رات خاصی بیت چکی تھی، میں ایک شادی کی تقریب سے لوٹ رہا تھا، مجھے رات کی شادیوں سے بڑی چڑ تھی، اس لئے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں جانے سے گریز کرتا تھا۔ آج بھی میرا شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کا موڈ نہیں تھا لیکن ابا جان کی طبیعت اچانک خراب ہو جانے سے مجھے جانا پڑ گیا۔
شادی ہمارے قریبی رشتہ داروں میں تھی۔ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ میں سائیکل کے پیڈل پرتیز تیز پاؤں مار رہا تھا۔ ہمارے گھر سے ذرا پہلے راستے میں قبرستان آتا تھا۔ قبرستان آتے ہی مجھے خوف سا آنے لگا تھا۔ بچپن ہی سے نہ جانے کیوں مجھے قبرستان کے قریب سے گزرنے پر خوف طاری ہوجاتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اندھیرے میں کوئی آسیب مجھے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے، میں تیزی سے دوڑ لگا کر قبرستان سے دور ہوتا چلا جاتا تھا ۔ بچپن کا خوف آج بھی مجھ پر غالب تھا۔ میں اٹھارہ سال کا ہو چکا تھا۔ مجبوری یہ تھی کہ گھر جانے کے لئے راستہ یہ ہی تھا اس کا متبادل کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میرے دوست بھی میری اس بزدلی سے واقف تھے اور اس معاملے میں میرا مذاق بھی اڑاتے تھے، میں خاموشی سے ان کا مذاق برداشت کر جاتا لیکن اپنے خوف پر کبھی قابو نہیں پا سکا تھا۔ گورکنوں کے چھوٹے چھوٹے بچے اکثر رات کے وقت قبرستان میں ایسے گھومتے پھرتے رہتے تھے جیسے وہ قبرستان میں نہیں کسی پارک میں گھوم رہے ہوں۔
قبرستان کے آتے ہی میرے ذہن پر خوف طاری ہوگیا۔ سائیکل چلاتے ہوئے میں نے ایک نظر قبرستان پر ڈالی قبرستان میں کسی بزرگ کا مزار بنا ہوا تھا جہاں ایک بلب روشن تھا۔
بلب کی روشنی میں قریب کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں، مزار سے چند قدم دور نصیر کھڑا دکھائی دیا نصیر کو دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا کہ وہ اس وقت قبرستان میں کیا کررہا ہے۔ حالانکہ اس کا گھر قبرستان سے بہت دور تھا، ایک لمحے کومیراخوف جاتا رہا اور میں ایک درخت کے پاس سائیکل کھڑی کر کے اس کی جانب لپکا۔
”نصیر” میں نے زور سے آواز لگائی۔
سناٹے میں میری آواز بہت تیز گونجی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری آواز سن کر میری طرف لپکے گا۔ لیکن اس نے مخالف سمت میں دوڑ لگا دی۔ میں بھی تیزی سے اس کی طرف لپکا مجھے قبروں کو پھلانگتا دیکھ کر وہ بھی اور تیز ہو گیا تھا پھر اچانک وہ غائب ہوگیا۔ میں نے اس کو بہت تلاش کیا لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کدھر گیا، اسے یوں غائب ہوتا دیکھ کر مجھ پرخوف طاری ہوگیا۔
سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نصیر کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ وہ قبرستان سے کیسے غائب ہوگیا، میرے بدن سے پسینے چھوٹ پڑے میرے علاوہ اس وقت قبرستان میں کوئی نہیں تھا۔ اس لئے زیادہ خوف طاری تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی نظر نہ آنے والی مخلوق میری بے بسی پر دانت نکالے قہقہے لگارہی ہے، اچانک جیسے میرے بدن میں طاقت سی بھر گئی ہو۔ میں تیزی سے قبروں کو پھلانگتا ہوا دوڑ پڑا اور سائیکل کے پاس پہنچ کر میرا بھاگنا بند ہوا سائیکل پر بیٹھتے ہی میں نے پیڈل پر بدحواسی کے عالم میں پاؤں مارنا شروع کر دیئے اور چند لمحوں میں میں قبرستان سے دور نکل گیا اور گھر آ کر ہی دم لیا۔
