ہیبت خان تیرہ برس بعد وطن واپس لوٹ رہا تھا وہ عرصہ دراز سے لندن میں مقیم تھا ۔اس نے لندن میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر ہوم جاب کرنے کے بعد وہیں کا ہو کر رہ گیا ۔جلد ہی اس کا شمار اچھے ڈاکٹر کی لسٹ میں ہونے لگا تھا ۔اس کی شادی کے دو سال بعد اس کا باپ یکبارگی دل کا دورہ پڑنے سے لقمہ اجل ہو گیا ۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا اس کی موت شدید خوف کی وجہ سے واقع ہوئی ہے لیکن گھر کے اندر کوئی ایسا واقع بھی رونما نہیں ہوا تھا ۔جسے بنیاد بنا کر اس بات کو سچ تسلیم کیا جاسکتا ۔
ہیبت خان کا باپ وجاهت خان اپنے علاقے کا وڈیرہ گردانا جاتا تھا ۔علاقے کے اندر سب سے بڑی حویلی وجاہت خان کی ہی تھی ۔علاوہ ازیں وجاهت خان ساڑھے چار مربع زمین کا مالک تھا اس کی وفات کے بعد سب کچھ هيبت خان کے کنٹرول میں اگیا تھا ۔چار كینال کی اراضی میں چار دیواری ڈال کر ایک سائیڈ پر ایک كینال پر عظیم الشان کوٹھی تیار کروائی گئی جبکہ اسکے بلکل سامنے ایک كینال پر ایک چھوٹا سا گراؤنڈ نما پارک بنایا گیا تھا۔ساتھ والی دو كینال جگہ میں حویلی کے بلکل پیچھے ملازموں کے لئے کوارٹر بنواے گئے تھے ۔جبکہ ایک سائیڈ پر ایک چھوٹا سا قبرستان بنایا گیا تھا۔جہاں وجاہت خان کے والدین اور بہن کو دفن کیا گیا تھا ۔
وجاهت خان اپنے وقت کا ایک ظالم ،جابر اور بے غیرت قسم کا انسان گزرا تھا ۔پیسہ اور حسن دونوں ہی وجاهت خان کی کمزوریاں تھیں ۔کتنی ہی معصوم اور بے گناہ دوشیزاؤں کی عصمت کا جنازہ اس نے نکالا تھا۔غریب لوگوں کی اس کے خلاف زبان کھولنے کی سکت نہ تھی ۔اس کے ظلم کی انتہا تو اس وقت ہوئی جب اس کی حویلی میں رانا الفت نے آنا شروع کردیا۔رانا الفت کا تعلق انڈر ورلڈ کی دنیا سے تھا ۔شروع میں اس نے وجاهت خان کے ذریعے منشیات فروشی کے دهندے کو فروغ دیا جب اس کا وجاهت خان پر اعتماد پیدا ھوگیا تو اس نے وجاهت خان کے ذریعے نوجوان دوشیزاؤں کو ا غواء کروانا شروع کردیا۔پیسہ پہلے ہی وجاهت خان کی کمزوری تھا۔رانا الفت نے وجاهت خان کو سر سے پاؤں تک پیسے میں چھپا دیا تھا۔وجاهت خان نے بھی حد سے زیادہ رانا الفت پر اعتماد کرنا شروع کردیا تھا لیکن وجاهت خان اس بات سے قطعی آشنا نہ تھا کہ رانا الفت کس قدر آتش کا پر کالا ہے۔ رانا الفت وجاهت خان پر پیسے کی بارش کررہا تھا تو دوسری طرف وجاهت خان اپنے چیلوں کے ذریعے اسے لڑکیاں پہنچا رہا تھا ۔لیکن ایک رات وجاهت خان دل کا شدید دورہ پڑنے سے خالق حقیقی سے جا ملا ۔
باپ کی وفات کے بعد ہیبت خان اپنی فیملی سمیت لندن شفٹ ہوگیا تھا ۔پیچھے کا سارا نظام اس نے منشی فیض رسول کے سپرد کردیا تھا ۔لندن رہ کر وہ وقتاً فوقتاً منشی فیض رسول سے حالات و واقعات کے متعلق آگاہی لیتا رہتا تھا ۔منشی فیض رسول ایک نہایت ہی نیک اور ایماندار انسان تھا خالق حقیقی نے اسے تین بچوں سے نوازا تھا سب سے بڑا بیٹا راشد خان جو کہ اب میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا تھا ۔اس سے چھوٹا بیٹا زھیر خان چھٹی کلاس میں پڑھ رہا تھا ۔ہیبت خان کی اہلیہ مونا خان ایم اے انگلش کیا ہوا تھا اور لندن کے ہی ایک پرائیویٹ فرم میں بطور سیکرٹری خدمات سر انجام دے رہی تھی ۔وقت پر لگا کر گزرتا چلا گیا اور تیرہ سال کا طویل عرصہ پلک جھپکتے میں گزر گیا ۔تیرہ برس بعد ہیبت خان اپنی فیملی کے ساتھ واپس اپنے گاؤں آرہا تھا ۔تیرہ برس بعد جب وہ اپنے گاؤں داخل ہوا تو اسے حیرت ہوئی اسے یوں لگا جیسے دنیا ہی بدل گئی ہو کچی آبادی پکّی عمارتوں کا روپ دھار چکی تھی ۔گاؤں کا گاؤں شہر میں بدل چکا تھا ضرورت زندگی کی ہر سہولت دستیاب تھی اس کے تخیل میں وہ گاؤں آیا جب یہاں کچی آبادیاں تھیں لیکن آج یہ تبدیلی دیکھ کر وہ انگشت بدنداں رہ گیا تھا ۔
ہیبت خان اور اس کی فیملی کو لینے کے لئے منشی فیض رسول ائیرپورٹ پر آیا تھا ۔منشی فیض رسول کو اس نے جب دیکھا تھا تو وہ بلکل جوان تھا لیکن آج اس کے سر اور داڑھی کے بالوں میں سفیدی اس سے پنہاں نہ تھی۔
آپ کی زندگی کا سورج بھی ڈھلتا جارہا ہے ۔
ہیبت خان نے راستے میں منشی فیض رسول کو چھیڑتے ہوۓ کہا
تو سب کی ہنسی نکل گئی
۔یہ سفیدی ایسے ھی نہیں آگئی ۔”منشی فیض رسول ” نے بتایا ۔
آپ لوگوں نے میرے ناتواں كندهوں پر بہت بڑا بوجھ لاد دیا تھا ۔ہر وقت چنتا کھاۓ رہتی تھی کہ کہیں اونچ نیچ نہ ہوجاۓ زندگی میں بھی کبھی آپ کے باپ دادا سے دھوکہ نہیں کیا تھا ۔
آپ کی وفاداری کا میں بچپن سے ھی قائل ہوں ۔ہیبت خان نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔
یہ سب آپ کی محبت ہے ۔”منشی فیض رسول ” گاڑی حویلی میں داخل کرتے ہوۓ بولا ۔
گاؤں میں ہیبت خان اور اس کی فیملی کی واپسی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔سب لوگ اس کا استقبال کرنے کی غرض سے اس کی حویلی پر جمع تھے ۔عین اس وقت جب گاڑی حویلی میں داخل ہوئی سب لوگ گاڑی کے آلے دوالے (چار سو ) پھیل گئے تھے ہیبت خان اور اس کی فیملی جب گاڑی سے باہر نکلے تو گاؤں والوں نے ان پر پھولوں کی پتیوں کی برسات کردی ۔ہیبت خان گاؤں والوں کی چاہت اور محبت کا گرویدہ ہوکر رہ گیا تھا ۔اس نے سب کا شکریہ ادا کیا ۔گاؤں والے سارے یکے بعد دیگرے واپس لوٹ گئے تھے ۔
شام کے دهند لکوں نے جب ہر شے کو اپنی آغوش میں بهرنا شروع کردیا تو جنوب کی جانب سے گیھرے سرخ بادلوں نے اٹھنا شروع کردیا ۔گہری تاریکی کے باعث بادلوں کی رنگت کا اندازہ لگانا نا ممکن تھا بادل خاموشی سے نیلے فلك پر چھارہے تھے ۔جیسے جیسے کچھوے کی رفتار سے بادل چھا رہے تھے ۔ویسے ویسے ماحول میں بےچینی اور گھبراہٹ اور حبس بڑھنا شروع ہوگئی تھی ۔حبس جیسے جیسے بڑھ رہی تھی ہر کس و ناکس مضطرب ہونے لگا تھا ۔
حبس بےجا کی وجہ سے لوگ گھروں سے نکلنے یا چھتوں پر چڑھنے پر مجبور ہوگئے تھے مگر کوئی فرق محسوس نہ ہوا تھا ۔سب کی حیرت ہویدا تھی کہ نجانے کیوں آج ماحول میں اتنی حبس بڑھ چکی تھی ۔تبھی یک لخت موسلہ دھار بارش شروع ہوگئی یہ دیکھ کر تو سب کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی کہ بارش میں پانی کے قطروں کی بجاے خون کی بوندیں اور لوتھڑے گررہے تھے ۔جس جس نے بھی یہ منظر دیکھا تو اسی وقت پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوگیا ۔استغفار کا ورد شروع ہوگیا تھا ۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ آسمان سے خون گرنے کی وجہ کیا ہے ؟
دوسری طرف سفر کی تھکاوٹ کے باعث ہیبت خان اور اس کی فیملی خواب خرغوش کے مزے لوٹنے لگے لیکن انہیں سوۓ ابھی تھوڑی ھی دیر بیتی ہوگی کہ یک دم سکوت زدہ فضا میں دلخراش چیخیں گونج اٹھیں یوں لگ رہا تھا جیسے ایک ساتھ درجنوں لوگ چیخ پکار کررہے ہوں ۔ہیبت خان اور اس کی ساری فیملی سہم گئے ۔ہیبت خان کے بچے کچھ زیادہ ھی خوفزدہ ہوگئے تھے ۔ہیبت خان نے منشی فیض رسول کو بلوالیا اور ان چیخوں کے بارے میں دريافت کیا مگر وہ کچھ جانتا ہوتا تو اسے کچھ بتاتا ۔
