مونا خان جلدی سے اٹھ بیٹھی۔ ایک نگہاہ ہیبت خان کو دیکھا لیکن وہ گہری نیند سورہا تھا مونا خان انگشت بدنداں رہ گئی۔تبھی اس کی سماعت سے کسی کے چلنے کی آواز ٹکرائی ۔باہر کوئی تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا۔مونا خان کو تشویش ہوئی۔ پہلے تو اس نے سوچا ہیبت خان کو اٹھاۓ لیکن پھر اس کی نیند میں خلل ڈالنا اس نے بہتر نہ سمجھتے ہوۓ خود ہی اٹھ کر دبے قدموں دروازے کی طرف بڑھی ۔جلدی سے دروازہ کھول کر وہ باہر راهداری میں نکلی اور ادھر ادھر دیکھا۔
تبھی اس کی نظر راهداری کی نکر پر یوٹرن لیتی ہوئی دوشیزہ پر پڑی۔اس دوشیزہ کی رفتار کافی تیز تھی۔نجانے کیوں اس کے دل کے مندر میں خوف کی گهنٹیاں بجنا شروع ہوگئی۔ایک بار پھر اس نے سوچا کہ ہیبت خان کو اٹھاۓ لیکن پھر اس کے دماغ میں بات آئ کہ ممکن ہے تب تک وہ کہیں روپوش ہوجاۓ۔نجانے کیوں اس کا دل کہہ رہا تھا کہ اس دوشیزہ کا ضرور اس کے لخت جگر کی موت سے بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے۔دوشیزہ یوٹرن لیکر مڑ چکی تھی۔ ضرور حویلی کی کوئی ملازمہ ہوگی۔مونا خان
تقریباً دوڑتے ہوۓ اس کے پیچھے ہو چلی۔جیسے ہی اس نے یوٹرن لیا اس نے دو دو شیزہ کو ملازموں کے کوارٹر کی طرف بڑھتے ہوۓ دیکھا۔اب تو اس کا پارہ ہائی ہوگیا۔ایک دو ٹکے کی ملازمہ نے اس کے لخت جگر کو ابدی نیند سلایا تھا۔ضرور یہ لوگ ان کے سب کچھ کو ہڑپ کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوۓ تھے۔مونا خان نے تہیہ كرليا تھا کہ اس دو شیزہ کو اپنے ہاتھوں ابدی نیند سلا کر قلبی سکوں حاصل کرے گی۔
دو شیزہ ایک کوارٹر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔مونا خان بھی دوڑتے ہوۓ اس کے پیچھے پہنچ گئی اور سرعت سے دروازہ کھول کر کوارٹر میں داخل ہوگئی۔اندر گهپ اندھیرا تھا۔ایک بار تو اسے یوں لگا جیسے اس کی نظر ہی چلی گئی ہو۔جلد ہی اس کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوگئیں۔وہ اپنے لئے راستے کا تعین کر سکتی تھی۔ اور بغور دیکھنے پر دوسرے کی موجودگی کو بھانپ سکتی تھی۔دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ آگے بڑھنے لگی۔اس کی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوچکی تھیں۔ایک انجانے خوف نے اسے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ راهداری سے گزر کر وہ صحن میں داخل ہوگئی۔تاریک رات ہونے کی وجہ سے چہار سو گهپ اندھیرے کی چادر تنی ہوئی تھی۔لیکن اب وہ اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوچکی تھی۔
عورت ذات کو اللّه نے عجیب سانچے میں ڈھالا ہے۔ دل کی کمزور لیکن ارادوں کی پختہ۔یقین کامل ہمت نا پختہ۔لیکن جب کسی بات پر ڈٹ جاۓ تو اس کے ارادوں میں پہاڑ کی سی پختگی اور مردانہ حوصلہ عود اتا ہے۔مردوں کو پچھاڑ دیتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عورت کی بہادری کے پیچھے بلکل اسی طرح کسی مرد کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے جیسے کسی کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
مونا خان کے سامنے دو کمرے تھے۔دونوں کے دروازے بند تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ ان میں سے ایک کے اندر اس کا دشمن چھپا ہوا تھا فی الوقت اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کس کمرے میں ہوگا؟ دائیں طرف والے کمرے کے پاس کھڑے ہوکر وہ کان لگا کر سنتی رہی لیکن اندر سے کوئی آواز پیدا ہوتی تو سنائی دیتی لیکن جیسے ہی وہ دوسرے کمرے کے پاس پہنچی اسے اندر سے کسی کے غراہٹ کی آواز سنائی دی۔غراہٹ ایسی تھی جیسے کوئی درندہ غرارہا ہو۔مونا خان غراہٹ کی آواز سن کر ہکا بكا رہ گئی۔مونا خان نے سوچا کہ ممکن ہے دشمن کو پتہ چل گیا ہو کہ اس کا پیچھا کیا گیا ہے اور اب وہ ڈرانے کی سی غرض سے آوازیں نکال رہا ہو۔
اس خیال کے آتے ہی مونا خان نے بنا کچھ سوچے سمجھے کمرے کا دروازہ کھٹاک سے کھول دیا دروازہ کھلتے ہی غراہٹ کی آواز آنا یک لخت بند ہوگئی۔ مونا خان تھوڑی دیر کھڑی دیکھتی رہی لیکن اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ بالاخر تمام تر ہمت يكجا کر کے۔وہ اندر داخل ہوئی۔کمرے کے اندر داخل ہوتے ساتھ ہی اس کے نتھنوں سے بدبو کے بھبوکے ٹکراے۔تبھی اس کو یوں لگا جیسے اس کے علاوہ بھی کوئی کمرے میں موجود ہو لیکن وہ نظر نہیں آرہا تھا۔
تت ۔۔۔۔۔۔۔۔تم کون ہو؟ ۔۔۔مونا خان نے سہمے ہوۓ لہجے میں پوچھا۔ جو کوئی بھی ہو سامنے آؤ۔جواباً ایک بار پھر غراہٹ کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرای۔مونا خان نے آواز کی سمت دیکھا تو اگلا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔اس کے سامنے ایک درندہ کھڑا تھا۔ جو خونخوار نظروں سے اسے گھورے جارہا تھا۔ اس کی شکل کسی کتے کی مانند تھی لیکن جسامت کسی گھدے کے برابر تھی۔اس کے پورے جسم پر کالے کالے لمبے بال تھے۔ وہ مسلسل غرا رہا تھا۔ اس کی زبان بار بار منہ سے باہر نکل رہی تھی۔ اور اس سے رال ٹپک رہی تھی۔ بے شک کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ باوجود اس کے کہ مونا خان کو سب واضح دکھائی دےرہا تھا۔
مونا خان خوف کی شدّت کے باعث بری طرح سے كانپ
رہی تھی۔ اس کی ساری بہادری نو دو گیارہ ہو چکی تھی۔ دھیرےدھیرے تھر تھراتے قدموں سے وہ واپس پلٹنے لگی۔ جیسے جیسے وہ پیچھے ہٹ رہی تھی ویسے ویسے اس درندے کی غراہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔مونا خان نے کمرے سے نکل کر دوڑنا چاہا لیکن اگلا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ہر طرف اس درندے جیسے بے شمار درندے اکٹھا ہو چکے تھے۔وہ پوری طرح سے گھر چکی تھی۔ درندوں نے اس کی طرف بڑھنا شروع کردیا تو مونا خان نے زور زور سے چیخنا چلّانا شروع کردیا۔مونا خان پیہم ہیبت خان کو مدد کے لئے پکار رہی تھی۔
