میں نے اس سے پوچھا، لاڈبل اب کہاں ہے؟”
اس نے بتایا، لاڈبل کی جان تو
بچ گئی لیکن اس حادثے نے اس کا ذہنی توازن درہم برہم کر دیا تھا۔ بعض اوقات وہ راتوں کو سوتے سوتے چونک کر چیخنے لگا تھا۔ بعد ازاں اسے جبری رخصت پر اپنے وطن واپس بھیج دیا گیا اور اب مجھے کچھ علم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا۔ "
جب میں نے ڈاکٹر سے اپنے اس شبے کا اظہار کیا کہ کیا ہمیں لاڈبل کی روایت پر یقین کرلینا چاہے تو وہ کہنے لگا، مجھے اس حادثے کی صداقت پر اس طرح یقین ہے جیسے کل سورج مشرق سے طلوع ہو گا۔ وہ جھوٹ اور گپ بازی کا عادی نہیں تھا اور اس نے مجھے بعد میں کئی مرتبہ وہاں لے جا کر نہ صرف وہ جھونپڑی دکھائی بلکہ انسانوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں بھی دکھائی تھیں جو یقینا اب بھی وہاں موجود ہوں گی۔”
اس رات میں آرام سے نہ سو سکا اور سونے کا سوال کیا تھا؟ مجھے نیند ہی نہیں آتی بار بار یہی خیال ذہن میں گردش کر تا تھا کہ کیا واقعی آدم خور انسانوں کی کوئی نسل ہے جو آنائی کے جنگلوں میں بستی ہے یا محض لاڈبل کے فریب و تخیل کی کرشمہ سازی ہے۔ انسانی فطرت میں تجسس کا جو مادہ فطرت نے رکھ دیا ہے، وہ اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا خواہ کچھ بھی ہو میں خود اس معاملے کی تحقیق کروں گا۔
صبح جب میں نے ڈاکٹر کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو اس نے کانوں پر ہاتھ رکھے اور صاف جواب دے دیا کہ وہ اس خطرناک ترین مہم میں میرا ساتھ دینے کی حماقت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ اس نے مجھے بھی سمجھانے اور اس ارادے سے باز رکھنے کی کو شش کی، مگر میرے سر پر تو قضا کھیل رہی تھی۔ میں نے ایک نہ سنی اور اب مجھے تسلیم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر میں ڈاکٹر کی نصیحت مان کر اپنا ارادہ ترک کر دیتا تو وہ اذیت ناک حادثہ پیش نہ آتا جس کی بدولت میری زندگی اب مردوں سے بدتر ہو چکی ہے۔ کئی مرتبہ اس جان کنی سے تنگ آکر خودکشی کا ارادہ کر چکا ہوں مگر موت نہیں آتی۔ میری زندگی کے تجربات میں سے یہ وہ تجربہ ہے جسے میں شاید مرنے کے بعد بھی یادرکھوں گا۔
آج بھی تنہائی کے وحشت انگیز لمحات میں جب میں چشم تصور سے ان حالات کا جائزہ لیتا ہوں جن سے مجھے دو چار ہونا پڑا تو یقین کیجیئے کہ اپنے ہوش و حواس پر شک گزرنے لگتا ہے کہ کیا واقعی ایساممکن ہے۔ آدم خور وحشیوں کو دیکھنے اور ان سے دو دو ہاتھ کرنے کا جنون مجھ پر اس شدت سے طاری ہوا کہ بیان سے باہر ہے۔ کوئی نادیدہ اور پر اسرار قوت تھی جو کشاں کشاں مجھے شیروں کی وادی میں لے جارہی تھی۔
4
اس طویل تمہید کے بعد میں اب اصل واقعے کی طرف آتا ہوں ۔ میں نے رخصت حاصل کرنے کے لیے اپنے محکمے کے افسر اعلی کو درخواست پڈانگ بھیجی۔ پڈانگ سماٹرا کا ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ
ﺩﻓﺎﺗﺮ ﯾﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﻇﺎﮨﺮ
ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺭﺧﺼﺘﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺳﯿﺮ ﻭ ﺳﯿﺎﺣﺖ
ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮑﻦ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﮯ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮯ
ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﺗﺮﯾﻦ
ﻣﮩﻢ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ
ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﻧﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ
ﮐﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﻘﺸﮧ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﺭﮨﺒﺮ
ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﮐﺎ
ﻋﻤﻠﯽ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ۔ ﭘﯿﻠﻤﺒﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﺎﺭﯾﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺣﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮯ
ﺍﯾﮏ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﮐﮭﻮﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ، ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﺸﮯ ﺑﮩﻢ
ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍﻧﮯ ﭘﺮ
ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺭﻗﻢ ﮐﯽ ﻋﻮﺽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ
ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﯿﺎﺣﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺭﯾﻮﮞ
ﮐﻮ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﺎﮌﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﻠﻤﺒﻨﮓ ﮐﮯ
ﻣﺤﮑﻤۂ ﺳﯿﺮ ﻭ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻧﻘﺸﮯ
ﻟﯿﻨﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﯿﺎﺣﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺗﮭﺎ ﻧﮑﺴﻦ ﺍﻭﺭ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﻭﻟﯿﻢ۔ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮧ
ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﺳﯿﺮ ﻭ ﺳﯿﺎﺣﺖ ﺳﮯ
ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﭼﮭﮯ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ
ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻝ، ﻣﻠﻨﺴﺎﺭ
ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪ ﮔﮭﻞ ﻣﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻄﺮﯼ
ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﮩﻢ ﭘﺴﻨﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ
ﺑﻮﺭﯾﻨﻮ ﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﮯ ﺳﻤﺎﭨﺮﺍ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ
ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩ ﺟﻨﮕﻼﺕ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﻧﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺁﺩﻡ ﺧﻮﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻨﮧ ﺗﮑﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ
ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯽ ﺁﺩﻡ ﺧﻮﺭ
ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺒﮧ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ۔
ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ
ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﺧﻮﺏ ﻟﻄﻒ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﯿﺎﻡ ﮔﺎﮦ ﭘﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺷﻢ
ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻗﻠﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﭽﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ
ﮐﺮﮮ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﻠﺪ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﯿﮟ۔
ﮨﺎﺷﻢ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﺋﻔﻞ ﮐﮯ ﺟﻮﮨﺮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻞ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﯿﻤﮯ
ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﻗﮩﻮﮦ ﭘﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﺷﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗھ
ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺭﺳﯿﺪﮦ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻗﻮﯼ ﺍﻟﺠﺜﮧ
ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺳﺎﭨھ ﺍﻭﺭ ﺳﺘّﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﮭﯽ
لیکن کاٹھ اس قدر مضبوط تھی کہ ایک لمحہ کے لیے مجھے اس پر رشک سا آیا۔ اس کے تیور بتا رہے تھے کہ زمانے کے سرد گرم دیکھ چکا ہے۔ وہ آتے ہی میرے سامنے مودبانہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ہاشم کی طرف دیکھا۔
مالک اس کا نام بابی ہے اور یہ گائیڈ کا کام پیشے کے طور پر کر تا ہے۔
بابی مقامی زبان میں جنگلی بھینسے کو بھی کہتے ہیں، میں نے اسے اپنے نزدیک بیٹھالیا۔ قہوے کا ایک پیالہ پیش کیا اور پوچھا کہ کیا وہ آنائی کے علاقے سے بھی واقف ہے۔
بابی کی آنکھوں میں ایک نئی چمک نمودار ہوئی۔ چند لمحوں تک وہ گردن جھکائے کچھ سوچتا رہا۔ پھر آہستہ سے بولا،” صاحب! آپ وہاں نہ جائیں تو اچھا ہے۔۔۔۔۔وہاں
کیوں؟ وہاں کیا ہے ؟ تم چپ کیوں ہوگئے ؟ اگر تم وہاں نہیں جانا چاہتے تومیں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔
بابی کا چہرہ صاف غمازی کر رہا تھا کہ اس کے دل میں کوئی بات ضرور ہے جسے زبان پر لانے سے وہ ہچکچا رہا ہے۔ اور وہ بات سوائے آدم خور بلاؤں کے اور کیا ہو سکتی تھی۔ جب میں نے اصرار کیا تو بابی نے یوں زبان کھولی، “مالک! اگر آپ وہاں جانا چاہتے ہیں تو ضرور جائیں۔ کون ہے جو آپ کو روک سکتا ہے، لیکن یہ یاد رکھیے کہ شیروں کی وادی سے کوئی جان سلامت لے کر نہیں آیا۔ وہ بد روحوں اور شیطانی بلاؤں کے رہنے کی جگہ ہے جو درندوں
کے بھیس میں آکر انسانوں کو کھا جاتی ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید میں شیروں کی وادی میں جانے سے ڈرتا ہوں۔ نہیں مالک یہ بات نہیں ہے۔ مجھے تو ایک روز مرنا ہے اور موت کا وقت معین ہے۔ اگر میری موت شیر وں کی وادی میں آئے گی، اگر آسمانی دیوتاؤں نے یہ حکم دے دیا ہے کہ میں شیطانی روحوں کا شکار بنوں تو کون ہے جو دیوتاؤں کا حکم ٹال سکتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ جاؤں گا مالک۔
اس کے بعد اس نے سختی سے یوں اپنے ہونٹ بھینچ لیے جیسے آئندہ نہ بولنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ ہاشم حیرت سے بابی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر دہشت کی علامات پھیلتی ہوئی دیکھ لیں، لیکن میں جانتا تھا کہ اس کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جہاں میرا پسینہ گرتا وہاں خون بہانے کے لیے ہر وقت مستعد رہتا تھا۔ دو تین دن کے اندر اندر ہم نے اس مہم کی تیاریاں مکمل کر لیں۔ بابی نے حیرت انگیز طور پر بہت جلد چار قلیوں اور خچروں کا انتظام کر دیا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ نہایت کم سخن اور اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی ہے۔ ہاشم کی طرح فضول گفتگو اور گپ بازی کا فن اسے نہیں آتا تھا۔ میں اس سے کبھی بھی کچھ پوچھنے کی کوشش کرتا تو صرف گردن ہلاتا اور مسکرا کر کسی اور کام میں مصروف ہو جاتا۔ بہر حال مجھے اس پر پورا اعتماد تھا کہ وہ ہمیں دغا نہیں دے گا۔
روانگی سے ایک روز پیشتر کا ذکر ہے۔ سہ پہر کا وقت ہو گا۔ میں آرام دہ کرسی پر بیٹھا عالم تصور میں آدم خور انسانوں کو دیکھ رہا تھا کہ دور سے گھوڑوں کے دوڑنے کی آواز کان میں آئی۔ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو شخص گھوڑوں پر بیٹھے میری ہی طرف آرہے تھے۔ جب وہ نزدیک آئے تو میں نے فورا انہیں پہچان لیا۔ وہ ولیم اور نکسن تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پڈانگ سے سیدھے پیلمبنگ آرہے ہیں۔ ان کا سامان شام تک آجائے گا۔ ان کے آجانے سے سچ پوچھیں تو مجھے بڑی تقویت پہنچی۔ رات کو جب کافی کی محفل جمی تو ادھر
ادهر کی باتوں کا سلسلہ دراز ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ میرے
ساتھ آنائی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ولیم نے بتایا، ہم نے پڈانگ میں ایک انگریز شکاری سے ملاقات کی تھی اور اس نے بھی وہی بات بتائی جو تم اس سے پہلے بتا چکے تھے ، یعنی آدم خور وحشیوں کے متعلق اور اب ہمیں یقین ہے کہ ضرور اس بات میں صداقت کا عنصر موجود ہے۔ یہی ہمارے آنے کی وجہ ہے۔”
جون1944 کی وہ خوش گوار صبح میرے حافظے کی لو پر آج بھی یوں روشن ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ اس روز نو آدمیوں پر مشتمل یہ قافلہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوا جس کے بارے میں اس وقت کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ کب اور کہاں ختم ہو گا لیکن بعد میں جو واقعات پیش آئے انہوں نے بتا دیا کہ یہ سفر وہاں ختم ہوا، جہاں زندگی کی حد ختم ہوتی ہے اور موت کی سرحد کا آغاز ہوتا ہے۔ جاواسے سماٹرا آتے وقت مجھ پر اضطراب اور بے چینی کی شدت کا جو بھوت سوار ہوا تھا وہ اتنے عرصے بعد اب پھر مجھے پریشان کر رہاتھا اور میں ہی کیا، مہم میں شامل سبھی لوگ اس روز سراسیمہ اور خوف زدہ دکھائی دیتے تھے۔ ولیم اور نکسن کے لبوں پر پھیلی ہوئی مسکراہٹیں غائب تھیں اور ہاشم کے وہ فلک شگاف قہقہے بھی دم توڑ چکے تھے جن کی بدولت ایک ہنگامہ سا برپا رہتا تھا، ہم سب چپ چپ تھے۔ ہم
نےخاموشی سے ناشتہ کیا اور جونہی دروازہ خاور کھلا اور آفتاب عالم کی پہلی کرن ہمارے سلام کو حاضر ہوئی، ہم نے اپنے سفر کا آغاز کر دیا
تین روز تک مسلسل دن رات ہم شیر وں کی وادی کی طرف بڑھتے رہے۔ راہ میں اگرچہ ہماری زبانوں پر پڑے ہوئے قفل کھل گئے تھے۔ امریکی شکاریوں کی خوش طبعی واپس آگئی