معذرت چاہتا ہوں سرکار ۔”منشی فیض رسول بے چارگی کے عالَم میں بولا "پوری حویلی چھان ماری ہے لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آوازیں حویلی کے کس حصّے سے آرہی ہیں۔نہ ہی یہ پتہ چل رہا ہے کہ چیخ کون رہا ہے؟
منشی فیض رسول کی بات سن کر ہیبت خان اور اس کی فیملی حیران رہ گئے ۔
تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ” ہیبت خان نے منشی فیض رسول کو حیران کن اكهیوں سے گھورتے ہوۓ پوچھا "جلد سے جلد مجہے وضاحت چاہیے ۔
ہیبت خان کا لہجہ تحکمانہ لیکن حیرت والا تھا۔ اسے منشی فیض رسول کی ذہنی حالت پر حیرت ہورہی تھی۔ ہیبت خان کا حکم سنتے ساتھ ہی منشی فیض رسول نے مڑنا چاہا ہی تھا کہ یک لخت آوازیں آنا بند ہوگئیں۔
تم جاسکتے ہو لیکن یاد رکھنا ایک تو اب کوئی خلل برداشت نہیں کروں گا دوسرا اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرواؤ مجہے صبح وضاحت چاہیے ۔
منشی فیض رسول منہ سے تو کچھ نہ بولا بس سر ہاں میں ہلاتا ہوا چپ چاپ دبے قدموں واپس لوٹ آیا۔
مجہے لگتا ہے کہ یہ بڈھا عقل سے پیدل ہے۔”مونا خان لیٹتے ہوۓ بولی۔”
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ہیبت خان نے منشی فیض رسول کی حمایت میں کہا ۔
کیا یہ حیرت زدہ بات نہیں ہے کہ ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہو اور حویلی کا خاص بندہ بونگوں کے سے جواب دے۔مونا خان بولی۔
چھوڑو اس بات کو سوجاؤ۔ہیبت خان لاجواب ہوکر بولا۔
بچوں کو بھی سلاؤ ایسی باتوں سے بچوں کے ذہن پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔
مونا خان منہ سے تو کچھ نہ بولی لیکن خوف کی ایک سرد لہر اس کے پورے شریر میں سرایت کر چکی تھی۔اس نے بچوں کو ساتھ لٹا لیا تھا۔ لیکن یوں لگتا تھا جیسے نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور ہوچکی ہے۔ اس کی چٹھی حس اسے انجانے ان دیکھے خطروں سے آگاہ کررہی تھی۔بے شک جس ماحول کے وہ عادی تھے ۔وہاں ان باتوں کو تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔بلکہ ذہنی فتور تصور کیا جاتا۔لیکن جو کچھ بھی تھا اس نے مونا خان کو ضرور سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
منشی فیض رسول کے ساتھ مل کر روزانہ ہیبت خان نے اپنی زمینوں کا چکر لگانا شروع کردیا تھا۔بچوں کو تین ماہ کی چھٹیاں تھیں۔اور اس بار اس نے یہ چھٹیاں اپنے گاؤں میں گزرنے کا ارادہ بنایا تھا۔ہر طرف هريالی ہی هريالی تھی۔منشی فیض رسول کی ایمانداری اور محنت کا ہیبت خان مزید گرویدہ ہوکر رہ گیا تھا۔منشی فیض رسول دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا تھا۔زمینیں سونا اگل رہی تھیں۔اس کے علاوہ ہر طرف قد آور درخت دکھائی دے رہے تھے۔
انھہی درختوں میں ایک بیر کا درخت بھی تھا جس کی شاخیں پھلوں سے لدی اور جھکی ہوئی تھیں۔منشی فیض رسول اور ہیبت خان دونوں چلتے ہوۓ اس درخت تک جا پھنچے۔
سرکار اور اس درخت کا پھل بہت میٹھا اور رسیلا ہے۔منشی فیض رسول نے بتایا بتایا تو ہیبت خان نے درخت بغور دیکھا۔پھل دار درختوں کے پھل وقتاً فوقتاً گاؤں والوں میں تقسیم کرواتا رہتا ہوں غرباء میں اناج بھی تقسیم کرواتا رہتا ہوں۔ ہیبت خان نے ہونٹ بھینچتے ہوۓ خوشی سے کہا۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔اللّه پاک رزق میں برکت پیدا کرتے ہیں۔ویسے بھی یہ ہماری رعایا ہے اگر ہم نے ان خیال نہیں رکھنا تو کس نے رکھنا ہے اگر ہم ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو ہم سے بھی پوچھ گچھ ہوگی۔جس قدر ممکن ہو گاؤں کے ضرورت مند لوگوں کی ہر ضرورت پوری کیا کرو یہی نہیں گاؤں سے باہر کا بھی کوئی آجاۓ تو کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔
ایسا ہی ہوگا سرکار۔ "منشی نے جواب دیا۔”
ہیبت خان نے درخت کی ایک لٹکی ہوئی شاخ کو پکڑ کر اس سے ایک موٹا تازہ بیر توڑا لیکن بیر توڑنے کی دیر تھی کہ اگلا منظر دیکھ کر ہیبت خان سمیت منشی فیض رسول بھی حیرت کےسمندر میں غوطہ زن ہوکر رہ گیا۔ جس ٹھنی سے بیر توڑا گیا تھا اس جگہ سے خون کی بوندیں ٹپكنا شروع ہوگئی تھیں۔ ہیبت خان نے حیران کن اکھیوں سے منشی فیض رسول کو دیکھا۔اور ہاتھ میں پکڑا ہوا بیر سراعت سے ایک طرف پھینک دیا۔منشی فیض رسول سرعت سے ہیبت خان کی طرف بڑھا۔دوسرے ہی لمحے یوں لگا جیسے موسلہ دھار بارش شروع ہوگئی ہے۔بارش کیا تھی خون کی بوندیں پورے درخت سے ٹپک رہی تھیں۔ہیبت خان اور منشی فیض رسول دونوں ہی پوری طرح سے خونی بارش کی ذد میں آچکے تھے۔ہر طرف خون ہی خون پھیلتا جارہا تھا۔بڑی ہی مشکل سے ایک دوسرے سہارا دیتے ہوۓ دونوں اس بیر کے درخت کے نیچے سے نکلے۔لیکن یہ دیکھ کر ان کی حیرت ہویدا رہ گئی کہ ان کے درخت کے نیچے نکلتے ساتھ ہی خونی بارش یک دم تھم گئی۔یوں ہی نہیں ان کپڑے اور جسم یک دم یوں خشک اور صاف ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ دونوں کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔
یہ سب کیا ہورہا ہے۔” ہیبت خان نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔”
ہیبت خان پوری طرح سے خوف کی ذد میں آچکا تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ بس وہ متواتر منشی فیض رسول کو تکے جارہا تھا۔ منشی فیض رسول خود انگشت بدنداں رہ گیا تھا کہ یہ سب ہو کیا گیا تھا۔
معافی چاہتا ہوں سرکار میں خود کچھ بھی نہیںں جانتا۔”منشی فیض رسول کے لہجے سے بے بسی اور بے چارگی عیاں تھی۔”
لیکن حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ سب کالے جادو کا کوئی کھیل ہے۔ممکن ہے کوئی آپ کے جاہ و جلال اور مرتبے سے جیلس ہوتا ہو۔ آپ کی کامیابی اس کے دل پر نشتر کے جیسے پڑتی ہو۔اور اس نے آپ پر زبردست کالا جادو کروا دیا ہو۔
یہ سب بکواس ہے۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟”ہیبت خان غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوۓ بولا۔”
سرکار ایسی باتیں نہ کریں۔”منشی فیض رسول نے تڑپ کر کہا۔ ایسے حالات و واقعات کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔حالات یہی بتا رہے ہیں دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔کسی اللّه والے سے ضرور حساب کتاب کروا لینا چاہیے۔لگتا ہے واپس آکر میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔”ہیبت خان نے بے بسی سے کہا۔میری فیملی کے اندر خوف بڑھتا جارہا ہے۔مجہے اپنی فیملی بہت پیاری ہے۔انہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔اگر مزید ایسا کوئی واقعہ ہوا تو میرے لئے یہاں رکنا نا ممکن ہوجاۓ گا۔
منشی فیض رسول کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ تھا۔اس لئے اس نے چپ ہی رکھی۔دونوں چلتے ہوۓ گاڑی تک پہنچ گئے تھے۔ہیبت خان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبهالی جبکہ منشی فیض رسول اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر برجمان ہوگیا۔ہیبت خان نے گاڑی حویلی کی اوڑھ موڑی اور اسے گیر میں ڈال دی۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کرے تو کیا کرے ۔۔۔۔؟
