از بشری میمن
قسط نمبر 01
یہ ان دنوں کی بات ہے جن دنوں ہم نے اپنے اس گھر کو خیرباد کہا جہاں ہم پہلے رہائش پذیر تھے.
چوں کہ میری پوسٹنگ دوسرے شہر میں ہوگئی تھی, اس وجہ سے ہمیں اپنا چھوٹا سا گھر چھوڑنا پڑا جہاں ہم قیام کیے ہوئے تھے.
————————
"ہیلو غضنفر! مکان کا کیا بنا؟
مجھے جلد از جلد شفٹ ہونا ہے یار” خیام اکتاہٹ کا شکار تھا. "میں کوشش کر تو رہا ہوں, ان شاءاللہ جلد ہی کوئی اچھا مکان مل جائے گا. یار تو فکر نہ کر, میں ایک جگہ گیا تھا, گھر اچھا ہے لیکن ……” غضنفر بولا.
لیکن کیا؟
خیام نے پوچھا.
"کیا شام کو تم مجھ سے مل سکتے ہو?” غضنفر نے سوال کیا.
ہاں کیوں نہیں. خیام بولا.
تو ڈن ہوا, میں تم سے شام میں شکارپور کارنر پر ملتا ہوں. غضنفر نے کہا.
چلو ٹھیک ہے. خیام بولا.
——————————
وہ انتظار کر کر کے تھک چکا تھا لیکن خیام کا کوئی اتا پتا نہیں تھا.
وہ بیٹھے بیٹھے ساتواں سگریٹ پھونک رہا تھا.
"وہ ابھی تک نہیں آیا …… یہ خیام کا بچہ کبھی نہیں سدھرے گا. روز کا کام ہوتا اس کا. مجھے کہتا ہے دیر نہیں کرنا, خود جب مرضی ہو تب ملنے آتا. غضنفر موںھ ہی موںھ میں بڑبڑایا کہ اچانک اسے سامنے سے خیام آتا دکھائی دیا.
لو آگیا. غضنفر بولا
یار تو کتنا لیزی ہے, ہمیشہ دیر کر دیتا ہے. غضنفر نے موبائل میں وقت دیکھتے ہوئے شکوہ کیا.
لیکن خیام نے اس کو اپنی گھڑی دکھا کر مطمئن کر دیا.
یہ دیکھ بیس منٹ ہی لیٹ ہوا ہوں اور تو بات کا بتنگڑ بنا رہا ہے.
اچھا نا, کیا لے گا? خیام نے پوچھا.
چائے میری طرف سے. غضنفر بولا.
خیام نے کہا! تیرے پاس جو پیسے تھے تو سگریٹ پھونک چکا, مجھے پتہ ہے تیری جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہوگی. خیام نے آنکھ دبائی اس کی طرف دیکھ کر اور دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
خیام آج بھی ویسا ہی تھا جیسا کالج وقت میں ہوتا تھا بالکل بھی نہیں بدلا تھا۔
چائے پی پھر گاڑی میں بیٹھ کر باتیں بھی کرتے ہیں اور گھر دیکھنے بھی چلتے ہیں. غضنفر بولا
***********************
خیام پولیس محکمے میں DSP تھا. وہ پہلے اپنے کوارٹر میں رہتا تھا لیکن جب سے نیلم نے کہا تھا کہ اب وہ مزید اکیلی اس کے بنا نہیں رہ سکتی, تب سے خیام سوچ رہا تھا کہ اپنا گھر لے لے. ویسے بھی بچے بڑے ہوئے تو خیام کو فکر ہونے لگی ان کے مستقبل کی. اسی معاملے میں خیام اپنے دوست غضنفر سے ملنے گیا کہ کوئی گھر ملے اچھا سا تو بتا دے. جب سے اس کی کراچی ٹرانسفر ہوئی تھی وہ گھر کو لے کر سیریس تھا.