ہیبت خان جو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔
مونا خان کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرانے کی دیر تھی کہ وہ فوراً سے پہلے اٹھ بیٹھا۔ مونا خان کی آواز پیہم اس کی سماعت سے ٹکرانے لگی۔ہیبت خان کے حواس باختہ ہوگئے۔پہلے وہ دوڑتا ہوا بیڈ سے اترا اور دروازے تک گیا پھر انہی قدموں پیچھے پلٹا اور رایفل اٹھا کر باہر نکلا۔ تب تک ملازموں کی بھی دوڑیں لگ چکی تھیں۔
ہیبت خان پیہم دوڑتے ہووے راهداری کراس کر کے ملازموں کے کوارٹروں کی طرف بڑھا۔گھر کے ملازم بھی اکٹھا ہو چکے تھے لیکن کسی میں ہمت نہیں ہو پارہی تھی کہ وہ اندر جاتا لیکن ہیبت خان دوڑتے ہوے سیدھا اندر داخل ہوگیا۔اس کی دیکھا دیکھی سارے ملازم بھی پیچھے دوڑے۔
دوسری طرف مونا خان کا خوف کا مارے برا حال تھا وہ بری وہ بری طرح سے پھنس چکی تھیں۔ درندے اسے چاروں طرف سے گھیر چکے تھے۔ کمرے میں موجود درندہ اس کے سر پوھنچ چکا تھا۔ ڈر کے مارے مونا خان کے منہ سے آواز نہیں نکل پارہی تھی۔ یک دم درندے نے اپنا منہ کھولا تو یوں لگا جیسے وہ منہ نہ ہو کسی غار کا دهانہ ہو جو کھلتا ہی جارہا تھا۔بدبو کے بهبکوں نے مونا خان کے نتھنوں پر دستک دی تو مونا خان کو یوں لگا جیسے اسے ابھی کے ابھی الٹی آجاۓ گی. بدبو جب حد تک زیادہ بڑھ گئی تو مونا خان نے سانس روکی لیکن کب تک ۔۔۔۔؟
مونا خان نے جب اس درندے کا بڑا سا منہ کھلتے دیکھا تو خوف سے آنکھیں بند کرلیں اور اسی لمحہ وہ ہوگیا جس کا کسی کو یقین نہیں تھا۔اس درندے نے اپنا بڑا سا منہ آگے بڑھا کر مونا خان کا چہرہ گردن تک اپنے منہ میں چھپا لیا اور یک دم اتنی زور سے اپنا منہ بند کیا کہ مونا خان کا سر تن سے جدا ہوگیا۔ مونا خان کی آخری چیخیں تک دب گئیں۔
عین اس وقت جب ہیبت خان اندر داخل ہوا اس نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا۔اس درندے نے مونا خان کا سر تن سے جدا کرکہ مزے سے چبانا شروع کردیا۔مونا خان کی گردن سے لہو کسی فوارے کی مانند نکلا۔دوسرے ہی لمحہ مونا خان کا جسد خاکی دھڑام سے زمین پر جاگرا۔ہیبت خان یہ منظر دیکھ کر ہکا بكا رہ گیا۔ ایک ساتھ کتنی ہی عفریتیں صحن کو گھیرے ہوئی تھیں۔ہیبت خان کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر زمین پر جاگرے۔ دوسرے ہی لمحہ ہیبت خان نے اس درندے کا نشانا لیا جس نے مونا خان کو ابدی نیند سلایا تھا۔ٹریگر دبتے ہی کارتوس درندے سے ٹکرایا تو ایک ساتھ سارے درندے یوں غایب ہوگے جیسے گهدے کے سر سے سینگ۔
رایفل ہیبت خان کے ہاتھوں سے نکل کر زمین پر جا گری ہیبت خان تھکے ماندے قدموں سے اشک بہاتا مونا خان کی طرف بڑھا۔تب تک ہیبت خان کے دونوں بیٹے بھی پوھنچ چکے تھے۔ماں کے تڑپتے وجود کو انہوں نے بھی دیکھ لیا تھا۔ دونوں دھواں دار روتے ہوے ماں کے جسد خاکی کی طرف بڑھے۔ہیبت خان سے پہلے منشی فیض رسول نے آگے بڑھ کر مونا خان کے ٹھنڈے پڑ جانے والے وجود پر چادر ڈالی۔ ہیبت خان کو اس نے گلے سے لگالیا۔ہیبت خان دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔منشی فیض رسول نے اشارہ کیا ملازم چار پائی لے آے۔مونا خان کو چار پائی پر لٹادیا گیا۔
مونا خان کا وجود غسل کے قابل نہیں تھا۔منشی فیض رسول کے کہنے پر ملازم مولوی صاحب کو لے آے تھے۔حالات و واقعات سے آگاہی کے بعد مولوی صاحب نے فوراً جنازہ پڑھانے کی تاقید کی اور ساتھ میں قبر کی کھدائی شروع ہوگئی۔ مونا خان کو درجنوں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ہیبت خان اور اس کی اولاد کی حالت دیدنی تھی۔ دونوں بیٹے بری طرح سے ڈرے سہمے ہوے تھے اور باپ سے لپٹے ہوۓ۔
کتنی دیر تک ہیبت خان قبر کے پاس بیٹھ کر روتا رہا۔ شاید اسے مونا خان کی موت کا یقین نہیں ہو پارہا تھا۔مولوی صاحب کو سختی سے تاکید کی گئی کہ حالات و واقعات کا گاؤں میں یا کسی کو بھی پتہ نہ چلے۔ مولوی صاحب وعدہ کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ۔
منشی فیض رسول نے ہیبت خان کو سہارہ دیتے ہوۓ اٹھایا اور ٹی وی لاؤںج میں لے جاکر سوفے پر بٹھا دیا۔ راشد خان اور حیدر خان دونوں ساے کی طرح باپ سے چمٹے ہوۓ تھے۔
سب کچھ ختم ہوگیا ۔”ہیبت خان نے روتے ہوۓ منشی فیض رسول کو مخاطب کیا۔ "
میں آپ کے درد کو سمجھ سکتا ہوں سرکار ۔”منشی نے نم آلود لہجے میں جواب دیا۔ "
نہیں منشی جو مجھ پر بیت رہی ہے وہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔”ہیبت خان گویا ہوا۔ "
منشی ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ ہیبت خان نے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔”میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا چاہے اب مجہے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑ جاۓ۔
ہیبت خان کی بات سن کر منشی فیض رسول نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
سرکار پانی پی لیجیے آپ کا حلق خشک ہوچکا ہے۔”منشی فیض رسول بولا ۔”
اب اس وقت تک مجھ پر کچھ بھی کھانا پینا حرام ہے جب تک اپنے فرزند اور اہلیہ کے قاتل کو ابدی نیند نا سلا دوں۔
ہیبت خان گلہ پھاڑ کر بولا تو منشی فیض رسول نے گلاس نیچے رکھ دیا۔
ہم صبح محمّد حنیف کے پاس جائیں گے ۔” منشی فیض رسول نے کہا۔ "
صبح نہیں۔”ہیبت خان بولتے ہوۓ رکا اور درد بھری سانس خارج کی پھر گویا ہوا۔” ہم ابھی جائیں گے۔
کیا ان کی نیند میں خلل نہیں ہوگا۔ "منشی فیض رسول نے پوچھا۔”
میری دنیا اجڑ چکی ہے اور اگر اس کی نیند میں خلل آجاۓ تو کوئی حرج ہے؟ "ہیبت خان صوفے سے اٹھتے ہوۓ غصے سے پیچ و تاب کھا کر بولا۔”