رات کا نجانے کونسا پہر تھا۔ہر کوئی گھوڑے بیچ کر سورہا تھا۔ہر طرف ہو کا عالَم تھا۔ہیبت خان کی حویلی میں بھی سکوت طاری تھا۔سارے مکین گھوڑے بیچ کر سورہے تھے۔ہیبت خان اور اس کی بیگم مونا خان الگ جبکہ تینوں بچے علیحدہ کمرے میں سوتے تھے۔
تینوں بھائی گہری نیند سورہے تھے۔جب یکبارگی زھیر خان کی آنکھ کھٹکے سے کھل گئی تھی۔وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔کمرے کے اندر زیرو کے بلب کی مدهم سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔جو ہر شے مکمل واضح تو نہیں کررہی تھیں مگر اتنا تو ضرور تھا کہ چیز کی پہچان بغور دیکھنے سے کی جاسکتی تھی۔زھیر خان ہمہ تن گوش ہوگیا۔آواز اٹیج باتھ کے اندر سے آرہی تھی۔باتھ کے اندر برے ٹب میں پانی گر رہا تھا۔اور یوں لگ رہا تھا۔جیسے کوئی اندر نہا رہا ہو۔زھیر خان نے اپنے دونوں بھائیوں کی طرف دیکھا۔تو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیا۔ کیونکہ اس کے دونوں بھائی اس کے ساتھ بیڈ پر دراز تھے۔زھیر خان کی
حیرت ہویدا رہ گئی ۔اس کی چھٹی حس اسے خبردار کرنے لگ گئی کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر کمرے کے دروازے کو دیکھا لیکن یہ دیکھ کر اس کی حیرت بڑھ گئی کہ دروازے کے اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی۔
زھیر خان بنا آواز پیدا کیے اپنی جگہ سے اٹھا اور باتھ روم کی طرف بڑھا باتھ روم کے دروازے کے پاس جاکر اس نے کان لگا کر سننا چاہا لیکن کسی نتیجہ خیز مرحلے پر نہ پہنچ سکا باتھ روم کے دروازے کے اندر سے چٹخنی نہیں لگی ہوئی تھی۔ زھیر خان نے دروازے پر ہاتھ کا دباو بڑھایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔سامنے ٹب کے اندر پیہم پانی گر رہا تھا۔لیکن نہانے والا کہیں نہیں دکھائی دے رہا تھا۔زھیر خان باتھ روم کے اندر داخل ہوگیا اندر کوئی ہوتا تو اسے دکھائی دیتا۔
زھیر خان نے پانی بند کیا اور باہر نکلنے کے لئے جیسے ہی مڑا تھا۔
کسی نے اس کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا زھیر خان نے سہم کر فوراً پیچھے دیکھا لیکن یہ دیکھ کر گنگ رہ گیا کہ پیچھے کوئی بھی نہیں تھا. قبل اس کے کہ وہ واپس پلٹتا کسی نے یک لخت اس کی گردن سے پکڑا اور نیچے دھکیل دیا۔زھیر خان اس افتاد کے لئے قطعاً تیار نہ تھا۔ زھیر خان لڑکھڑایا اور گھٹنوں کے بل زمین پر گرتا چلا گیا۔ خود کو آہنی شکنجوں سے نجات دلانے کے لئے زھیر خان ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس کی گردن پر دباؤ بڑھتا جارہا تھا ۔ وہ چیخنا چلانا چاہتا تھا کہ مدد کے لئے اپنے بھائیوں کو بلاے لیکن اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی زبان تالو سے چپک گئی ہو۔
حیرت و خوف کے مارے اس کے حواس باختہ ہوگئے تھے۔ یک دم اس کے سر کو پکڑ کر کسی نے سرعت سے پانی سے بھرے ٹب میں ڈبودیا۔ زھیر خان ماہی آب و تاب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اس کے ناک منہ میں پانی بھر چکا تھا۔ سانس تک لینا دشوار ہوچکا تھا۔ موت کی پرچھائیاں اس پر سایہ فگن ہوچکی تھیں۔ اس کی ہر کوشش دھیرے دھیرے ناکام پڑتی جارہی تھی۔ زندگی اور موت کے درمیان وہ پنڈولیم کی طرح لٹک کر رہ گیا تھا۔ اسی کشمکش میں اس کی ہر سعی ناکام پڑ گئی اور زھیر خان لقمہ اجل ہوگیا۔موت زندگی پر حاوی آگئی زھیر خان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔زھیر خان کا بے جان جسم لڑھک گیا۔
ایک سماعت شکن چیخ نے پوری حویلی میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا تھا۔ چیخ کسی اور کی نہیں بلکہ راشد خان کی تھی راشد اٹھ کر باتھ گیا تو اگلا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین كهسك گئی۔ نہ چاھتے ہوۓ بھی ایک سماعت شکن چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ حیدر خان جو کہ اب تک خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا راشد خان کی چیخ پر حیدر خان بھی ہڑ بڑا کر اٹھ گیا اور وہ بھی فوراً باتھ روم کی جانب بڑھا۔ اگلا منظر دیکھ کر اس کے ہاتھوں کے بھی طوطے اڑ گئے۔ دوسری طرف چیخ کی آواز سن کر ہیبت خان اور مونا خان بھی ان کے کمرے کی اوڑھ بڑھے اور زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔
دونوں بھائیوں کے رونے کی آوازیں پیہم ان کی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔ راشد خان تو ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر دھواں دھار روے جارہا تھا۔ حیدر خان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلتے ساتھ ہی ہیبت خان اور مونا کے علاوہ اکٹھے ہوجانے والے ملازم بھی اندر داخل ہوگئے۔
ابو ۔” حیدر خان نے روتے ہوۓ باتھ روم کی طرف اشارہ کیا۔” بھیا
حیدر خان سے بولا نہیں جارہا تھا۔دونوں میاں بیوی جب باتھ روم کی طرف بڑھے تو اگلا منظر دیکھ کر ان کی اپر کا سانس اپر اور نیچے کا سانس نیچے اٹک کر رہ گیا۔ جو منظر ان کے سامنے تھا اسے دیکھ کر انہیں یقین نہیں ہورہا تھا۔ اتنی دیر میں منشی فیض رسول بھی پہنچ گیا تھا۔اس نے آگے بڑھ کر ہیبت خان کو دلاسہ دیا جبکہ ملازموں کو فوراً حکم دے کر زھیر خان کے جسد خاکی کو بیڈ پر لٹایا گیا۔پلک جهپكتے ہی پوری حویلی میں ماتم شروع ہوگیا تھا۔ مونا خان کا رو رو کر برا حال تھا۔حیدر خان اور راشد خان بھی دھواں دار رو رہے تھے۔
زھیر خان کی موت کی خبر پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ گاؤں والے یکے بعد دیگرے اکٹھا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ پورا گاؤں جہاں ہیبت خان اور اس کی فیملی کے غم میں شریک تھاوہیں حیران و ششدر بھی تھا کہ زھیر خان کی موت کیسے واقع ہوگئی یہ معمہ کسی طور حل نہیں ہوپا رہا تھا۔ رو رو کر سب کا برا حال تھا۔
لیکن کسی نے سچ ہی کہا تھا مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مر جاتا بلکہ یہ ایک دستور ہے۔انسان ہمہ وقت آنکھوں سے دکھائی دینے والی حقیقتوں کو نہیں مانتا۔ایک ماں بچے سے اتنی محبت کرتی ہے کہ وقت آنے پر اپنیاولاد کی خاطر سولی پر بھی لٹکنے سے گریز نہیں کرتی لیکن جب اس کی اولاد لقمہ اجل ہوجاۓ تو اس کی محبت ختم ہوجاتی ہے۔ کیوںکہ وہ اس کے ساتھ قبر میں نہیں جاتی۔ دنیاوی رشتہ دنیا میں ہی کھو جاتا ہے۔بس ایک یاد بن جاتا ہے ایسے ہی ایک باپ جو تا حیات اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگاۓ پھرتا ہے۔اپنی اولاد کے ساتھ قبر میں کیوں نہیں اترتا بھائی جو بھائیوں کی جان ہوتے ہیں۔ ان کی محبت دنیا میں رہ جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بہنیں ماؤں سے زیادہ اپنے بھائیوں سے محبت کرتی ہیں۔ لیکن قبر میں وہ بھی ساتھ نہیں جاتی۔ تو کیوں ہم حقیقتوں کو سمجھنے سے انکاری ہیں۔ کہ یہ س سب دنیاوی رشتے ہیں۔ اصل رشتہ تو اللّه اور اس کے پیارے حبیب کا ہے۔جس نے بھی اللّه اور اس کے پیارے حبیب سے پکا رشتہ بنا لیا اس کے لئے دنیا بھی بہتر اور آخرت بھی۔ ماں باپ بہن بھائی کے درمیان رہنے والا رشتہ جب مر جاتا ہے تو اسے منوں مٹی تلے دفن کرنے کے بعد کوئی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھتا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ قبرستان کو روحوں کا بسیرا قرار دے دیا جاتا ہے۔کیا وہ روحیں ہمارے اپنوں کی نہیں ہوتیں جو کبھی ہمارے درمیاں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟
ہم لوگ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے نجانے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ اولاد کا بہتر مستقبل اچھا گھر ، کام اور اچھا رشتہ نہیں ہے۔بلکہ بہتر مستقبل مرنے کے بعد کا ہے۔لیکن موت کسے یاد ہے۔قبرستان جایں یا کسی کی فوتگی پر جایں تو مومن بن جاتے ہیں جب کہ بعد میں رات گئی بات گئی والی بات بن جاتی ہے۔
آنسو بہت بے رحم ہوتے ہیں۔جب بہتے ہیں تو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔کبھی کبھی تو انسان کا ہمّت و حوصلہ تک بہا کر لے جاتے ہیں۔لیکن جب دل کاغبار نکل جاتا ہے تو انسان کی کیفیت بدل جاتی ہے۔اسے سکون ميسر آجاتا ہے۔صبر بھی مل جاتا ہے۔لیکن کچھ گهاؤ ایسے ہوتے ہیں جو دل و دماغ پر چھید کر کہ رکھ دیتے ہیں اور کبھی نہیں بھرتے۔
ہیبت خان اور اس کی فیملی رونے دھونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے تھے۔مجرم کافی شاطر تھا جسے بند دروازے بھی اندر داخل ہونے سے نہ روک پاۓ۔ناجانے وہ کن کونوں کھدروں سے اندر داخل ہوا تھا اور زھیر خان کو ابدی نیند سلا کر چلتا بنا تھا۔زھیر خان کو سینکٹروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا تھا۔پلک جهپكتے میں ہیبت خان کے گھرانے کو مصیبتوں نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ اسے رو رو کر غصہ آرہا تھا کہ وہ اپنی فیملی کو یہاں کیوں لے کر آیا تھا لیکن اب اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہوجاۓ وہ مجرم کو ابدی نیند سلاے بنا یہاں سے نہیں جاۓ گا۔ مجرم نے بے دردی ابدی نیند سلایا تھا۔ ہیبت خان کا بس نہیں چل رہا تھا وگرنہ ایک بار مجرم سامنے آجاتا تو وہ اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا۔
یہ گھر کتنا منحوس ہے میرے لخت جگر کو نگل گیا۔ "مونا خان نے روتے ہوئے کہا۔”
اس وقت سب ٹی وی لااونج میں جمع تھے۔ہر کس و ناکس کی آنکھوں سے گوہر ہاے ابدار بہہ رہے تھے۔ جوان بیٹے کے غم نے ہیبت خان اور اس کی اہلیہ کو نڈھال کر کے رکھ دیا تھا۔ راشد خان اور حیدر خان کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔
"مما بھیا کو آخر کس نے مارا ہے۔
راشد خان نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔”
اندر سے تو چٹخنی لگی ہوئی تھی۔ہم دونوں بھائی بھی سورہے تھے۔ آخر مجرم کہاں سے آیا۔؟
ہمیں واپس چلے جانا چاہیے ابو۔ "حیدر خان نے ہیبت خان ” کو مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
یہاں آپ کے دشمن ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ جو ہمیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔
کچھ نہیں ہوگا بیٹا ہم اس طرح کیسے تمھارے بھائی
کے مجرم کو زندہ چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔؟ ہیبت خان گویا ہوا ۔۔
اس طرح تو مجرم کا ھوصلہ مزید بڑھ جاۓ گا۔وہ ہمیں بزدل سمجھے گا ۔اور یوں وہ کوئی بڑا وار کرنے سے بھی گريز نہیں کرے گا۔میں اپنے لخت جگر کا اس سے انتقام لئے بنا جانے والا نہیں ہوں۔
ممکن ہے کوئی آپ کے جاہو جلال سے جيلس ہوتا ہو اور آپ کو نیچا دکھانے یا آپ کا سب کچھ ھڑپ کرنے کی وجہ سے یہ سب کررہا ہو۔؟ مونا خان نے سوال داغا تو ہیبت خان سوچ میں مبتلا ہوگیا۔
اسے منشی فیض رسول کے الفاظ یاد آگۓ جب اس نے بیر توڑا تھا اور درخت سے خون کی بارش شروع ہوگئی تھی تو منشی فیض رسول نے کہا تھا کہ ممکن ہے کوئی آپ کے جاہو جلال سے جيلس ہورہا ہو۔
ممکن ہے۔”ہیبت خان نے مختصر سا جواب دیا۔”
"اپنے دشمن کو پہچانے وگرنہ وہ گاہے بگاہے وار کرتا رہے گے۔ اور نقصان کرتا رہے گا۔”
مونا خان بولی۔
"میں مزید کچھ بھی برداشت نہیں کر پاؤں گا ۔پہلے ہی کلیجہ چھلنی ہوچکا ہے ۔
اتنا کہہ کر مونا خان سسکیاں بھرنے لگیں۔ ہیبت خان کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کے وہ جلد اپنے دشمن کو پکڑ کر ایسی موت مارے گا کہ دوبارہ کسی میں اس سے ٹکر لینے کی ہمت نہیں ہوگی۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ منشی فیض رسول کی بات پر عمل کرتے ہوئے کسی سيانے بندے سے صلاح مشورہ کرے اور حساب کتاب کروا کہ اپنے دشمن کی پہچان کرے۔
تمھارے گھر کے اندر مافوق الفطرت مخلوق کا بسیرا ہے۔
"محمّد حنیف بولا "
ہیبت خان نے منشی فیض رسول سے بات کی تھی وہ اسے کسی عامل با عمل کے پاس لے کے جاۓ۔تھوڑی تگ و دو کے بعد انہیں محمّد حنیف کا پتہ چلا۔محمّد حنیف ان کے گاؤں سے تین گاؤں چھوڑ کر 169 شمالی میں رہتا تھا۔محمّد حنیف کے پاس نوری علم تھا۔
جب ہیبت خان نے محمّد حنیف کو ساری بات سے آگاہ کیا تو محمّد حنیف نے تھوڑی دیر آنکھیں بند کر کے ورد کیا اور پھر جو اسے بتایا اسے سن کر ہیبت خان اور منشی فیض رسول دونوں کے پاؤں تلے زمین كهسك گئی تھی ہیبت خان ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا وہ سمجھتا تھا یہ سب فرضی اور ڈرامائی حد تک باتیں ہیں ۔محمّد حنیف کی بات نے اسے حیران کردیا تھا۔
یہ کیسے ممکن ہے ۔۔
اس سائنسی دور میں ان باتوں کا کیسے یقین کیا جاسکتا ہے ۔؟
مجہے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی سائنسی دور کا مخلوقات سے کیا تعلق۔؟
محمّد حنیف ہونٹ بھینچتے ہوۓ بولا۔
میرا مطلب ہے سائنس ایسی مخلوق کی موجودگی کو نہیں مانتی ۔”ہیبت خان نے وضاحت کی ۔۔
ویسے کتنی حیرت کی بات ہے۔ حنیف محمّد افسرہ لہجے میں بولا ۔
ہم لوگ نام کے ہی مسلمان رہ گے ہیں جب اللّه تعالی اپنی کتاب میں جن و انس کا تزکرہ فرما رہے ہیں تو کیا سائنس ہماری مقدس کتاب قرآن پاک سے زیادہ افضل ہوگئی ہے۔ ؟
میرے کہنے کا مطلب تھا ۔ہیبت خان نے بولنا چاہا لیکن”محمّد حنیف نے اسے ٹوک دیا۔
آپ کے گھر میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں ارواح کا بسیرا ہے ۔
محمّد حنیف نے موضوع بدلا ۔۔
تو ان سے کیسے جان چھڑوائی جا سکتی ہے ؟”ہیبت خان نے پوچھا۔”
آج رات میں ایک وظیفہ کروں گا۔”محمّد حنیف گویا ہوا۔”
آپ لوگ مجہے صبح لینے آجانا ضرور کوئی نہ کوئی حل نکل جاۓ گا۔
پچھلی رات کا وقت تھا۔ہر کس و ناکس گھوڑے بیچ کر سورہا تھا۔مونا خان اور ہیبت خان ایک ہی کمرے میں گہری نیند سورہے تھے يكدم مونا خان کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے دائیں پاؤں کی ہتھیلی پر کسی نے زور سے گدگدی کی ہو ۔
