نصیر بھائی کی دو ماہ سے طبیعت خراب ہے وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں۔
دوائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے مولوی نظام سے روحانی علاج بھی کرارہے ہیں لیکن طبیعت سنبھلنے میں نہیں آ رہی ہے۔
”لیکن مجھے اور۔۔۔۔۔ کسی دوست کو بھی اس کی بیماری کا پتہ ہی نہیں چلا۔” میں نے حیرت سےکہا۔
پھر میں ڈرتے ہوئے نثار کے ساتھ ان کے گھر گیا نصیر کو دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا واقعی وہ ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گیا تھا۔
نصیر تم نے اپنی کیا حالت بنالی ہے؟ میں نے نثار کے کمرے سے جانے پر پوچھا۔
”یہ سب میرے اعمال کی سزا ہے۔
میں بہت برا ہوں، میراانجام اس سے برا ہونا چاہئے تھا۔” نصیر پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔
”نصيرصبر کرو، اللہ تعالی سب بہتر کرے گا، تم ضرور صحت یاب ہو جاؤ گے۔” میں نے اس کوتسلی دی۔
”نہیں میں ٹھیک نہیں ہوسکتا تم مجھے جھوٹی تسلیاں مت دو، جس نے مجھے اس حال پر پہنچایا ہے۔ اس نے مجھ سے صاف کہہ دیا ہے کہ میں چند روز سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکوں گا۔”
” نصیر تم کس طرح کی باتیں کر رہے ہو۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔” میں نے کہا۔
”تم سننا چاہتے ہونا تو سنو! شاید تمہیں یہ سب سنا کر میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔” نصیر نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” تم مجھ سے کہتے تھے نا شریف اچھا لڑکا نہیں تھا تمہارے منع کرنے کے باوجود میں اس سے ملاقات کرتا تھا۔
ایک رات وہ مجھے قبرستان لے گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ مجھے کیوں قبرستان لے آیا ہے۔ رات کی تاریکی میں دور تک کوئی انسان نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک تازہ قبرکا ایک حصہ کھود کروه اندر چلا گیا۔ اسے قبر میں گھسے ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے تخت تشویش ہوئی کہ دیکھوں وہ کیا کر رہا ہے۔؟
قبر کے اندر اس نے چھوٹی سی ٹارچ جلا رکھی تھی ہلکی روشنی سے قبر کے اندر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔
قبر میں ایک نوجوان لڑکی کی برہنہ لاش پڑی تھی لڑکی کے کفن کوشریف نے پوٹلی بنا کر ایک طرف رکھ دیا تھا اور اب وہ لڑکی کی لاش کے اوپر جھکا ہوا تھا اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے جھرجھری سی آ گئی کہ شریف اتنی گری ہوئی حرکت بھی کر سکتا ہے میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن میرے پاؤں جیسے من من بھر کے ہو گئے تھے کہ میرے لئے پاؤں اٹھانا مشکل ہوگئے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ قبر سے باہرنکل آیا اور مجھے مجبور کرنے لگا کہ میں بھی وہی شرمناک حرکت کروں جو وہ قبر کے اندر لاش کے ساتھ کر کے آ چکا ہے۔
میرے انکار پر اس نے جیب سے پستول نکال لیا اور دھمکی دی کہ میں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کیا تو مجھے جان سے ماردےگا۔ زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ اپنی زندگی کو بچانے کی خاطر میں قبر کے اندر اتر گیا اور قبر میں وی حرکت کر بیٹھا جسے میں چند لمحے پہلے بہت برا سمجھ رہا تھا۔ شریف نے قبر سے کفن نکال کر قبر کو دوبارہ سے پہلے جیسی حالت میں کردیا۔
اس کام سے فارغ ہوکر شریف مجھے قبرستان سے باہر لے آیا اور دھمکی دی کہ یہ بات میں کسی کونہیں بتاؤں ورنہ سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
