر اس پر انکشاف ہوا کہ بچے یہاں شکایتی کے طور پر موجود ہیں.
چلتے چلتے غضنفر کو ملی جلی چیخ و پکار سنائی دی. جیسے بہت سے مرد و زن تکلیف میں پکار رہے ہوں. یہ آوازیں دور ایک گھاٹی سے آ رہی تھیں جہاں پہنچے پر غضنفر کی ہوائیاں اڑ گئیں. لوگوں کو بڑی بڑی قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا. ان کا جسم ٹکڑے ٹکڑے اور آنتیں بکھری ہوئی تھیں. اس قدر خوفناک منظر دیکھ کر غضنفر چیخنے چلانے لگا.
ہر کوئی تکلیف سے کراہ رہا تھا. بہت سے گھائل لوگوں نے غضنفر کی طرف مدد کو ہاتھ بڑھایا لیکن غضنفر کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ لوگ اس پر حملہ آور ہونے آ رہے ہیں. پکڑو اسے ……. اس نے یتیم بھتیجی کی زمین پر قبضہ کیا ہے. ایک کریہہ المنظر چیز غضنفر کی جانب بڑھی تو ڈر کے مارے غضنفر نے دوڑ لگا دی.
غضنی جوں ہی بھاگا ….. چاروں طرف اندھیرا چھا گیا. گھپ اندھیرا …… ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا. غضنفر آوازوں کی جانب کان لگا کر چلتا رہا کہ اچانک اس کو ماہین کی آوازیں آنا شروع ہوگئی. ماموں …… مجھے بچاؤ, ماموں یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے.
غضنفر آگے بڑھتا گیا تو اس کو ماہین ایک کنویں کے اوپر کھڑی نظر آئی …. ہوا میں معلق ….. نیچے کنویں میں آگ جل رہی تھی اور اس کے اندر سے بھیانک آوازیں آ رہی تھیں. پتھر چٹخنے کی آوازیں, دھماکوں کی آوازیں.
غضنی ماموں میں ادھر ہوں ….. ماموں مجھے بچاؤ …… وہ لوگ مجھے مار دیں گے ….. وہ سب بہت برے ہیں ماموں.
غضنی ماہین کی تکلیف پر رونے لگا. وہ ماہین کو نیچے اتارنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ اس تک پہنچ نہیں پا رہا تھا. جیسے جیسے وہ ماہین کی طرف قدم بڑھاتا, ماہین مزید دور ہوتی دکھائی دیتی.
پھر اس نے ایک جلاد ماہین کے قریب دیکھا جس نے اسے رسی کی طرح بل دینے شروع کر دئیے. غضنی چیختا رہا ….. چلاتا رہا کہ بچی کو مت مارو, کیا بگاڑا ہے اس نے تمہارا لیکن اذیت دینے والا اس کی ایک بھی نہیں سن رہا تھا, ایسے جیسے غضنی اس سے مخاطب ہی نہیں تھا. پھر غضنی کو اچانک محسوس ہوا کہ یہ سب ایک ٹیلی ویژن پر فلم کی صورت چل رہا ہے اور وہ ایک ناظر کی طرح یہ سب دیکھ رہا ہے.
ماہین بیٹا یہ کیا جگہ ہے. کچھ بتاؤ مجھے بیٹا ….. نہیں بتاؤ گی تو ہم تمہاری مدد کیسے کریں گے. غضنفر ماہین سے مخاطب ہوا.
وہ سب بہت گندے ہیں ماموں ….. وہ ان لوگوں کو منع کرتا ہے کہ اس کو مت مارو لیکن اس کی کوئی نہیں سنتا. ماہین بولی
کون منع کرتا ہے, اس کا نام کیا ہے ماہین, بتاؤ بیٹا. غضنفر چلایا
وقت کم ہے ماموں …. میں مر جاؤں گی. مجھے بہت درد ہے ماموں. ماہین رو رہی تھی.
وہ درخت ماموں, یہ سب بولتے ہوئے ماہین نے برگد کی طرف اشارا کیا اور اپنے گلے میں پہنا سیاہ دھاگا غضنی کی طرف پھینک دیا.
"غضنفر صاحب …. غضنفر صاحب ……. کیا ہوا ہے آپ کو, چیخ کیوں رہے ہیں …. رو کیوں رہے ہیں.” منان کے بری طرح جنجھوڑنے پر غضنفر اٹھ بیٹھا اور پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگا.