ہیبت خان تیرہ برس بعد وطن واپس لوٹ رہا تھا وہ عرصہ دراز سے لندن میں مقیم تھا ۔اس نے لندن میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر ہوم جاب کرنے کے بعد وہیں کا ہو کر رہ گیا ۔جلد ہی اس کا شمار اچھے ڈاکٹر کی لسٹ میں ہونے لگا تھا ۔اس کی شادی کے دو سال بعد اس کا باپ یکبارگی دل کا دورہ پڑنے سے لقمہ اجل ہو گیا ۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا اس کی موت شدید خوف کی وجہ سے واقع ہوئی ہے لیکن گھر کے اندر کوئی ایسا واقع بھی رونما نہیں ہوا تھا ۔جسے بنیاد بنا کر اس بات کو سچ تسلیم کیا جاسکتا ۔
ہیبت خان کا باپ وجاهت خان اپنے علاقے کا وڈیرہ گردانا جاتا تھا ۔علاقے کے اندر سب سے بڑی حویلی وجاہت خان کی ہی تھی ۔علاوہ ازیں وجاهت خان ساڑھے چار مربع زمین کا مالک تھا اس کی وفات کے بعد سب کچھ هيبت خان کے کنٹرول میں اگیا تھا ۔چار كینال کی اراضی میں چار دیواری ڈال کر ایک سائیڈ پر ایک كینال پر عظیم الشان کوٹھی تیار کروائی گئی جبکہ اسکے بلکل سامنے ایک كینال پر ایک چھوٹا سا گراؤنڈ نما پارک بنایا گیا تھا۔ساتھ والی دو كینال جگہ میں حویلی کے بلکل پیچھے ملازموں کے لئے کوارٹر بنواے گئے تھے ۔جبکہ ایک سائیڈ پر ایک چھوٹا سا قبرستان بنایا گیا تھا۔جہاں وجاہت خان کے والدین اور بہن کو دفن کیا گیا تھا ۔
وجاهت خان اپنے وقت کا ایک ظالم ،جابر اور بے غیرت قسم کا انسان گزرا تھا ۔پیسہ اور حسن دونوں ہی وجاهت خان کی کمزوریاں تھیں ۔کتنی ہی معصوم اور بے گناہ دوشیزاؤں کی عصمت کا جنازہ اس نے نکالا تھا۔غریب لوگوں کی اس کے خلاف زبان کھولنے کی سکت نہ تھی ۔اس کے ظلم کی انتہا تو اس وقت ہوئی جب اس کی حویلی میں رانا الفت نے آنا شروع کردیا۔رانا الفت کا تعلق انڈر ورلڈ کی دنیا سے تھا ۔شروع میں اس نے وجاهت خان کے ذریعے منشیات فروشی کے دهندے کو فروغ دیا جب اس کا وجاهت خان پر اعتماد پیدا ھوگیا تو اس نے وجاهت خان کے ذریعے نوجوان دوشیزاؤں کو ا غواء کروانا شروع کردیا۔پیسہ پہلے ہی وجاهت خان کی کمزوری تھا۔رانا الفت نے وجاهت خان کو سر سے پاؤں تک پیسے میں چھپا دیا تھا۔وجاهت خان نے بھی حد سے زیادہ رانا الفت پر اعتماد کرنا شروع کردیا تھا لیکن وجاهت خان اس بات سے قطعی آشنا نہ تھا کہ رانا الفت کس قدر آتش کا پر کالا ہے۔ رانا الفت وجاهت خان پر پیسے کی بارش کررہا تھا تو دوسری طرف وجاهت خان اپنے چیلوں کے ذریعے اسے لڑکیاں پہنچا رہا تھا ۔لیکن ایک رات وجاهت خان دل کا شدید دورہ پڑنے سے خالق حقیقی سے جا ملا ۔
باپ کی وفات کے بعد ہیبت خان اپنی فیملی سمیت لندن شفٹ ہوگیا تھا ۔پیچھے کا سارا نظام اس نے منشی فیض رسول کے سپرد کردیا تھا ۔لندن رہ کر وہ وقتاً فوقتاً منشی فیض رسول سے حالات و واقعات کے متعلق آگاہی لیتا رہتا تھا ۔منشی فیض رسول ایک نہایت ہی نیک اور ایماندار انسان تھا خالق حقیقی نے اسے تین بچوں سے نوازا تھا سب سے بڑا بیٹا راشد خان جو کہ اب میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا تھا ۔اس سے چھوٹا بیٹا زھیر خان چھٹی کلاس میں پڑھ رہا تھا ۔ہیبت خان کی اہلیہ مونا خان ایم اے انگلش کیا ہوا تھا اور لندن کے ہی ایک پرائیویٹ فرم میں بطور سیکرٹری خدمات سر انجام دے رہی تھی ۔وقت پر لگا کر گزرتا چلا گیا اور تیرہ سال کا طویل عرصہ پلک جھپکتے میں گزر گیا ۔تیرہ برس بعد ہیبت خان اپنی فیملی کے ساتھ واپس اپنے گاؤں آرہا تھا ۔تیرہ برس بعد جب وہ اپنے گاؤں داخل ہوا تو اسے حیرت ہوئی اسے یوں لگا جیسے دنیا ہی بدل گئی ہو کچی آبادی پکّی عمارتوں کا روپ دھار چکی تھی ۔گاؤں کا گاؤں شہر میں بدل چکا تھا ضرورت زندگی کی ہر سہولت دستیاب تھی اس کے تخیل میں وہ گاؤں آیا جب یہاں کچی آبادیاں تھیں لیکن آج یہ تبدیلی دیکھ کر وہ انگشت بدنداں رہ گیا تھا ۔
ہیبت خان اور اس کی فیملی کو لینے کے لئے منشی فیض رسول ائیرپورٹ پر آیا تھا ۔منشی فیض رسول کو اس نے جب دیکھا تھا تو وہ بلکل جوان تھا لیکن آج اس کے سر اور داڑھی کے بالوں میں سفیدی اس سے پنہاں نہ تھی۔
آپ کی زندگی کا سورج بھی ڈھلتا جارہا ہے ۔
ہیبت خان نے راستے میں منشی فیض رسول کو چھیڑتے ہوۓ کہا
تو سب کی ہنسی نکل گئی
۔یہ سفیدی ایسے ھی نہیں آگئی ۔”منشی فیض رسول ” نے بتایا ۔
آپ لوگوں نے میرے ناتواں كندهوں پر بہت بڑا بوجھ لاد دیا تھا ۔ہر وقت چنتا کھاۓ رہتی تھی کہ کہیں اونچ نیچ نہ ہوجاۓ زندگی میں بھی کبھی آپ کے باپ دادا سے دھوکہ نہیں کیا تھا ۔
آپ کی وفاداری کا میں بچپن سے ھی قائل ہوں ۔ہیبت خان نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔
یہ سب آپ کی محبت ہے ۔”منشی فیض رسول ” گاڑی حویلی میں داخل کرتے ہوۓ بولا ۔
گاؤں میں ہیبت خان اور اس کی فیملی کی واپسی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی ۔سب لوگ اس کا استقبال کرنے کی غرض سے اس کی حویلی پر جمع تھے ۔عین اس وقت جب گاڑی حویلی میں داخل ہوئی سب لوگ گاڑی کے آلے دوالے (چار سو ) پھیل گئے تھے ہیبت خان اور اس کی فیملی جب گاڑی سے باہر نکلے تو گاؤں والوں نے ان پر پھولوں کی پتیوں کی برسات کردی ۔ہیبت خان گاؤں والوں کی چاہت اور محبت کا گرویدہ ہوکر رہ گیا تھا ۔اس نے سب کا شکریہ ادا کیا ۔گاؤں والے سارے یکے بعد دیگرے واپس لوٹ گئے تھے ۔
شام کے دهند لکوں نے جب ہر شے کو اپنی آغوش میں بهرنا شروع کردیا تو جنوب کی جانب سے گیھرے سرخ بادلوں نے اٹھنا شروع کردیا ۔گہری تاریکی کے باعث بادلوں کی رنگت کا اندازہ لگانا نا ممکن تھا بادل خاموشی سے نیلے فلك پر چھارہے تھے ۔جیسے جیسے کچھوے کی رفتار سے بادل چھا رہے تھے ۔ویسے ویسے ماحول میں بےچینی اور گھبراہٹ اور حبس بڑھنا شروع ہوگئی تھی ۔حبس جیسے جیسے بڑھ رہی تھی ہر کس و ناکس مضطرب ہونے لگا تھا ۔
حبس بےجا کی وجہ سے لوگ گھروں سے نکلنے یا چھتوں پر چڑھنے پر مجبور ہوگئے تھے مگر کوئی فرق محسوس نہ ہوا تھا ۔سب کی حیرت ہویدا تھی کہ نجانے کیوں آج ماحول میں اتنی حبس بڑھ چکی تھی ۔تبھی یک لخت موسلہ دھار بارش شروع ہوگئی یہ دیکھ کر تو سب کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی کہ بارش میں پانی کے قطروں کی بجاے خون کی بوندیں اور لوتھڑے گررہے تھے ۔جس جس نے بھی یہ منظر دیکھا تو اسی وقت پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوگیا ۔استغفار کا ورد شروع ہوگیا تھا ۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ آسمان سے خون گرنے کی وجہ کیا ہے ؟
دوسری طرف سفر کی تھکاوٹ کے باعث ہیبت خان اور اس کی فیملی خواب خرغوش کے مزے لوٹنے لگے لیکن انہیں سوۓ ابھی تھوڑی ھی دیر بیتی ہوگی کہ یک دم سکوت زدہ فضا میں دلخراش چیخیں گونج اٹھیں یوں لگ رہا تھا جیسے ایک ساتھ درجنوں لوگ چیخ پکار کررہے ہوں ۔ہیبت خان اور اس کی ساری فیملی سہم گئے ۔ہیبت خان کے بچے کچھ زیادہ ھی خوفزدہ ہوگئے تھے ۔ہیبت خان نے منشی فیض رسول کو بلوالیا اور ان چیخوں کے بارے میں دريافت کیا مگر وہ کچھ جانتا ہوتا تو اسے کچھ بتاتا ۔