دیکھ رہے ہو ان بچوں کی طرف”(بچوں کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ)کیا ان کے اندر جھانک کر تم دیکھ سکتے ہو۔۔۔؟تم جانتے ہو ہم لوگوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔۔۔؟کبھی تم نے کسی اپنے کو كندها دیا۔۔؟لیکن تم گواہ ہو میں نے اپنے فرزند اور اہلیہ کو كندها دیا۔ میرا دل کٹ کر ٹکڑوں میں منقسم ہوچکا ہے ۔ اگر میرے ساتھ یہ دو بچے نہ ہوتے تو میں اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا دیا بجھا دیتا۔ ۔۔اور تم ۔۔۔۔۔تم کہتے ہو کے اس شخص کی نیند میں خلل نہ پیدا ہوجاۓ۔
آنسو ہر بند توڑ کر جاری تھے۔ ہیبت خان کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کے وہ کیا کرے۔ اس کی ہر ہمّت جواب دےچکی تھی۔اس کا بس نہیں چل رہا ہے وگرنہ زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی وسعتوں سے بھی اپنے فرزند اور اہلیہ کے قاتلوں کو ڈھونڈ کر سپرد خاک کردیتا۔منشی فیض رسول کی بات پر وہ سیخ پا ہوگیا تھا لیکن جلد ہی اس نے خود کو سمبهالا اور آگے بڑھ کر مشی فیض رسول کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور گویا ہوا میں آپ کی عزت اپنے والد کی طرح کرتا ہوں۔
میں اس عزت افزائی کا مشکور ہوں سرکار۔”منشی فیض رسول سر جھکا کر بولا۔ "
میں کیسے آپ کو سینہ چیر کر دکھاؤں میرا دل جل بھن گیا ہے ۔” ہیبت خان ہونٹ بھینچتے ہوۓ اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوۓ بولا۔ "
یوں لگتا ہے جیسے مجھ سے میرے جینے کا حق چھن گیا ہے ۔ایسے میں وہ شخص مزے کی نیند سورہا ہے تو آپ بتاۓ کیا وہ ٹھیک ہے۔ کیا ایسے انسان پر ہم مزید اعتماد کرسکتے ہیں ۔نہیں ناں ۔۔۔؟پھر ہمیں پاؤں پر پاؤں دھر کر بیٹھننے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہم کسی نہ کسی سے ضرور ملیں گے۔ میں آج ہی ان عفریتوں کو ختم کروں گا۔بہر صورت۔
ہیبت خان کی آنکھیں شعلہ اگل رہی تھیں۔منشی فیض رسول نے دونوں ہاتھ بڑھا کر ہیبت خان کی آنکھوں سے جاری آنسو صاف کیے۔
سرکار آپ کی حالت دیکھ کر آپ کے صاحبزادوں کی حالت مزید ابتر ہو سکتی ہے۔ منشی فیض رسول نے یاد دلايا تو ہیبت خان نے اپنی کیفیت پر قابو پایا۔اور پیچھے ہٹ کر دونو بیٹوں کو گلے لگا لیا
میرے بچوں "ہیبت کہاں ہونٹ بھینچتے اندرونی کیفیت پر قابو پاتے ہوے بولا۔”
تم چنتا مت کرو۔دیکھنا وقت دور نہیں۔تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے بھائی اور ماں کے قاتل سڑیں گے۔ اگر ان کو عبرتناک موت نا ملی تو مجھے بھی تا حیات سکون میسر نہیں ہوگا۔ میں تم دونوں کی اندرونی کیفیت سے آشنا ہوں کیونکہ میری حالت بھی تم دونوں جیسی ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔لیکن اب ہمیں فولاد کی طرح مضبوط ہونا پڑے گا۔ کیونکہ اب سر پر کفن باندھنے کا وقت آچکا ہے۔ ابو میں ماروں گا سب کو۔ "راشد کہاں دائیں كف سے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا۔ "
نہیں میں۔ "اس کے بولتے ساتھ ہی فوراً حیدر خان بول اٹھا ۔”
شاباش میرے شہزادوں۔”ہیبت خان نے دونوں بیٹوں کو سینے سے چپکاتے ہووے کہا۔”
آج فخر سے میرا سر بلند ہوگیا ہے۔تم دونوں نے ثابت کردیا ہے تم ہیبت خان کے فرزند اور وجاهت خان کے پوتے ہو۔ شیروں کے بچے ہمیشہ شیر ہی ہوتے ہیں۔شیر کی کھال اوڑھ لینے سے گیڈر کی اولاد شیر نہیں بنتی۔پس پشت وار کرنے والا در حقیقت قاهر ہوتا ہے۔ اس کے اندر اتنی سکت نہیں ہوتی کہ کھل کر مقابلہ کر سکے۔ لیکن وہ جو کوئی بھی ہے ہم سب مل کر اس کا خاتمہ کریں گے۔ چلو ہمیں ایک کام جانا ہے۔ اس کے بعد اگلا لائحہ عمل مرتب کریں گے۔
ہیبت خان اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں بچوں نے آنسو صاف کیے. منشی فیض رسول معصوم بچوں کے ٹھوس ارادے دیکھ کر گنگ رہ گیا.
میرے بچے شیر ہیں۔” ہیبت خان فخر سے سینہ چوڑا کرتے ہووے بولا۔”
ہم لوگ پٹھان ہیں اور پٹھان کبھی حالات کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے۔عزت اور غیرت کے نام پر ہم لوگ جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہم لوگ کسی کا برا نہیں سوچتے۔جب ہماری طرف کوئی انگلی کرتا ہے تو ہم اس کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں۔ اور جب کوئی میلی آنکھ سے دیکھا ہے تو اس کا سر تن سے جدا کردیتے ہیں۔
مجھے فخر ہے کہ میرے بیٹے چٹانوں کے سے مظبوط ارادوں اور ہمت حوصلہ والے ہیں۔تم دیکھنا منشی مد مقابل کو ناکوں چنے نا چبانے پر مجبور کردیا تو میرا نام بھی ہیبت خان نہیں ہے۔
منشی فیض رسول تصدیق میں سر ہلا کر رہ گیا۔وہ جانتا تھا کہ ہیبت خان ٹھیک ہی کہہ رہا ہے۔ہمت مرداں ۔مدد خدا ۔جب بھی انسان اپنے اللّه پر مکمل یقین رکھ کے کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی۔ اللّه پر بھروسہ ہی انسان کو اس کی اصل پہچان کرواتا ہے۔ لفظ اشرف المخلوقات سے تو ہم سب واقف ہیں لیکن اس لفظ کی حقیقت سے قسمت والے ہی آشنا ہوسکتے ہیں۔تبھی تو ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
یہ محنت بہت کم لوگ اپنی زندگی میں کرتے ہیں اور جنہوں نے محنت کی اللّه نے ان کے نام ہمیشہ زندہ کردیے۔کسی کو خواجہ معیںن الدین بنادیا کسی کی داتا علی ہجویری کہیں فرید الدین شکر گنج بنا تو کہیں سے بلهے شاہ کا نام اٹھا۔ایسے ہی لوگ اپنی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور جب پہچانتے ہیں تو قرب الہی ان کو نصیب ہوتا ہے اور جسے قرب الہی نصیب ہوجاۓ اس کے اندر حق کی گونج اٹھتی ہے۔پھر چاہے کربلا کے شہیدوں کی طرح نسلیں کیوں نہ قربان کرنی پڑجایں وہ طابل کے سامنے لبیک نہیں کہتے کیونکہ جنہوں نے خود کو پہچان لیا انہوں نے خدا کو پہچان لیا اور جنہوں نے خدا کو پہچان لیا انہوں نے حق کو پہچان لیا۔
گاڑی منشی فیض رسول ڈرائیو کررہا تھا۔ جبکہ پچھلی سیٹ پر ہیبت خان اپنے دونوں بچوں کو سینے سے لگاے براجمان تھا۔ ابھی وہ محمّد حنیف کے گھر سے چند قدم دور تھے کہ منشی فیض رسول نے گاڑی روک دی ۔
کیا ہوا ۔۔؟۔۔ہیبت خان نے پوچھا ۔۔گاڑی کیوں روک دی ہے۔ ؟
