یہ ہیبت ناک اور لرزہ خیز داستان سماٹرا کے جنگلات سے تعلق رکھتی ہے ، واقعات اس قدر
پراسرار اور بعید از فہم ہیں کہ سائنس کے اس عظیم الشان دور میں بمشکل ہی ان پر یقین آئے گا، لیکن مجھے ایک روز مرنا ہے اور میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس داستان کا ایک ایک حرف صحیح ہے۔ دنیا کے متمدن اور بارونق شہروں میں رہنے والے لوگ جنگل کی زندگی کے تصور سے بھی نا آشنا ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ جنگل میں بسنے والوں کو قدم قدم پر کس طرح موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کی تہذیب، ان کی رسمیں، ان کے رواج وہی ہیں جو ہزار ہا سال سے ان قوموں میں رائج ہیں اور جنہیں ہم وحشیانہ حرکتیں کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کئی سال تک جاواکے جنگلوں میں گھومنے کے بعد جب میں اپنے وفادار ملازم ہاشم کی معیت میں سماٹرا کی طرف روانہ ہوا۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنے دل میں ایک عجیب اضطراب محسوس ہونے لگا۔ جیسے کوئی قوت بار بار میرے کان میں کہہ رہی ہو کہ تو وہاں مت جا۔۔۔۔ تو وہاں مت جا۔۔۔۔۔ میں ایک شکاری ہوں۔ جس نے زندگی میں صدها خطرات کا مقابلہ کیا ہے اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ اپنے حلقہ تعارف میں مجھے بزدل نہیں سمجھا جاتا۔۔۔ مگر ہر انسان کی طبعیت میں قدرت نے وہم کا مادہ رکھ دیا ہے جس سے وہ علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح مجھے بھی اس و ہم نے آگھیرا ہے کہ سماٹرا میں موت تیرا انتظار کر رہی ہے اور اگر گورنمنٹ کی ملازمت نہ ہوتی تو میں وہاں نہ جاتا۔
میری اضطراب کی وجہ یہ نہ تھی کہ سماٹرا میرے لیے ایک نئی جگہ تھی۔ جی نہیں۔ میں وہاں اس سے پہلے کئی برس رہ چکا تھا اور وہاں کے لوگوں سے اچھی طرح واقف تھا اور یہ بھی
جانتا تھا کہ جاوا کے جنگلات کی نسبت سماٹرا کے جنگلات کہیں زیادہ گھنے اور بھیانک ہیں۔۔۔۔۔ پھر کیا بات تھی کہ جب مجھے سماٹرا جانے کا حکم ملا توبجائے خوش ہونے کے میں
افسردہ ہو گیا۔۔۔۔ حالانکہ میرا ملازم ہاشم خوشی کے مارے ناچا ناچا پھر رہا تھا۔ اس معمے کا حل بہت کوشش کے بعد بھی مجھے نہیں مل سکا۔
ہاشم کی شاندار خدمات کے صلے میں میں نے اسے دو نالی را ئفل خرید کر دے
دی تھی اور وہ اسے پا کر اتنا خوش تھا جیسے کسی بچے کے ہاتھ نیا کھلونا آ گیا ہو ۔۔۔۔ اس سے پہلے اس کے پاس ایک بھاری اور بہت پرانی را ئفل تھی جسے چلانا بھی کارے دارد تھا۔
سماٹرا پہنچ کر مجھے پیلمبنگ کے ضلع میں تعینات کیا گیا۔ یہ علاقہ دلدلی میدانوں اور گھنے جنگلوں سے پٹا پڑا تھا اور فضا میں ہر وقت ایک بودار رطوبت سی چھائی رہتی تھی۔ میری عملداری میں جو علاقہ آیا وہ دریائے میلانگ کے کنارے واقع تھا اور بیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔۔ میں جس روز یہاں پہنچا، مزدوروں کی ٹولیاں مجھے دیکھنے کے لیے آئیں اور میں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ ان کے چہرے سوجھے ہوئے اور سیاہ تھے اور چال ڈھال سے بھی وہ مضمل نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں کالا بخار اور ملیریا کثرت سے پھیلا ہوا ہے
اور یہاں ان مزدوروں کا علاج کرنے والا بھی کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔ مصیبت یہ تھی کہ یہ لوگ اس قدر جاہل اور وحشی تھے کہ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے جو قواعد انہیں بتائے جاتے ، ان پر بالکل عمل نہ کرتے تھے۔ حالانکہ وہ دیکھتے تھے کہ وبائی امراض کی بدولت روزانہ تین چار آدمی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ سورج غروب ہوتے ہی دریا کی جانب سے ایک سیاہ بادل کی شکل میں بڑے بڑے مچھروں کی فوج اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتی اور بد نصیب مزدوروں پر ٹوٹ پڑتی۔ ان کے پاس مچھروں کو بھگانے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ آگ کے الاؤ جلا دیے جاتے تا کے مچھر نزدیک نہ آئیں۔ مگر جونہی ان بے چاروں پر نیند کا غلبہ ہوتا اور آگ مدھم پڑ جاتی، وہ ہزاروں کی تعداد میں ایک آدمی سے چمٹ جاتے اور جب صبح ان کی آنکھ کھلتی تو ان کے چہرے اور جسم سوجے ہوئے نظر آتے۔
اگر چہ مزدوروں کے رہنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کوارٹر اور جھونپڑیاں موجود تھیں مگر مچھروں کی یلغار روکنے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ البتہ میرے پاس ذاتی ملازموں اور مدد گاروں کے لئے مچھر دانیاں تھیں۔ جن کی بدولت ہم ان موذی مچھروں سے محفوظ رہتے۔
اگرچہ میں نے حکم دے رکھا تھا کہ پانی ابال کر پیا جائے لیکن مزدوروں کو اس کی پروا نہ تھی۔ وہ دریا سے پانی نکال کر بے تکلفی سے پی لیتے تھے حالانکہ اس پانی کی سطح پر مچھروں کے انڈے تیر رہے ہوتے تھے۔ قصہ مختصر میری جان توڑ کوششوں کے باوجود ملیریا کا مرض مزدوروں میں پھیلتا چلا گیا۔ میں بھلا کیا کرتا؟ میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا کہ ان کا علاج کرتا رہتا
پھر بھی مجھ سے جو ہوسکا کر تا رہا۔ یہاں تک کہ کونین کا ذخیرہ ختم ہوگیا اور پھر مجبوراً مجھے حکومت کو خط لکھنے پڑا کہ اگر چند روز تک کسی ڈاکٹر کا انتظام نہ کیا گیا توان مزدوروں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکے گا۔
مزدوروں کی تیمار داری اور ان کی صحت برقرار رکھنے کے مسائل پر میرا اتنا وقت صرف ہونے لگا کہ سیر و شکار کی طرف طبیعت راغب ہی نہ ہوئی۔ حالانکہ اس علاقے میں شکار کی کثرت تھی۔ اس علاقے میں جا بجا وسیع جوہڑ تھے جہاں مرغابیاں کثرت سے ملتی تھیں۔ ہاشم کبھی کبھار موج میں آتا تو چند مرغابیوں کو میرے لیے شکار کر لاتا تھا۔ دریائے میلان کی گہرائیوں میں خونخوار مگرمچھ ہزاروں کی تعداد میں تیرتے رہتے تھے۔ اور پھر تین میل دور فلک بوس پہاڑیوں کی وادی میں ہرن، جنگلی بھینسے۔ بارہ سنگھے، گینڈے،چیتے اور شیر سبھی موجود تھے۔ مگر قسمت دیکھیے کہ پیلیمبنگ میں آنے کے دو ماہ بعد تک مجھے شکار کی کسی مہم پر جانے کا موقع نہیں ملا۔ ہاشم بار بار مجھے ترغیب دیتا کہ آقا کسی روز شکار کو چلیے۔۔۔ ہماری رائفلوں کو اب زنگ لگنے لگا ہے۔۔۔ مگر میں ہنس کر ٹال دیا۔ قلی اور مزدور اس
سے بے حد خوش تھے کیونکہ وہ دو ایک مرتبہ بارہ سنگھا شکار کر کے لایا تھا اور اس کا گوشت اس نے مزدوروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سارا سارا دن وہ باہر جنگل میں یا دریا کے کنارے کنارے گھومتا رہتا، یہاں اسے اپنی نئی رائفل کے جوہر دکھانے کا بڑا ہی اچھا موقع ملا تھا۔ روزانہ ہی شام کو جب وہ واپس آتا تو گینڈوں، چیتوں اور مگر مچھوں کی داستانیں سناتا جو اس کی رائفل کا نشانہ بنتے بنتے بچ گئے تھے۔
آخر وہ دن بھی آ گیا کہ مجھے مزدوروں اور قلیوں کے علاج معالجے سے فرصت ملی۔ یعنی وہ ڈاکٹر جس کا انتظار تھا، آگیا تھا اور سچ پوچھے تو اس سے مل کر مجھے حقیقی مسرت ہوئی۔ بڑاہی خوش مزاج اور زندہ دل انسان تھا۔ چند ہی روز میں اس نے مزدوروں پر ایسا جادو کیا کہ سب اس کا کلمہ پڑھنے لگے اور اس کی ہدایات پر پوری طرح عمل پیرا ہو گئے۔ مچھروں کو مارنے
کے لیے کچھ سائنٹیفیک طریقے استعمال کیے اور دور دور تک ان کی جتنی آبادیاں اور انڈے بچے تھے سب کو ختم کر دیا۔ ڈاکٹر مجھ سے جلد ہی بے تکلف ہو گیا اور رات کو خاصی دیر تک ہم ادھر ادھر کی گپ شپ کر کے دل بہلانے لگے اور جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھی شکارسے دلچسپی رکھتا ہے تو مجھے اور بھی خوشی ہوئی اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ جانوروں اور درندوں کی نفسیات کے علاوہ یہ شخص علم الانسان کا بڑا ماہر تھا اور چونکہ جاوا اور سماٹرا میں عرصہ دراز تک رہ چکا تھا اس لیے ان جزیروں کے نہ صرف چپے چپے سے واقف تھابلکہ باشندوں کی عادات اور خصائل، ان کے رسم و رواج اور زبان سے بھی خوب آگاہ تھا۔
ایک روز جب ہم دونوں اپنے خیمے میں بیٹھے کافی پی رہے تھے، ڈاکٹر نے حسب معمول اپنے تجربات کی داستان کا آغاز کر دیا اور ایک ایسی عجیب کہانی سنائی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے جو کچھ اس نے سنایا اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے بھی مختلف لوگوں سے میں سن چکا تھا، مگر محض من گھٹرت قصے سمجھ کر میں نے ایسے واقعات پر زیادہ غور کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا، مگر جب ڈاکٹر نے تفصیلاً مجھے وہی کہانی سنائی تو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ واقعی اس داستان کی تہہ میں کچھ نہ کچھ حقیقت کا عنصر موجود ہے۔
قصہ یہ تھا کہ آنائی کے پہاڑی جنگلوں میں جو کوسوں میلوں میں پھیلے ہوئے ہیں ایسا قبیلہ پایا جاتا ہے جو انسانوں کا خون پیتا اور گوشت کھاتا ہے۔ اگرچہ اس آدم خور قبیلے کے افراد بہت کم ہیں، لیکن ان کی دہشت اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ کوئی بھی اس طرف جانے کی جرات نہیں کرتا اور جو بھولا بھٹکا وہاں جاتا ہے۔ کبھی واپس نہیں آتا۔۔۔ یہ آدم خور لوگ اکیلے دکیلے کی تاک میں رہتے ہیں اور بعض اوقات بستیوں میں آ کر عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آدم خور رات کی تاریکی میں کسی جھونپڑی کے دروازے پر دستک دیتا اور جونہی کوئی آدمی یا عورت دروازہ کھولتا تو آدم خور جھپٹ کر اسے پکڑ لیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کا تعاقب کیا جائے، وہ اپنے شکار کو لے کر جنگل کی تاریکی میں غائب ہو جاتا ہے۔ یہ آدم خور اس قدر شہ زور اور پھرتیلے ہیں کہ بیک وقت دو آدمیوں کو اٹھا لینا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ اس موقعے پر ڈاکٹر نے جو داستان مجھے سنائی وہ آپ اسی کے الفاظ میں سنیے۔
2
یہ آج سے چھ ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ مجھے ان دنوں آنائی کے جنگلوں میں درختوں کی کٹائی کا کام کرنے والے مزدوروں کی دیکھ بھال پر لگایا گیا۔ علاقہ چونکہ بے حد خطرناک تھا۔
اس لیے گورنمنٹ نے بارہ مقامی سپاہیوں پر مشتمل ایک دستہ میری حفاظت کے لیے روانہ کیا۔ اس دستہ کی کمان جس شخص کے سپرد کی گئی اس کا نام لاڈبل تھا اور وہ بیلجیئم کا رہنے والا ایک نڈر اور خاص تنومند آدمی تھا اور سچ تو یہ ہے کہ میری نسبت یہاں کے باشندوں اور ان کے رسم و رواج کے بارے میں لاڈبل کی معلومات بہت وسیع تھیں۔ ایک رات کا ذکر ہے، ہم دونوں آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے کہ لاڈبل نے مجھ سے آنائی کے آدم خور انسانوں کا پہلی بار ذکر کیا۔ میں یہ سمجھا کہ یہ بھی محض گپ ہے، اس لیے ہنس کر کہا، "چھوڑو یار کوئی اور قصہ سناؤ میں نے ایسے قصے بہت سنے ہیں۔
لیکن لارڈبل کے چہرے پر پھیلی ہوئی سنجیدگی اور گہری ہو گئی۔ چند لمحوں تک وہ اپنی گھنی مونچھوں کے سرے مروڑتا رہا پھر بولا، ڈاکٹر ! یہ معاملہ مذاق میں ڈالنے والا نہیں ہے۔ تم جانتے ہو کہ بارہ سپاہیوں کا یہ دوستہ آخر کس لیے بھیجا گیا ہے؟” میری حفاظت کے لیے۔” "
ٹھیک ہے مگر یہ تم نے نہیں سوچا کہ آخر یہاں تمہاری حفاظت کا کیوں خاص طور پر انتظام کیا گیا ہے۔ آخر اس سے پہلے بھی تم بہت سے مقامات پر جا چکے ہو۔ حکومت نے اس وقت تمہاری حالت اس طرح نہیں کی تھی۔”
بے شک وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ معاملے کے اس پہلو پر ابھی تک میں نے کوئی توجہ ہی نہ کی تھی۔ اتنے میں لا ڈبل نے کہا، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم آنائی کے علاقے میں ہیں، جہاں درندوں کے علاوہ آدم خور انسان بھی موجود ہیں۔ جو رات کی تاریکی میں شیروں اور چیتوں کی کھالیں اوڑھ کر آتے ہیں اور اپنے شکار کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اسے کچاہی کھا جاتے ہیں۔ اگر تم انسانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں دیکھنا چاہو تو میرے ساتھ چلنا ۔ کھائیوں اور گھنی جھاڑیوں میں یہ ہڈیاں پڑی مل جائیں گی۔
وحشت کی ایک لہر مجھے اپنے جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ جیسے کسی نے میر کی ریڑھ کی ہڈی پر برف رکھ دی ہو۔ تو حکومت ان آدم خوروں کو نیست و نابود کیوں نہیں کر دیتے؟” میں نے سوال کیا۔
لاڈبل مسکرایا۔ ڈاکٹر تم بھی کیا معصومانہ بات کرتے ہو۔ پہلے اس علاقے کو دیکھو۔ یہ تو کانگو کے خوفناک جنگلوں کو بھی مات کرتا ہے۔ اس میں ایک دو آدمی تو در کنار اگر ایک لاکھ بھی چھپ جائیں تو ان کو تلاش کرنا محال ہے۔ حکومت نے اسی کوشش میں اپنے بہت سے جانباز افسر اور مانے ہوئے شکاری گنوائے ہیں جن کی ہڈیاں بھی بعد میں دستیاب نہیں ہوئیں۔ ابتدا میں تو برسوں تک علم نہ ہوا کہ انسانوں کو پھاڑ کھانے کی واردا تیں خود انسان ہی کررہے ہیں۔ سارا الزام شیر اور چیتوں پر ڈال دیا جاتا تھا کیوں کہ ان ہی کے پنجوں کے نشانات بستیوں اور جنگلوں میں دیکھے جاتے تھے۔ مگر یہ بعد میں انکشاف ہوا کہ درندے بے قصور ہیں۔ یہ تو آدم خور انسان ہیں۔”
تھوڑی دیر توقف کے بعد لاڈبل نے اپنی داستان یوں شروع کی، یہ دو سال پہلے کا ذکر ہے، جب میں آنائی کے علاقے میں پہلی بار آیا میں نے سنا تھا کہ یہاں ”شیروں کی وادی” مشہور ہے۔ جہاں شیر اور چیتے کثرت سے ہیں۔ مقصد صرف شکار کھیلنا تھا۔ ان دنوں آدم خور انسانوں کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا بلکہ جو شخص جنگل میں گم ہو کر واپس نہ آتا
اس کے بارے میں یہی سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ کسی درندے کے منہ کا لقمہ تر بن چکا ہو گا۔ ایک روز رہنمائی کے لیے میں ایک مقامی باشندے
کو ساتھ لے کر شیروں کی وادی میں گھومنے کے لیے نکلا۔ اس کا نام شائیکا تھا اور یہ پولیس میں کافی عرصے تک ملازمت کر چکا تھا اور بڑا وفادار اور بہادر شخص تھا۔ میرے اور شائیکا کے پاس رائفلیں تھیں۔ ایک وسیع و عریض دلدلی میدان کو ہزاروں صعوبتوں کے بعد عبور کرتے ہوئے ہم شیر وں کی وادی میں پہنچے۔ یہ دلدلی میدان سے کوئی تین میل دور پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع تھی۔ یہ پہاڑی سلسلہ دلدلی میدان سے بھی زیادہ دشوار گزار ثابت ہوا اور ہمیں اونچے اونچے ٹیلے چھلانگ کر آگے بڑھنا پڑا۔ جنگل میں چاروں طرف ایک ہیبت ناک سناٹا طاری تھا اور قدم قدم پر خار دار جھاڑیاں ہمارا راستہ روکے کھڑی تھیں۔
اسی طرح کوئی ایک میل تک ہم دونوں شکاری آگے نکل گئے۔ ہم جوں جوں آگے بڑھتے جاتے تھے۔ جنگل میں تاریکی پھیلتی جاتی تھی، کیونکہ بلند درختوں کی چوٹیاں آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح ملی ہوئی تھیں کہ سورج کی روشنی بمشکل زمین تک پہنچ سکتی تھی۔ دفعتاً شائکا کے منہ سے حیرت کی ایک ہلکی سی چیخ نکلی اور اس نے لپک کر میرا بازو پکڑ لیا۔
میں نے گردن گھما کر دیکھا تو سامنے ہی جھاڑیوں میں کوئی بیس پچیس گز کے فاصلے پر ایک شیر خونخوار نظروں سے ہمیں گھور رہا تھا۔ شیر یکایک دھاڑا اور ارد گرد کی پہاڑیاں اس کی ہولناک گرج سے کانپ گئیں ۔ جنگل میں شیر کی ہیبت کا صحیح اندازه و ہی شکاری کر سکتے ہیں جو شیر کے شکار کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ کتنا ہی نڈر اور جری آدمی ہو، شیر کو پہلی بار دیکھتے ہی ممکن نہیں اس کے ہوش و حواس برقرار رہیں اور یہی کیفیت میری ہوئی ۔ را ئفل میرے ہاتھوں میں تھی لیکن جب چلانے کا ارادہ کیا تو ایسا معلوم ہوا جیسے میرے ہاتھ سن ہو چکے ہیں۔ شیر نشانے کی عین زد میں تھا، مگر ہم دونوں پتھر کی طرح بے جان مورتیوں کی مانند
بے حس و حرکت کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ یکایک اس نے جست لگائی اور بجلی کی طرح ہماری طرف لپکا۔ سنبھلنے کا موقع ہی کہاں تھا۔ اس سے پہلے کہ میری رائفل سے گولی نکلے شیر نے ایک ہی دوہتڑ میں شائیکا کو گرا دیا۔ مگر دوسرے ہی لمحے خود بخود میری انگی سے رائفل کی لبلبی دب گئی اور گولی شیر کی گردن میں لگی۔ ایک ہولناک گرج کے ساتھ شیر نے قلابازی کھائی اور غراتا دھاڑتا ہوا سامنے کی جھاڑیوں میں گھس کر نظروں سے غائب ہو گیا۔
یہ حادثہ ایسا غیر متوقع اور فوری تھا کہ آج بھی سوچتا ہوں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔ شائیکا کے دائیں کندھے سے گاڑھا گاڑھا خون مسلسل نکل رہا تھا۔ ظالم درندے نے ایسا جچا تلا ہاتھ مارا تھا کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کیا جائے اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے خود موت کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ اس ہیبت ناک جنگل میں جو شیروں سے بھرا پڑا تھا، دو آدمیوں کا ہمیشہ کے لیے گم ہو جانا کسی کے لیے بھی حیرت کا باعث نہ تھا اور نہ یہاں ہمیں کوئی تلاش کرنے کے لیے آتا۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ زخمی شیر کہیں قریب ہی موجود تھا۔ کیوں کہ اس کے غرانے کی لرزہ خیز آوازیں مسلسل بلند ہو رہی تھیں۔ میں چاہتا تو شائیکا کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے واپس جا سکتا تھا، لیکن یہ فعل ایسا سنگدلانہ اور
وحشیانہ ہوتا کہ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکتا تھا۔ زندگی کی اہمیت اور قدرو قیمت کا صحیح احساس انسان کو خطرے کے وقت ہوتا ہے۔ میرے
پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں ایسا بھیانک منظر کی منظر کشی کر سکوں۔ غریب شائیکا تکلیف کی شدت سے اس قدر نڈھال ہو چکا تھا کہ اس کا بچنا محال دکھائی دیتا تھا۔ اس کا چہرہ تپتے ہوئے تانبے کی مانند سرخ اور آنکھیں باہر کو ابلی پڑتی تھیں۔ اور اب اس کے منہ سے کراہنے اور چیخنے کی ملی جلی آوازیں نکلنی بند ہو گئی تھیں۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا اور ادھر میری کیفیت یہ کہ سارے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ جھاڑیوں میں چھپا ہوا زخمی شیر بار بار گرجتا اور اس کی ہرگرج کے ساتھ ہی میراکلیجہ اچھل کر حلق میں آ جاتا۔ لاڈبل نے چند لمحے توقف کے بعد اپنی داستان کا سلسلہ آگے بڑھایا۔
توہاً وکرہاً میں نے شائیکا کا بے حس و حرکت جسم اپنے کندھوں پر اٹھایا اور واپس آنے لگا۔ اب ہم دونوں کے بچنے کی صرف ایک ہی تدبیر تھی کہ ایک فرلانگ پیچھے ایک اونچے پہاڑی ٹیلے پر پناہ لی جائے، مگر آہ! جو نہی میں پیچھے مڑا شیر غراتا ہوا جھاڑیوں میں سے نکلا ۔
جنگل کے اس بے کراں سناٹے اور لمحہ لمحہ پھیلتی ہوئی تاریکی میں اس کی گھن گرج یوں محسوس ہوتی تھی جیسے بیک وقت کئی توپیں چل گئی ہوں۔ اس کی آنکھیں مشعل کی مانند روشن تھیں۔ میں نے شائیکا کو فوراً زمین پر پٹخا اور رائفل سے شیر کا نشانہ لے کر پے در پے دو فائر کیے۔ اتنا یاد ہے کہ رائفل کی نالی سے شعلہ نکلتے ہی شیر فضا میں کئی فٹ اونچا اچھلا اور وہیں ڈھیر ہو گیا اور پھر میں بھی غش کھا کر وہیں گر پڑا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے میں وہاں کتنی دیر بے ہوش پڑارہا۔ جب آنکھ کھلی تو مجھے اپنے گھٹنے میں درد کی ٹیسیں محسوس ہوئیں۔ میرے کانوں میں جو پہلی آواز آئی وہ شائیکا کے کراہنے کی آواز تھی۔ میں نے جیب ٹٹول کر ٹارچ نکالی اور اس کی روشنی میں گردوپیش کا جائزہ لیا۔ مجھ سے دس قدم کے فاصلے پرشائیکا پڑا تھا۔ میں نے اسے آواز دی تو وہ لڑ کھڑاتا ہوا اٹھا اور میرے قریب آگیا۔ پھر ہم دونوں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے اپنے کیمپ کی طرف واپس ہوئے۔ ہزار صعوبتوں اور بے پناہ دشواریوں کے ساتھ ہم ابھی بمشکل تین چار فرلانگ ہی گئے تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جنگل کا یہ حصہ دلدلی میدان کے سرے پر واقعہ تھا۔ اس لیے یہاں گنجان درخت اور جھاڑیاں نہیں تھیں اور ہم زیادہ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ ہمارے
دائیں جانب کوئی ایک فرلانگ دور ایک بلند اور عموداً اٹھتی ہوئی پہاڑی تھی۔ جس کی چوٹی سے دھوئیں کا سیاہ بادل بل کھاتا ہوا آسمان کی طرف جا رہا تھا۔ ہم حیرت سے اس دھوئیں کو یوں تک رہے تھے جیسے زندگی میں
پہلی بار دھواں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو۔ شائیکا نے کہا، “ ضرور اس پہاڑی پر کوئی رہتا ہے، لیکن اس ویرانے میں، جو صدیوں سے درندوں اور حشرات الارض کا مسکن ہے۔ کون ہے جو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے یہاں آن بسا ہے ؟ میرا خیال ہے اس پہاڑی کے اوپر یا اس کی پشت پر ضرور کوئی بستی ہے۔”
گھسٹتے اور لڑکھڑاتے ہوئے ہم دونوں بہ ہزاردقت و دشواری اس پہاڑی کے اوپر پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں ایک بوڑھی عورت ایک جھونپڑی کے قریب بیٹھی آگ سلگا رہی ہے۔ ہمارے قدموں کی آہٹ پاکر اس نے اپنا سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ خدا رحم کرے! میری اتنی عمر ہونے کو آئی، مگر حلفیہ کہتا ہوں کہ اتنی بھیانک شکل و صورت کی عورت میں نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ اس کی عمر خدا ہی بہتر جانتا ہے کتنی ہوگی۔ سر کے بال اور بھنویں تک چاندی کے تاروں کی مانند سفید تھیں۔ چہرے پر پڑی ہوئی بے شمار جھریوں نے اس کی شکل بے حد مکروہ بنا دی تھی اور ہڈیاں اوپر کو ابھری ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ فراخ دہانے اور اس میں
سے باہر کو نکلے ہوئے ہے زرد دانتوں کے علاوہ اس کے سیاہ چہرے کو جس شے نے مزید بھیانک بنادیا تھا۔ وہ اس چڑیل کی آنکھیں تھیں جو بھیڑیے کی آنکھوں سے مشابہ تھیں ۔ ان میں سرخی مائل چمک تھی۔ آنکھوں کی پتلیاں کبھی پھیلتی اور کبھی سکڑ جاتیں۔ ہم دونوں ایک لمحے کے لیے حیرت زدہ ہو کر اس کو تکنے لگے۔ اور وہ بھی ہمیں گھورتی رہی۔
دفعتاً وہ اپنی جگہ سے ایک چیخ مار کے اٹھی اور ہمارے جانب بڑھی اور پھر میں نے دیکھا کہ اس کے سیاہ ناخن بھی ریچھ کے ناخنوں کی طرح بڑھے ہوئے تھے۔
3
آقا یہ چڑیل ہے۔ شائیکا دہشت زدہ ہو کر چلایا اور وہیں غش کھا کر گر پڑا۔ بد حواسی میں مجھے کچھ نہ سوجھا تو رائفل کا کندھا اس چڑیل کے سر پر دے مارا اور وہ لڑھکنیاں کھاتی ہوئی کسی گہری کھائی میں گر کر ختم ہو گئی۔ میری زندگی کا یہ ناقابل فراموش حادثہ اتنی جلدی رونما ہوا کہ میں کچھ سوچ ہی نہیں سکا کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ میرا جسم پسینے سے تر ہو چکا تھا اور ذہن بالکل ماؤف، تاریکی اب اس قدر بڑھ چکی تھی کہ دس گز دور کی شے بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس ویران اور سنسان پہاڑی جنگل میں پھیلی ہوئی پر اسرار خاموشی حد درجہ اذیت ناک تھی، جسے کبھی کبھی الو کی بھیانک چیخیں توڑنے کی کوششیں کررہی تھیں۔
میرے گھٹنے میں درد کی ٹیسیں پھر تیز ہو گئیں اور میں وہیں لیٹ گیا۔ مجھے اب اپنی موت کا یقین ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر میں جب میری طبیعت سنبھلی اور ہوش و حواس اپنی جگہ پر واپس آنے لگے تو میں نے گردوپیش کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ فضا میں ایک عجیب قسم کی ناگوار بد بو پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے سڑے ہوئے گوشت کی ہوتی ہے۔ اس بوڑھی چڑیل کا چہرہ میری نظروں کے آگے بار بار رقص کر رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ کیا میں نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے؟ مگر نہیں یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ آگ کا الاؤ جو اس چڑیل نے روشن کیا تھا
اب پوری طرح جل رہا تھا۔ میں نے بد نصیب شائیکا کو اٹھایا اور لے جا کر اسے جھونپڑی کے ایک طرف ڈال دیا اور الاؤ کی روشنی میں جھونپڑی کا جائزہ لینے لگا۔ یہ جھونپڑی بالکل اسی طرز پر بنی ہوئی تھی جس طرز پر امریکہ کے ریڈ انڈینز اپنی جھونپڑیاں بناتے ہیں۔ یعنی گول اور اوپر سے مخروطی ۔ میں نے محسوس کیا کہ جھونپڑی کے کونے اور گوشوں میں سے سