از بشری میمن
قسط نمبر 05
جیسے ہی قرآن خوانی شروع ہوئی ………… مولوی ہارون بے ہوش ہو کر گر پڑے.
مولوی صاحب کا جسم جھٹکے کھا رہا تھا جیسے انہوں نے کسی ننگی تار کو چھو لیا ہو.
سب پریشان ہوگئے.
ہارون صاحب کیا ہوا آپ کو. غضنفر اور خیام مولوی صاحب کے طرف بھاگے لیکن مولوی صاحب بے ہوش ہوچکے تھے.
ایسا لگتا تھا مولوی صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے.
لیکن کچھ ہی دیر بعد مولوی صاحب نے آنکھیں کھول دیں. مولوی ہارون ہوش میں آتے ہی ادھر ادھر یوں دیکھنے لگے جیسے انہوں نے کوئی غیر مرئی مخلوق دیکھ لی ہو.
قرآن خوانی کیے بنا مولوی صاحب اپنے سٹوڈنٹس کے ہمراہ واپس چلے گئے لیکن جانے سے پہلے وہ خیام کے پاس آئے اور آہستہ سے کہا;
خیام صاحب! آپ کو اس گھر میں نہیں آنا چاہیے تھا.
خیام مولوی ہارون کے جملے میں سارا دن الجھا رہا لیکن کسی سے کچھ کہا نہیں. اگر کچھ کہتا تو نیلم ویسے بھی وہمی ہو رہی تھی, اس کے دماغ پر مزید اثرات پڑتے اس لیے خیام نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی.
خیام یہ سوچ رہا تھا کہ اسے مولوی صاحب سے ملنے مدرسہ میں ضرور جانا چاہیے. وہ اس کے گھر سے اس طرح کیوں چلے گئے اور یہ کیوں کہا کہ اسے اس گھر میں نہیں آنا چاہیے تھا. کوئی بات تھی تو اسے کھل کر کہتے…….. وہ یوں ہی سارا دن الجھا رہا, نیلم کے بار بار پوچھنے پر کچھ بھی نہیں بتایا اس کو. ہاں یہ ضرور کہا کہ ہارون صاحب کو دل کا عارضہ ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں. ایسی حالت میں انسان بے ہوش ہو جاتا ہے. نیلم یہ باتیں سن کر مطمئن ہوگئی تھی.
لیکن خیام کیسے مطمئن ہوتا. کچھ تو تھا جو غلط تھا. شاید اس کی چھٹی حس کسی انہونی کا پتہ دے رہی تھی.
++++++++++++++++++
مما ….. مما …..
کیا ہوا, نیلم ناشتا بنا رہی تھی جب ماہ نور اور ماہین بدحواسی کے عالم میں بھاگتی ہوئی آئیں.
کیا ہوا …… نیلم نے پوچھا
وہ مما, ماہ نور نے چھت کی طرف اشارہ کیا.
نیلم بچیوں کے ہمراہ بھاگتی ہوئی چھت پر پہنچی تو تمام رنگ برنگی چڑیاں مری ہوئی حالت میں ملیں.
یہ کیسے ہوا …… نیلم نے موںھ پر باتھ رکھ لیا.
پتہ نہیں مما. ہم لوگ کھیلنے آئے اوپر تو یہ اچانک سے شور مچانے لگ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے گرنے لگیں اور مر گئیں. اب ماہ نور اپنی چڑیوں کے قریب بیٹھ کر رونے لگی.
کچھ دن پہلے ہی تو غضنفر بھائی نے لے کر دی تھیں ماہرہ کی ضد پر. لیکن آج اچانک ایک ساتھ ہی یہ چڑیاں مر کیسے گئی تھیں.
ہیلو خیام ……. ہاں نیلو بولو.
وہ چھت پر ساری چڑیاں مر گئیں.
واٹ …… ایکدم کیسے, بھوک سے تو نہیں مر گئیں. کہا بھی تھا پرندوں کو قید نہیں کرتے خیام بولا.
نہیں خیام اچانک مر گئیں سب. نیلم پریشان ہو رہی تھی.
میں آتا ہوں کچھ دیر میں تم پریشان مت ہو. خیام بولا
+++++++++++++++++
خیام یہ سب کیا ہو رہا ہے, یوں ساری چڑیوں کا مر جانا اچھی بات نہیں ہے. مجھے ڈر لگ رہا ہے . نیلم نے کہا
کچھ نہیں ہے یار پرندوں میں بیماریاں بھی تو ہوتی ہیں نا. اور کیا وجہ ہو سکتی ہے .خیام کے سمجھانے کا اثر تھا شاید کہ نیلم نارمل ہو گئی.
++++++++++++++++++
وہ کھیلتی ہوئی پھر سے اس برگد کے پیڑ کے قریب پہنچ گئی تھی جس پر جھولا بندھا ہوا تھا. اس کی گڑیا اس کے ہاتھ میں تھی. وہ جھولے لینے لگی.
ماہین بیٹا روشن کو میں نے نہلا دیا ہے. آجاؤ میرا بچہ, مما آپ کو نہلا دیں. نیلم یہ بولتی ہوئی روم میں گئی تو ماہین وہاں نہیں تھی.
یہ لڑکی پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے. نیلم بڑبڑائی
ماریہ ………
جی بی بی جی.
ماہین کو دیکھو کہاں ہے.
جی بی بی جی. ماریہ نے اثبات میں سر ہلایا اور ماہین کو ڈھونڈنے لگی
وہ نہیں ہے گھر میں نیلم باجی. وہ باہر کھیل رہی ہوگی.
اچھا تم روشن کو سنبھالو میں دیکھتی ہوں, وہ پکا جھولے پر ہو گی. نیلم بولی
ماہین ……. ماہین ……
اکیلی ادھر کیوں بیٹھی ہو. نیلم جیسے ہی برگد کے پیڑ تک پہنچی, اس نے دیکھا کہ ماہین ہنس ہنس کر کسی سے باتیں کر رہی ہے.
نیلم نے پہلے سمجھا ماہ نور یا ماہرہ ہونگی اس کے ساتھ, لیکن قریب جاتے ہی پتہ چلا کہ وہ تو اکیلی ہے.
ماہین …… ادھر کیا کر رہی ہو. چلو اندر چلو. یوں دوپہر میں اکیلے پیڑ کے نیچے نہیں بیٹھتے. لیکن ماہین اس کی باتیں سن ہی نہیں رہی تھی.
نیلم نے ماہین کو اٹھا لیا بانہوں میں لیکن وہ ابھی بھی پیچھے پیڑ کی طرف دیکھ رہی تھی.
کیا ہے وہاں ماہین. نیلم نے پوچھا
مما ….. وہ. ماہین نے پیچھے دیکھ کر اشارہ کیا. نیلم نے جیسے ہی پیچھے دیکھا تو اسے جھولا ہلتا دکھائی دیا. ایسے جیسے اس پر کوئی بیٹھا ہوا ہو.
نیلم ماہین کو ہاتھوں میں اٹھائے وہاں سے فورا نکل آئی ……
خیام ……..
ہمم …….
خیام آج ماہین ……….نیلم نے ساری بات من و عن خیام کو بتادی.
واقعی وہاں کوئی نہیں تھا نیلم؟
ہاں خیام کوئی نہیں تھا اور جھولا خود ہل رہا تھا.
ماہین ……. میرا شونا کاکا ادھر آؤ پاپا کے پاش …… شاباش میرا بچہ ……. ماہی بچہ پاپا سے پیار کرتا …… خیام نے پچکارتے ہوئے کہا تو ماہین نے ہاں میں سر ہلایا.
آپ پاپا کے ساتھ کھیلو گے. خیام نے سوال کیا.
وہ نہیں کھیلنے دے گا پاپا. ماہین بولی
وہ کون؟ خیام نے پیار سے پوچھا
وہ ادھر ہی رہتا ہے پاپا. ماہین نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا
کون بیٹا. خیام اب پریشان ہو رہا تھا.
وہ کہتا ہے یہ گھر اس کا ہے. ماہین معصومانہ انداز سے بولی
کون کہتا ہے ماہین. خیام نے ماہین کا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا
وہ ……. روشن کو مار دے گا پاپا ماہین نے کہا.
شٹ اپ ماہین ….. کیا بکواس ہے یہ. نیلم نے غصے سے کہا تو ماہین رونے لگی.
نیلم …. کیا بکواس ہے یار بچی پر غصہ کیوں کر رہی ہو تم. خیام نے نیلم کو ڈانٹ دیا.
خیام ماہین کی باتوں سے الجھ گیا تھا.
خیام جب آفس پہنچا تو اس کا دماغ الجھا ہوا تھا.
سر ….. ایک بات پوچھوں کانسٹیبل نے خیام کو گم سم دیکھا تو وجہ پوچھ ڈالی.