سامنے سے محمّد حنیف صاحب آرہے تھے ۔”منشی فیض رسول نے بتایا ۔”
کیا۔ ؟۔”۔ہیبت خان بے یقینی کے عالَم میں بولا ۔”اور جب سامنے والے شیشے سے باہر دیکھا تو گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں اسے محمّد حنیف سرعت سے ان کی طرف آتا دکھائی دیا۔ ہیبت خان دونوں بچوں سمیت گاڑی سے اتر گیا۔ منشی فیض رسول بھی گاڑی سے اتر گیا۔ اتنی دیر میں محمّد حنیف ان کے سامنے پہنچ گیا۔
لگتا ہے آپ کہیں جارہے ہیں ؟۔”منشی فیض رسول نے محمّد حنیف کے قریب پہنچنے پر پوچھا ۔”
جی نہیں۔ محمّد حنیف نے جواب دیا۔ میں آپ لوگوں کا منتظر تھا کیوں کہ مجہے پتہ چل چکا تھا کہ آپ لوگ میری طرف آرہے ہیں ۔
لیکن کیسے۔ ۔۔؟”ہیبت خان نے ہکا بكا ہوکر پوچھا ۔کس نے بتایا ہے آپ کو۔ ۔؟
آپ لوگ ان باتوں کو سمجھ نہیں پائیں گے ۔محمّد حنیف بولا۔ میں وہ سب کچھ بھی جانتا ہوں جو آپ پر بیت چکی ہے ۔تبھی تو میں گھر سے باہر نکل کر تم لوگوں کا انتظار کررہا تھا۔
مطلب آپ جانتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ ہیبت خان بولنا چاہتا تھا لیکن محمّد حنیف نے اسے چپ کرادیا ۔
سمبھالے خود کو ۔”محمّد حنیف بولا۔ ” ہر کام میں اپر والے کی طرف سے بہتری پنہاں ہوتی ہے۔ رونے دھونے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل کے ساتھ ساتھ ہمت و حوصلہ بھی پست ہوجاتے ہیں ۔آپ لوگوں نے جو قربانیاں دینی تھیں دے لیں ۔اب ظالموں کا وقت آخر آچکا ہے۔ ہمیں فوراً آپ کی حویلی میں چلنا ہے۔
محمّد حنیف کی بات سن کر ہیبت خان نے خود آگے بڑھ کر اس کے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔ محمّد حنیف کے ہاتھ میں ایک کپڑے کا تھیلا تھا۔ اسے سمبهالتا ہوا وہ اندر بیٹھ گیا۔اس کے بیٹھتے ساتھ ہی ہیبت خان نے ڈور بند کیا۔ اور بچوں کو لیکر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اتنی دیر میں منشی فیض رسول بھی اپنی سیٹ سمبھال چکا تھا۔ گاڑی کو واپس موڑ کر اس کا رخ حویلی کی طرف کر دیا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سب لوگ حویلی پہنچ چکے تھے۔ حویلی کے سارے ملازم جاگ رہے تھے۔ان لوگوں کے آتے ساتھ ہی سب اکٹھے ہوگئے۔محمّد حنیف نے فوراً سب مکینوں کو بلایا اور سب کو دائرہ کھینچ کر اس میں بیٹھایااور ساتھ ہی سختی سے تاکید کی کہ کوئی بھی دائرے سے باہر نکلا تو اپنی موت کا زمہ دار خود ہوگا۔ پھر ایک دائرہ کھینچ کر ہیبت خان اس کے دونوں بچوں اور منشی فیض رسول کو بٹھادیا گیا۔ پھر تیسرا دائرہ کھینچ کر اس میں خود بیٹھ گیا۔تینوں دائرے ایک ساتھ سیدھے کھینچے گئے تھے۔
اپنے دائرے میں بیٹھننے کے بعد محمّد حنیف تھیلے میں سے مٹی کی ایک چھوٹی سی ہانڈی نکالی اور اسے دائرے سے باہر رکھ دیا۔پھر تھیلے میں ہاتھ ڈال کر پانی کی ایک چھوٹی سی بوتل نکالی اور اس ہانڈی کو لبالب بھر دیا۔ پھر اس ہانڈی کے چہار سو ان گنت اگر بتیاں لگائیں۔ہر سو اگر بتیوں کی خوشبو پھیلنے لگی۔محمّد حنیف منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ بھی رہا تھا۔محمّد حنیف نے ایک بار پھر تھیلے کے اندر ہاتھ ڈالا اب کی بار اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی تھی۔پھر محمّد حنیف نے تھیلا اپنے سامنے رکھ دیا۔چھڑی کو دائیں ہاتھ میں پکڑ کر اس کا دوسرا سرا ہانڈی کے اندر بھرے پانی میں ڈبودیا۔سب محمّد حنیف کو دیکھ رہے تھے۔
محمّد حنیف متواتر منہ ہی منہ میں قرآنی آیات کا ورد کررہا تھا۔آہستہ آہستہ اس نے بلند آواز سے تلاوت کلام الہی کرنا شروع کردی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی فضا میں ایک سماعت شکن چیخ گونجی۔سب کے دل حلق کو آن لگے۔ ہیبت خان کے دونوں بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔ ہیبت خان نے دونوں کو جلدی سے سینے سے چپکالیا۔عین اسی وقت سب نے دیکھا کہ جس طرف راهداری ملازموں کے کوارٹروں کی طرف جارہی تھی اسی طرف سے ایک نہایت ہی حسین و جمیل الہڑ مٹیارن شان بے نیازی سے چلتی ہوئی محمّد حنیف کی طرف بڑھنے لگی۔ محمّد حنیف پیہم قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا۔ دوشیزہ آکر محمّد حنیف کے سامنے دوزانوں بیٹھ گئی۔ ہیبت خان سمیت سب لوگ اسے انگشت بدنداں آنکھوں سے گھورنے لگے۔ محمّد حنیف نے اپنی تلاوت ختم کی تو اسے کھا جانے والی آنکھوں سے گھورا۔
کیا نام ہے تمھارا ۔؟”محمّد حنیف نے پوچھا "۔
چاندنی ۔”دو شیزہ نے مختصر سا جواب دیا۔ "
پورا نام ۔؟”محمّد حنیف نے دوبارہ پوچھا۔ "
نندنی ملہوترا لیکن سب پیار سے چاندنی کہتے ہیں کیوں کہ میں چاند سے بھی زیادہ حسین تھی۔
اس گھر میں کیوں گهسی ہو ۔؟محمّد حنیف نے پوچھا ۔
میں خود نہیں آئ ۔” چاندنی نے جواب دیا ۔”
تو۔ ۔۔؟”محمّد حنیف نے اسے گھورا "
اس کا باپ زبردستی لیکر آیا تھا۔چاندنی نے کھا جانے والی نظروں سے ہیبت خان کو گھورتے ہوۓ انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا۔
تم نے اس کے بیٹے اور اہلیہ کو کیوں مارا ۔؟”محمّد حنیف نے پوچھا ۔”
کیوں کہ اس کے باپ نے میرے پورے پریوار کو ابدی نیند سلا دیا تھا ۔”چاندنی ہونٹ بھینچتے ہوۓ بولی”۔
ہماری خوشیوں کو مليا میٹ کردیا تھا اس ظالم نے۔ برسوں بعد ہمارے گھر میں خوشیوں نے پڑاؤ ڈالا تھا ۔لیکن اس ظالم انسان نے خوشیوں کو نیست و نابود کردیا ۔جس طرح اس نے میری فیملی کو بے موت مارا اسی طرح میں اس کی فیملی کو اذیتیں دے دے کر ماروں گی۔
وضاحت دو ۔”محمّد حنیف گویا ہوا تو چاندنی نے کھوئی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔”اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔اس کے بعد وہ بولتی گئی اور سب حیرت کے سمندر میں غو طہ زن سنتےرہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاندنی ۔۔۔۔ارے او چاندنی ۔۔۔۔۔۔سن تو ۔”دیپک نے چاندنی کو مخاطب کرتے ہوے کہا۔”لیکن مجال ہے کہ اس کے کانوں پر جوں تک رینگ جاۓ ۔