رات میں کئی بار میری آنکھ کھلی اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا لیکن آنکھ کھلنے پر احساس ہوتا کہ چند لمحوں پہلے میں نے ڈرا دینے والا جو منظر دیکھا وہ خواب تھا۔ اس بات سے دل کو سکون ملتا اور میں دوبارہ سو جاتا خواب میں جو منظر مجھے آرہا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ میں قبرستان میں جارہا ہوں اور اچانک میرے سامنے نصیر آ جاتا ہے۔ میں ابھی اس سے بات کرنے ہی والا تھا کہ کوئی سیاہ لباس میں ملبوس مخلوق اچانک وارد ہوتی ہے اور نصیر کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں چیخنا چاہتا ہوں لیکن میری آواز حلق میں پھنس کر رہ جاتی ہے اور بے اختیار میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
صبح کالج میں میری ملاقات نصیر سے ہونے پر میں نے قبرستان میں اس کی موجودگی اور غائب ہونے سے متعلق بات پوچھی تو وہ ہنس کر میری طرف دیکھنے لگا۔
”میں رات میں قبرستان جا کر کیا کروں گا۔ تمہیں ضرور وہم ہوا ہے۔”
”مجھے وہم نہیں ہوا میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں قبرستان میں دیکھا تھا۔ اور میں جب تمہارے پیچھے بھاگا تو تم غائب ہوگئے ۔” میں نے اسے بتایا۔
”میرا تمہیں ایک قیمتی اور مفید مشورہ ہے کہ آئندہ کبھی قبرستان کے اندر اس طرح مت چلے جانا۔ قبرستان میں آسیب ہوتا ہے جو رات میں لوگوں کو تنگ کرتا ہے۔ وہ انسان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے روپ میں نظر آتا ہے ان کے پاس جانے والے شخص پر وہ آسیب حملہ کردیتا ہے۔ یا اس کے جسم میں داخل ہوکر اسے اور اس کے گھر والوں کو پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔” نصیر نے کہا۔
”ہاں ہاں نصیرسچ کہہ رہا ہے۔“ فرحان بیچ میں بول پڑا۔
"” ہمارے پڑوسی مرزا ندیم کی لڑکی پر آسیب آ گیا تھا۔ آسیب کے باعث اس نے گھر میں توڑ پھوڑ مچا دی۔ کبھی کسی کو اٹھا کر دیوار پردے مارتی تھی۔ سب گھر والے پریشان ہوگئے
تھے کہ اتنی کزور اور نازک لڑکی میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئی ہے جو وہ اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ اپنے سے بھاری، بھاری سامان اور انسانوں کو اس طرح پھینک رہی ہے جیسے کوئی کھلونا پھینک رہی ہو۔‘
”ممکن ہے آیا ہو۔” میں نے کہا۔
میں ان سے اس وقت کہہ بھی سکتا تھا۔ نصیر کو میں نے خاصے فاصلے سے دیکھا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میرا وہم ہو، وہاں کوئی بھی نہ ہو۔ نصیر کا رات کے ساڑھے بارہ بجے قبرستان میں کیا کام ہوسکتا تھا۔
اس واقعہ کو گزرے دو ماہ ہو چکے تھے اور میں بھی اس واقعہ کو بھولتا جا رہا تھا اس دن سے میں محسوس کر رہا تھا کہ نصیر کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ وہ سوکھتا جارہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑتے جارہے تھے اس کے جسم سے گوشت کم اور ہڈیوں کا ابھار زیادہ دکھائی دینے لگا تھا۔
مجھے اس کی صحت گرنے پرسخت تشویش تھی میں نے کئی بار اس کو مشورہ دیا کہ وہ کسی اچھے ڈاکڑکو دکھائے۔ وہ میری بات کو ہنس کر ٹال کر ہاں، ہاں، ہوں کر کے رہ جاتاتھا۔ ۔
ایک رات میں سائیکل پرقبرستان کے قریب سے گزر رہا تھا۔ میں رات میں گھر سے باہر زیادہ دیر نہیں رہتا۔ اس دن اتفاق سے اپنے دوست غلام محی الدین کے گھر گیا۔
اس کے گھر والے کسی شادی کی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔
غلام محی الدین نے ڈی۔وی۔ڈی پر میرے پسندیدہ گانے لگادیئے۔ میں اور غلامی الدین گانے سننے میں اتنے مگن ہوئے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور میں اس وقت بری طرح چونکا جب میری نظر گھڑی پر پڑی رات کے بارہ بج چکے تھے۔