وہ اب مزید اپنے بچوں اور بیوی نیلم سے دور نہیں رہ سکتا تھا۔
غضنفر خیام کے کالج دور کا ساتھی تھا اور ان دونوں کی دوستی ویسی ہی چلی آ رہی تھی. پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد خیام نے محکمہ پولیس جوائن کر لیا تھا جب کہ غضنفر کراچی ہی میں پراپرٹی ڈیلر بن گیا تھا.
غضنفر, خیام کی کراچی ٹرانسفر کا سن کر فورا اسے آفس میں ملنے چلا آیا. خیام اپنے کام میں مصروف تھا لیکن اپنے جگری یار کو دیکھ کر حسب عادت تمام مصروفیت بھول گیا.
اوئے غضنی تو کب آیا یار. خیام بولا.
میں ابھی آیا, سوچا تجھے کام چھوڑے گا ہی نہیں تو میں ہی مل لیتا ہوں. ویسے بھی مجھے تجھ سے ایک ضروری کام تھا. غضنفر بولا.
وہ کیا؟ خیام نے پوچھا.
بتاتا ہوں پہلے چائے تو پلا. خیام نے جلدی سے کال ملائی.
ہیلو! ہاں, ایک چائے اور ایک کافی بھیجو. چائے میں چینی دو چمچ…!
اور بتا, کیسی گزر رہی غضنی. بھابھی کیسی ہیں؟ خیام نے پوچھا.
ٹھیک ہے اب.
یار تو بچوں اور بھابھی کو ادھر ہی بلوالے تو میں صائمہ کو لے آؤں گا بچوں اور بھابھی سے ملوانے. اس کا بھی جی بہل جائے گا. بچوں کو دیکھے گی تو اس کا سٹریس کم ہوگا.
خیام, غضنفر کی آنکھوں میں اولاد کو لے کر حسرت دیکھ سکتا تھا. اس لیے خیام نے بات بدل دی.
لو جی چائے آگئی تیری. پی لے پھر نکلتے ہیں.
میرا بھی کیس بن گیا ہے.
**********************
گاڑی میں بیٹھنے کے بعد غضنفر نے خیام کو بتایا کہ وہ ایک گھر دیکھنے گیا تھا.
پھر? خیام نے پوچھا.
گھر دیکھنے گیا تو راحیل نامی بندے سے ملا جو میرا منتظر تھا. مدثر اعظم نامی شخص یہ گھر بیچنا چاہتا تھا کیوں کہ وہ خود پاکستان سے باہر رہتا ہے. آج سے 30 سال پہلے وہ شخص ادھر سے گیا تو وہیں کا ہو کر رہ گیا. اس نے ادھر ایک گوری سے شادی کر لی.
اس کا پاکستان میں کوئی نہیں ہے.
ایک باپ تھا جو اب مر چکا ہے. بیوی, بچے سب کینیڈا میں ہیں.
مدثر اعظم کو جب اپنے باپ کے علیل ہونے کا علم ہوا تو وہ پاکستان چلا آیا.
لیکن اب جب باپ ہی نہیں رہا تھا تو ادھر رہ کر کیا کرتا.
اس کو پیچھے بھی بہت کام ہیں اس لیے جتنا جلدی ہوسکے, وہ اپنی پراپرٹی بیچ کر جانا چاہتا ہے.
گھر تو میں دیکھ چکا ہوں. بڑا اچھا گھر ہے بڑا ہی صاف ستھرا. تو چاہے تو ابھی نکل پڑتے ہیں. غضنفر بولا. لیکن خیام سوچ رہا تھا کہ بڑا ہی کمینہ انسان ہے. کوئی تو بات ہے جو یہ "بڑا ہی صاف” پر زور دے رہا ہے.
نہیں, نیلم کو ادھر بلواؤں گا, پھر ساتھ دیکھنے چلیں گے گھر. اکیلے نہیں جا سکتا میں. خیام بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل جب بھابھی آئے تو بتا دینا. مجھے دوسرے Client کو بھی دیکھنا ہوتا ہے. وقت نکال کر تیرے سے شئیر کرنے آیا ہوں اور بھابھی کی لگتی تجھے. غضنفر برہم ہو رہا تھا.