چاندنی پیہم چھوٹی سی پگڈنڈی پر تیز تیز ڈگ پھرتی چلتی جارہی تھی۔
دیکھو تو تمہارے لئے کیا لیا ہوں۔ ؟
دیپک نے ایک بار پھر کہا لیکن چاندنی اپنی مستی میں مگن چلتی ہی رہی۔
ایک خوبصورت سی پایل لایا ہوں ۔جو تمہارے خوبصورت پیروں کو اور بھی خوبصورت کردے گی۔
پائل کا نام سنتے ہی جیسے چاندنی کے پیروں کو زمین نے جکڑ لیا ہو ۔وہ فوراً مڑی ۔
کیا واقعی تم پائل لاۓ ہو۔ ؟چاندنی نے سوالیہ نگاہوں سے دیپک کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
جواباً دیپک نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پائل نکالی اور اس کو ایک سائیڈ انگلی اور انگوٹھے میں دبا کر بقيہ کو ہوا میں جھالاتے ہوۓ اسے دکھایا۔پائل اتنی خوبصورت تھی اسے دیکھ کر چاندنی دوڑتی ہوئی دیپک کے پاس آرکی اور جلدی سے پائل پکڑنی چاہی لیکن دیپک نے پائل کو مٹھی میں بھینچ لیا ۔
میں خود پہناؤں گا ۔”دیپک نے ضد کی۔ "
چل پگلے۔۔۔” چاندنی کے لب و لہجہ میں شرم و حیا کی جهلک عیاں تھی ۔”
میں تمہارا ہونے والا پتی ہوں۔ "دیپک نے اسے یاد دلایا ۔”
لیکن ابھی تک بنے تو نہیں ۔”چاندنی نے اسے چھیڑا ۔”
بس اب جلد ہی بن جاؤں گا ۔”دیپک خوشی سے بولا "اب تو میری جاب بھی لگ گئی ہے۔اب میں اتنا کما رہا ہوں پتا جی کو کام نہیں کرنے دونگا۔میں سارے گھرانے کا خرچہ خود اٹھاؤں گا۔
اب تو تم شہری بابو بن گئے ہو۔ ہے ناں؟ چاندنی نے دیپک کے قریب کھڑے ہوکر اس کے سینے پر شہادت کی انگلی پھیرتے ہوۓ کہا۔
لیکن تمھارے لئے وہی پینڈو دیپک ہی ہوں۔”دیپک بولا اور چاندنی کھلکھلا اٹھی۔
اب پہناؤ بھی۔ ترساؤ مت۔ چاندنی نے للچائی ہوئی اكهیوں سے پائل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
دیپک نے اپنے ہاتھوں سے پائل چاندنی کے بائیں پاؤں میں پہنائی۔ چاندنی خوشی سے پھولے نہ سمائی پائل کو تکنے لگی تھی۔
تمہیں پسند آئ کیا؟ "دیپک نے پوچھا۔
بہت خوبصورت ہے۔ چاندنی نے جواب دیا۔ بلکل تمہاری طرح۔
دیپک زیر لب مسکرا دیا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے پگڈنڈی پر چلتے ہوۓ گھر کی طرف ہولیے۔دونوں نہیں جانتے تھے ان کو کچھ آنکھیں بغور دیکھ رہی تھیں۔ وہ کوئی اور نہیں وجاهت خان تھا۔ جو اپنے كاریندوں کے ساتھ کھڑا دونو کو دیکھ رہا تھا۔ وجاهت خان للچائی ہوئی نظروں سے پیہم چاندنی کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے گاڑی پگڈنڈی کے سامنے سڑک پر روک دی تھی تاکہ جیسے ہی دیپک اور چاندنی قریب پہنچیں وہ چاندنی کو لائن مار سکے۔ جب چاندنی اور دیپک اپنی موج مستی میں چلتے ہوۓ ان کے قریب سے گزرنے لگے تو وجاهت خان سرعت گاڑی سے اتر کر ان کے سامنے اگیا۔ بہت جلدی میں ہو کیا۔ "وجاهت خان نے پوچھا۔ "
راستہ چھوڑو ہمارا ۔”دیپک پیچ و تاب کھا کر بولا۔ "
تو جانتا ہے کہ میں کون ہوں۔ "وجاهت خان مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے پوچھا۔ "
چل اپنا راستہ پکڑ اپنا وگرنا بھیجہ نکال کر کتوں کے آگے ڈال دوں گا۔
تم ہوتے کون ہو ہمارا راستہ روکنے والے۔ "دیپک غصے سے بولا۔ "
یو ایڈییٹ۔”وجاهت خان دانت پیستے ہوۓ بولا۔ "
اس کا اشارہ پاتے ساتھ ہی اس کے کارندے دیپک پر پاگل کتے کی طرح ٹوٹ پڑے اور انہوں نے دیپک کو مار مار کر لہو لہان کردیا۔
جاكر بتا دینا جس میں ہمت ہے آکر اسے لے جاۓ۔”وجاهت خان متواتر دانت پیستے ہوۓ بولا۔ "
دوسرے ہی لمحے اس نے چاندنی کو اٹھا کر گاڑی میں یوں پھینکا جیسے کوئی کوڑا کرکٹ گھر سے باہر پھینکتا ہے۔ چاندنی نے باہر نکلنا چاہا لیکن وجاهت خان اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔اور اسے قابو کرلیا۔پلک چھپکتے میں وجاهت خان چاندنی کو لیکر وہاں سے نو دو گیارہ ھوگیا۔
۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیپک گرتا پڑتا جب گھر پہنچا تو اس کی حالت زار دیکھ کر سب کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ دیپک سیدھا چاندنی کے گھر گیا تھا۔
یہ تمہیں کیا ہوا ہے ۔؟”چاندنی کے باپ نے دیپک کو سہارا دیتے ہوئے پوچھا۔ "
میری چنتا مت کرو چاچا۔”دیپک کراہتے ہوۓ بولا۔ "وہ ظالم تیری بیٹی کو اٹھا کر لے گیا ہے ۔اسے بچانے کی وجہ سے میرا یہ حال ہوا ہے۔
تو کس کی بات کررہا ہے دیپک۔؟” چاندنی کا باپ پریشان ہوکر بولا۔ "
وجاهت خان۔ "دیپک دهیمے لہجے میں بولا تو چاندنی کا باپ سہم گیا۔
اے بھگوان ۔” چاندنی کا باپ آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ میری بیٹی کی رکشا کرنا۔
اتنا کہہ کر چاندنی کا باپ گھر سے باہر نکلا اور سرعت سے قریبی ہندو گھرانوں سے چند افراد کو ساتھ ملا کر فوراً وجاهت خان کی حویلی کی طرف لپكا۔جس وقت وہ وجاهت خان کی حویلی کے پاس پھنچے۔اس وقت وجاهت خان چاندنی کو حویلی کے پیچھے بنے ملازموں کے کوارٹر میں اس کے ہاتھ پاؤں اور منہ باندھ کر اپنی حویلی میں واپس اگیا تھا۔لوگوں کا جم غفیر اس کی حویلی میں داخل ہوا تو اس کے کارندوں نے ان کا راستہ روکا۔
کہاں ہے وہ خبیث۔باہر نکالو اسے۔ ایک ہندو نوجوان نے دهاڑتے ہوۓ کہا۔
لگتا ہے تجھے زندگی پیاری نہیں ہے۔ ؟وجاهت خان کے ایک کارندے نے رایفل کی نال اس کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔
حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے چاندنی کا باپ سامنے اگیا اور اس نے ہاتھ جوڑے۔
بھگوان کے لئے میری بچی کو چھوڑ دو۔”چاندنی کے باپ کے لہجے التجا تھی۔
کونسی بچی۔ ؟اس کارندے نے ناک بھوں چڑہاتے ہوۓ پوچھا۔
اتنے نادان مت بنو۔میں تم لوگوں کی بنتی کرتا ہوں بھگوان کے لیے میری بچی کو چھوڑ دو۔ "چاندنی کا باپ متواتر منت کررہا تھا۔ "اتنی دیر میں وجاهت خان شان بے نیازی سے چلتا ہوا حویلی سے باہر آیا تو سارے ہندؤں نے اسے کھا جانے والی آنکھوں سے گھورا۔