کیا ہوا آپ نیند میں بول رہے تھے, چیخ رہے تھے اور پھر رو رہے تھے. میں نے آپ کو سونے دیا. مجھے پتہ تھا کہ آپ کوئی برا خواب دیکھ رہے تھے لیکن میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا. ویسے بھی آپ بہت گہری نیند میں تھے.
غضنفر گم سم حالت میں منان کی شکل دیکھ رہا تھا. وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ سب محض خواب نہیں تھا, اس نے اپنا داہنا ہاتھ دیکھا جس میں وہ سیاہ دھاگہ موجود تھا جو ماہین نے اس کی طرف اچھالا تھا.
آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا غضنفر صاحب. منان بولا.
ہاں, سب ٹھیک ہو جائے گا. غضنفر کو وہ جملہ یاد آیا جو اس کریہہ المنظر شے نے اس کے لیے بولا تھا. "پکڑو اسے ……. اس نے یتیم بھتیجی کی زمین پر قبضہ کیا ہے”. وہ جہنم تھی شاید. اور ماہین جنات کی دنیا میں ہے ابھی. غضنفر بڑبڑایا.
آپ کیا بول رہے ہیں غضنفر صاحب. منان کو غضنفر کی بات سمجھ میں نہیں آئی.
کچھ نہیں ….. چھوڑو میری باتوں کو ……. اور کتنی دور ہو گا ادریس گوٹھ منان. غضنفر نے مضطرب حالت میں منان سے پوچھا.
میں خود پہلی بار آیا ہوں ادھر, مجھے بس سمت بتائی گئی تھی جہاں ہم جا رہے ہیں. منان نے جواب دیا.
رات کا اندھیرا پھیلنے میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی. رات کی چادر آہستہ آہستہ روئے زمین پر پھیلتی جا رہی تھی. وہ جلد از جلد ادریس گوٹھ پہنچنا چاہتا تھا, کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ رات ہوتے ہی وہ خناس ماہین پر حاوی ہوجائے گا. اس کی گاڑی وہیں رہ گئی تھی اس لیے وہ پیدل چلتے ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک سامنے گھنا جنگل نظر آیا.
یہ جنگل ہمیں دور سے تو دکھائی نہیں دیا تھا منان. غضنی حیرت سے بولا
جی ہاں اچانک ہی آگیا سامنے, دور سے شاید ہمیں چھوٹی جھاڑیاں معلوم ہو رہی تھیں. منان بولا
جہاں یہ لوگ کھڑے تھے وہ دوراہا تھا. ایک راستہ مشرق اور ایک شمال مغرب کی جانب مڑ رہا تھا. دونوں مسافر اجنبی تھے اس لیے پریشان ہوگئے.
منان ….. مجھے لگتا ہے ہم غلط جگہ پہنچے ہیں, تم نے محسوس کیا ہے کہ ہم بہت دیر سے چل رہے ہیں لیکن کوئی انسان ہم سے نہیں ٹکرایا. غضنفر پریشانی میں بولا.
ہاں جی صاحب, میں بھی پریشان ہوں کب سے. منان نے جواب دیا.
مجھے لگتا ہے ہمیں جانتے بوجھتے بھٹکایا جا رہا ہے. غضنفر نے تشویش کا اظہار کیا
کیا مطلب …… منان نے پوچھا.
غضنفر نے اپنی جیب سے وہ دھاگہ نکال کر دکھا دیا اور ساری روداد سنا دی. لیکن منان مجھے پکا نہیں ہے کہ میں ٹھیک سمجھ رہا ہوں یا نہیں. بہرحال ہم رستہ بھول چکے ہیں ٹوٹلی, اور ہم اب یا تو کسی گاؤں میں گھسے جا رہے ہیں یا کسی ویرانے میں. غضنفر نے خیال ظاہر کیا. لیکن مجھے لگتا ہے یہ گاؤں نہیں ہے, کیونکہ اگر گاؤں ہوتا تو کوئی انسان تو ہمیں ملتا کسی پکڈنڈی پر یا کہیں راستے میں.
ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ. منان بولا.
کیا خیال ہے منان, ایک طرف گھنا جنگل ہے دوسری طرف کچی سڑک …… غضنفر بولا
جنگل کا راستہ ایک بڑے پیڑ کے پیٹ سے نکلتا تھا. اس لیے ان لوگوں نے کچی سڑک کا انتخاب کیا.
(جاری ہے)
تحریر بشریٰ علی میمن