از بشری میمن
قسط نمبر 07
تم کون ہو …… نہیں تم میرے دوست نہیں ہو ….. تم مجھے مارتے ہو …. جاؤ یہاں سے …… سچی میں تمہارے پاس ہے ……. ہاں میں ساتھ چلوں گی تمہارے.
ماریہ جوزف نے ماہین کو اپنے مونھ بڑبڑاتے سنا تو پریشان ہو گئی. ماہین ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے کوئی اس کے سامنے بیٹھا ہو.
ماہین بیٹا …….. ایسے خود سے باتیں کرنا ٹھیک نہیں ہوتا, ادھر آؤ مما بلا رہی آپ کو.
ماریہ ماہین کو اٹھا کر لے گئی. لیکن ماہین بار بار پیچھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی.
نیلم باجی ایک بات کہوں. ماریہ نے نیلم کو متوجہ کیا
ہاں ماریہ بولو …. نیلم نے کہا
وہ ماہین بی بی …..
کیا ہوا ماہین کو? نیلم نے دودھ گرم کرتے ہوئے ماریہ سے پوچھا
آپ نے کچھ نوٹ کیا ..؟ ماریہ بولی
کیا ہوا … نیلم اب پریشان ہو رہی تھی
جو کچھ کہنے جا رہی ہوں وہ شاید آپ کو اچھا نہ لگے یا شاید عجیب لگے, لیکن ماہین بی بی کے ساتھ کچھ پرابلم ہے. ماریہ نے کہا
کیا پرابلم ماریہ, کھل کر بتاؤ نیلم ماریہ کی طرف مکمل توجہ سے بولی. ویسے بھی ماریہ سے سب معاملے کو چھپایا گیا تھا.
میں آج بچوں کے روم کے سامنے سے گزری تو ماہین بی بی جی … کسی سے باتیں کر رہی تھیں. ماریہ نے جھجھکتے ہوئے بات بتائی
کس سے؟ نیلم نے پوچھا. کس سے کر رہی تھی باتیں.
مجھے نہیں پتہ لیکن مجھے لگتا ہے کچھ بہت برا ہونے والا ہے جو ہونا نہیں چاہیے. ماہین اکثر کسی سے باتیں کرتی ہے لیکن وہاں کوئی نہیں ہوتا. اس کی آنکھیں, اس کی ہنسی پراسرار ہے باجی. اتنا کہتے ہوئے ماریہ وہاں سے نکل گئی.
نیلم ایک مرتبہ پھر پریشان ہوگئی تھی.
+++++++++++++++
اب خیام اور نیلم سارا دن ماہین کو اپنے سامنے بٹھائے رکھتے. خیام تو راتوں کو اٹھ اٹھ کر چیک کرتا بچیوں کو, جب کہ ماہین کو ساتھ سلایا جاتا. ماہ نور وغیرہ کے ساتھ اب ماریہ سوتی تھی.
ماریہ جوزف کی باتیں سن کر نیلم مزید پریشان ہو چکی تھی. وہ خیام سے کچھ کہتی تو وہ بھی پریشان ہو جاتا. نیلم اب بچوں کی حرکات و سکنات پر بھی دھیان دینے لگی تھی.
+++++++++++++++++
ماہین بیٹا ادھر آؤ. نیلم کے بار بار بلانے پر بھی ماہین کوئی رسپانس نہیں دے رہی تھی. بس دوسری طرف دیکھے جا رہی تھی.
بیٹا …… مما آپ سے بات کر رہی نا. کیا ہوا چپ کیوں ہو. نیلم بولی
مما ….. وہ بول رہا تھا, وہ روشن کو مار دے گا.
ماہین …… نیلم نے ماہین کے مونھ پر ہاتھ رکھ دیا. کون …… کس کی بات کر رہی ہو ماہین …؟ نیلم نے پوچھا
وہ مما ….. مار دے گا سب کو. یہ سب بول کر ماہین پراسرار ہنسی ہنسنے لگی. نیلم کو لگا جیسے ماہین ماہین نہ ہو بلکہ کوئی اور ہو ……
ہیلو خیام, جلدی گھر آؤ خیام پلیز. نیلم نے فون پر بات کرتے کرتے رونا شروع کر دیا.