یہ سب کیا ہورہا ہے۔”وجاهت خان نے دور سے ہی کھڑے ہوکر پوچھا تو ملازم اس کی طرف ہمہ تن غوش ہوۓ۔مالک یہ لوگ عجیب ہی واویلا کررہے ہیں کہ ہماری بچی کو چھوڑ دو۔ ایک کارندے نے وجاهت خان کو جواب دیا۔
کون کہتا ہے۔ ؟وجاهت خان نے پوچھا تو اسی کارندے نے چاندنی کے باپ کی طرف اشارہ کیا۔
اسے میری طرف بھیجو۔
وجاهت خان کی اجازت پر چاندنی کے باپ کو جانے کی اجازت ملی تو اس کے ساتھ کچھ جوانوں نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے کارندوں نے اس کا راستہ روک لیا۔
صرف ایک ہی آدمی ملاقات کر سکتا ہے۔جس کا جی چاہے۔وجاهت خان کا کارندہ گویا ہوا۔
تم لوگ رکو میں خود جاتا ہوں۔ "چاندنی کے باپ نے سب کو سمجھاتے ہوۓ کہا۔ "
پھر وہ دبے قدموں چلتا ہوا وجاهت خان کی طرف بڑھا اور سیدھا جاكر وجاهت خان کے قدموں میں گر گیا۔
میں جانتا ہوں کہ ہم لوگ آپ کے سامنے پلید ہیں۔ "چاندنی کے باپ نے گڑ گڑاتے ہوۓ کہا۔ "لیکن پھر بھی آپ کی منت کرتا ہوں میری بچی کو چھوڑ دو۔
شاید تم کسی غلط فہمی کا شکار ہو۔ "وجاهت خان نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "کھڑے ہوجاؤ اور وضاحت سے بتاؤ کہ آخر مسلہ کیا ہے۔ ؟
چاندنی کے باپ نے دیپک کی سنائی ہوئی کہانی اس کے غوش گزار کی تو وجاهت خان نے حیرت کا مظاہرہ کیا۔
کون ہے وہ جس نے مجھ پر الزام تھوپا ہے کیا اسے میرے سامنے لا سکتے ہو۔؟وجاهت خان نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوۓ پوچھا۔
بھگوان کے لیے ہم پر رحم کریں آپ ہی ہمارے مائی باپ ہیں۔”چاندنی کے باپ نے وجاهت خان کے پیروں میں لپٹتے ہوۓ کہا۔
میری پوری حویلی کی تلاشی لے لیجئے آپ لوگ۔”وجاهت خان تقریباً غصے سے دهاڑتے ہوۓ بولا۔ "
تم لوگوں نے سوچ کیسے لیا میں ایسی گھٹیا حرکت کا مرتكب ہو سکتا ہوں۔ ؟
وجاهت خان کی بات سن کر چاندنی کا باپ کھڑا ہوگیا اسنے اپنے بہتے اشک صاف کیے۔
ہماری بیٹی کو لوٹا دیجیے وگرنا ہم آپ کی اس جھوٹی شان و شوکت کا جنازہ نکال کر رکھ دیں گے۔”چاندنی کے باپ نے الٹے قدموں آتے کہا تو وجاهت خان نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا۔
تم جانتے ہو کہ تم کس سے بات کررہے ہو۔؟”وجاهت خان نے چاندنی کے باپ کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا۔
چاندنی کے باپ کو گریبان سے پکڑنا تھا کہ ہندو مشتعل ہوگئے جس کی وجہ سے وجاهت خان نے فوراً ہی گریبان چھوڑ دیا۔
میں آخری بار کہہ رہا ہوں ہماری بیٹی کو ہمارے حوالے کردو۔”چاندنی کے باپ نے وجاهت خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
دھکے دے کر باہر نکال پھینکو ان حرام زادوں کو ۔”وجاهت خان غصے سے دھاڑا۔”
دوسرے ہی لمحے وجاهت خان کے كارندوں نے سب کو گن پوانٹ پر کر کے حویلی سے باہر نکال دیا۔سارے ہندو آپے سے باہر ہو چکے تھے۔دوسری طرف دیپک کو مرهم پٹی کروا دی گئی تھی۔ ہندو جب واپس پھنچے تو باقی سارے بھی ان کے پاس اکٹھے ہوگئے اور ان زبانی ساری بات سن کر مشتعل ہوگئے۔
وہ بہت کمینہ ہے۔ "چاندنی کا باپ نچلہ ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوۓ بولا۔ "
وہ اپنے ضبط کو قابو کرنے کی سعی کررہا تھا لیکن پھر بھی اشک اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔
تو چنتا کاہے کو کرتا ہے چاچا۔”وکرم اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولا۔ "چاندنی ہماری عزت ہے ۔ہم سب اسے لیکر آئیں گے۔ "
چاندنی کا باپ روتا بلكتا گھر میں گھس گیا جہاں اس کی اہلیہ کو موحلے کی عورتیں دلاسہ دے رہی تھیں۔ اپنے شوہر کو خالی ہاتھ آتا دیکھ کر اس نے دھواں دار رونا شروع کردیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجاهت خان حالات و واقعیات سے آگاہی حاصل کر چکا تھا۔وہ جانتا تھا گرم کھانے سے اپنا ہی حلق جلانا تھا۔ اس کے ذہن میں ترکیب آئ اور وہ اس کوارٹر میں گیا جہاں اس نے چاندنی کو مقید کر کے رکھا تھا۔اسے دیکھ کر چاندنی نے كسمسانا شروع کردیا۔وجاهت خان نے فوراً اس کے ہاتھ پاؤں کھول دئے منہ پر بندها کپڑا بھی کھول دیا۔
بھگوان کے لئے مجہے چھوڑ دو۔ "چاندنی نے التجا کرتے ہوۓ کہا۔ "
ایک شرط پر تمہیں چھوڑوں گا۔”وجاهت خان بولا۔ "
جوابا چاندنی منہ سے تو کچھ نا بولی لیکن اس کی سوالیہ نگاہیں پیہم وجاهت خان پر مرتكز ہوگئیں۔
تم کسی کو بھی نہیں بتاؤ گی کہ تمہیں میں اغوا کر کے آیا تھا۔ "وجاهت خان بولا۔ "
میں وعدہ کرتی ہوں۔”چاندنی فوراً سے پہلے بولی۔ "
میں تمہارا کیسے یقین کرلوں۔”وجاهت خان نے پوچھا۔ "
میرے لئے اس سے بڑھ کر کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ میری عزت محفوظ رہ جاۓ۔”چاندنی بولی۔”اپنی عزت بچانے کے لئے لڑکی ایک تو کیا ہزاروں جھوٹ بول سکتی ہے۔پھر یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔
تمھارے ساتھ جو لڑکا تھا۔اس نے میرا نام لے لیا ہے ۔”وجاهت خان دهیمے لہجے میں بولا۔ "
اس کی چنتا مت کیجئے۔”چاندنی نے یقین دہانی کروانی۔”
لیکن ایسا ہوا تو دوبارہ مجھ سے اچھے کی امید مت رکھنا۔”وجاهت خان چاندنی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ "
میرا وشواس کیجئے۔”چاندنی بولی۔”
میرے ساتھ آؤ۔”وجاهت خان بولا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ "
چاندنی ڈرتی ہوئی اس کے پیچھے چلنے لگی ۔وجاهت خان اسے لئے اپنی گاڑی میں آگیا اور پھر گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا چاندنی کے علاقے میں پہنچ گیا۔اس نے اپنے ساتھ کسی بھی کارندے کو لانا مناسب نہیں سمجھا۔پورے راستے وہ چاندنی سے بارہا معافیاں مانگتا آیا۔ چاندنی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ ایک ظالم اور جابر انسان يكدم کیسے نرم دل ہوسکتا ہے۔ چاندنی کے محلے میں گاڑی کیا داخل ہوئی۔سارے ھندؤں نے گاڑی کو گھیر لیا۔ سارے ہندو چاندنی کے گھر کے آگے جمع تھے۔ وجاهت خان کی گاڑی میں چاندنی کو دیکھ کر گنگ رہ گئے۔دیپک بھی وہیں پر موجود تھا۔ چاندنی گاڑی سے باہر نکلی تو ھندؤں نے کھا جانے والی نظروں وجاهت خان کو دیکھا اور پھر ھندؤں کے پنڈت نے آگے بڑھ کر چاندنی کے سر پر ہاتھ رکھا۔