میں نے اسے یقین دلایا کہ میں کسی کو یہ بات نہیں بتاؤں گا۔ میں کئی دن تک شریف سے نہیں ملا مجھے شریف پرشدید غصہ تھا۔ اس رات اس نے کوئی اچھی حرکت نہیں کی تھی۔ پھر ایک دن خود بخود میرے پاؤں شریف کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ شریف مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور رات ہوجانے پر قبرستان لے گیا۔ میں اس کے پیچھے ایسے چل پڑا جیسے اس کا غلام ہوں اور وہ میرا آقا ہے۔ اس رات شریف نے وہی رات والی حرکت کی اور قبر سے باہر آ گیا۔ میں اس کے اشارے کا منتظر تھا۔ اشاره پاتے ہی میں قبر میں اتر گیا اور اپنے شیطانی عمل میں مصروف ہوگیا۔
اب ہم دونوں کی دوستی اور مضبوط ہو چکی تھی ہم ایک دوسرے کے راز دار بن گئے تھے۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا تھا کہ جس رات شریف قبرستان نہیں جاتا میں اکیلا ہی چلا جاتا۔ قبرسے جوکفن لاتا وہ ایک کفن بیچنے والے کو سستے داموں فروخت کردیتا۔ ایک رات شریف کو دوسرے شہر جانا پڑ گیا۔ میں اکیلا ہی قبرستان چلا گیا اور ایک تازہ قبرکھود کر اندر اترا۔ عورت کا کفن اتار کر میں جیسے ہی اس کی جانب بڑھا۔
اچانک اس کی آنکھ کھل گئی اور اس کے منہ سے لمبے لمبے دانت باہرنکل آئے، میں گھبرا کر باہر نکلنے لگا لیکن اس عورت نے میرا پاؤں پکڑ کراندر کھینچ لیا۔
میں نے بہت کوشش کی قبر سے باہرنکل جاؤں لیکن اس عورت نے مجھے اتنی سختی سے پکڑ لیا کہ میں خود کو چھڑا نا سکا اور بے بس ہوکر رہ گیا۔
””جاتا کہاں ہے شیطان ۔” وہ عورت قہقہ لگا کر بولی۔
.مم . مجھے معاف کردو۔” میں نے التجا کی۔”
”میں تجھے نہیں چھوڑسکتی۔ تو میری حد میں آ گیا ہے۔ تیری جان تو اب مرکرہی چھوٹ سکتی ہے۔ وہ بولی۔
”خدا کے لئے مجھے جانے دو، میں پھرکبھی ادھر کا رخ نہیں کروں گا“
یہ کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ تیرے دادا کا نام وکیل احمد ہی ہے نا‘‘؟
”اں، ہاں۔۔۔۔۔۔ لیکن انہیں کیسے جانتی ہو؟ میں نے چونک کر پوچھا۔
”بہت پرانا قصہ ہے میں تیرے دادا کے گھر نوکری کرتی تھی۔ ایک دن گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے تیرے دادا اور ان کے چند دوست گھر میں شراب میں دھت بیٹھے تھے۔ مجھے گھرمیں داخل ہوتا دیکھ کر تیرا دادا مجھ پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑا۔ وہ مجھے نوچتا کھسوٹتا رہا۔ میری سانسیں اکھڑنے لگیں تو اسے ہوش آیا لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ مرتے مرتے میں نے دل میں عہد کیا تھا کہ جب تک وکیل احمد اور اس کے گھر کے فرد سے اپنا انتقام نہ لے لوں اس وقت تک میری روح کو قرار نہیں آئے گا، تو جب قبر میں اترا تھا میری روح خوش ہوگئی کہ میری مراد بر آنے والی ہے۔” وہ عورت بولی۔
”لیکن یہ قبرتازہ ہے، پھر تم اس میں کیسے آگئیں۔” میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
”روحوں کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ قبر بہت پرانی ہے صرف تیری نظر کا دھوکہ تھا، میرے جسم پر جو کفن تھا وہ بھی تیری نظر کا دھوکا تھا۔“ کہتے ہوئے اس نے مجھے اپنی بانہوں میں دبوچ لیا۔ میں بے بس پرندے کی طرح پھڑپھڑا کر رہ گیا تھا۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔
ہوش آ نے پر میں اس قبر میں اکیلا پڑا تھا۔ عورت غائب تھی۔ میں قبر سے نکل کر تیزی سے گھر بھاگا۔