کیا ہوا نیلم, خیریت ہے …. رو کیوں رہی ہو. اللہ خیر کرے. خیام گھبرا گیا
جلدی گھر پہنچو خیام ….. اور پھر نیلم نے دن کے تمام واقعات خیام کو سنا دئیے.
میں آتا ہوں نیلم. اتنا کہہ کر خیام آفس سے گھر کے لیے نکل پڑا.
*********************
ماہین کاکا ادھر آؤ پاپا کے پاس. پاپا سے پیار کرتا میرا بچہ. خیام نے پکارتے ہوئے کہا تو ماہین نے ہاں میں سر ہلا دیا. شاباش میرا بچہ پاپا اور ماہین اب ساتھ ساتھ کھیلا کریں گے. خیام نے ماہین کے گال پر پیار کیا
وہ نہیں کھیلنے دے گا, آپ سب اس کو اچھے نہیں لگتے پاپا. وہ کہتا ہے وہ سب کو مار دے گا. میں جب اس کو کہتی ہوں تم کچھ نہیں کہنا ان کو تو وہ مجھے بھی مارتا ہے. ماہین معصومیت سے بولی
کون مارتا میرا بچہ نام کیا ہے اس کا. خیام نے فکر مندی سے کہا تو ماہین نے روم کے دروازے کی طرف اشارہ کر دیا. وہ پاپا.
کون بیٹا, کون ہے ادھر. خیام نے کہا تو لائٹس جلنے بجھنے لگ گئیں اور ایک دم اندھیرا چھا گیا.
اب کی بار خیام کا پریشان ہونا لازم تھا. بچیاں اپنی ماں اور خیام کے ساتھ مارے ڈر کے چپکی ہوئی تھیں اور خیام انہیں بہلا رہا تھا کہ کچھ نہیں ہے. لائٹ سپارک کر کے چلی گئی ہے. فیوز اڑ گیا ہوگا. میں دیکھتا ہوں. سب ٹھیک ہوجائے گا. اس میں رونے والی کیا بات ہے. خیام نے ماہ نور اور بچوں سے کہا
اس دن پھر مولوی صاحب کیوں بے ہوش ہوئے تھے پاپا؟ اور ہمارے گھر سے رونے کی آوازیں کیوں آ رہی تھیں پاپا؟ جیسے کوئی بہت تکلیف میں ہو. ماہ نور نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی.
وہ دیکھیں پاپا. ماہ نور نے سامنے اشارہ کیا تو لائٹس پھر جل اٹھیں.
خیام نے لائٹس کی جانب دیکھا اور پھر ماہ نور کی طرف دیکھا تو ماہ نور اسے دھندلی دکھائی دی. خیام نے چھت کی طرف دیکھا تو اسے چھت سے درجنوں چھپکلیاں چپکی نظر آئیں. اب خیام کو باقی تمام کمرہ صاف دکھائی دے رہا تھا سوائے بچوں اور نیلم کے.
مجھے تم لوگ دھندلے دکھائی دے رہے ہو. خیام نے نیلم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا. خیام اپنی آنکھیں مسل رہا تھا مگر عجیب بات یہی تھی کہ اسے سوائے نیلم اور بچوں کے سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا.
سب لوگ خیام کی باہوں میں سمٹے ہوئے تھے.
اچانک ماہرہ خیام کی باہوں سے نکلی اور اس نے کمرے کی کھڑکی کو زور سے ٹکر مار دی.
ماہرہ …… نیلم چیخی اور ماہرہ کو دونوں ہاتھوں میں بھر لیا.
یہ کیا کر رہی ہو بیٹا. خیام نے پوچھا.
بابا میں خود ہی کھڑکی سے ٹکرائی ہوں. ماہرہ نے روتے ہوئے کہا. اسے چہرے, ہاتھوں اور ماتھے پر چوٹ آئی تھی.
سب کی توجہ ابھی ماہرہ کی جانب تھی تو ماہین کہیں غائب ہو گئی.
ماہین کہاں گئی. خیام دائیں بائیں دیکھتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا. نیلم تم بچوں کا دھیان کرو, میں ماہین کو ڈھونڈوں.