نہیں …. کچھ نہیں نبیل بس ویسے ہی. خیام نے جواب دیا
سر میں ایک فقیر کو جانتا ہوں نبیل جلدی سے بولا.
خیام نے اس کی طرف دیکھا.
سر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں. میں نے اس دن آپ کی اور خضر حیات صاحب کی باتیں سن لی تھیں. مجھے لگتا ہے آپ کے گھر پر کوئی سایہ ہے.
نان سینس …. یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم. خیام نے غصے سے کہا
سر پہنچا ہوا فقیر ہے, آپ کہیں تو آپ کے گھر لے آؤں گا. وہ بھی قرآن ہی پڑھے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا.
خیام ان سب باتوں میں الجھا ہوا تھا سو اس نے حامی بھر لی.
چلو ٹھیک ہے, تم لے آنا فقیر کو. میں تیار ہوں. خیام نے کہا
اوکے سر. نبیل بولا.
+++++++++++++++++
اگلے دن نبیل فقیر کو ساتھ لیے خیام کے گھر موجود تھا. خیام نے فقیر کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا. فقیر تو وضع قطع سے پڑھا لکھا معلوم ہو رہا تھا.
سر یہ اسد ہمدان صاحب ہیں. اور اسد صاحب یہ سر خیام ملک ہیں.
آپ سے مل کر خوشی ہوئی. خیام نے کہا
مجھے بھی. اسد بولا.
خیام مسکرا دیا. آپ کافی ہنس مکھ ہیں مجھے تو لگا نبیل کوئی بڑے بالوں والا بابا لائے گا جس کی ساری انگلیوں میں یاقوت والی انگوٹھیاں ہونگی.
اس بات پر اسد ہمدان مسکرا دیا.
نہیں خیام صاحب, میں کوئی عامل نہیں ہوں اور نہ مجھے انگوٹھیوں کا شوق ہے. اسد نے خیام کی بات کا جواب دیا
خیام ہنسنے لگا.
چلیں, مجھے گھر کا وزٹ کروائیں. اسد نے کہا تو خیام بولا جی, ضرور. اندر آئیے.
وہ باغیچے میں داخل ہوا اور ایک ایک چیز کو بغور دیکھتا ہوا گھر میں داخل ہو گیا.
ایک کے بعد دوسرا, پھر تیسرا اور یوں اسد نے تمام کمرے دیکھ لیے.
اسد کے چہرے سے سنجیدگی ظاہر تھی مگر جونہی وہ بچوں کے روم میں آیا تو پریشان ہوگیا.
یہ کمرا غالباً بچوں کا ہے. اسد نے کہا
ہاں جی. خیام نے جواب دیا.
میں گھر کی چھت پر جانا چاہوں گا. اسد نے خواہش کا اظہار کیا
جی ضرور … آئیں. خیام یہ بولتا ہوا ان کو چھت کی جانب ساتھ لے گیا.
اب وہ گھر کی چھت پر موجود تھے. وہ جیسے ہی چھت پر پہنچے اسد پریشان ہوگیا.
وہ ساتھ ہی ساتھ کچھ پڑھتا جا رہا تھا.
گھر کے پچھلے حصے خیام صاحب …. برگد کے پیڑ کے نیچے. اسد بولا. وہاں چلیں
خیام حیران ہو گیا کہ انہیں کیسے پتہ چلا برگد کا ……….
وہ لوگ جیسے ہی برگد کے پیڑ کے نیچے پہنچے تو اسد نے کچھ پڑھنا شروع کر دیا. دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف تیز خوشبو پھیلنے لگی.
یہ کیسی خوشبو ہے. خیام نے پوچھا.
اسد نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو چپ رہنے کا کہا.
اس خوشبو سے دماغ سن ہو رہا تھا. جیسے کسی نے ایک ساتھ بہت سے عطر چھڑک دئیے ہوں. خیام کو اپنا دماغ سن ہوتا محسوس ہوا.
اسد مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا کہ اچانک وہ خوشبو بدبو سے بدل گئی. تیز اور چبھتی بدبو ……..
(جاری ہے)
تحریر بشریٰ علی میمن#سایہ👤
از بشری میمن
قسط نمبر 06
ناگوار بدبو سارے گھر میں پھیل گئی جیسے کوئی گوشت جل سڑ گیا ہو. خیام اور اسد نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا.