دوسری رات نا چاہتے ہوئے بھی میرے قدم خود بخود قبرستان کی طرف اٹھنے لگے اور قبرستان پہنچ کر میں قبر کے اندر اتر گیا قبر میں وہ عورت موجود تھی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور میں بے ہوش ہوگیا۔
ہوش آنے پردوبارہ گھر آ گیا یہ سلسلہ روز ہونے لگا میں اب جسمانی طور پر کمزوری محسوس کرنے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ میں ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گیا۔”“
تم یہ بات اپنے والد کو نا سہی کسی دوست کو بتا سکتے تھے تا کہ اس کا بروقت علاج ہو جاتا۔” میں نے کہا۔
”میں اپنا جرم اور یہ بات بتانا چاہتا تھا لیکن میں جب بھی یہ بات کسی کو بتانا چاہتا تھا تو کھائی نہ دینے والے ہاتھ میرے گلے کو دبانا شروع کردیتے تھے۔ میری سانسیں رکنا شروع ہوجاتی تھی۔ میرے خاموش ہوجانے پر گلے پر ہاتھوں کا دباؤ کم ہوجاتا پھر میں نے بہتر یہی جانا کہ یہ بات کسی کو نہ بتاؤں اور خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دوں۔” نصیر نے بتایا۔
”کیا وہ عورت درست کہ رہی تھی تمہارے دادا جان نے ایسی کوئی حرکت کی تھی۔؟” میں نے پوچھا۔
” ہاں میرے دادا جان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت عیاش تھے۔ نہ جانے کتنی عورتیں ان کی ہوس کا شکار ہوکر قبرستان کی زینت بن چکی تھیں، پیسہ ان کے پاس بہت تھا۔ پولیس رشوت لے کر کیس کو دوسرا رنگ دے کردبا دیتی۔ تم حیران ہورہے ہو کہ میں نے تمہیں پوری تفصیل بتادی اور میرے گلے کو وہ ہاتھ نہیں دبا رہا۔” نصیر نے کہا۔
” ہاں میں ابھی تم سے یہی کہنے والا تھا۔” میں نے کہا۔ .
” میں اس قدر کمزور ہو چکا ہوں کہ خود سے چل بھی نہیں سکتا۔ مجھے کوئی پکڑ کر اٹھاتا ہے تو اٹھ پاتا ہوں۔ وہ قبر والی عورت خود یہاں آتی رہتی ہے لیکن کسی کونظرنہیں آتی۔ دو دن پہلے ہی اس عورت نے مجھے بتایا تھا کہ تیرا دوست عمیر تیرے پاس آئے گا تو اسے اپنا راز بتا دینا تا کہ دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ بشیراں نے اپنا انتقام لے لیا ہے۔”
نصیر نے ہانپتے ہوئے کہا۔
ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے نصیر بہت طویل سفر کر کے آیا ہو اور تھکن سے ہانپ رہا ہو۔
” نصیرتم ہمت نہ ہارو انشاء الله تم ضرور صحت یاب ہوجاؤ گے۔” میں نے اسے دلاسا دیا۔
” عمیر تم مجھے جھوٹے دلاسے مت دو، جو مولوی صاحب مجھ پر دم کرنے آتے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ میرے گھر والوں نے روحانی علاج کرانے میں بہت دیر کر دی ہے وہ کوشش کررہے ہیں لیکن طبیعت بہتر ہونے کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ وہ عورت بھی کہہ رہی ہے کہ میں ایک ہفتے سے زیادہ نہ جی سکوں گا۔“ یہ کہتے ہوئے نصیر کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔
میں نے رومال سے اس کے آنسو پونچھے اور اسے حوصلہ اور دلاسہ دے کر چلا آیا۔ میں اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
نصیر سے ملاقات کے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ نصیر کے انتقال کی خبر مجھے مل گئی۔ بشیراں نے اپنا انتقام لے لیا تھا۔ اور نصیر کو بھی اپنے گھناؤنے فعل کی سزا مل چکی تھی۔ بقول بشیراں کے ایسے انتقام لینے پر اس کی روح کو سکون آجائے گا۔ ممکن ہے ایسا ہوجائے ایسا ہونے پر نصیر کے خاندان کے لوگ اب محفوظ ہوجائیں گے۔ اگر بشیراں کی روح کو چین نہ آیا تو پھر اس کے خاندان کے مزید لوگ بشیراں کے انتقام کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔
[…] روح کا چین – پارٹ 2 […]