وہ اکثر کہتا تھا کہ اس کو اس طرح ملنا پسند نہیں ہے ۔ اور جلد وہ میری امّی کو میرے رشتے کے لئے بھیجے گا ۔بس اس کی بڑی
بہن کی شادی ہوجائے یا ان کا کہیں رشتہ طے ہوجائے ۔ مگر ایسا کبھی نہ ہو سکا ایک دن ابّا معمول مے مطابق دکان جانے کے لیئے تیار
ہونے لگے تو چکرا کر بیٹھ گئے میں ان کو ناشتہ دے رہی تھی ۔
کیا ہو ابّا ؟ میں نے گھبرا کر پوچھا ۔
’’ آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے ؟
’‘ کچھ نہیں بیٹا ‘‘ انہوں نے جواب دیا ۔‘‘ رات کو ٹھیک سے سو نہیں پایا ۔شاید اس کا اثر ہے۔آپ اج دکان نہ جائیں ۔ آرام کریں۔ راشد
بھائی نے بھی کہا مگر ابا نے ہماری ایک نہ سنی اور دونوں دکان چلے گئے ۔ میں ان کے جانے کے بعد گھر کے کاموں میں لگ گئی ۔
کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی اور میرے اندازے کے مطابق جمشید باہر کھڑا تھا ۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر اگیا ۔
میں اس کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئی کیونکہ وہ کہیں دنوں سے نہیں ملا تھا اور ہماری کوئی بات نہیں ہوسکی تھی ۔حمیدہ پھوپھو جب معمول سو چکی
تھیں ۔ میں جمشید کو اپنے کمرے میں لے آئی ۔ اور ہم آہستہ باتوں میں مشغول ہوگئے تھے۔
کہ اچانک ۔۔۔ تیز دستک نے مجھے چونکا دیا ۔ اس وقت ۔۔۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے ؟ میں جمشید کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے
دروازے کی طرف آئی۔ سے جھانکتے ہی میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔
راشد بھائی فکر مند چہرہ لیئے دروازے پر کھڑے تھے اور ابّا پیچھے تانگے میں تقریباً لیٹے ہوئے تھے ۔ ’’یااللہ ۔۔۔ اب کیا کروں ‘‘ میں
گھبراہٹ سے پاگل ہوگئی۔
جلدی سے جمشید کو ساری صورتِ حال بتائی ۔ وہ بھی میر ی طرح ڈر گیا ۔کیا کروں۔۔؟ کوئی راستہ دوسرا موجود نہیں تھا جہاں سے جمشید کو
باہر نکال دیتی چھت موجود تھی کسی باؤنڈری ان کے بغیر ۔ وہاں موجود انسان نیچے والوں کو صاف نظر آجاتا۔
با ہر سے راشد بھائی مستقل دروازہ بجاررہے تھے۔
سخت گھبراہٹ میں ایک خیال میرے ذہن میں ٹکرایا۔
کانپتے ہاتھوں سے میں نے تہہ خانہ کی کنڈی کھولی ۔
’’ دیکھو بس جمشید بس تھوڑی دیر ۔۔جیسے ہی ماحول سازگار ہوگا میں تمہیں نکال لوں گی‘‘ میں اپنی جلدی میں تھی کہ میں نے جمشید کے
تاثرات تک نہیں دیکھے بس اندر دھکیل کر باہر سے کنڈی لگادی۔
’’ وہ میں غسل خانہ میں تھی ‘‘۔ راشد بھائی کے پوچھنے پر میں نے بتایا ۔
’’ ابا کو کیا ہوا ہے؟‘‘
’’پتا نہیں دکان پر اچانک گر گئے ‘‘۔ انہوں نے بتایا ۔ وہ اور تانگے والا ابّا کو اٹھا کر اندر لے آئے اور بستر پر لٹا دیا ۔
’’ میں حکیم صاحب کو لے کر آتا ہوں‘‘۔ وہ باہر نکل گئے۔
’’شکر ہے‘‘ میں تیزی سے اندر کی ظرف مڑی ہی تھی کی کہ دروازے سے گلی کے دو حضرات اندر آگئے۔ ابّا کے پاس کمرے میں بیٹھ گئے۔
’’اف‘ ‘ میری سانس رک گئی ۔ اب تو جمشید کو جلدی نکالنا نا ناممکن تھا۔
وہ سارا دن گزرگیا ۔ راشد بھائی حکیم کو لے کر آئے ابّا کو دوا دی گئی ۔پھر وہ ابّا کے پاس ہی بیٹھ گئے ۔