تھی اور ہاشم کے قہقہوں میں بھی جان پڑ گئی تھی، لیکن اس کے باوجود دہشت کی ایک ہلکی کی لہر تھی جو اس قافلے میں پھیلی ہوئی ضرور محسوس ہوتی تھی۔ بوڑھا بابی بے حد پراسرار اور عجیب شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا محال تھا کہ وہ فکر مند ہے یا نہیں۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا وہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ راستے کا نقشہ ساتھ ہونے کے باوجود ہم سب اس کے رحم و کرم پر تھے اور میں نے پہلے ہی سب کو سمجھا دیا تھا کہ بابی کو ہر ممکن طریقے سے راضی رکھا جائے۔
آنائی سے کوئی ایک میل ادھر ایک چھوٹا سا کمپونگ ہے۔ کمپونگ مقامی زبان میں گاؤں کو کہتے ہیں۔ دوپہر کا وقت تھا جب ہم اس کمپونگ کے قریب پہنچے۔ ایک ندی کے کنارے جس میں پانی کم تھا اور کیچڑ زیادہ، ہم نے ڈیرے ڈال دیے۔ کیوں کہ بھوک سے ہمارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ ہاشم کی مستعدی اس قسم کے معاملات میں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ کہنے لگا” آقا میں ذرا اپنی رائفل کو سیر کرا لاؤں۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔
میں نے اسے اجازت دے دی اور وہ ندی کے کنارے ٹہلتا ہوا دور نکل گیا۔ اتنی دیر میں ہم نے کچھ کھانا کھایا اور پھر اطمینان سے سگار سلگا کر آئندہ کے پروگرام پر غور کرنے لگے۔ بمشکل پندرہ منٹ ہوئے ہوں گے کہ مقامی کسانوں کا ایک گروہ چیختا چلاتا ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔ ہم سمجھے کہ شاید یہ لوگ ہمیں لوٹنے کے ارادے سے آرہے ہیں۔ پس ہم نے اپنی اپنی رائیفلیں فوراً ان کی طرف تان لیں، مگر جب وہ لوگ نزدیک آئے تو یہ دیکھ کر میرے پسینے چھوٹ گئے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں ہاشم کی لاش اٹھارکھی تھی۔ یہ حادثہ اس قدر فوری اور زبردست تھا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے زمین گھومتی دکھائی دی اور قریب تھا کہ میں غش کھا کر گر پڑوں کہ امریکی دوستوں نے مجھے سنبھال لیا۔
آپ کے آدمی کو بو جا( مگر مچھ) نے ہلاک کیا ہے۔ وہ بہت سے آدمیوں اور جانوروں کو مار چکا ہے۔ اس میں ضرور کوئی بد روح ہے صاحب۔ وہ کسی سے نہیں مرتا۔ اس نے ہماری گائیں کھا لیں، اس نے ہمارے بچے چبا ڈالے، اس نے ہماری عورتیں ہڑپ کر ڈالیں۔ وہ بہت ظالم ہے۔
5
۔
مختلف آوازیں تھیں جو میرے کانوں میں آ رہی تھیں۔ میں نے ہاشم کی لاش کا معائنہ کیا۔ ظالم مگرمچھ نے خدا جانے کس طرح اس پھرتیلے اور ہوشیار آدمی کو اپنے قابو میں کیا ہوگا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہاشم کی ایک ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے بالکل غائب تھی اور دایاں بازو کوہنی کے اوپر سے اس طرح کٹا ہوا تھا، جیسے مگرمچھ نے چبا ڈالا ہو۔ بدنصیب کی آنکھیں شدّتِ تکلیف سے باہر کو نکل آئی تھیں اور اسی عالم میں شاید اس کی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔
کچھ کہہ نہیں سکتا کہ ہاشم کی لاش دیکھ کر مجھ پر جنون و غضب کی کیا حالت طاری ہوئی۔ آنائی کے علاقے نے اپنا پہلا شکار ہم سے وصول کر لیا تھا۔ میں نے طے کر لیا کہ جان خواہ رہے یا جائے، جب تک اس مگرمچھ کا قصّہ پاک نہ کر دوں گا، یہاں سے نہ جاؤں گا۔
رائفلیں، نیزے اور کلہاڑے سنبھال کر پندرہ بیس آدمیوں کی یہ ٹولی اس موذی مگرمچھ کی تلاش میں نکلی۔ میرا یہ اندازہ کہ ندی میں پانی کم اور کیچڑ زیادہ ہوتی ہے، غلط نکلا۔ کیوں کہ ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ندی کا پاٹ حیرت انگیز طور پر وسیع ہو گیا تھا اور اس میں پانی یوں جوش مار رہا تھا جیسے اُبل رہا ہو۔ کسانوں کا لیڈر ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جسے ہاشم کی موت کا بےحد افسوس ہوا تھا۔وہ دراصل گائے کو پانی پلانے ندی پر لایا تھا۔ اسی اثنا میں ہاشم بھی ٹہلتا ہوا اُدھر آ نکلا اور دونوں باتوں میں مصروف ہو گئے۔ گائے ان سے کچھ فاصلے پر کھڑی ندی میں منہ ڈالے پانی پی رہی تھی۔ مگرمچھ پانی میں اندر ہی اندر آیا اور جھپٹ کر گائے کی گردن اپنے فولادی جبڑے میں جکڑ لی اور اسے پانی میں گھسیٹنے لگا۔ گاہے اتنی آسانی سے قابو میں آنے والی نہیں تھی۔ وہ اچھل کر پوری قوّت سے پیچھے ہٹی تو مگرمچھ اس کے ساتھ ہی ندی سے باہر نکل کر کنارے پر آ گیا۔ ہاشم اور کسان چلّاتے ہوئے مگرمچھ کی طرف بڑھے۔مگرمچھ نے گائے کو فوراً چھوڑ دیا اور ہاشم پر حملہ کیا۔ہاشم کے ہوش و حواس جواب دے گئے۔ اس کا وقت پورا ہو چکا تھا، وہ منہ کے بل پانی میں گرا۔ مگرمچھ نے بجلی کی مانند لپک کر اس کی ٹانگ منہ میں دبائی اور ندی میں گھس گیا۔ اتفاق کی بات اُدھر سے کشتی میں سوار دس بارہ ماہی گیر گزر رہے تھے، کسانوں نے فوراً مدد کے لیے انہیں پکارا۔ ماہی گیروں نے مگرمچھ کا تعاقب کیا تو اس نے فوراً ہاشم کو چھوڑ دیا۔ ہاشم فرطِ خوف سے پہلے ہی بےہوش ہو چکا تھا۔ بعدِ ازاں اس کی لاش نکالی گئی۔ اس کی ایک پنڈلی غائب تھی۔ آخر ہم اس جگہ پر پہنچے جہاں یہ دلدوز حادثہ پیش آیا تھا۔ندی کے کنارے کیچڑ میں گائے کے خوروں اور مگرمچھ کے گھسٹنے کے نشانات موجود تھے۔ اس موذی مگرمچھ کا سراغ لگانا اتنا آسان کام نہ تھا۔ خدا معلوم وہ اس وقت کہاں سے کہاں گیا ہوگا۔ ماہی گیروں میں سے ایک کہنے لگا، "صاحب! میں اس کے رہنے کی جگہ جانتا ہوں، لیکن وہاں دلدل اتنی گہری ہے کہ ایک مرتبہ پھنس جانے کے بعد زندہ بچ نکلنا ناممکن ہے۔ وہ اپنا شکار وہیں ایک گڑھے میں چھپا رکھتا ہے اور سڑے ہوئے گوشت کی بدبو ہمیں بتائے گی کہ وہ گڑھا کہاں ہے۔”
کشتی میں سوار ہو کر ہم ندی میں بہاؤ کے رخ آگے بڑھنے لگے۔ میرا خون اس وقت کھول رہا تھا اور یہی جی چاہتا تھا کہ مگرمچھ کو اپنے ہاتھ سے ہلاک کروں۔ یکایک بائیں جانب سے مچھلیوں اور کچھووں کے سڑے ہوئے گوشت کی بےحد ناگوار بدبو ناک میں آئی اور ماہی گیر فوراً کشتی کنارے پر لے آئے، کنارے کی کیچڑ کے ساتھ بلاشبہ مگر مچھ کے پنجوں کے گہرے نشانات نمایاں تھے اور اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پیشتر ہی یہاں سے گیا ہوگا۔
کافی دیر تک گھومنے کے بعد ہم گاؤں کی طرف چلے آئے اور طے یہ ہوا کہ مگرمچھ کی تلاش کل بھی کی جائے گی۔ رات کو جب ہم کھانے سے فارغ ہو کر ایک جگہ جمع ہوئے تو گاؤں سے کسانوں اور ماہی گیروں کی ٹولیاں بھی آ گئیں۔ فضا میں نمی اور دھند کی باعث سرِ شام ہی اندھیرا چھا گیا تھا اور مچھروں کا بادل ندی کے کناروں سے اٹھ اٹھ کر گاؤں کی طرف جا رہا تھا۔ گاؤں والے ان موذی مچھروں سے محفوظ رہنے کے لیے یہی طریقہ جانتے تھے کہ جگہ جگہ آگ روشن کر دیتے اور لکڑیوں پر پانی چھڑکتے رہتے تاکہ ان میں سے دھواں اٹھے اور مچھروں کو بھگا دے۔ یہ ترکیب خاصی کارگر تھی۔