بیٹا تو کہاں گئی تھی۔؟پنڈت نے پوچھا تو سب چاندنی کا جواب سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوگئے۔
مجہے چند غنڈون نے اغوا کرلیا تھا۔”چاندنی نے بتایا ۔”
یہ تو بھلا ہو انسان کا بہت بھلے مانس ہیں انہوں نے نا صرف میری عزت بچائی بلکہ میری جان بھی بچائی۔یہ تو بہت ہی اچھے انسان ہیں۔اگر آج یہ نہ ہوتے تو غنڈے میری عزت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے۔
چاندنی روتے ہوۓ پاس کھڑے اپنے باپ کے سینے سے لگ گئی۔ چاندنی کے باپ نے حیرت و یاس کے عالَم میں وجاهت خان کی طرف دیکھا۔ سارے ہندو بھی حیرت و پریشانی کے عالَم میں کبھی چاندنی تو کبھی وجاهت خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسری طرف چاندنی کے الفاظ سن کر وجاهت خان کا سینہ چوڑا ہوگیا تھا۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ چاندنی واقعی اس کے حق میں گواہی دے گی۔
یہ جھوٹ بول رہی ہے کاکا۔”دیپک نے چاندنی کی بات سن کر چلاتے ہوۓ کہا۔”
7
اس خبیث نے نہ صرف چاندنی كو آغوا کیا تھا بلکہ مجہے بھی زدکوب کروایا(چاندنی کو مخاطب کرتے ہوئے)تم اس کی طرفداری کیوں کرہی ہو جو اس نے تمہارے سامنے میرا برا حال کروایا تھا اور اس نے نے تمہیں اغوا کروایا تھا۔اس خبیث انسان کو زںدہ جلا دو۔
دیپک کی بات سن کر چاندنی آگے بڑھی اور دوسرے ہی لمحہ ایک زور دار تھپڑ دیپک کے منہ پر رسید کیا۔
تمہیں شرم آنی چاہئے۔”چاندنی دانت پینستے ہوۓ بولی۔ "ایک مہمان انسان کی تم اس طرح بے عزتی کررہے ہو۔ مجہے تو لگ رہا ہے کوئی چوٹ تمھارے دماغ پر بھی لگی ہے جس کی وجہ سے تمہیں انسان کی پہچان نہیں ہو رہی۔یہ میرے محسن اور بھلے مانس انسان ہیں۔
چاندنی۔ "دیپک اپنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بے یقینی کے عالَم میں بولا۔ "
تم نے مجہے تھپڑ مارا ۔۔۔۔۔؟یہ جانتے ہوۓ بھی کہ۔ ۔۔۔۔۔
جسٹ شٹ اپ ۔” چاندنی نے دیپک کا جملہ پورا نہ ہونے دیا۔
دیپک بنا کچھ کہے واپس پلٹ گیا۔ چاندنی کا دل کرچیاں کرچیاں ہوکر رہ گیا تھا۔اس کا من چاہ رہا تھا کہ وہ سب کو چلا چلا کر وجاهت خان کی حقیقت بتادے۔لیکن وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے ایسا کیا اگلی بار اس کی عزت کے ساتھ ساتھ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی جان بھی جاسکتی ہے۔وہ جانتی تھی کہ وجاهت خان کتنا خطرناک آدمی ہے۔ انسان کے روپ میں وہ ایک بھیڑیا ہے۔ وجاهت خان چپ چاپ گاڑی میں بیٹھا اور واپس چل دیا۔ چاندنی کا باپ اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن اسے موقع ہی نہ مل سکا۔ ۔۔۔۔جان بچی سو لاکھوں پاۓ ۔۔،۔۔۔۔انہیں ان کی بچی مل چکی تھی۔ خوشی کے مارے وہ پھولے نہ سما رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہو۔ ؟رانا الفت نے پوچھا۔”
جواباً وجاهت خان نے شروع تا آخر ساری روداد اسے کہہ سنائی۔
تو اب کیا چاھتے ہو۔ ؟
رانا الفت نے پوچھا تو وجاهت خان نے مونچھوں کو تاؤ دیا۔اس لونڈیا کو اس کے یار سمیت ایسا مزہ چکھانا چاہتا ہوں کہ ان کی عقل ٹھکانے لگ جاۓ۔”وجاهت خان بولا۔”
تو پھر تو پریشان کیوں ہے۔؟رانا الفت نے پوچھا۔ویسے ایک بات مجہے پریشان کررہی ہے کہ تیرے پاس ہر چیز تھی۔شان و شوکت بھی اور تیرے تو ہاتھ بھی بہت لمبے ہیں۔ پھر اس لونڈیا کو تونے چھوڑ کیوں دیا۔؟
جلد بازی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔”وجاهت خان شیطان مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوۓ بولا۔”
ممکن ہے ہندو کوئی واویلا مچاتے اور حالات مزید گرگوں ہوتے۔ ایسی حالت میں ہمارا بھانڈا بھی تو پھوٹ سکتا تھا۔میں نے ایسا تیر پھینکا ہے کہ ہندو میری طرف سے مطمئن ہوچکے ہیں۔ اب اگر میں کچھ کروں گا تو وہ مجھ پی شک کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔
کافی عقل مند ہے تو۔ رانا الفت نے تعریف کی۔اب آگے کیا کرے گا۔ ؟
لاشوں کے انبار لگا دوں گا۔”وجاهت خان ناک بھوں چڑہاتے ہوۓ بولا۔ "
لیکن ۔۔۔۔رانا الفت نے بولنا چاہا لیکن وجاهت خان نے ہاتھ کے اشارہ سے چپ کروادیا۔
کوئی ایسی بات نہ منہ سے نکالنا کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ بس تو دیکھتا جا کہ ہوتا کیا ہے۔ ؟
رانا الفت نے وجاہت خان کی بات سن کر بس سر ہلا دیا۔ وہ جانتا تھا وجاهت خان کس حد تک جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باپو ۔۔۔ارے او باپو ۔” چاندنی نے دیپک کے باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
دیپک کا باپ اس وقت جانوروں کو چارہ ڈال رہا تھا۔چاندنی کی آواز سماعت سے ٹکرائی تو سوالیہ نگاہوں سے اسے گھورا۔
دیپک کہاں ہے۔؟
چاندنی نے اس کے قریب آکر پوچھا۔ "یہیں کہیں ہوگا۔ "دیپک کے باپ نے جواب دیا۔
مگر یہاں تو کہیں نہیں ہے۔” چاندنی نے بتایا۔ "
ابھی تو یہیں تھا۔دیپک کے باپ نے جواب دیا۔ممکن ہے کسی دوست کے ہاں گیا ہو یا پھر یہیں کہیں ہوگا۔
چاندنی کندھے اچکاتی ہوئی واپس پلٹی۔پہلے اس نے سوچا گھر چلی جاۓ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ قریبی باغیچے میں جاكر پتا كرلے ممکن ہے دیپک وہاں ہو کیوں کہ اکثر و بیشتر وہ وہاں ہی ملتا تھا۔ یہ سوچ کر چاندنی باغیچے کی طرف چل دی۔ دیپک کو آوازیں دیتی چاندنی نے ابھی چند قدم ہی اٹھاۓ ہونگے کہ يكدم کسی نے اسے پیچھے سے دبوچ لیا اور اس کے منہ پر کپڑا رکھ دیا۔چاندنی اس افتاد کے لئے قطعاً تیار نہ تھی۔ اس نے اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا چاہے لیکن جلد ہی اس کا جسم ڈھلک گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاندنی کی آنکھیں کھلی تو اس نے خود کو اجنبی جگہ پر پایا۔ تبھی اسے یاد آیا وہ باغیچے میں دیپک کی تلاش میں گئی تھی اور کسی نے اس پر حملہ کردیا تھا۔ وہ فٹ سے اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھی لیکن اگلا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔اس کے ایک طرف زخموں سے چور دیپک پڑا تھا۔ جس کے زخموں سے لہو ابھی تک رس رہا تھا۔اس کی حالت زار دیکھ کر چاندنی کا دل مٹھی میں بھر آیا تھا۔ جبکہ وجاهت خان اور اس کے ساتھ ایک نئی صورت دکھائی دے رہی تھی۔