+++++++++++++++++++
سارا گھر ڈھونڈ لیا مگر ماہین کہیں نہیں مل رہی تھی.
نیلم نے روتے ہوئے خیام سے کہا کہ خدارا اس گھر میں کسی اللہ والے کو لے آؤ ورنہ ہمارے بچوں کو کچھ ہو جائے گا.
ہائے میری بچی پتہ نہیں کہاں چلی گئی. نیلم چلا رہی تھی.
رات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے لیکن ماہین کا ابھی تک کچھ پتہ نہ چل رہا تھا. وہ اچانک کہاں غائب ہوگئی تھی.
ماہین کے غائب ہونے کے بعد خیام یہ بات اچھے سے جان چکا تھا کہ جو کوئی بھی تھا اس گھر میں, وہ اللہ رسول کا بالکل بھی ماننے والا نہ تھا کیونکہ اگر ماننے والا ہوتا تو قرآن خوانی ہوتے وقت نقصان نہ ہوتا اور چیخ و پکار نہ ہوتی.
سب نے وہ رات بے چینی سے ماہین کو تلاش کرتے ہوئے گزاری. صبح خیام مولوی ہارون سے ملنے چلا گیا جنہوں نے اسے اپنے مرشد عابد حسین شاہ کا پتا دیا. خیام …. تم بھابھی اور بچوں کو سنبھالو, میں اور خضر مرشد کو لے آتے ہیں. غضنفر نے خیام سے کہا جسے اس نے مان لیا
اس دوران خیام اور نیلم نے سارا گھر اور تمام گرد و پیش چھان مارا. ایک ایک کمرہ باغیچہ گھر کا پچھلا حصہ حتی کہ تمام محلہ لیکن وہ کہیں نہیں ملی. اتنی جلدی, اتنا اچانک کیسے اتنی ننھی بچی غائب ہو گئی. تلاش کرتے کرتے خیام کی حالت قابل رحم ہو گئی تھی. نیلم اور بچے تو باقاعدہ روئے جا رہے تھے.
کہاں جا سکتی ہے میری بچی. اس کو زمین نگل گئی تھی یا آسمان کھا گیا. تقریبا دو گھنٹے بعد غضنفر ایک با ریش با رعب سفید داڑھی والے شخص کے ساتھ آتا دکھائی دیا. انہوں نے آتے ہی خیام کو کاندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دیا اور کہا کہ وہ اللہ پر بھروسہ رکھے, وہی بہتر کرنے والا ہے.
خیام نے ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بتایا کہ اس کی بچی رات سے نہیں مل رہی. ادھر کچھ …….. بس اتنا ہی بول پایا تھا کہ عابد حسین شاہ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے رک جانے کا اشارہ کیا.
مرشد نے گھر میں داخل ہوتے ہی پڑھائی شروع کر دی تھی. وہ جیسے جیسے سورہ جن پڑھ رہے تھے, ویسے ویسے ماحول گھمبیر ہوتا جا رہا تھا. یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے فضا سے آکسیجن ختم ہو رہی ہے. پڑھتے پڑھتے مرشد نے بتایا کہ بچی اس گھر کے قریب کسی قبرستان میں ہے جسے وہاں جاکر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے. قبرستان نہر کے قریب گھنے درختوں کے پاس تھا اس لیے خیام نے ٹارچ لے جانے کا سوچا. اس نے وہاں مزید پولیس والے بھی بلوا لیے تھے بچی کو ڈھونڈنے کے لیے. مرشد نے کہا تھا کہ آگ جلا کر جنگل سے گزرو, اس سے آسانی رہے گی.
ماہین …. کہاں ہو بیٹا ماہین …… خیام, خضر اور دوسرے پولیس والے بچی کو قبرستان میں ڈھونڈ رہے تھے جب کہ غضنی مرشد کے ساتھ تھا.
اللہ اللہ کر کے آخر ماہین کا پتہ چل گیا. قبرستان کی غربی سمت ماہین بے ہوش حالت میں ایک پرانی ٹوٹی ہوئی قبر کے اندر سے ملی لیکن اس کی حالت ایسی تھی کے اس کے ہاتھ پاؤں مڑے ہوئے اور گردن ایک طرف کو لڑھکی ہوئی تھی. ماہین کے کپڑے خون آلود تھے جبکہ اس کے ہونٹوں پر بھی خون جما ہوا تھا. بال گرد سے اٹے ہوئے تھے چہرے پر بہت سی خراشیں تھیں.