ہاشم کی اچانک اور درد ناک موت کی باعث ہمارے قافلے میں مایوسی اور خوف کا گہرا تاثر پھیل چکا تھا۔ ہر شخص سراسیمہ اور پریشان تھا۔ اردگرد کا ماحول بھی کچھ ایسا ہی پرہول اور وحشت انگیز تھا کہ خواہ مخواہ اعصاب میں تناؤ پیدا ہونے لگتا تھا۔ گاؤں والوں کے آنے سے دلوں پر رکھا ہوا افسردگی کا بوجھ کچھ دور ہوا۔ یہ لوگ تہذیب و تمدّن اور سائنس کی دنیا سے اس قدر دور ان جنگلوں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہیں مر جاتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں سادگی اور رنگینی کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے، محنت جفا کشی، ہمّت و جرات جیسے مثالی اوصاف کی ساتھ ساتھ یہ لوگ سچائی، بہادری، ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کے جذبات سے بھی مالا مال ہیں۔
رات ہوتے ہی تاریکی اور سردی ایک دم حملہ کرتی ہیں، لیکن ہم نے آگ کا ایک بڑا الاؤ سرِ شام ہی روشن کر لیا تھا۔ جس سے حرارت بھی حاصل ہو رہی تھی اور مچھروں کو بھگانے کا کام بھی لیا جا رہا تھا اور ہم سب اس الاؤ کے گرد بیٹھے یونہی وقت گزاری کے لیے سگار پی رہے تھے۔ تھوڑی دیر قبل ہاشم کی لاش ہم نے اسی نرم دلدلی زمین میں گڑھا کھود کر دبا دی تھی۔ بابی نے شاید ان لوگوں کے سردار کو بتا دیا تھا کہ ہم آدم خور انسانوں کی تلاش میں یہاں آئے ہیں اور میں دیکھ رہا تھا کہ دونوں کچھ فاصلے پر بیٹھے آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے کہ اتنے میں بابی اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا، "مالک گاؤں والے کہتے ہیں کہ آپ رات اس جنگل میں قیام نہ کریں۔ یہ بدروحوں اور شیطانوں کی رہنے کی جگہ ہے۔ وہ آپ کو اذیت دیں گے۔ آپ ان کے ہمراہ گاؤں میں چلے جائیں۔”
میں نے بابی سے پوچھا، "کیا واقعی یہ بات ان کا سردار کہتا ہے یا تم خود اپنے طور پر کہہ رہے ہو۔ اگر تمہیں یہاں رہتے ہوئے ڈر لگتا ہے تو تم خوشی سے گاؤں میں جا سکتے ہو، ہم بھوتوں اور بدروحوں پر یقین نہیں رکھتے۔”
بابی کا چہرہ غصّے سے سرخ ہو گیا۔ وہ چند لمحے تک میری طرف دیکھتا رہا پھر بولا، "مالک! آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ وقت آنے پہ معلوم ہوگا کہ بوڑھا بابی اتنا بزدل نہ تھا۔”
میں نے اشارے سے گاؤں کے سردار کو بلایا اور اس سے پوچھا، "تم نے کبھی انسانوں کو کھانے والے وحشی لوگ یہاں دیکھے ہیں؟”
یہ سنتے ہی بڈھے پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس کا بدن کانپنے لگا، رنگ سفید پڑ گیا اور ہونٹ تھرتھرانے لگے۔ وہ تھرّائی ہوئی آواز میں بولا، "مالک! آپ کو ان کے بارے میں باتیں کس نے بتائیں؟ ہم نے اپنے بزرگوں سے ان کے بارے میں سنا ضرور ہے، لیکن دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ وہ ہزاروں سال سے ان جنگلوں اور دریاؤں پر حکومت کرتے آئے ہیں اور کسی دوسرے کو اپنے علاقے میں آنے نہیں دیتے۔ کبھی کبھی رات کی تاریکی میں جب موسلادھار بارش ہو رہی ہو، آسمان پر بادل گرج رہے ہوں اور بجلی زور سے کڑکتی ہو تب ان ناقابلِ عبور پہاڑوں کی جانب سے وحشی درندوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ شیروں کی وادی ہے مالک! شیروں کی وادی! آپ یہاں سے چلے جائیے۔”
اتنا کہہ کر وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ جیسے کسی اندیکھی قوّت کو سجدہ کر رہا ہو۔ اس بوڑھے کے منہ سے یہ پراسرار لفظ سن کر اتنا خوف و ہراس میرے ساتھیوں پر طاری ہوا کہ ان کے منہ سے گھٹی گھٹی سی چیخیں نکل گئیں۔ بابی کے لائے ہوئے چاروں مزدوروں کی حالت تو ہاشم کی دردناک موت کے بعد ہی غیر ہو چکی تھی اور اب بوڑھے کی حرکتیں دیکھ کر رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ وہ تو گاؤں والوں کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔ اِدھر ولیم اور نکسن کے چہروں پر بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ مجھے اس طرح تک رہے تھے جیسے میں انہیں مار ڈالنے کے ارادے سے یہاں لے آیا ہوں۔
میں نے ڈانٹ ڈپٹ کر گاؤں والوں کو وہاں سے بھاگ جانے کا حکم دیا کیوں کہ میں جانتا تھا کہ جب تک یہ ہمارے پاس بیٹھے رہیں گے، میرے ساتھیوں کو فضول کے قصّے کہانیاں سنا کر ڈراتے رہیں گے۔ گاؤں والے تو ہاتھ جوڑتے ہوئے فوراً وہاں سے چلے گئے اور مزدوروں کو میں نے گولی مار دینے کی دھمکی دے کر روک لیا۔ یہ بالکل مجبوری کے طور پر کیا گیا، ورنہ سامان اٹھانے اور رکھنے میں بری دقّت پیش آتی۔
تنہائی میں میں نے اپنے امریکی دوستوں کو بہت ڈانٹا اور کہا کہ اگر وہ اتنے ہی بزدل تھے تو انہیں آنے سے پہلے سوچ بچار کر لینی چاہیے تھی۔ وہ ازحد شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے کہ آخری دم تک میرا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد ہم اپنے خیموں میں گئے اور مچھر دانیاں تان کر سونے کی تیاریاں کرنے لگے ۔ بوڑھا بابی اپنا لمبا نیزا سنبھالے میرے خیمے کے باہر پہرا دینے کے لیے بیٹھ گیا۔ وہ کہتا تھا کہ رات کو اسے نیند کم آتی ہے۔ وہ رات کسی حادثے اور خطرے کے بغیر خیریت سے گزر گئی۔
آنائی کی فلک بوس پہاڑیوں کے پیچھے سے جب سورج طلوع ہوا تو اس وقت کا منظر اس قدر دلفریب اور معصوم تھا کہ ہم سب تھوڑی دیر کے لیے اسی میں گم ہو گئے۔ سرد ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے پہاڑی جنگلوں کی طرف سے آتے اور ہمیں سلام کرتے ہوئے گزر جاتے۔ چاروں طرف پرندوں کے چہچہانے کی دلکش آوازیں آ رہی تھیں۔ ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے اونچے اونچے درخت تمام کے تمام اوس میں نہائے ہوئے تھے اور ان کے پتّوں پر پڑے ہوئے قطرے سورج کی سنہری کرنوں میں موتیوں کی مانند چمک رہے تھے۔تا حدِ نظر کوہستانِ آنائی کا ایک وسیع و عریض سلسلہ پھیلتا چلا گیا تھا اور انہی کے درمیان کہیں شیروں کی وادی واقع تھی۔ ہمارے بائیں ہاتھ آنائی کی ندی کا پانی ایک دودھیا لکیر کی مانند بل کھاتا ہوا دور تک جنگل میں چلا گیا تھا، ندی کے اوپر آبی پرندوں کے غول کے غول پرواز کر رہے تھے۔ میں نے جلدی جلدی کافی بنائی، ناشتہ کیا اور رائفل لے کر ان پرندوں کے شکار کے لیے نکل پڑا۔ مجھے ہاشم کی یاد بری طرح ستا رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا اگر وہ اس وقت میرے ساتھ ہوتا تو کس قدر لطف آتا، پھر مجھے اس خونخوار مگرمچھ کا خیال آیا جس نے ہاشم کو ہلاک کیا تھا۔ اتنے میں پیچھے مڑ کر دیکھا تو ولیم اور نکسن دونوں اپنی رائفلیں ہاتھوں میں پکڑے میری طرف آ رہے تھے اور ان کے پیچھے بوڑھا بابی ایک خچر کو ساتھ لیے آ رہا تھا۔ جب وہ قریب آ گئے تو میں نے بابی سے پوچھا، "خچر کس لیے لائے ہو؟ آخر اس کی کیا ضرورت تھی؟”
"مالک! کیا آپ مگرمچھ کو مارنے کا ارادہ بدل چکے ہیں!”