خیام …… آپ کے گھر میں کتنے لوگ ہیں? اسد نے سوال کیا.
میں, میری وائف, میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا, اور ایک کام والی ….. خیام نے جواب دیا
اچھا صحیح. اسد نے کہا.
آپ اپنی وائف کا دوپٹہ دیں اور بیٹیوں کے دوپٹے بھی دیں.
وائف کا دوپٹہ دے سکتا ہوں, بیٹیوں کے دوپٹے نہیں ہیں میرے پاس, وہ تو چھوٹی سی ہیں ابھی اور بیٹا بھی دو سال کا ہے. خیام نے اسد کو بتایا
اچھا پھر آپ بیٹیوں کی قمیص دے دیں اور بیٹے کی بھی. اس پر عمل کرنا ہوگا ایک, اس کے بعد ہی کچھ بتا سکوں گا. آپ اپنی فیملی کو ایک جگہ ایک ساتھ بیٹھنے کا کہیں, میں ظہر سے پہلے عمل شروع کروں گا. اسد نے بتایا
ٹھیک ہے. خیام یہ کہتا ہوا اسد کے پاس سے چلا گیا.
تھوڑی دیر کے بعد ماریہ جوزف ٹرے لیے حاضر تھی.
لو جی اسد صاحب, گرما گرم چائے نوش فرمائیں. خیام نے کہا
شکریہ خیام. اسد مسکرایا
خیام نے غضنفر کو بھی کال کر کے بلا لیا تھا.
اسد نے نیلم کا دوپٹہ اور بچیوں کی قمیص پر پڑھائی شروع کر دی. جیسے جیسے اسد پڑھتا جا رہا تھا, ویسے ویسے اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو رہا تھا اور پھر اچانک گھر میں اندھیرا چھا گیا. اندھیرا ہوتے ہی عجیب و غریب آوازیں آنا شروع ہوگئیں, جھینگروں کی آوازیں جن میں مینڈکوں کے ٹرانے اور بہت سے انسانوں کی سرگوشیاں شامل تھیں. سرگوشیوں کی آوازیں اس قدر گڈمڈ تھیں کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا.
دن میں اندھیرا چھانا حیرت کی بات تھی اوپر سے ان سب آوازوں نے تو گھر والوں کی ہوائیاں ہی اڑا دیں. نیلم اور بچے ڈر رہے تھے. بچیاں تو خوف سے چیخنے لگی تھیں. سرگوشیاں تیز سے تیز تر ہو رہی تھیں, ساتھ جھینگروں کی آوازیں اعصاب پر بوجھل بنتی جا رہی تھیں.
معلوم نہیں آج سورج گرہن ہے یا کوئی اور معاملہ ہے. حشرات کی آوازیں اور یہ سرگوشیاں. خیام اس تمام صورتحال پر حیران ہو رہا تھا.
بات یہیں تک ہوتی تو ٹھیک تھا. حیرت تو تب ہوئی جب تیز جھکڑ چل پڑے. گھر کی کم وزن چیزیں گویا ایک ساتھ حملہ آور ہو گئیں. سب گھبرا گئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اس گھر میں.
خیام صاحب اذان کا وقت ہوچکا ہے. جلدی سے اذان دیں. اسد نے خیام سے کہا.
غضنفر نے اذان دینے کی اجازت مانگی اور زور سے پکارا
اللہ اکبر …… اللہ اکبر …..
غضنفر کی آواز پورے گھر میں گونجنے لگی.
لا الہ الا اللہ
جیسے ہی غضنفر نے اذان مکمل کی, تمام آوازیں آنا بند ہو گئیں اور تیز جھکڑ تھم گیا.
اچانک سے یہ سب ہونا سمجھ سے باہر تھا.
اذان مکمل ہونے کے بعد خیام اور غضنفر نے جیسے ہی اسد کی طرف دیکھا تاکہ وہ نماز کی امامت شروع کرے تو ان کی یہ دیکھ کر چیخ نکل گئی کہ اسد کی ناک سے خون ایک لکیر کی صورت اس کی ٹھوڑی اور دامن کو تر کر رہا تھا.
دوڑ غضنفر ساتھ کمرے سے روئی اور گاز لے آ. خیام چلایا. اسد آپ پیچھے کی طرف لیٹ جاؤ. لیکن اسد بجائے چت لیٹنے کے مونھ کے بل فرش پر گر گیا.
+++++++++++++++++++
اسد کے ہوش اُڑے ہوئے تھے. ایسا لگتا تھا جیسے اس نے کوئی غیر مرئی مخلوق دیکھ لی ہو.
یہ کیا ہوا اسد صاحب. خیام جلدی سے پانی لے کر آیا.
میں ٹھیک ہوں خیام …… تم میری جیب سے شیشی نکالو پانی کی. یہ پانی سارے گھر کے کونوں میں چھڑکو, لیکن رکو ….. تھوڑا پانی میرے چہرے پر چھڑک دو.
خیام نے جیسے ہی پانی اسد کے چہرے پر چھڑکا, ناک سے خون نکلنا بند ہوگیا. یہ دیکھ کر خیام اور غضنفر کی جان میں جان آئی.
آپ غلط جگہ آگئے ہیں. آپ کو اس گھر میں نہیں آنا چاہیے تھا. اسد نے کہا. وہ جو کوئی بھی مخلوق ہے بہت طاقت ور ہے خیام. تمہیں اس … اس گھر میں نہیں آنا چاہیے تھا.
خیام کو اسد کا مشورہ سن کر مولوی ہارون کی کہی باتیں یاد آنے لگیں.
چلے جاؤ اس گھر سے ورنہ بہت بڑی مشکل میں پھنس جاؤ گے. اسد خیام کو مخاطب کرتے ہوئے بولا
کوئی حل تو ہوگا اسد صاحب. خیام نے کہا
میرے بس کی بات نہیں ہے یہ. وہ بہت طاقت ور ہے, جو کوئی بھی ہے. اسد نے اپنی بے بسی ظاہر کی
لیکن وہ ہم سے کیا چاہتا ہے. خیام نے پوچھا
اس کا سایہ اب تمہاری فیملی پر پڑ چکا ہے. خاص کر تمہاری چھوٹی بیٹی ماہین پر.
آپ کو کیسے پتا میری بیٹی کا نام ماہین ہے. خیام کو حیرت میں غوطہ زن دیکھ اسد مسکرا دیا.
ماہین کا جو گلابی جوڑا ہے, وہ جوڑا جو اُس نے اُس روز پہن رکھا تھا جب آپ سب اس گھر میں پہلی بار آئے تھے.
خیام کو یاد نہیں تھا کہ ماہین نے اس دن کون سا رنگ پہن رکھا تھا.
عمل ختم ہونے کے بعد نیلم باہر نکل آئی اور ماریہ کو بچیوں کا خیال رکھنے کا کہا. وہ اسد کی باتیں سن کر جیسے سکتے میں آگئی.
خیام اس دن جب ہم گھر دیکھنے آئے تھے تو میں نے کچھ تصاویر لی تھیں موبائل سے. نیلم نے اپنا موبائل نکالا جس میں بہت سی تصاویر تھیں. واقعی اس دن ماہین نے گلابی جوڑا پہنا ہوا تھا جس کو دیکھ کر سب حیران ہو گئے.
نبیل کانسٹیبل بولا! دیکھیں سر میں نہ کہتا تھا اسد بابا ہی آپ کو اس مشکل سے نکال سکتے ہیں.
خیام …. اسد نے بات مکمل کی. آپ کو بابا عابد حسین شاہ سے ملنا ہوگا. میں کچھ نہیں کر سکتا, ہاں یہ کر سکتا ہوں کہ کچھ دن اس سب کو روکے رکھوں.
کون عابد حسین شاہ, خیام نے پوچھا
میرے مرشد ہیں وہ. اسد نے کہا
آپ کی بیٹی ماہین پر خناس کا سایہ ہے. وہ آپ کو اب چھوڑیں گے نہیں. یہ سب کے سب مردود ہیں. آپ ایسا کریں خود کو ہر وقت پاک و صاف رکھیں, باوضو رہیں, قرآن کی تلاوت کرتے رہیں اور گلابی رنگ کا جوڑا کوئی بچی نہ پہنے. ماہین کو اس برگد کے قریب جانے سے باز رکھیں. جب عصر کی نماز مکمل ہو جائے تب گھر کے سارے دروازے بند کر دیا کریں. مغرب کی اذان ہو تو دروازے بے شک کھول دیں. اس طرح وہ مخلوق آپ پر اپنا اثر نہیں چھوڑ پائے گی. ورنہ دوسری صورت تباہی آپ کا مقدر ٹھہرے گی. آپ نے ان کا کچھ نقصان کیا ہے خیام.
میں نے کیا نقصان کیا ہے اسد صاحب. خیام حیران تھا
مجھے معلوم نہیں لیکن یہ سب غصے میں ہیں.
آخر کیا بگاڑا ہے میں نے کسی کا. خیام بولا.
اللہ جانے وہ کچھ بتائیں تو سمجھ میں بھی آئے. اسد نے جواب دیا.
میں ان کو آپ لوگوں سے زیادہ دور نہیں رکھ پاؤں گا. وہ خود پیچھے نہیں آئے, آپ کے پیچھے لگائے گئے ہیں. اسد بولا
پیچھے لگائے گئے مطلب؟ خیام نے کہا.
ایسا کیا کیا ہے آپ نے خیام کہ وہ آپ کا خاندان ختم کرنا چاہتے ہیں. اسد نے پوچھا
یہ جو بھی چیز ہے اب آپ سے جڑ گئی ہے, آپ کہیں بھی چلے جائیں یہ وہاں آئے گی. یہ سب بول کر اسد نے اجازت چاہی.
++++++++++++++++++
میں کب سے الجھا ہوا تھا. سب ہی پریشان تھے کہ یہ سب ہو کیا رہا تھا. ماہ نور بار بار ایک ہی سوال کر رہی تھی کہ سارا گھر اندھیرے میں کیوں ڈوب گیا تھا. لائٹس آف ہوتیں تو اور بات تھی لیکن ادھر تو سورج کو جیسے کسی چیز نے ڈھانپ لیا تھا. نبیل نے جاتے وقت خیام کو مفید مشوروں سے نوازا اور گھر چھوڑنے کی گزارش کی.
لیکن خیام یہ گھر چھوڑتا بھی تو جاتا کہاں. ابا نے گھر میں گھسنے دینا نہیں تھا اور جو جمع پونجی تھی وہ اُس نے اِس گھر پر لگا دی تھی.
+++++++++++++++++++
اب میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ہے. خیام بڑبڑایا. ویسے بھی اسد نے کہا تھا میں اب جہاں بھی جاؤں گا یہ مخلوق وہیں آ جائے گی.
دیکھا خیام میں نہ کہتی تھی کچھ ہے. نیلم پریشانی میں بولی.
اگر اس گھر میں کچھ تھا تو مدثر اعظم نے ہمیں گھر کیوں بیچا. میں اور نیلم ایک دوسرے کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اب گھر چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا. خیام نے سارے پیسے اس گھر کو خریدنے میں لگا دیے تھے.
یار اگر یہ گھر چھوڑ کر جاتا بھی ہوں تو ابا مجھے گھر میں گھسنے نہیں دیں گے. خیام چڑچڑا ہو رہا تھا. چل نیلو مان لیا کہ اس گھر میں کچھ ہے بھی تو انہوں نے ہمارا کچھ نقصان تو نہیں کیا ابھی تک. سب کچھ صحیح سلامت ہے.
نیلم ….. وہم مت کرو یار بس, ہم اللہ سے بہتری مانگتے رہیں گے. نماز نہیں چھوڑیں گے کچھ بھی ہو جائے اور ہر وقت باوضو رہیں گے جہاں تک ممکن ہوا.
نیلم تم کمزور تو نہیں تھیں یار, اب کیوں ڈرنے لگی ہو. خیام روہانسا ہو کر بولا
آپ میرے ساتھ ہیں تو مجھے کسی چیز کا ڈر نہیں خیام. جو چیز بھی ہے ….. ہم یہ اپنا گھر نہیں چھوڑیں گے. جانا اس سائے کو ہوگا. نیلم تیقن کے ساتھ بولی.
آئی لو یو نیلو. خیام کو نیلم کے عہد نے تقویت پہنچائی. مجھے تم سے یہی امید تھی. یہ بولتے ہوئے خیام نے نیلم کو سینے سے لگایا اور اس کا ماتھا چوما.
لو یو سو مچ یارا. خیام کے لہجے میں منت سماجت محبت اور تفاخر سبھی کچھ امڈ آیا تھا.
لو یو ٹو خیام. نیلم نے خیام کے دل پر اپنا ہاتھ رکھ دیا. میں اور آپ اس گھر کو سنبھالیں گے. اُس نے خیام کے گال پر اپنا داہنا ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا چہرہ اپنی جانب موڑ لیا.
پریشان مت ہوں. اللہ سے بہتری کی امید رکھیں. ان شاءاللہ وہ ہمارے ساتھ ہے.
(جاری ہے)
تحریر: بشریٰ علی میمن