اچھا نہ یار کیا ہوگیا ہے. سدا کا مولا جٹ ہی رہنا, تیری طبیعت بڑی فقیرانہ ہے. اللہ تجھے خوشیاں دے. یہ سب بول کر خیام غضنفر سے بغلگیر ہو گیا.
جس پر غضنفر سمجھ گیا کہ اب یہ مکھن لگا رہا ہے.
سمجھتا ہوں تجھے کمینے انسان. غضنفر کی بات پر خیام کھلکھلا کر ہنس پڑا.
——————————-
غضنفر گھر دیکھنے گیا تو اس کو گھر بہت پسند آیا تھا.
اور ویسے بھی جو نقشہ وہ کھینچ رہا تھا تو خیام کو اس کی بات پر یقین آگیا.
"لیکن پہلے نیلم اور میں دیکھ لیں. گھر نیلم کو پسند آیا تو سمجھو مجھے بھی آگیا ویسے بھی تیری زبان پر یقین ہے مجھے غضنی.” خیام بولا.
کوئی یقین وقین نہیں تجھے میری زبان پر, گھر تو بھابھی کی پسند سے ہی لے گا. رن مرید ہے تو مجھے پتا ہے.
بار بار طعنے نہ دے غضنی کے بچے اندر کر دوں گا تجھے. پتہ نہیں تو پولیس آفیسر سے بات کر رہا ہے اس وقت.
قسم سے احسان فراموش. غضنفر نے بولا تو خیام ہنستا ہی چلا گیا..!
——————————
وہ بار بار کال ملا رہا تھا. رنگ جا رہی تھی مگر کوئی اٹھا ہی نہیں رہا تھا. ایک تو یہ نیلم بھی نہ, پتہ نہیں کہاں رہ جاتی ہے یار. خیام بڑبڑایا.
خیام نے تیسری بار کال کی تو کال اٹھالی گئی. لیکن سامنے والی موصوفہ کے مزاج ہی نہیں مل رہے تھے.
"ہیلو پاپا! ماہ نور بول رہی ہوں. مما باتھ روم میں ہیں, اس لیے میں نے کال اٹینڈ کی ہے.
آپ ہم سے زیادہ اپنی وردی اور اپنی ڈیوٹی سے پیار کرتے ہیں.
آپ کو پتا ہے آپ نے کتنے دنوں بعد بات کی ہے مجھ سے؟ ماہ نور شکوہ کر رہی تھی جس پر خیام کو پیار آ رہا تھا۔
سوری پاپا کی جان. پاپا مصروف ہوتے ہیں نا اس لیے.
اب کل پاپا آ رہے ہیں آپ لوگوں سے ملنے. اب پاپا اور آپ ساتھ رہیں گے سب. خیام پیار سے بولا.
سچ پاپا? ماہ نور خوش ہوگئی.
ہاں بیٹا! جب مما فری ہو جائیں ان کو بتانا کہ پاپا نے کال کی تھی.
اوکے پاپا, آئی لو یو پاپا.
لو یو ٹو پاپا کی جان. اور خیام نے کال کاٹ دی.
آج صبح ہی صبح خیام آبائی علاقے پہنچ گیا تھا جہاں اس کی فیملی رہائش پذیر تھی. گھر آتے ہی اس نے نیلم اور بچوں کو ساتھ لیا اور کراچی کے لیے نکل پڑا. نیلم بار بار پوچھ رہی تھی ہم کدھر جا رہے ہیں خیام. لیکن وہ بولا, سرپرائز بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے جانِ خیام.
دو گھنٹے سفر کے بعد کراچی پہنچ کر خیام نے ایک جگہ گاڑی روک لی.
اب گاڑی کیوں روک لی خیام? نیلم نے پوچھا.
بتاتا ہوں بتاتا ہوں, جلدی کیا ہے. خیام نے یہ کہتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا. تھوڑے انتظار کے بعد غضنفر آتا دکھائی دیا.
لو غضنی بھی آگیا. خیام بولا.
—————————-
السلام علیکم بھابھی جی.
وعلیکم السلام بھائی جان, کیسے ہیں آپ اور بھابھی کیسی ہیں؟ نیلم نے سوال کیا۔
ٹھیک ہے, اب کافی بہتر ہے. آپ سب کیسے ہو میرے بچو! غضنی نے بچوں سے پیار جتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم اپنا گھر لے رہے ہیں. اب آپ لوگ خیام کے ساتھ رہو گے, آپ لوگوں سے دور نہیں رہا جاتا خیام سے. غضنفر بولا.
لو ہوگیا بیڑہ غرق. خیام نے غضنی کی طرف غصہ سے دیکھا. بولا تو بس اتنا کہ
یار, واقعی تو مولائی ہے. کیا کہوں اب تجھے.
خیام اور غضنفر کی کھٹ پٹ سن کر نیلم بہت محظوظ ہوتی رہی اور خیام سے پوچھنے لگی, سچ خیام ہم اپنا گھر لے رہے ہیں.
خیام نے بس سر ہلایا لیکن غضنی اب دانت نکال رہا تھا.
آپ نے بتایا کیوں نہیں خیام اب بتا رہے جب گھر لے لیا. نیلم ناراض ہوتے ہوئے بولی.
یار سرپرائز بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے. خیام بولا.
خیام کا پیار اور اعتماد پاکر نیلم کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا. ہم لوگ جا رہے گھر دیکھنے.
سچ خیام? نیلم نے پوچھا.
ہاں میری جان! خیام نے تصدیق کردی. نیلم بہت خوش تھی کہ اب وہ خیام کے ساتھ ہی رہیں گے. اب وہ لوگ اپنی منزل کی طرف گامزن تھے ……
اور سنا غضنی, بھابھی کا بتا. خیام نے پوچھا.
ہاں کافی بہتر ہے اب. ڈاکٹر کو دکھایا تھا میں نے.
پھر کیا کہتا ہے ڈاکٹر. خیام نے پوچھا.ڈاکٹر کہتا ہے سٹریس ہے
××××××××××××××××××
غضنفر کی شادی کو 4 سال ہوگئے تھے لیکن اس کی بیوی ماں نہیں بن پا رہی تھی. اس وجہ سے صائمہ ذہنی تناؤ کا شکار تھی. غضنفر سمجھا سمجھا کر تھک چکا تھا کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے. جب اللہ چاہے گا اولاد ہوجائے گی. لیکن صائمہ مانتی ہی نہیں تھی.
——————————
خیام کی نسبت اپنے چچا کی بیٹی شبنم سے طے تھی لیکن خیام نے اپنے ابا کی خواہش کا احترام نہ کرتے ہوئے چچا کی بیٹی سے شادی سے انکار کر دیا تھا اور نیلم سے شادی کر لی تھی جس سے خیام کو تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا. نیلم کافی اچھی لڑکی تھی. اس نے خیام کو مایوس نہیں کیا تھا اور دونوں کی زندگی اچھی گزر رہی تھی. یوں اپنی بھتیجی کے حق پر پڑتا ڈاکا دیکھ کر خیام کے ابا راشد ملک نے اپنے بیٹے خیام کو گھر سے نکال دیا تھا. یہ ہی نہیں بلکہ اپنی زمین جائیداد سے بھی بے دخل کردیا تھا. نیلم اور خیام کی ملاقات ایک کالج میں ہوئی تھی. اس وقت نیلم کالج میں پڑھتی تھی جب کہ خیام ایک انویسٹیگیشن کے سلسلے میں کالج کے پرنسپل سے ملنے گیا ہوا تھا. وہاں خیام نے نیلم کو دیکھا اور اپنا دل وہیں چھوڑ آیا. پھر خیام نے پہل کی اور نیلم سے شادی کی رضامندی حاصل کی, جس پر نیلم نے سر تسلیم خم کر لیا لیکن جب ابا راشد ملک کو پتہ چلا تو وہ خیام پر شدید برہم ہوئے اور اس کو سمجھایا. خیام پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا. پھر ابا جی کے فیصلے کے خلاف جا کر خیام نے نیلم سے کورٹ میرج کر لی. ویسے بھی نیلم اپنی ماں کے ساتھ اپنے ماما کے گھر رہتی تھی. جب سے باپ فوت ہوا تھا, یہ لوگ ماموں کے گھر میں ہی رہتے تھے. جب خیام نے رشتہ بھیجا تو فورا قبول کر لیا گیا. ویسے بھی ممانی نے اپنے بیٹے کے لیے نیلم کو لیکر کرنا بھی کیا تھا. کون سا جہیز ساتھ لاتی. خالی ہاتھ کی وبا ممانی کو چاہیے بھی نہیں تھی, سو کوئی پرابلم ہی نہیں تھی اور نیلم کا خیام سے نکاح بہ آسانی ہو گیا.
———————————-
اب کی بار خیام سوچتا تھا کہ نیلم اور بچوں سے دور رہ کر بھی کیا زندگی ہے. اس لیے اب جب اس کا کراچی میں ٹرانسفر ہوا تو غضنفر کی مدد سے اس نے اپنا گھر لے لیا اور آج اسی سلسلے میں نیلم, خیام اور غضنفر گھر دیکھنے جا رہے تھے.
پورا ایک گھنٹہ بعد وہ لوگ اس جگہ موجود تھے جہاں یہ گھر تھا. ویسے تو وہ گھر بند تھا لیکن آج مدثر اعظم نے اپنا ایک بندہ بھیجا تھا جو ان لوگوں کو گھر دکھاتا.
یہاں آ کر خیام کو اندازہ ہوا کہ گھر کافی پرانی طرز کا بنا ہوا ہے اور کافی اچھا ہے, لیکن صفائی نہ ہونے کی وجہ سے گھر میلا ہوچکا تھا. رنگ جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا لیکن گھر کسی بنگلو سے کم نہ تھا. اندر گھر میں داخل ہونے کے لیے ایک لکڑی کا دروازہ عبور کر کے اندر داخل ہوا جاتا تھا. اندر آتے ہی اندازہ ہوا کہ آنے والی آندھی طوفان کی تباہ کاریوں سے باغیچے کا بیڑہ غرق ہوا پڑا ہے. سامنے گیٹ سے آتے ہی باغیچے کی خستہ حالی نے استقبال کیا. اس کے برعکس, گھر کچھ بہتر حالت میں تھا کیوں کہ گھر بند تھا اور مٹی اتنی نہیں پھیلی تھی. لیکن جالے پڑ گئے تھے گھر میں.
نیلم اور خیام خوش تھے کہ اپنا گھر تو مل گیا تھا. غضنفر اور خیام نے مدثر کے بھیجے ہوئے بندے سے بات کی کہ رنگ و روغن کروا کر صفائی کروا دیں گھر کی. پیسے کی فکر نہ کریں آپ. باقی معاملات ہم طے کر لیں گے
خیام خوش تھا اپنی فیملی کے ساتھ. فیملی میں تھے ہی کتنے لوگ. نیلم, تین بیٹیاں اور ایک بیٹا. بڑی بیٹی کا نام ماہرہ دوسری بیٹی کا ماہ نور اس کے بعد بیٹا روشن اور پھر چھوٹی بیٹی ماہین. یہ ہی کل فیملی تھی خیام کی, اور خیام بہت خوش تھا اپنی فیملی کے ساتھ. ہاں یہ ملال ضرور تھا کہ اماں ابا ساتھ ہوتے تو کیا ہی اچھا ہوتا.
اس کے برعکس غضنفر نے اپنی خالہ کی بیٹی صائمہ سے شادی کر لی تھی, لیکن چار سال گزرنے کے بعد بھی ان کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہوا تھا.
(جاری ہے)
تحریر بشری میمن#سایہ👤
از بشری میمن