از بشری میمن
قسط 3
میں نے اور نیلم نے نیچے روم سیٹ کیا تھا اور اس کے ساتھ والا روم سٹڈی روم میں بدل دیا تھا. ایک روم اماں ابا کے لیے سیٹ کر دیا تھا. خیام کو امید تھی, وہ کبھی تو اسے معاف کریں گے.
اور ایک کمرہ تینوں بچیوں کے لیے سیٹ کیا. دوسرا کھلونوں کا کمرہ بنا لیا.
آج صبح نیلم باہر صحن میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اچانک سے پتہ نہیں کیسے ایک سانپ آگیا جائے نماز کے نیچے.
نیلم نے اسے دیکھ کر شور مچا دیا ……. سانپ …. سانپ. خیام جلدی آؤ. خیام بھاگا پہنچا تو بہت بڑا سانپ نیلم کے سامنے کنڈلی مار کر بیٹھا تھا.
خیام نے جلدی سے ڈنڈا اٹھایا اور سانپ کا سر کچل دیا اب نیلم چیخ مار کر پیچھے ہٹ گئی.
سانپ کا سر کچلتے ہی سارا صحن اس کے خون سے بھر گیا. یہ سب غیر ارادی طور پر ہوا. اگر خیام سانپ کو نہ مارتا تو وہ شاید نیلم کو کاٹ لیتا.
اس لیے خیام نے جلدی سے ڈر کے مارے سانپ پر حملہ کر دیا. جیسے ہی خیام نے سانپ پر حملہ کیا, سانپ کے موںھ سے ایک عجیب دردناک سی آواز نکلی جیسے کوئی مرد تکلیف سے کراہ رہا ہو.
اب بچیاں بھی آ چکی تھیں. تینوں بہنیں ڈر گئیں کیوں کہ ان تینوں نے آج تک مرا ہوا سانپ تو دور کی بات, روبرو زندہ مینڈک بھی نہ دیکھا تھا. سو ڈرنا فطری عمل تھا.
سانپ کا اس طرح موںھ سے آوازیں نکالنا اور تڑپ کر مر جانا ان لوگوں کے لیے نئی بات تھی. اس سے پہلے خیام نے کبھی مکھی تک نہ ماری تھی اپنی فیملی کے سامنے. نیلم کو وسوسے گھیرے ہوئے تھے وہ کہہ رہی تھی, خیام سانپ کا مرنا اچھی بات نہیں ہے. آپ سانپ کو جانے دیتے. اب جائیں اور جلدی سے نہا لیں.
ریلیکس یار کچھ نہیں ہوتا. تم بچوں جیسی باتیں کیوں کر رہی ہوں. خیام بولا.
"میرا سارا دن برباد ہو گیا” خیام خود کو اللہ کے سامنے گناہ گار سمجھ رہا تھا.
"میں نے ایک زندہ جاندار کو بلاوجہ مردہ بنا دیا. کیا پتہ وہ نیلم کو نہ کاٹتا. لیکن کیا پتہ کسی اور کو کاٹ لیتا. اچھا کیا مار دیا.” خیام تذبذب میں بڑبڑایا
خیام نے سانپ کو اٹھایا اور گھر کے پچھلے حصے میں دفن کردیا اور RIP بول کر ایک رابیل کا پھول قبر پر رکھ دیا.
لیکن …….
اس واقعے کے کچھ دن بعد خیام کے گھر میں کچھ نہ کچھ خراب ہونے لگا. وہ چلتا تو پیچھے پاؤں کی آہٹ سنائی دیتی. ایسا لگتا کوئی پیچھے آرہا ہے. کبھی لگتا کہ کوئی اس کے ساتھ چل رہا ہے. وہ مڑ کر دیکھتا تو کوئی نہ ہوتا. یہ بات خیام نے غضنی کو بتائی لیکن غضنی خیام پر ہنسنے لگا, یہ کہہ کر کہ بھابھی کے وسوسوں نے اسے ڈرا دیا ہے. اور اس نے خیام کے خیال کو یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ نئی جگہ کی وجہ سے اسے ایسا محسوس ہو رہا ہے. کچھ دن میں سب ٹھیک ہوجائے گا.
ویسے حیرت ہے, تجھ جیسے پولیس آفیسر کو بھی وہم ہوتے ہیں. غضنی خیام کا مذاق بنانے لگا.