معذرت چاہتا ہوں سرکار ۔”منشی فیض رسول بے چارگی کے عالَم میں بولا "پوری حویلی چھان ماری ہے لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آوازیں حویلی کے کس حصّے سے آرہی ہیں۔نہ ہی یہ پتہ چل رہا ہے کہ چیخ کون رہا ہے؟
منشی فیض رسول کی بات سن کر ہیبت خان اور اس کی فیملی حیران رہ گئے ۔
تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ” ہیبت خان نے منشی فیض رسول کو حیران کن اكهیوں سے گھورتے ہوۓ پوچھا "جلد سے جلد مجہے وضاحت چاہیے ۔
ہیبت خان کا لہجہ تحکمانہ لیکن حیرت والا تھا۔ اسے منشی فیض رسول کی ذہنی حالت پر حیرت ہورہی تھی۔ ہیبت خان کا حکم سنتے ساتھ ہی منشی فیض رسول نے مڑنا چاہا ہی تھا کہ یک لخت آوازیں آنا بند ہوگئیں۔
تم جاسکتے ہو لیکن یاد رکھنا ایک تو اب کوئی خلل برداشت نہیں کروں گا دوسرا اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرواؤ مجہے صبح وضاحت چاہیے ۔
منشی فیض رسول منہ سے تو کچھ نہ بولا بس سر ہاں میں ہلاتا ہوا چپ چاپ دبے قدموں واپس لوٹ آیا۔
مجہے لگتا ہے کہ یہ بڈھا عقل سے پیدل ہے۔”مونا خان لیٹتے ہوۓ بولی۔”
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ہیبت خان نے منشی فیض رسول کی حمایت میں کہا ۔
کیا یہ حیرت زدہ بات نہیں ہے کہ ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہو اور حویلی کا خاص بندہ بونگوں کے سے جواب دے۔مونا خان بولی۔
چھوڑو اس بات کو سوجاؤ۔ہیبت خان لاجواب ہوکر بولا۔
بچوں کو بھی سلاؤ ایسی باتوں سے بچوں کے ذہن پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔
مونا خان منہ سے تو کچھ نہ بولی لیکن خوف کی ایک سرد لہر اس کے پورے شریر میں سرایت کر چکی تھی۔اس نے بچوں کو ساتھ لٹا لیا تھا۔ لیکن یوں لگتا تھا جیسے نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور ہوچکی ہے۔ اس کی چٹھی حس اسے انجانے ان دیکھے خطروں سے آگاہ کررہی تھی۔بے شک جس ماحول کے وہ عادی تھے ۔وہاں ان باتوں کو تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔بلکہ ذہنی فتور تصور کیا جاتا۔لیکن جو کچھ بھی تھا اس نے مونا خان کو ضرور سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
منشی فیض رسول کے ساتھ مل کر روزانہ ہیبت خان نے اپنی زمینوں کا چکر لگانا شروع کردیا تھا۔بچوں کو تین ماہ کی چھٹیاں تھیں۔اور اس بار اس نے یہ چھٹیاں اپنے گاؤں میں گزرنے کا ارادہ بنایا تھا۔ہر طرف هريالی ہی هريالی تھی۔منشی فیض رسول کی ایمانداری اور محنت کا ہیبت خان مزید گرویدہ ہوکر رہ گیا تھا۔منشی فیض رسول دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا تھا۔زمینیں سونا اگل رہی تھیں۔اس کے علاوہ ہر طرف قد آور درخت دکھائی دے رہے تھے۔
انھہی درختوں میں ایک بیر کا درخت بھی تھا جس کی شاخیں پھلوں سے لدی اور جھکی ہوئی تھیں۔منشی فیض رسول اور ہیبت خان دونوں چلتے ہوۓ اس درخت تک جا پھنچے۔
سرکار اور اس درخت کا پھل بہت میٹھا اور رسیلا ہے۔منشی فیض رسول نے بتایا بتایا تو ہیبت خان نے درخت بغور دیکھا۔پھل دار درختوں کے پھل وقتاً فوقتاً گاؤں والوں میں تقسیم کرواتا رہتا ہوں غرباء میں اناج بھی تقسیم کرواتا رہتا ہوں۔ ہیبت خان نے ہونٹ بھینچتے ہوۓ خوشی سے کہا۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔اللّه پاک رزق میں برکت پیدا کرتے ہیں۔ویسے بھی یہ ہماری رعایا ہے اگر ہم نے ان خیال نہیں رکھنا تو کس نے رکھنا ہے اگر ہم ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو ہم سے بھی پوچھ گچھ ہوگی۔جس قدر ممکن ہو گاؤں کے ضرورت مند لوگوں کی ہر ضرورت پوری کیا کرو یہی نہیں گاؤں سے باہر کا بھی کوئی آجاۓ تو کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔
ایسا ہی ہوگا سرکار۔ "منشی نے جواب دیا۔”
ہیبت خان نے درخت کی ایک لٹکی ہوئی شاخ کو پکڑ کر اس سے ایک موٹا تازہ بیر توڑا لیکن بیر توڑنے کی دیر تھی کہ اگلا منظر دیکھ کر ہیبت خان سمیت منشی فیض رسول بھی حیرت کےسمندر میں غوطہ زن ہوکر رہ گیا۔ جس ٹھنی سے بیر توڑا گیا تھا اس جگہ سے خون کی بوندیں ٹپكنا شروع ہوگئی تھیں۔ ہیبت خان نے حیران کن اکھیوں سے منشی فیض رسول کو دیکھا۔اور ہاتھ میں پکڑا ہوا بیر سراعت سے ایک طرف پھینک دیا۔منشی فیض رسول سرعت سے ہیبت خان کی طرف بڑھا۔دوسرے ہی لمحے یوں لگا جیسے موسلہ دھار بارش شروع ہوگئی ہے۔بارش کیا تھی خون کی بوندیں پورے درخت سے ٹپک رہی تھیں۔ہیبت خان اور منشی فیض رسول دونوں ہی پوری طرح سے خونی بارش کی ذد میں آچکے تھے۔ہر طرف خون ہی خون پھیلتا جارہا تھا۔بڑی ہی مشکل سے ایک دوسرے سہارا دیتے ہوۓ دونوں اس بیر کے درخت کے نیچے سے نکلے۔لیکن یہ دیکھ کر ان کی حیرت ہویدا رہ گئی کہ ان کے درخت کے نیچے نکلتے ساتھ ہی خونی بارش یک دم تھم گئی۔یوں ہی نہیں ان کپڑے اور جسم یک دم یوں خشک اور صاف ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ دونوں کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔
یہ سب کیا ہورہا ہے۔” ہیبت خان نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔”
ہیبت خان پوری طرح سے خوف کی ذد میں آچکا تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ بس وہ متواتر منشی فیض رسول کو تکے جارہا تھا۔ منشی فیض رسول خود انگشت بدنداں رہ گیا تھا کہ یہ سب ہو کیا گیا تھا۔
معافی چاہتا ہوں سرکار میں خود کچھ بھی نہیںں جانتا۔”منشی فیض رسول کے لہجے سے بے بسی اور بے چارگی عیاں تھی۔”
لیکن حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ سب کالے جادو کا کوئی کھیل ہے۔ممکن ہے کوئی آپ کے جاہ و جلال اور مرتبے سے جیلس ہوتا ہو۔ آپ کی کامیابی اس کے دل پر نشتر کے جیسے پڑتی ہو۔اور اس نے آپ پر زبردست کالا جادو کروا دیا ہو۔
یہ سب بکواس ہے۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟”ہیبت خان غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوۓ بولا۔”
سرکار ایسی باتیں نہ کریں۔”منشی فیض رسول نے تڑپ کر کہا۔ ایسے حالات و واقعات کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔حالات یہی بتا رہے ہیں دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔کسی اللّه والے سے ضرور حساب کتاب کروا لینا چاہیے۔لگتا ہے واپس آکر میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔”ہیبت خان نے بے بسی سے کہا۔میری فیملی کے اندر خوف بڑھتا جارہا ہے۔مجہے اپنی فیملی بہت پیاری ہے۔انہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔اگر مزید ایسا کوئی واقعہ ہوا تو میرے لئے یہاں رکنا نا ممکن ہوجاۓ گا۔
منشی فیض رسول کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ تھا۔اس لئے اس نے چپ ہی رکھی۔دونوں چلتے ہوۓ گاڑی تک پہنچ گئے تھے۔ہیبت خان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبهالی جبکہ منشی فیض رسول اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر برجمان ہوگیا۔ہیبت خان نے گاڑی حویلی کی اوڑھ موڑی اور اسے گیر میں ڈال دی۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کرے تو کیا کرے ۔۔۔۔؟