تو ٹھیک کہتا ہے وجاهت خان۔”رانا الفت کی آواز سکوت زدہ”فضا میں گونجی۔ان ہندؤں نے کیا اپسرا چھپا کر رکھی ہوئی تھی۔ جانتا ہے تو یہ ہیرے جواہرات کے عوض جاۓ گی۔ تم؟ وجاهت خان کے بولنے سے پہلے چاندنی حیرت سے بولی۔”
ارے یہ تو تمہیں جانتی بھی ہے۔”رانا الفت نے تالی بجاتے ہوے کہا۔ "
ہماری بڑی پرانی جان پہچان ہے رانا۔ "وجاهت خان نے کھا جانے والی نظروں سے چاندنی کو دیکھتے ہوۓ رانا کو بتایا۔ "
میں نے کہا تھا ناں۔۔۔”دیپک کی كانپتی ہوئی آواز کمرے میں گونجی تو چاندنی سمیت وجاهت خان اور رانا الفت بھی اس کی طرف متوجہ ہوۓ۔
کہ یہ بہت خبیث انسان ہے۔ ۔۔۔۔۔لیکن۔ ۔۔۔۔۔۔تم نے اس کی ۔۔۔۔۔۔حمایت کی تھی۔
ارے یہ پگلی ہے۔ "چاندنی کی جگہ وجاهت خان نے قہقہہ مار کر ہنستے ہوۓ بولا۔ "
یہی بات تو اسے معلوم نہیں تھی۔ یہ کونسی بھلا تیرے جیسے دور اندیش تھی۔ بس اس نے مجھ پر اندھا بھروسہ کرلیا لیکن یہ جانتی نہیں تھی کہ میری دشمنی سانپ کے زہر سے زیادہ خطرناک ہے۔
میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی حرام زادے۔”چاندنی غصے سے پیچ و تاب کھا کر بولی۔ "اور اپنی جگہ سے اٹھ کر وجاهت خان کی طرف دوڑی۔
وجاهت خان اور رانا الفت دونوں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔صنف نازک میں کہاں اتنا دم تھا کہ ایک مرد سے مقابلہ کرسکے۔ پھر یہاں تو ایک نہیں دو مرد تھے۔ اور ان دونوں نے ملکر چاندنی کی عزت کی دهجیاں اڑا دیں۔دیپک بھی کچھ نہ کر سکا۔
چاندنی عزت کا جنازہ نکلنے پر دھواں دار رو رہی تھی۔ تبھی اس کی نگاہ ایک سلاخ پر پڑی جو دروازے کے ایک جانب پڑی تھی۔
وجاهت خان اور رانا الفت ان دونوں کو اندر قید کر کے جاچکے تھے چاندنی نے اس لوحے کی سلاخ کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔ دیپک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔ اسے اپنی بے بسی اور بے چارگی پر حد سے زیادہ افسوس ہورہا تھا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے اس کی محبوبہ کی عزت لوٹ لی گئی تھی لیکن وہ کچھ نہ کر پایا تھا۔ دوسرے ہی لمحے کمرے کے سکوت زدہ فضا میں چاندنی کی دلخراش چیخ گونجی۔اگلا منظر دیکھ کر دیپک کے پیروں تلے زمین سرک گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاندنی اور دیپک دونوں نے بند کوٹھڑی کے اندر جان دے دی۔ وجاهت خان اور رانا الفت کو جب اس بات کا علم ہوا تو ان کے حواس باختہ ہوگئے۔باہر حال دونوں نے حالات سے بچنے کیلئے ان دونوں کو اس بند کوٹھڑی کے اندر گڑھا کھدوا کر دبوادیا۔یوں چاندنی اور دیپک کا راز ہمیشہ کے
لئے منوں مٹی تلے دفن ہوگیا۔
چاندنی اور دیپک کے گھر والوں نے انہیں بہت تلاش کیا لیکن انہیں نہ ملنا تھا نہ ملے۔کئی ھندؤں نے مشورہ دیا کے وہ وجاهت خان پر زور دے کر پوچھیں لیکن انہوں نے انکار کردیا پہلے ایک بار بھی الزام لگا کر ان سے بہت بڑی بھول ہوچکی ہے اور ایسا اب کبھی نہیں ہوگا۔
دوسری طرف ایک رات وجاهت خان اپنے کمرے میں سویا تو اسے یوں لگا جیسے اس کے علاوہ بھی کمرے میں کوئی اور موجود ہے۔ جب اس نے لائیٹ جلائی تو کچھ نظر نہ آیا۔اس نے پھر لائٹ اف کردی لیکن نیند اس کی نظر سے کوسوں دور تھی۔اس کے من میں عجیب سی بے چینی اور اضطرابیت پیدا ہوگئی۔ وہ اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہو چکا تھا۔ تبھی اس کی نگاہ يكدم بیڈ کے سامنے رکھے صوفے پر پڑی اور اگلا منظر دیکھ کر اس کا اپر کا سانس اپر اور نیچے کا سانس نیچے اٹک کر رہ گیا۔اس کی آنکھوں کے سامنے صوفے پر دیپک اور چاندنی برجمان تھے۔ دونوں خون میں بلکل ایسے ہی لت پت تھے جیسی حالت میں انھے گڑھے میں دبایا گیا تھا۔
دوسرے دن جب بار بار کھٹکٹانے پر بھی وجاهت خان نے دروازہ نہ کھولا تو اس کا دروازہ توڑا گیا لیکن اگلا منظر دیکھ کر سب کی حیرت ہویدا رہ گئی۔ وجاهت خان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔اس کا وجود ٹھنڈا پڑ چکا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں بلا کا خوف دکھائی دے رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے خوف کی شدّت کے باعث اس کی موت ہوئی ہو۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وجاهت خان کی موت کی وجہ کیا ہے۔ ؟بس جس کے منہ میں جو آیا اس نے وہ کہا اور انہی الفاظ کے ساتھ اسے بھی منون مٹی تلے دبا دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کی نگاہیں اس مہ جبیں پر مرکوز تھیں۔ساری روداد سنانے کے بعد وہ چپ کر گئی۔
تم دونوں نے اپنا وجاهت خان سے بدلہ لے لیا تھا۔”محمّد حنیف بولا۔”تو اب ان بے قصور لوگوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑی ہوئی ہو۔ ؟
کوئی بھی بے قصور نہیں ہے۔ "دو شیزہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بولی۔ "
کیا میرے والدین بے قصور نہیں ہیں جو جیتے جی مر چکے ہیں۔دیپک کے والدین کا بھی یہی حال ہے۔ ہم نے وعدہ کیا تھا وجاهت خان کی پوری نسل کو نیست و نابود کرکے رکھ دیں گے۔
اب تم ایسا نہیں کرسکتے۔”محمّد حنیف نے ہانڈی کے اندر ڈبوئی ہوئی چھڑی کو اٹھایا اور اس پر لگے پانی کو دو شیزہ پر چھڑک دیا۔دو شیزہ کے حلق سے ایک درد ناک چیخ بلن?
[…] پارٹ 2 کے لیے یہاں کِلک کریں […]