میں حیرت سے اس کے منہ کی طرف تکنے لگا۔ میں نے جھنجھلا کر کہا، "مگرمچھ کا اس خچر سے کیا واسطہ؟”
"مالک! مگرمچھ مارنے کے لیے یہ خچر ہی اس وقت کام دے گا۔ وہ صبح ہی صبح اپنے شکار کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ہم اس خچر کو اس جگہ باندھ دیں گے جہاں کل مگرمچھ نے گائے کو پانی میں گھسیٹا تھا۔ مگرمچھ خچر دیکھ کر ضرور کنارے پر آئے گا۔”
میں نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ بالکل سیدھی بات تھی مگر دھیان ہی نہیں گیا۔ میں نے بوڑھے بابی کے کاندھے پر دوستانہ انداز میں تھپکی دی اور کہا، "مجھے تمہاری استادی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے بابا۔”
وہ مسکرایا اور خچر کی رسی تھامے آگے بڑھ گیا۔ بالآخر ہم اس جگہ پہنچے جہاں مگرمچھ نے ہاشم کو ہلاک کیا تھا۔ بابی نے اشارے سے ہم سب کو اِدھر اُدھر دُبک جانے کا اشارہ کیا اور پھر اپنے کپڑوں کے نیچے سے لکڑی کی ایک میخ نکال کر نرم زمین میں گاڑ دی۔ رسی کا ایک سر اس نے میخ کے ساتھ باندھا تاکہ خچر بھاگنے نہ پائے۔ اس کاروائی کے بعد وہ ہماری طرف لوٹ آیا۔ ہم کنارے سے کوئی پچاس گز دور درختوں کی آڑ میں کھڑے تھے اور اب صرف مگرمچھ کا انتظار تھا۔ ہماری نظریں ندی کے پانی پر مرکوز تھیں، جو کسی ہل چل کے بغیر آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔
کامل پون گھنٹہ اسی عالم میں گزر گیا۔ مگرمچھ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ انتظار کے یہ لمحات بھی کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں، یہ کسی شکاری سے پوچھیے۔ بابی بار بار اپنے منہ پر انگلی رکھ کر ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کرتا اور ہم کسمسا کر رہ جاتے۔ آخر ہم اکتا کر چلنے ہی والے تھے کہ یکایک خچر نے زور زور سے اچھالنا اور ہنہنانا شروع کر دیا۔ اس نے شاید خطرے کی علامات سونگھ لی تھیں، پندرہ منٹ تک خچر اسی طرح بےچینی سے اچھلتا اور کھونٹے سے آزاد ہونے کی کوشش کرتا رہا، لیکن میخ زمین میں اتنی گہری گڑی ہوئی تھی کہ اکھڑ نہ سکی۔ ہم سب سانس روکے اپنی رائفلیں تانے بالکل مستعد کھڑے تھے اور طے یہ ہوا تھا کہ مگرمچھ جونہی رینگتا ہوا کنارے پر آئے، بیک وقت تینوں رائفلوں سے اسے نشانہ بنایا جائے۔
خچر تک پہنچنے کے لیے مگرمچھ کو ندی سے نکل کر پندرہ بیس گز دور آنا پڑتا اور ندی میں عین اس مقام پر جہاں سے خچر نزدیک ہی تھا، پانی کھولتے ہوئے تیل کی طرح جوش کھا رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مگرمچھ نے اپنی لمبی سی تھوتھنی پانی سے باہر نکالی اور سرنگ نما جبڑا کھول کر دو تین مرتبہ اِدھر اُدھر منہ گھمایا اور آہستہ آہستہ کنارے پر آ گیا۔ خدا کی پناہ! کس قدر زبردست مگرمچھ تھا، حالانکہ ہم اس سے کافی فاصلے پر تھے، پھر بھی صاف اندازہ ہوتا تھا کہ منہ سے لے کر دم تک اس کی لمبائی سولہ سترہ فیٹ سے کم نہ ہوگی۔ خچر کی حالت قابلِ رحم تھی۔ بےچارہ اسے دیکھ کر یوں سہم گیا تھا جیسے کبوتر بلّی کو سامنے پا کر سہم جاتا ہے۔کچھ ایسی دہشت خچر پر چھا گئی کہ وہ یک لخت بےحس و حرکت ہو کر مگرمچھ کو دیکھنے لگا، جو آہستہ آہستہ مکارانہ انداز میں اپنے شکار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ خچر کے بالکل قریب پہنچ کر مگرمچھ ٹھہر گیا۔ پہلے اس نے اپنا جبڑا کھولا اور پھر تیزی سے اپنی دم کو گردش دینے لگا۔ اگرچہ وہ اب ہمارے نشانے کی عین زد میں تھا، لیکن خدشہ یہ تھا کہ اگر گولی اسے نہ لگی تو خچر کو ضرور لگ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ فوراً ہی بےچارے خچر کا کام تمام ہو جاتا اور حالات ایسے تھے کہ خچر کو ہم کسی قیمت پر ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ویسے بھی مگرمچھ کی پشت اور جبڑے کی کھال اس قدر سخت ہوتی ہے کہ گولی اس پر اثر نہیں کرتی اور اس کو مارنے کی واحد صورت یہی ہے کہ گولی مگرمچھ کے پیٹ میں لگے۔
مگرمچھ کا خچر پر حملہ کرنا اور خچر کا وار بچانا، اس قدر عجیب اور حیرت انگیز تماشا تھا کہ ساری زندگی یاد رہے گا۔ مگرمچھ نے اچھل کر اپنے جبڑے میں خچر کی گردن پکڑنے کی کوشش کی۔ لیکن خچر بھی غافل نہ تھا۔ اس نے گردن موڑ کر ایک دولتی اس زور سے ماری کہ مگرمچھ پشت کے بل گر گیا مگر فوراً لوٹ پوٹ کر وہ پھر خچر کی طرف لپکا اور اس مرتبہ اس نے خچر کی ٹانگ اپنے منہ میں دبا لی۔ خچر اور مگرمچھ دونوں کے حلق سے اب طرح طرح کی خوفناک آوازیں نکل رہی تھیں۔ مگرمچھ نے پوری قوت سے خچر کو گھسیٹنے کے لیے سر جھکایا اور زمین میں گڑی ہوئی میخ اکھڑ گئی۔
میخ اکھڑتے ہی خچر کو جیسے نئی زندگی ملی، اس نے جنگل کی طرف بھاگنا چاہا اور مگرمچھ اسے ندی کی طرف لے جانا چاہتا تھا۔ کئی منٹ تک یہی کھینچا تانی جاری رہی یہاں تک کہ خچر سخت لہو لہان اور زخمی ہو کر گر پڑا۔ اب مگرمچھ نے اسے دوبارہ اپنے منہ میں پکڑا اور کنارے کی طرف پلٹا۔ ہم نے سوچا کہ خچر تو مارا ہی گیا ، اب مگرمچھ کو جانے نہ دیا جائے، ہماری رائفلوں سے بیک وقت تین شعلے نکلے اور مگرمچھ قلابازی کھا کر ڈھیر ہو گیا۔ خچر اب بھی زندہ تھا اور مگرمچھ کے جبڑے سے اپنا گلا چھڑانے کی جدوجہد کر رہا تھا۔ ہم بھاگتے ہوئے ذرا قریب پہنچے تو مگرمچھ نے پھر انگڑائی لی اور خچر کی ٹانگ لپک کر پکڑ لی اور تیزی سے کنارے کی طرف بڑھا۔ کتنی زبردست قوّت اس کے جسم میں چھپی ہوئی تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود اس نے کوئی اثر نہ لیا۔ اس سے پیشتر کہ ہم قریب پہنچ کر دوبارہ فائر کریں، مگرمچھ اپنا شکار لے کر ندی میں پھرتی سے داخل ہو گیا، عین اسی وقت بابی کا ہاتھ جنبش میں آیا اور اس نے نشانہ لے کر نیزہ پوری رفتار سے مگرمچھ کی طرف پانی میں پھینک مارا۔ مگرمچھ کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ نیزے کی نوک اس کے کھلے جبڑے کے اندر نرم گوشت میں گڑ گئی تھی۔ درد کی شدّت سے بےتاب ہو کر وہ پانی میں اچھلنے لگا۔ اس کے خون سے ارد گرد کا پانی سرخ ہو چکا تھا۔ یوں ہاشم کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا۔جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، یہ گاؤں وہاں واقعہ تھا جہاں سے پانچ میل دور شیروں کی وادی کی سرحد شروع ہوتی تھی اور ہم چاہتے تھے کہ مزید تاخیر کے بغیر وہاں پہنچ جائیں۔ چند مرغابیوں کو شکار کر کے ہم اپنے کیمپ کی طرف لوٹے تو چاروں مزدور غائب تھے۔ البتہ بقیہ تین خچر اور سارا سامان وہاں موجود تھا۔ گاؤں والوں نے قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ انہوں نے مزدوروں کو نہیں چھپایا۔ بہرحال ہم نے ضروری سامان ساتھ لیا۔ خیمے اکھاڑ کر خچروں پر لادے اور باقی سامان گاؤں کے نمبردار کے پاس اس شرط پر رکھ دیا گیا کہ اگر زندہ واپس آئے تو لے لیں گے ورنہ یہ سامان اس کی ملکیت ہوگا۔۔
6
پانچ میل کا یہ پر صعوبت سفر ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے پانچ صدیوں کی مسافت ہے اور جب ہم آنائی کے پہاڑوں کو عبور کر کے وادی میں داخل ہوئے تو سورج کی کرنیں چوٹیوں پر الوداعی نگاہیں ڈال کر رخصت ہو رہی تھیں۔ ہم سب تھکن کے باعث چُور چُور تھے۔ فضا میں نمی کی شدّت صاف محسوس ہوتی تھی اور مچھروں کا بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ ان سے محفوظ رہنے کے لیے ہم نے ایک پہاڑی کے بلند اور فراخ ٹیلے پر اپنے خیمے جما دیے تاکہ تیز اور سرد ہوا کے تھپیڑے
مچھروں کی فوج کو بھگاتے رہیں۔ بلند ٹیلے سے وادی کے پہاڑوں اور جنگلوں کا دور دور تک نظارہ کیا جا سکتا تھا، جو اُفق تک پھیلتے چلے گئے تھے۔ ان پہاڑوں کے اوپر سے کہیں کہیں آبشاریں گرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں، پانی کی اس سفید چادر پر جب ڈوبتے ہوئے آفتاب کی نارنجی کرنیں پڑتیں تو وہ ہیرے کی مانند چمکتی تھیں۔ تا حدِ نگاہ تک چاروں طرف بانسوں کے اونچے اونچے جنگل سینہ تانے کھڑے تھے اور تیز ہوا جب ان کے درمیان سے گزرتی تو سیٹیاں سی بجنے لگتی تھیں۔ پانچ میل دور وہ گاؤں، جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے، اس بلندی سے صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہاں جلتے ہوئے آگ کے الاؤ لمحہ بہ لمحہ روشن ہوئے جاتے تھے۔ پوری وادی میں ایسا بےکراں سناٹا اور خاموشی طاری تھی جیسے یہاں کوئی جاندار نہیں بستا، حتٰی کہ پرندوں کی اڑتی ہوئی قطاریں بھی غائب تھیں جو دن بھر دانا دنکا چگنے کے بعد سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی اپنے گھونسلوں کو واپس آتی ہیں۔ آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی نہ تھا، البتہ مغربی اُفق پر پھیلی ہوئی شفق ہر لمحہ رنگین سے رنگین تر ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی سرد ہوا کے جھونکے پوری شدّت سے چلنے شروع ہو گئے تھے۔ قدرت نے اس خطّے کو حسن و جمال کی جس دولت سے نوازا ہے، اس کی داد نہ دینا ناشکراپن ہوگا۔ وہ بےپناہ تھکن جس کی وجہ سے جسم کا بند بند فریاد کر رہا تھا، یکلخت غائب ہو چکی تھی اور میں اپنے آپ کو بالکل تروتازہ محسوس کرنے لگا اور یہ کیفیت میری ہی نہیں میرے ساتھیوں کی بھی تھی۔ بوڑھا بابی ہم سے ذرا فاصلے پر اپنا نیزا تھامے مشرق کی طرف منہ کیے بیٹھا کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ شاید یہ نظارے اس کے لیے نئے نہ تھے۔ یکایک وادی کے اندرونی حصّے میں شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی اور یوں محسوس ہوا جیسے اردگرد کی پہاڑیاں لرز گئی ہوں۔ ہم سب چونکنے ہو کر اس طرف دیکھنے لگے۔
پانچ منٹ بعد شیر کے دھاڑنے کی آواز پھر آئی۔ مگر یہ آواز اب زیادہ قریب محسوس ہوتی تھی۔ ہم سب اس بےتابی سے آواز کے رُخ دیکھ رہے تھے کہ کیا تماشا ظہور میں آتا ہے۔ دفعتاً چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک بڑا سا بارہ سنگھا دوڑتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کا رُخ ہماری طرف تھا۔ بےتحاشا چھلانگیں لگاتا ہوا وہ آناً فاناً میں پہاڑی کے نیچے آ گیا۔ کوئی ایک منٹ بعد ہی کیا دیکھتے ہیں کہ اسی طرف سے بیک وقت دو شیر غرّاتے اور دھاڑتے نکلے اور بارہ سنگھے نے بچ کے نکل جانا چاہا، مگر شیروں نے دونوں جانب سے اسے گھیر لیا اور چند منٹ میں چیر پھاڑ کر برابر کر دیا اور اپنا آدھا آدھا حصّہ لے کر مختلف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔ جنگل کی فضا میں پلے ہوئے یہ شیر نہایت جسیم اور طاقتور دکھائی دیتے تھے اور ایک بارہ سنگھے کے تعاقب میں دو شیروں کا نکلنا اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ یہ علاقہ واقعی شیروں سے پٹا پڑا ہے۔
سورج غروب ہوتے ہی تاریکی کے غلاف نے زمین سے لے کر آسمان تک کو اپنے اندر لپیٹ لیا اور جوں جوں اندھیرا بڑھتا جاتا تھا، فضا میں خنکی اور ہوا کی تیزی میں شدّت پیدا ہو رہی تھی۔ یہاں تک کے ہم سردی کے باعث کانپنے لگے اور ہمیں خیموں کے اندر پڑے ہوئے کمبلوں میں پناہ لینا پڑی۔ ولیم کا خیال تھا کہ رات کو سردی اور بڑھے گی اس لیے آگ جلا لینی چاہیے، مگر بابی نے فوراً انکار میں سر کو جنبش دی اور ہم حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
"کیوں بابا! آگ جلانے میں کیا نقصان ہے؟ مجھ سے رہا نہ گیا تو پوچھ ہی بیٹھا۔
"مالک! آپ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ مقام کون سا ہے۔ کیا آدمیوں کو کھانے والے وحشی آپ کو یاد نہیں رہے؟ رات کی تاریکی میں جب وہ آگ کے شعلے دیکھیں گے تو ضرور آئیں گے۔”
بابی کے یہ الفاظ نہ تھے، بجلی کی لہریں تھیں جو میرے جسم میں دوڑ گئیں۔ خدا کی پناہ! ان وحشیوں کو تو ہم فراموش ہی کر چکے تھے اور اب وہی مقام جو تھوڑی دیر پہلے ہمارے لیے جنّتِ نگاہ اور فردوسِ گوش بنا ہوا تھا، یک بیک ایک بھیانک مقتل کی شکل اختیار کر گیا۔ دہشت و خوف کا وہ دورہ جو ہم پانچ میل پیچھے چھوڑ آئے تھے، اب دوبارہ ہم پر مسلط ہو گیا۔ بہرحال شام کے کھانے سے فارغ ہو کر ہم اپنے اپنے کمبلوں میں دُبک گئے اور آئندہ پروگرام کے متعلق باتیں کرتے ہوئے خدا جانے کب نیند کی دیوی نے ہمیں اپنے آغوش میں لے لیا۔
کچھ معلوم نہیں کتنی دیر سویا، لیکن اتنا یاد ہے کہ شور کی ایک ہلکی سی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میرے دونوں امریکی دوست قریب ہی پڑے بےخبر سو رہے تھے۔ میں نے کان لگا کر یہ پراسرار شور سننے کی کوشش کی، مگر آواز اس قدر مدھم اور غیر واضح تھی کہ کچھ پتا نہ چلا کہ کدھر سے آ رہی ہے۔ بس یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوسوں میل دور کہیں ڈھول سا بج رہا ہو اور بہت سی عورتیں مل کر بَین کر رہی ہوں۔ کبھی یہ آواز مدھم ہو جاتی اور کبھی تیز، اور کبھی یوں محسوس ہوتا جیسے بالکل قریب سے آ رہی ہے۔ میں آہستہ سے اٹھا، سرہانے رکھی ہوئی رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور خیمے سے باہر نکلا۔ پچھلے پہر کا چاند آسمان کے مشرقی حصّے پر اپنا زرد چہرہ لیے حیرت سے مجھے تکنے لگا۔ چاند کی اس سوگوار اور اداس چاندنی میں جو حدِ نظر تک پھیلی ہوئی تھی۔ پہاڑ، جنگل اور وادیاں سناٹے اور خاموشی کی گہری چادر اوڑھے محوِ خواب تھیں۔
میری چھٹی حِس مجھے بتاتی تھی کہ کوئی نامعلوم خطرہ پیش آیا ہی چاہتا ہے۔ وہ خطرہ کہاں تھا! یہ میں نہیں جانتا تھا۔ مگر لمحہ بہ لمحہ میرے حواس خود بخود معطل ہو رہے تھے اور کلیجہ اندر ہی اندر بیٹھا جا رہا تھا۔ میں بابی کو دیکھنے کے لیے دوسرے خیمے میں گیا۔ اندر ٹارچ کی روشنی ڈالی تو زمین پیروں تلے نکل گئی۔ خیمہ بالکل خالی پڑا تھا اور بابی غائب تھا۔ اس وقت بوڑھے بابی کا غائب ہونا نیک فعال نہ تھی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا حادثہ پیش آیا، وہ کدھر گیا۔ میں اسی فکر میں گم تھا کہ میرے عقب میں ہلکی سی آہٹ ہوئی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دہشت سے میرے بدن میں تھرتھری سی چھوٹ گئی اور اس سردی میں بھی پسینے کے قطرے میری پیشانی پر پھوٹ نکلے۔
دو وحشی جنہوں نے شیر کی کھالیں اوڑھ رکھی تھیں، بیس قدم کے فاصلے پر کھڑے حیرت سے مجھے گھور رہے تھے۔ ڈیل ڈول اور قد و قامت میں وہ بالکل دیو کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ ان کی داڑھیاں اور سر کے بال حد سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے اور آنکھیں یوں روشن تھیں جیسے اندھیرے میں شیر کی آنکھیں چمکتی ہیں۔ ایک دو سیکنڈ تک وہ مجھے دیکھتے رہے۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہ تھا۔ میں بھی بےحِس و حرکت اپنی جگہ پر کھڑا اُن کی طرف دیکھتا رہا۔ یکا یک وہ آگے بڑھے اور میں نے ہوش میں آ کر جلدی سے رائفل سیدھی کی اور اندھا دھند فائر کر دیا۔ ایک وحشی چیخ مار کر گرا اور لڑھکتا ہوا نیچے خدا جانے کہاں جا گرا۔ دوسرا ڈر کر فوراً ایک چٹان کی آڑ میں ہو گیا اور میں نے دوبارہ اس کا مکروہ چہرہ نہیں دیکھا۔ میرے ہاتھ پیر اس غیر متوقع حادثے کی بدولت بری طرح لرز رہے تھے۔ فائر کی آواز سن کر ولیم اور نکسن بیدار ہو گئے اور رائفلیں سنبھال کر باہر نکل آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمیں فوراً یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔ کیوں کہ وحشیوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ آدھی رات کو اس پراسرار وادی میں ہم تین اجنبی شخص اب اپنی جان بچانے کی فکر میں غرق تھے۔ مجھے یقین تھا کہ بوڑھا بابی ضرور ان خونخوار وحشیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ ورنہ یوں اچانک غائب نہ ہو سکتا تھا۔ وہ پراسرار آواز جو بہت دور سے آتی تھی اب قریب آ رہی تھی اور مجھے اس میں کوئی شبہہ نہ تھا کہ یہ ضرور آدم خور وحشیوں کی ٹولی ہے جو اس وقت شکار کی تلاش میں نکلی ہے۔ انتہائی بدحواسی میں اپنا تمام سامان وہیں چھوڑ کر ہم تینوں رائفلوں اور کارتوسوں سمیت وہاں سے بھاگ نکلے۔ اب سوال یہ تھا کہ جائیں کس طرف؟
