از بشری میمن
قسط نمبر 04
اور کال کٹ گئی …..
خیام بھاگا ہوا پہنچا تو نیلم بہت ڈری ہوئی تھی. نیلم نے ساری بات من و عن خیام کو بتادی.
یار تمہارا وہم ہے بس, اور کوئی بات نہیں ہے. خیام نے تسلی دی
نہیں خیام بچہ رو رہا تھا, جیسے تکلیف میں ہو بہت. نیلم نے اصرار کیا
اچھا تم سو جاؤ, میں ہوں نا تمہارے ساتھ.خیام بولا
وہ ساری رات نیلم سو نہیں پائی. خیام بھی تمام رات نیلم کے ساتھ جاگتا رہا اور نتیجتاً صبح دیر تک سوتا رہا.
صبح نیلم بیدار ہوئی تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا.
خیام ناشتہ کر رہا تھا جبکہ باقی سب ناشتہ کر چکے تھے. بچے ناشتہ کرنے کے بعد آپس میں کھیل رہے تھے.
خیام …..
جی جانِ خیام. خیام نے نیلم کی پکار کا جواب دیا
ایک بات کہوں …..
ہمم …. کہو. خیام بولا
خیام ….. ہم یہ گھر بیچ دیں تو ….. نیلم نے ڈرتے ڈرتے الفاظ ادا کیے.
خیام نے نیلم کی طرف دیکھا اور پوچھا. وجہ؟
مجھے لگتا ہے اس گھر میں کچھ ہے. نیلم گھبرائی ہوئی تھی
جیسا کہ؟ خیام نے پوچھا
مجھے لگتا ہے کہ اس گھر میں س …. سایہ ہے. نیلم نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا تو خیام ایک دم ہنسنے لگا
تم کب سے ایسی باتوں پر یقین کرنے لگی ہو یار. خیام نیلم کا دھیان بٹانا چاہتا تھا جبھی اس کی باتیں ہنسی میں اڑا رہا تھا. خیام کی باتوں پر نیلم ناراض ہو کر اٹھنے لگی تو خیام نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا.
اچھا سن نہ نیلو, ادھر پاس بیٹھ میرے. خیام پیار سے بولا
تیرے ساتھ بہت سی باتیں کرنی ہیں.
سلام صاحب ….
خیام اور نیلم نے مڑ کر دیکھا تو ایک 40/45 سالہ عورت مؤدبانہ انداز سے کھڑی تھی.
جی آپ کون. نیلم نے عورت سے پوچھا.
میں, ماریہ جوزف. خضر صاحب نے کہا تھا کہ آپ کے گھر کام کرنا ہے میم صاحب.
اچھا ہاں …. میں نے خضر سے بات کی تھی کام والی کے سلسلے میں. ماریہ ….. میرا نام خیام ہے اور میں خضر کا دوست ہوں. یہ میری وائف نیلم ہیں. تم آج سے بلکہ ابھی سے کام شروع کر دو.
جی صاحب جی. ماریہ بولی
نیلم …. ماریہ کو کام سمجھا دو اور آ کر میری بات سنو. خیام نے نیلم سے کہا
جی, ابھی آئی بس ….. یہ بولتی ہوئی نیلم, ماریہ کے ہمراہ گھر میں چلی گئی جب کہ خیام بیٹھا کچھ سوچتا رہا.
ہاں خیام آپ کچھ بتا رہے تھے. واپس آتے ہی نیلم نے کہا.
ہاں …… میں سوچ رہا ہوں کہ قرآن خوانی کروا دیتے ہیں. ہم جلدی میں شفٹ ہو گئے, گھر خالی پڑا تھا اور بند تھا. غلطی ہوئی مجھ سے, یہاں آنے سے پہلے قرآن خوانی تو بنتی تھی. اب کیا خیال ہے نیلم, قرآن خوانی کراتے ہیں گھر میں.
تمہیں پتہ ہے سایہ وایا کچھ نہیں ہوتا, بس یہ جگہیں خالی پڑی ہوتی ہیں. بعد میں کوئی گھر بنا دے تو ٹھیک, ورنہ جو ان گھروں میں بسنے والے مکینوں نے سہا ہوتا ہے, وہی سامنے آتا ہے. بڑے راز چھپے ہوتے ہیں ایسے گھروں کی دیواروں کے سینوں میں, جبھی گھروں میں سے آوازیں واپس سنائی دیتی ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ سایہ وغیرہ ہے.
اوئے کچھ نہیں ہوتا یار, انسان کے خود کا اندر کا وہم ہوتا ہے.
یہ سب بولتے ہوئے خیام نے کسی سے فون پر بات کی.
…………………………..
ہیلو السلام علیکم مولوی صاحب. کیسے مزاج ہیں آپ کے.
جی جی سب خیریت ہے …. خیر مبارک …… بس جلدی میں شفٹ ہوگیا جی, کوئ تقریب نہیں رکھی ….. جی اللہ کے احسان مولوی صاحب آپ کو ایک تکلیف دینی تھی. میں سوچ رہا تھا کہ قرآن خوانی کروا دوں گھر میں, برکت ہوجائے گی. جی بسم اللہ ….. جب آپ چاہیں.
جی آپ وقت دے دیں, میں حاضر ہوں ….. جب آپ کہیں …… اوکے … اللہ حافظ. خیام نے کہا اور کال کٹ گئی.
نیلم …. مولوی ہارون صاحب سے بات ہوئی ہے, انہوں نے کہا ہے کہ وہ وقت بتا دیں گے ہمارے گھر آنے کے لیے.
++++++++++++++++++
آج کل سکول سے چھٹیاں چل رہی تھیں اسی لیے غضنفر کے ساتھ مل کر بچے خوب مستیاں کر رہے تھے.
آج صبح کو غضنفر بچوں اور صائمہ کے ہمراہ بیچ پر گیا ہوا تھا. بچے خوش تھے بہت. جب سب بچے باہر سے کھیل کر واپس آئے تو گھر میں ایک قسم کی گہما گہمی تھی.
نیلم سے دریافت کرنے پہ پتہ چلا کہ آج گھر میں قرآن خوانی کرائی جا رہی ہے. سب بہت خوش ہو رہے تھے کہ چلو گیدرنگ ہو گئی ہے. ویسے بھی بہت دن ہوئے, گھر میں کوئی ایونٹ نہیں ہوا تھا, نہ ہی خیام وغیرہ کسی رشتے دار یا فیملی فرینڈز سے ملے تھے. وقت ہی نہیں ملا تھا, سو آج سب بہت خوش تھے.
آج غضنی بچوں کو واپس چھوڑنے آیا تو صائمہ کو بھی ساتھ لایا تھا اور نیلم نے ضد کر کے غضنی سے کہا تھا کہ اب صائمہ کچھ دن اسی کے پاس رہے گی. غضنفر نیلم کی بات تھوڑی پس و پیش کے بعد مان گیا.
بچے پڑوسیوں کے ہم عمر بچوں کے ساتھ ہلا گلا کرتے نظر آ رہے تھے. آہستہ آہستہ کچھ دیگر مہمان بھی آنا شروع ہو گئے.
گھر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا. ایک حصے میں مرد حضرات قرآن پاک پڑھ رہے تھے تو دوسرے حصے میں عورتیں اور بچے بیٹھے ہوئے تھے. مولوی صاحب اپنے ساتھ مدرسے سے حافظ بھی لے آئے تھے اور قرآن خوانی شروع ہو چکی تھی.
ابھی قرآن خوانی کو تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ……
(جاری ہے)
تحریر: بشریٰ علی میمن