رات کا نجانے کونسا پہر تھا۔ہر کوئی گھوڑے بیچ کر سورہا تھا۔ہر طرف ہو کا عالَم تھا۔ہیبت خان کی حویلی میں بھی سکوت طاری تھا۔سارے مکین گھوڑے بیچ کر سورہے تھے۔ہیبت خان اور اس کی بیگم مونا خان الگ جبکہ تینوں بچے علیحدہ کمرے میں سوتے تھے۔
تینوں بھائی گہری نیند سورہے تھے۔جب یکبارگی زھیر خان کی آنکھ کھٹکے سے کھل گئی تھی۔وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔کمرے کے اندر زیرو کے بلب کی مدهم سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔جو ہر شے مکمل واضح تو نہیں کررہی تھیں مگر اتنا تو ضرور تھا کہ چیز کی پہچان بغور دیکھنے سے کی جاسکتی تھی۔زھیر خان ہمہ تن گوش ہوگیا۔آواز اٹیج باتھ کے اندر سے آرہی تھی۔باتھ کے اندر برے ٹب میں پانی گر رہا تھا۔اور یوں لگ رہا تھا۔جیسے کوئی اندر نہا رہا ہو۔زھیر خان نے اپنے دونوں بھائیوں کی طرف دیکھا۔تو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیا۔ کیونکہ اس کے دونوں بھائی اس کے ساتھ بیڈ پر دراز تھے۔زھیر خان کی
حیرت ہویدا رہ گئی ۔اس کی چھٹی حس اسے خبردار کرنے لگ گئی کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر کمرے کے دروازے کو دیکھا لیکن یہ دیکھ کر اس کی حیرت بڑھ گئی کہ دروازے کے اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی۔
زھیر خان بنا آواز پیدا کیے اپنی جگہ سے اٹھا اور باتھ روم کی طرف بڑھا باتھ روم کے دروازے کے پاس جاکر اس نے کان لگا کر سننا چاہا لیکن کسی نتیجہ خیز مرحلے پر نہ پہنچ سکا باتھ روم کے دروازے کے اندر سے چٹخنی نہیں لگی ہوئی تھی۔ زھیر خان نے دروازے پر ہاتھ کا دباو بڑھایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔سامنے ٹب کے اندر پیہم پانی گر رہا تھا۔لیکن نہانے والا کہیں نہیں دکھائی دے رہا تھا۔زھیر خان باتھ روم کے اندر داخل ہوگیا اندر کوئی ہوتا تو اسے دکھائی دیتا۔
زھیر خان نے پانی بند کیا اور باہر نکلنے کے لئے جیسے ہی مڑا تھا۔
کسی نے اس کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا زھیر خان نے سہم کر فوراً پیچھے دیکھا لیکن یہ دیکھ کر گنگ رہ گیا کہ پیچھے کوئی بھی نہیں تھا. قبل اس کے کہ وہ واپس پلٹتا کسی نے یک لخت اس کی گردن سے پکڑا اور نیچے دھکیل دیا۔زھیر خان اس افتاد کے لئے قطعاً تیار نہ تھا۔ زھیر خان لڑکھڑایا اور گھٹنوں کے بل زمین پر گرتا چلا گیا۔ خود کو آہنی شکنجوں سے نجات دلانے کے لئے زھیر خان ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اس کی گردن پر دباؤ بڑھتا جارہا تھا ۔ وہ چیخنا چلانا چاہتا تھا کہ مدد کے لئے اپنے بھائیوں کو بلاے لیکن اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی زبان تالو سے چپک گئی ہو۔
حیرت و خوف کے مارے اس کے حواس باختہ ہوگئے تھے۔ یک دم اس کے سر کو پکڑ کر کسی نے سرعت سے پانی سے بھرے ٹب میں ڈبودیا۔ زھیر خان ماہی آب و تاب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اس کے ناک منہ میں پانی بھر چکا تھا۔ سانس تک لینا دشوار ہوچکا تھا۔ موت کی پرچھائیاں اس پر سایہ فگن ہوچکی تھیں۔ اس کی ہر کوشش دھیرے دھیرے ناکام پڑتی جارہی تھی۔ زندگی اور موت کے درمیان وہ پنڈولیم کی طرح لٹک کر رہ گیا تھا۔ اسی کشمکش میں اس کی ہر سعی ناکام پڑ گئی اور زھیر خان لقمہ اجل ہوگیا۔موت زندگی پر حاوی آگئی زھیر خان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔زھیر خان کا بے جان جسم لڑھک گیا۔
ایک سماعت شکن چیخ نے پوری حویلی میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا تھا۔ چیخ کسی اور کی نہیں بلکہ راشد خان کی تھی راشد اٹھ کر باتھ گیا تو اگلا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین كهسك گئی۔ نہ چاھتے ہوۓ بھی ایک سماعت شکن چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ حیدر خان جو کہ اب تک خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا راشد خان کی چیخ پر حیدر خان بھی ہڑ بڑا کر اٹھ گیا اور وہ بھی فوراً باتھ روم کی جانب بڑھا۔ اگلا منظر دیکھ کر اس کے ہاتھوں کے بھی طوطے اڑ گئے۔ دوسری طرف چیخ کی آواز سن کر ہیبت خان اور مونا خان بھی ان کے کمرے کی اوڑھ بڑھے اور زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔
دونوں بھائیوں کے رونے کی آوازیں پیہم ان کی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔ راشد خان تو ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر دھواں دھار روے جارہا تھا۔ حیدر خان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلتے ساتھ ہی ہیبت خان اور مونا کے علاوہ اکٹھے ہوجانے والے ملازم بھی اندر داخل ہوگئے۔
ابو ۔” حیدر خان نے روتے ہوۓ باتھ روم کی طرف اشارہ کیا۔” بھیا
حیدر خان سے بولا نہیں جارہا تھا۔دونوں میاں بیوی جب باتھ روم کی طرف بڑھے تو اگلا منظر دیکھ کر ان کی اپر کا سانس اپر اور نیچے کا سانس نیچے اٹک کر رہ گیا۔ جو منظر ان کے سامنے تھا اسے دیکھ کر انہیں یقین نہیں ہورہا تھا۔ اتنی دیر میں منشی فیض رسول بھی پہنچ گیا تھا۔اس نے آگے بڑھ کر ہیبت خان کو دلاسہ دیا جبکہ ملازموں کو فوراً حکم دے کر زھیر خان کے جسد خاکی کو بیڈ پر لٹایا گیا۔پلک جهپكتے ہی پوری حویلی میں ماتم شروع ہوگیا تھا۔ مونا خان کا رو رو کر برا حال تھا۔حیدر خان اور راشد خان بھی دھواں دار رو رہے تھے۔
زھیر خان کی موت کی خبر پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ گاؤں والے یکے بعد دیگرے اکٹھا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ پورا گاؤں جہاں ہیبت خان اور اس کی فیملی کے غم میں شریک تھاوہیں حیران و ششدر بھی تھا کہ زھیر خان کی موت کیسے واقع ہوگئی یہ معمہ کسی طور حل نہیں ہوپا رہا تھا۔ رو رو کر سب کا برا حال تھا۔
لیکن کسی نے سچ ہی کہا تھا مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مر جاتا بلکہ یہ ایک دستور ہے۔انسان ہمہ وقت آنکھوں سے دکھائی دینے والی حقیقتوں کو نہیں مانتا۔ایک ماں بچے سے اتنی محبت کرتی ہے کہ وقت آنے پر اپنیاولاد کی خاطر سولی پر بھی لٹکنے سے گریز نہیں کرتی لیکن جب اس کی اولاد لقمہ اجل ہوجاۓ تو اس کی محبت ختم ہوجاتی ہے۔ کیوںکہ وہ اس کے ساتھ قبر میں نہیں جاتی۔ دنیاوی رشتہ دنیا میں ہی کھو جاتا ہے۔بس ایک یاد بن جاتا ہے ایسے ہی ایک باپ جو تا حیات اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگاۓ پھرتا ہے۔اپنی اولاد کے ساتھ قبر میں کیوں نہیں اترتا بھائی جو بھائیوں کی جان ہوتے ہیں۔ ان کی محبت دنیا میں رہ جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بہنیں ماؤں سے زیادہ اپنے بھائیوں سے محبت کرتی ہیں۔ لیکن قبر میں وہ بھی ساتھ نہیں جاتی۔ تو کیوں ہم حقیقتوں کو سمجھنے سے انکاری ہیں۔ کہ یہ س سب دنیاوی رشتے ہیں۔ اصل رشتہ تو اللّه اور اس کے پیارے حبیب کا ہے۔جس نے بھی اللّه اور اس کے پیارے حبیب سے پکا رشتہ بنا لیا اس کے لئے دنیا بھی بہتر اور آخرت بھی۔ ماں باپ بہن بھائی کے درمیان رہنے والا رشتہ جب مر جاتا ہے تو اسے منوں مٹی تلے دفن کرنے کے بعد کوئی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھتا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ قبرستان کو روحوں کا بسیرا قرار دے دیا جاتا ہے۔کیا وہ روحیں ہمارے اپنوں کی نہیں ہوتیں جو کبھی ہمارے درمیاں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟
ہم لوگ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے نجانے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ اولاد کا بہتر مستقبل اچھا گھر ، کام اور اچھا رشتہ نہیں ہے۔بلکہ بہتر مستقبل مرنے کے بعد کا ہے۔لیکن موت کسے یاد ہے۔قبرستان جایں یا کسی کی فوتگی پر جایں تو مومن بن جاتے ہیں جب کہ بعد میں رات گئی بات گئی والی بات بن جاتی ہے۔
آنسو بہت بے رحم ہوتے ہیں۔جب بہتے ہیں تو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔کبھی کبھی تو انسان کا ہمّت و حوصلہ تک بہا کر لے جاتے ہیں۔لیکن جب دل کاغبار نکل جاتا ہے تو انسان کی کیفیت بدل جاتی ہے۔اسے سکون ميسر آجاتا ہے۔صبر بھی مل جاتا ہے۔لیکن کچھ گهاؤ ایسے ہوتے ہیں جو دل و دماغ پر چھید کر کہ رکھ دیتے ہیں اور کبھی نہیں بھرتے۔
ہیبت خان اور اس کی فیملی رونے دھونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے تھے۔مجرم کافی شاطر تھا جسے بند دروازے بھی اندر داخل ہونے سے نہ روک پاۓ۔ناجانے وہ کن کونوں کھدروں سے اندر داخل ہوا تھا اور زھیر خان کو ابدی نیند سلا کر چلتا بنا تھا۔زھیر خان کو سینکٹروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا تھا۔پلک جهپكتے میں ہیبت خان کے گھرانے کو مصیبتوں نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ اسے رو رو کر غصہ آرہا تھا کہ وہ اپنی فیملی کو یہاں کیوں لے کر آیا تھا لیکن اب اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہوجاۓ وہ مجرم کو ابدی نیند سلاے بنا یہاں سے نہیں جاۓ گا۔ مجرم نے بے دردی ابدی نیند سلایا تھا۔ ہیبت خان کا بس نہیں چل رہا تھا وگرنہ ایک بار مجرم سامنے آجاتا تو وہ اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتا۔
یہ گھر کتنا منحوس ہے میرے لخت جگر کو نگل گیا۔ "مونا خان نے روتے ہوئے کہا۔”
اس وقت سب ٹی وی لااونج میں جمع تھے۔ہر کس و ناکس کی آنکھوں سے گوہر ہاے ابدار بہہ رہے تھے۔ جوان بیٹے کے غم نے ہیبت خان اور اس کی اہلیہ کو نڈھال کر کے رکھ دیا تھا۔ راشد خان اور حیدر خان کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔
"مما بھیا کو آخر کس نے مارا ہے۔
راشد خان نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔”
اندر سے تو چٹخنی لگی ہوئی تھی۔ہم دونوں بھائی بھی سورہے تھے۔ آخر مجرم کہاں سے آیا۔؟
ہمیں واپس چلے جانا چاہیے ابو۔ "حیدر خان نے ہیبت خان ” کو مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
یہاں آپ کے دشمن ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ جو ہمیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔
کچھ نہیں ہوگا بیٹا ہم اس طرح کیسے تمھارے بھائی
کے مجرم کو زندہ چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔؟ ہیبت خان گویا ہوا ۔۔
اس طرح تو مجرم کا ھوصلہ مزید بڑھ جاۓ گا۔وہ ہمیں بزدل سمجھے گا ۔اور یوں وہ کوئی بڑا وار کرنے سے بھی گريز نہیں کرے گا۔میں اپنے لخت جگر کا اس سے انتقام لئے بنا جانے والا نہیں ہوں۔
ممکن ہے کوئی آپ کے جاہو جلال سے جيلس ہوتا ہو اور آپ کو نیچا دکھانے یا آپ کا سب کچھ ھڑپ کرنے کی وجہ سے یہ سب کررہا ہو۔؟ مونا خان نے سوال داغا تو ہیبت خان سوچ میں مبتلا ہوگیا۔
اسے منشی فیض رسول کے الفاظ یاد آگۓ جب اس نے بیر توڑا تھا اور درخت سے خون کی بارش شروع ہوگئی تھی تو منشی فیض رسول نے کہا تھا کہ ممکن ہے کوئی آپ کے جاہو جلال سے جيلس ہورہا ہو۔
ممکن ہے۔”ہیبت خان نے مختصر سا جواب دیا۔”
"اپنے دشمن کو پہچانے وگرنہ وہ گاہے بگاہے وار کرتا رہے گے۔ اور نقصان کرتا رہے گا۔”
مونا خان بولی۔
"میں مزید کچھ بھی برداشت نہیں کر پاؤں گا ۔پہلے ہی کلیجہ چھلنی ہوچکا ہے ۔
اتنا کہہ کر مونا خان سسکیاں بھرنے لگیں۔ ہیبت خان کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کے وہ جلد اپنے دشمن کو پکڑ کر ایسی موت مارے گا کہ دوبارہ کسی میں اس سے ٹکر لینے کی ہمت نہیں ہوگی۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ منشی فیض رسول کی بات پر عمل کرتے ہوئے کسی سيانے بندے سے صلاح مشورہ کرے اور حساب کتاب کروا کہ اپنے دشمن کی پہچان کرے۔
تمھارے گھر کے اندر مافوق الفطرت مخلوق کا بسیرا ہے۔
"محمّد حنیف بولا "
ہیبت خان نے منشی فیض رسول سے بات کی تھی وہ اسے کسی عامل با عمل کے پاس لے کے جاۓ۔تھوڑی تگ و دو کے بعد انہیں محمّد حنیف کا پتہ چلا۔محمّد حنیف ان کے گاؤں سے تین گاؤں چھوڑ کر 169 شمالی میں رہتا تھا۔محمّد حنیف کے پاس نوری علم تھا۔
جب ہیبت خان نے محمّد حنیف کو ساری بات سے آگاہ کیا تو محمّد حنیف نے تھوڑی دیر آنکھیں بند کر کے ورد کیا اور پھر جو اسے بتایا اسے سن کر ہیبت خان اور منشی فیض رسول دونوں کے پاؤں تلے زمین كهسك گئی تھی ہیبت خان ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا وہ سمجھتا تھا یہ سب فرضی اور ڈرامائی حد تک باتیں ہیں ۔محمّد حنیف کی بات نے اسے حیران کردیا تھا۔
یہ کیسے ممکن ہے ۔۔
اس سائنسی دور میں ان باتوں کا کیسے یقین کیا جاسکتا ہے ۔؟
مجہے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی سائنسی دور کا مخلوقات سے کیا تعلق۔؟
محمّد حنیف ہونٹ بھینچتے ہوۓ بولا۔
میرا مطلب ہے سائنس ایسی مخلوق کی موجودگی کو نہیں مانتی ۔”ہیبت خان نے وضاحت کی ۔۔
ویسے کتنی حیرت کی بات ہے۔ حنیف محمّد افسرہ لہجے میں بولا ۔
ہم لوگ نام کے ہی مسلمان رہ گے ہیں جب اللّه تعالی اپنی کتاب میں جن و انس کا تزکرہ فرما رہے ہیں تو کیا سائنس ہماری مقدس کتاب قرآن پاک سے زیادہ افضل ہوگئی ہے۔ ؟
میرے کہنے کا مطلب تھا ۔ہیبت خان نے بولنا چاہا لیکن”محمّد حنیف نے اسے ٹوک دیا۔
آپ کے گھر میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں ارواح کا بسیرا ہے ۔
محمّد حنیف نے موضوع بدلا ۔۔
تو ان سے کیسے جان چھڑوائی جا سکتی ہے ؟”ہیبت خان نے پوچھا۔”
آج رات میں ایک وظیفہ کروں گا۔”محمّد حنیف گویا ہوا۔”
آپ لوگ مجہے صبح لینے آجانا ضرور کوئی نہ کوئی حل نکل جاۓ گا۔
پچھلی رات کا وقت تھا۔ہر کس و ناکس گھوڑے بیچ کر سورہا تھا۔مونا خان اور ہیبت خان ایک ہی کمرے میں گہری نیند سورہے تھے يكدم مونا خان کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے دائیں پاؤں کی ہتھیلی پر کسی نے زور سے گدگدی کی ہو ۔