تجھے بس بتایا ہے, مذاق مت بنا غضنی کے بچے. میں سوچ رہا تھا. ہاں, سانپ کو مار کر اس بات کو خود پر سوار کر لیا ہے میں نے شاید, اس وجہ سے لگ رہا ہے ایسا. عجیب وسوسے ہو رہے ہیں. خیام غضنی سے یہ سب شئیر کر کے نارمل ہو گیا. پھر ایک رات کی بات ہے. تین بجے کا وقت ہوگا جب خیام اور گھر والے سوئے ہوئے تھے کہ اچانک نیلم کی آنکھیں کھل گئیں. ایسا لگا جیسے کوئی چیز اس کے گلے کو جکڑتی جا رہی ہو. اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے گلے سے کیا چیز چپکی ہوئی ہے. کبھی لگتا سانپ ہے, کبھی لگتا دوپٹا ہے. ایسا لگ رہا تھا کوئی نیلم کا گلا دبا رہا ہے.
لیکن…. لیکن…. یہ سب خواب نہیں تھا اور نا ہی نیلم کا وہم تھا. یہ حقیقت تھی. نیلم خود کو آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی. پھر اچانک اس کے دل میں ایک خیال آیا. اس نے کلمہ پڑھا تو اس چیز کی گردن پر گرفت کم ہوگئی. نیلم نے چلانا شروع کردیا.
کیا ہوا نیلم, خیام اٹھ بیٹھا. خیام وہ….. وہ…. نیلم مارے ڈر اور گھبراہٹ کے اٹھ بیٹھی اور خیام کے ساتھ چپک گئی.
ہوا کیا ہے نیلم, تم رو کیوں رہی ہو؟ کوئی برا خواب دیکھا ہے. خیام نے جلدی سے گلاس میں پانی ڈال کر نیلم کی طرف بڑھا دیا.
کچھ تھا خیام ک…. ک….. کچھ ہے اس گھر میں. وہ میرا گلا دبا رہی تھی. تم اٹھ بیٹھے تو غائب ہوگئی. نیلم روئے جا رہی تھی.
ششش …… اچھا رونا بند کرو. خواب دیکھا ہے تم نے اور کوئی بات نہیں ہے. خیام بولا.
نہیں خیام کوئی چیز تھی, غائب ہوگئی تمہارے آتے. لیکن خیام نے نیلم کا وہم سمجھ کر اس خیال کو ہی جھٹک دیا.
کچھ نہیں ہے یار نیلو تم بھی کمال کرتی ہو………………..!
+++++++++++++++++
صبح ہوتے ہی سب نارمل ہوگیا تھا. ایک تو نئی جگہ اوپر سے ہر طرف ہریالی من کو بھلی لگ رہی تھی. خیام نے ابھی تک ڈیوٹی جوائن نہیں کی تھی. وہ کچھ دن مزید اپنی فیملی کو دینا چاہتا تھا اس لیے وہ اور نیلم صبح سے باغیچے میں نئے پودے لگا رہے تھے. ماہرہ اور ماہ نور بھی ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور ماہین اندر کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی.
نیلم کھانا بنانے لگی.
شام کا وقت تھا, خیام کو آفس سے کال آئی. کوئی خون ہو گیا ہے, مجھے جانا ہو گا. نیلم میں کچھ دیر میں آ رہا ہوں واپس. خیام نے نیلم کو بتایا.
اچھا خیام, کام والی کا کیا بنا ہاں میں نے خضر سے بات کی ہے وہ اپنی کام والی بھیج دے گا. میں آتا ہوں. اتنا بول کر خیام گاڑی نکال کر چلا گیا.
رات کے گیارہ بج رہے تھے لیکن خیام ابھی تک واپس نہیں آیا تھا. نیلم انتظار کرتی ہوئی باہر ہی صحن میں بیٹھ گئی تھی لیکن سردی زیادہ تھی تو اندر آگئی. بچے سب سو چکے تھے تبھی اس کو ….. روشن کے رونے کی آواز آئی. جیسے ہی وہ اندر گئی تو اس کے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی کیوں کہ روشن تو سو رہا تھا.
پھر بچے کے رونے کی آوازیں کہاں سے آ رہی تھیں, نیلم نے ڈر کے مارے روشن کو اٹھایا اور جاکر بچیوں کے روم میں بیٹھ گئی.
بچے کے رونے کی آوازیں ہنوز سنائی دے رہی تھی. آوازیں تیز ہوتی جا رہی تھیں جیسے کوئی شیرخوار بچہ تکلیف میں ہو. نیلم نے ڈر کے مارے خیام کو۔ کال ملائی, دوسری پھر تیسری بیل پر کال اٹھا لی گئی. میں راستے میں ہوں آ رہا ہوں نیلم. نیلم گھبرائی ہوئی تھی.
نیلم ؟
are you ok
لیکن نیلم مارے ڈر کے کچھ بول نہیں پا رہی تھی. جب بولی تو اتنا کہ "کچھ ہے خیام, ادھر کچھ ہے” اور کال کٹ گئی …..
(جاری ہے)
تحریر بشری میمن#سایہ