شمال کی طرف کوہستانِ آنائی کا سلسلہ ہمیں پناہ دے سکتا تھا، پس اسی طرف روانہ ہوئے۔ وہی چاندنی جو تھوڑی دیر پہلے اداس اور سوگوار نظر آتی تھی، اب ہمارے لیے نہایت مددگار ثابت ہوئی۔ ورنہ ہم اندھیرے میں ضرور کسی سینکڑوں فٹ گہرے کھڈ میں جا گرتے۔ عین اسی لمحے جنگل میں شیروں نے گرجنا شروع کر دیا۔ شاید وحشیوں کے غل غپاڑے سے ان کے آرام میں خلل پڑ گیا تھا۔ اضطراب اور پریشانی کی وہ کیفیت بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ کس طرح ہانپتے کانپتے اور دلدلوں کو پھلانگتے، ٹھوکریں کھاتے اور زخموں سے لہولہان ہوتے ہوئے ہم شمال میں ان پہاڑی غاروں کے قریب پہنچے جو خدا جانے لیل و نہار کی کتنی گردشیں دیکھ چکے تھے۔ یہ غار بالکل ویران تھے۔ ممکن ہے یہاں کبھی کبھار جنگلی درندے بارش اور طوفان میں پناہ لینے کے لیے آ نکلتے ہوں۔ہمیں یہ بھی خدشہ تھا کہ ان غاروں میں آنائی کے وہ مشہور و معروف اژدہے نہ ہوں جو چھپکلی سے مشابہ ہوتے ہیں۔
ایک غار کے پاس رک کر ہم نے فیصلہ کیا کہ اب آگے بڑھنے کی سکت نہیں، بس یہیں پناہ لی جائے۔ یکایک ولیم کا پیر کسی چیز سے ٹکرایا اور اس نے جھک کر دیکھا تو بےاختیار اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ یہ ایک انسانی کھوپڑی تھی اور اب جو ہم غور سے چاروں طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ایسی ہی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا خدا معلوم کتنا ذخیرہ پڑا تھا۔ اس وقت کوئی ہمارے ٹکڑے بھی کر دیتا تو یقین ہے کہ خون کا ایک قطرہ نہ نکلتا۔ اتنی ہیبت ہم پر طاری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ ہمارے ذہن مفلوج ہو چکے تھے اور جسم حرکت کرنے سے قاصر، وہی معاملہ تھا کہ "جائے رفتن نہ پائے ماندن”۔ ابھی ہم اسی فکر میں گم تھے کہ اچانک ہمارے عین سامنے کے غار سے روشنی کی ہلکی سی کرن نمودار ہوئی اور پھر اس کے اندر سے دس بارہ وحشیوں کا ایک غول نکلا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لکڑی کی مشعلیں تھام رکھی تھیں اور اس کے سِروں پر خدا جانے کون سی چربی مل رکی تھی جو پوری طرح جل رہی تھی۔ یہ وحشی اچھلتے کودتے باہر نکلے اور ان کے درمیان مجھے بوڑھا بابی دکھائی دیا۔ اگر ہم فوراً زمین پر نہ لیٹ جاتے تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لیتے۔
اس کے بعد جو منظر ہم نے دیکھا وہ اتنا لرزہ خیز تھا کہ آج چالیس برس گزر جانے کے بعد بھی میرے حافظے کی لوح پر اس کے نقوش دھندلے نہیں ہوئے۔ وحشیوں نے آگ کا ایک بڑا الاؤ دہکایا، پھر اس الاؤ کے اندر انہوں نے لوہے کی بنی ہوئی ایک گول سی ٹوپی رک دی اور آگ کے گرد وحشیانہ پن سے اچھلتے کودتے رقص کرنے لگے۔ بوڑھے بابی کے جسم سے کپڑے نوچ نوچ کر انہوں نے اسے بالکل برہنہ کر دیا تھا اور اب دو وحشی اسے بازوؤں میں تھامے کھڑے تھے۔ کامل ایک گھنٹے تک وہ اسی طرح ناچتے رہے۔ اس کے بعد ان کے لیڈر نے جو سب سے زیادہ لمبا تڑنگا تھا، لوہے کی ایک سلاخ کی مدد سے لوہے کی ٹوپی آگ کے الاؤ سے نکالی جو انگارے کے مانند سرخ ہو چکی تھی۔ ہم حیران تھے کہ آخر اس آہنی ٹوپی کو گرم کرنے سے ان وحشیوں کا مقصد کیا ہے، مگر تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے بوڑھے بابی کو دھکیل کر درمیان میں کیا تو فرطِ خوف سے ہمارے کلیجے اچھلنے لگے۔ بابی کا برہنہ جسم خشک پتّے کی مانند لرز رہا تھا اور موت کو اس قدر بھیانک انداز میں اپنے قریب دیکھ کر کون تھا جو اپنے ہوش و حواس قابو میں رکھتا۔ یکایک وحشیوں نے وہی ٹوپی ہوا میں معلّق کی اور زور سے بابی کے سر پر رکھ دی۔ بدنصیب بوڑھے کے حلق سے اس موقعے پر جو چیخ نکلی اس کی آواز میں آج بھی سن سکتا ہوں۔ ایسامعلوم ہوا کہ جیسے کسی نے میرے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا ہے۔ یہی وہ موقع تھا جب دونوں امریکیوں کے منہ سے چیخیں نکل گئیں اور وحشیوں کی توجہ فوراً ہماری جانب مبذول ہو گئی، مجھے اپنی بزدلی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ میں نے ان امریکیوں کو وہیں چھوڑا اور وہاں سے بےتحاشا بھاگ پڑا۔ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وحشیوں نے انہیں پکڑ لیا تھا۔ تمام رات میں مسلسل بھاگتا رہا۔ بھاگتا رہا۔ اندھا دھند۔ مجھے راستے کا کچھ علم نہ تھا۔ میرے کپڑے دھجیاں دھجیاں ہو چکے تھے اور پیر زخمی۔ آخر ایک جگہ میں بےہوش ہو کر گر پڑا۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو ایک جھونپڑی کے اندر پایا۔ کچھ لوگ مجھے گھیرے کھڑے تھے۔ معلوم ہوا میں پورے تین دن بعد ہوش میں آیا ہوں اور یہ لوگ وہی ہیں جن کے گاؤں کے نزدیک آنائی ندی میں ہم نے مگرمچھ مارا تھا۔
پڈانگ کے ہسپتال میں پڑا دو سال تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ میری دونوں ٹانگیں بےکار ہو چکی تھیں اور ڈاکٹروں نے اس خدشے کے پیشِ نظر کہ زہر جسم میں نہ پھیل جائے۔ دونوں ٹانگیں کاٹ دیں۔ میں آج زندہ ہوں لیکن مُردوں سے بدتر اور اب بھی راتوں کو سوتے سوتے یک لخت چیخنے لگتا ہوں۔ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں۔ کیا میں واقعی پاگل ہوں؟