حمیدہ پھوپھو بھی اٹھ گئیں ۔ پورے گھر میں چہل پہل تھی۔ درحقیقت میر سینے میں سانس گھٹ رہی تھی ۔ جس تہہ خانہ میں چند منٹ نہ
گزارے جاسکتے تھے وہاں اتنے گھنٹے ۔۔۔؟
خدا خدا کر کے شام ہوگئی پھر رات۔۔۔
ابّا کو کھانا کھلا کر سلادیا۔ راشد بھائی سارے دن کے تھکے ہوئے ۔
بیٹھتے ہی سوگئے ۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا ۔
اور پھر ۔۔۔ چپکے سے اپنے کمرے سے نکل آئی ۔
میرے ہاتھ میں موم بتی تھی۔ اس زمانے میں پورے گھر میں چند ہی بلب ہوتے تھے ۔
’’ تہہ خانہ میں تو دن میں روشنی نہ ہوتی تھی۔ اس وقت تو تہہ خانہ کا کیا عالم ہوگا ؟‘‘
ان خوفناک خیالوں میں گھر ی میں آہستہ آہستہ تہہ خانہ کی طرف بڑھ رہی تھی ۔
’’ بے چارہ خوف کے مارے بے ہوش نہ ہوگیا ہو ‘‘۔۔۔ میں نے سوچا۔
آہستہ سے میں نے تہہ خانے کی زنگ آلود کنڈی کھولی ۔
’’ جمشید ۔۔۔جمشید۔۔۔ جلدی آؤ۔۔۔ باہر ۔۔۔‘‘ میں نے آواز دی ۔
مگر میری آواز تہہ خانے کی دیواروں سے ٹکراکر واپس آگئی ۔
’’ جمشید ۔۔۔‘‘ میں نے ذرا تیز پکارہ۔
میں نے آگے بڑھ کر موم بتی کی روشنی میں نیچے جھانکا۔
ایک۔ دو ۔ تین ۔ اور پھر نیچے تک ساری سیڑھیاں خالی پڑی تھیں ۔
’’ جمشید ۔۔۔ میری آواز کاپنے لگی ۔ میں ہمت کر کے سیڑھیاں اترنے لگی ۔ اور پہلی مرتبہ رات کے اس وقت اکیلی آخری سیڑھی تک
چلی گئی ۔ میرا پاؤ ں پانی سے ٹکرا گیا ۔
وہاں کوئی نہیں تھا ۔ تہہ خانہ بالکل خالی تھا ۔
’’ کیسے ؟ کہا ں ‘‘؟ میرا دماغ پھٹنے لگا ۔ میں نے اپنے ہاتھ سے کنڈی لاگئی اور پھر کھو لی ۔ تو پھر ۔۔۔؟
’’جمشید ‘‘ میں وہیں بیٹھ کر رونے لگی ۔ ’’تم کہاں ہو۔۔؟
’’ جمشید ‘‘۔۔۔ آنسوں میری آنکھو ں سے بہہ رہے تھے ۔
’’ اوھ ‘‘ میں چونک گئی ۔
میں نے آنسوں پونچھے اگر کوئی کمرے میں آگیا میرا بیٹا یا بہو تو اس وقت رونے کا کیا سبب بتاؤں گی ۔
۴۰ سال گزرگئے ۔ وہ بھیانک ، پر اسرار واقعہ اس طرح ، پوری طرح مجھے یا د ہے مجھے اکثر تڑپاتا ہے۔
جمشید کا اس دن کے بعد کہیں کوئی پتہ نہ چلا ۔ اس کی امّی اس کے گھر والے اس کی گم شدگی جیسے پاگل ہوگئے تھے ۔
پاگل تو میں بھی ہوگئی تھی ۔ مگر میں اپنا دکھ کسی سے نہیں سکتی تھی ۔ اکثر گھر والوں کی محدم موجودگی میں تہہ خانے کا دروازہ کھول کر جمشید کو پکارتی
۔ مگر کبھی کوئی جواب نہ آیا۔
ہاں لیکن۔۔۔ اکثر خواب میں مجھے جمشید جواب دیتا ۔
’’ ہاہید ‘‘ ۔۔۔ اس کی آواز ، اُس کی آواز کرب میں ڈوبی ہوتی۔ ہمیشہ ، اس کی آواز میں سخت تکلیف ہوتی ۔
اس کی تکلیف میں ڈوبی آواز نے مجھے کبھی سکون سے نہ رہنے دیا ۔ میری اس واقع کے چند سال بعد شادی ہوگئی ۔
خدا نے مجھے اولا د کی نعمت سے بھی نوازا ۔ شوہر بھی بہت اچھے ملے مگر ایک شدید کسک نے مجھے تمام عمر چین نہ لینے دیا ۔
ابّا کے انتقال کے چند سالوں بعد راشد بھائی نے اچھے علاقے میں دوسرا گھر لے لیا اور اس میں شفٹ ہوگئے
میں شادی کے بعد دوسرے شہر آگئی ۔ پھر کبھی اس گھر اور اس منحوس تہہ خانے کو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا ۔
مگر ۔۔۔ نظر تو مجھے وہ اکثر آتا ہے نیند میں ۔ اسی طرح ، اتنا ہی بلکہ اس کی کہیں زیادہ پر اسرار ۔۔۔
’’ تہہ خانے ایک شدید غلطی کی یہ سزا کب ختم ہوگیَ؟‘‘
[…] پارٹ 2 کے لیے یہاں کِلک کریں […]