میں بدحواسی میں تیزی سے صوفے سے اٹھا اور غلام محی الدین سے اجازت لے کر گھر کوچل دیا۔ قبرستان آتے ہی میری سائیکل اچانک ایک جھٹکے سے فضا میں اچھلی اور میں دھڑام سے سڑک پر گر پڑا سائیکل کے نیچے ایک بڑاسا پتھر آ گیا تھا جو میں دیکھ نہیں پایا۔
اور سائیکل سمیت سڑک پرگر پڑا۔ میں جیسے ہی سڑک سے اٹھا اچانک مجھے ایسا لگا کہ کوئی شخص قبرستان سے باہر آیا ہے۔ میں اس کو دیکھ کر بری طرح چونکا۔
. وہ شخص کوئی اور نہیں نصیرہی تھا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کی آنکھیں آگ کا شعلہ لگ رہی تھیں، آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود وہ ایسے چل رہا تھا کہ جیسے نیند میں چل رہا ہو۔
”نصیر۔۔۔۔۔۔ نصیر ٹھہرو میری بات سنو۔” میں نے بے ساختہ اسے پکارا مگر نصیر چلتا ہوا میرے پاس سے گزر کر اس طرح جانے لگا جیسے اس نے میری آواز سنی ہی نہ ہو۔ میں نے اس کا کاندھا پکڑ کر اس کو جھٹکا دیا وہ ایسے چونکا جیسے میں نے اسے نیند سے بیدار کردیا۔ وہ غصے سے گھور کر مجھے دیکھنے لگا۔
نصیر ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔ میں تمہارا دوست ہوں۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
زندگی چاہتا ہے توفوراً میری نظروں سے دور ہو جا ورنہ ابھی اور اسی وقت تجھے ختم کردوں گا۔“ نصیر نے عجیب نظروں سے اور غصے بھرے لہجے میں کہا۔
اس کی آواز مجھے بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی بہت ہی بھاری بھرکم شخص بول رہا ہے۔ اس کی آواز سے بے اختیار مجھ پر کپکپی سی طاری ہوگئی تھی۔ میں نے یہ بمشکل کانپتے ہاتھوں سے سائیکل کو پکڑا اور سوار ہو کر تیز رفتاری سے سائیکل کو بھگاتا ہوا آگے کو بڑھ گیا۔
پھر میں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ اس وقت میں بہت خوفزدہ تھا اور جلد سے جلد گھر جانا چاہتا تھا۔
وہ رات میری آنکھوں میں کٹی ۔ رات بھر میں سکون کی نیند نہ سو سکا تھا۔ بار بار آنکھ کھل جاتی تھی۔ نیند سے بیدار ہونے پر مجھے اپنا جسم گرم گرم لگ رہا تھا۔ اور درد بھی کر رہا تھا۔
تمہیں تو سخت بخار ہے‘امی جان نے میرے بستر سے اٹھنے پر میرے ماتھے پر ہاتھ لگایا۔
تم آرام کرو آج کالج جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“
میں مشکل سے بستر سے اٹھا اور ہاتھ منہ دھو کر چائے اور پائے سے ناشتہ کیا۔ بخار کی گولی گھر میں موجود تھی۔ کھانے سے دوپہر تک بخار کا زور ٹوٹ گیا اور میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا البتہ بخارسے منہ کا ذائقہ کڑوا ہوگیا تھا۔
میں دو دن تک کالج نہیں جاسکا۔ تیسرے دن کالج جانے پر پتا چلا کہ نصیربھی دو دن سے نہیں آرہا ہے۔ میں اس رات کے واقعہ سے ویسے بھی خوف زدہ تھا۔ اس لئے میں نے نصیر کے بارے میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا کہ میں نے نصیر کو کس حالت میں قبرستان سے نکلتے دیکھا تھا۔
اس واقعہ کو دو ماہ گزر گئے تھے لیکن نصیرکالج نہیں آیا اور نہ ہی میری ہمت ہوئی کہ اس سے ملاقات کرنے گھر جاؤں اور پوچھوں کہ وہ کالج کیوں نہیں آرہا ہے؟
ایک دن سرراہ نصیر کے چھوٹے بھائی نثارسے ملاقات ہوگئی۔ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔
کیوں بھئی نثار۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا بھائی کالج نہیں آرہا ہے خیریت تو ہے؟
نصیر بھائی کی دو ماہ سے طبیعت خراب ہے وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں۔