ماہین جس حالت میں تھی اس کو دیکھ کر تکلیف کا احساس ہو رہا تھا. اسے جس نے بھی دیکھا کانوں کو ہاتھ لگایا لیکن خیام جان چکا تھا کہ وہ جس وجود کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے گھر کی طرف جا رہا ہے, وہ ماہین نہیں ہے.
(جاری ہے)
تحریر بشریٰ علی میمن#سایہ👤
از بشری میمن
قسط نمبر 08
ماہین کے جسم پر کوئی قابض تھا اور وہ کون تھا اس کا علم خیام کو نہیں تھا.
یہ جو کوئی بھی ہے, بہت طاقت ور ہے. لیکن یہ طاقت, یہ زعم, یہ غصہ اس آگ کی پیداوار ہے جسے اللہ نے اپنی بارگاہ سے نکال دیا تھا. وہ تکبر, وہ نخوت, وہ انا جو اللہ کے مقابل جسارت کی مرتکب ہوئی انسانوں کے ساتھ اپنی ازلی دشمنی کا اظہار کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی. ہم آدم کے بچے, اس متکبر کا مقابلہ عاجزی سے کریں گے. ہم اللہ سے التجا کریں گے کہ وہ ہماری مدد فرمائے کیونکہ وہی ہمارا آخری اور حتمی سہارا ہے. یا اللہ ہم سب اس شیطان مردود اور اس کی آل اولاد سے تیری پناہ میں آتے ہیں. یا اللہ ہمیں ان مردودوں اور خناسوں کی دست برد سے محفوظ فرما.
خیام ماہین کو گود میں لیے یہ سب دل ہی دل میں بولتا گھر کی جانب گامزن تھا. وہ جانتا تھا کہ اس کی باہوں میں ماہین نہیں بلکہ یہ محض اس ننھی پری کا جسم ہے. شاید وہ اپنی گڑیا کو ہمیشہ کے لیے کھو چکا ہے لیکن اللہ سے امید اس کی آس ٹوٹنے نہیں دیتی.
مرشد نے کچھ تعویز دئیے اور بتایا کہ ان میں سے ہر تعویز کو گھر کے استقبالی دروازے کے علاوہ تمام کمروں میں لٹکا دیا جائے. امید ہے اللہ پاک کرم فرمائیں گے.
لیکن خیام, مسئلہ یہ ہے کہ تم اور تمہاری بیوی نمازوں کے پابند نہیں ہو. اور میں تمہیں کچھ مزید باتیں بھی بتانا چاہتا ہوں جس کے لیے تنہائی ضروری ہے. مرشد خیام کو اندر کمرے میں لے گئے اور دروازہ بند کر دیا.
خیام, تم طہارت کا خیال نہیں رکھتے. اگر تمہیں ان آفات سے خود کو محفوظ رکھنا ہے تو تمہیں اور تمہاری بیوی کو طہارت کا خیال رکھنا پڑے گا. خیام, اس دنیا میں صرف تین جہتی مخلوقات نہیں ہیں یا وہ جنہیں تم محسوسات کی مدد سے سمجھ سکو. جان لو کہ تمہارے اردگرد بہت کچھ ایسا ہے جسے تم ابھی تک ظاہری آنکھ سے دیکھنے کے قابل نہیں ہوئے. آسان بات یہ ہے کہ تم دونوں اس گھر میں اس وقت تک طہارت کا خصوصی اہتمام رکھو جب تک راہ نجات واضح نہیں ہوتی, اور تا عمر اس نصیحت پر عمل کے لیے خود کو تیار کرو. عابد شاہ بول رہے تھے اور خیام چپ چاپ ان کی باتیں سن رہا تھا.
باطنی طہارت تو انسان کو کمال عطا کرتی ہے لیکن بدنی طہارت اس پڑاؤ کا پہلا قدم ہے خیام. میں تمہیں وظائف بتاتا ہوں جن کا روزانہ ورد تمہیں ان شیاطین سے محفوظ رکھے گا. تمہیں اس مخلوق کا خود مقابلہ کرنا پڑے گا خیام. مرشد نے خیام کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی اور بتایا کہ وہ اسے اس مصیبت سے نکلنے میں مکمل معاونت فراہم کریں گے.
++++++++++++++++++
قبرستان سے واپس لانے کے بعد سے وہ مسلسل بے ہوش تھی.
خیام اب اس کے سر کے پاس بیٹھا قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا.
اس کی امی تسبیح پڑھ رہی تھیں کہ اچانک ماہین نے آنکھیں کھول دیں. جیسے ہی وہ ہوش میں آئی اس کی آنکھوں کی سیاہ پتلیاں سکڑ گئیں گویا وہ تیز روشنی میں گھری ہو. ماہین کے نرخرے سے یوں آواز برآمد ہونے لگی جیسے جانور ذبح کرتے وقت نکلتی ہے. کہیں دور سے ماہین کے رونے کی آواز بھی آ رہی تھی اور عجیب سی خرخراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی.
نیلم نے ماہین کو سینے سے لگا لیا. وہ اپنی بچی کی تکلیف پر بے چینی کے شدت کے باعث اس کے چہرے کو بے تابی سے چوم رہی تھی.
اچانک ماہین نے نیلم کو دھکا دیا اور چوپائے کی طرح کھڑی ہو گئی. خیام کی آواز بلند تھی اور وہ سورۃ الاخلاص اور آیت الکرسی کا ورد کر رہا تھا لیکن ماہین پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا.
طہارت, ہاں کچھ گڑبڑ ہے جو میں کر رہا ہوں. خیام سر پکڑ کر بیٹھ گیا.
**********************
مجھے تمہیں باقی بچوں سمیت غضنفر کے گھر بھیجنا چاہیے. خیام نے نیلم سے یہ کہا تو اس نے رو رو کر اپنی حالت خراب کر لی.
میں کیسے چلی جاؤں خیام. کسی کا کیا بگاڑا ہے ہم نے. کیوں ہو رہا ہے ہمارے ساتھ یہ سب. نیلم چلائی
سب ٹھیک ہوجائے گا ان شاءاللہ. اللہ پر بھروسہ رکھو. تم جاؤ غضنفر کے ساتھ. خیام جو اس دوران غضنفر کو اپنے خیالات پر آگاہ کر چکا تھا نیلم سے بولا. تم جاؤ اور پولیس کی گاڑی لے جاؤ.
ٹھیک ہے خیام, میں بھابھی اور بچوں کو اپنے گھر چھوڑ کر جلدی واپس آنے کی کوشش کروں گا. غضنفر خیام کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا.
ٹھیک ہے, ابھی نکلو جلدی سے شاباش. اس سے پہلے کہ باقی بچوں کے ساتھ کچھ غلط ہو جائے تم نکلو غضنی.
غضنی بچوں اور نیلم کو ساتھ لے کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا خیام اور ماہین کو شیاطین کے بیچ, ایک ان دیکھی جنگ لڑنے کے لیے جہاں دشمن پوشیدہ مگر مقابل معصوم تھا …….
ماہین کو خیام نے خضر کی مدد سے باندھ دیا تھا. خضر وہیں تھا گھر کے آنگن میں جسے سب فراموش کر گئے شاید.
خیام نے ماہین کے سینے پر قرآن پاک رکھ کر اس کے مونھ میں آب زم زم ڈال دیا. یہ مقدس پانی عابد شاہ جاتے ہوئے خیام کو تھما گئے تھے. ماہین آب زم زم حلق میں جاتے ہی تھک کر بے ہوش ہو گئی.
خیام رو رو کر اللہ سے اس سب کا حل مانگ رہا تھا. وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا تھا اس کی پھول سی بچی کے ساتھ. ہم نے کسی کا کیا بگاڑا تھا. خیام چلایا
کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو ہم سے. کیا بگاڑا ہے ہم نے تمہارا. خدا کے لیے چھوڑ دو میری معصوم بیٹی کا پیچھا. ہم یہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ خیام اپنے گڈے, اپنی ماہین کو گلے لگا کر رو رہا تھا.
جاری ہے….!
تحریر: بشریٰ علی میمن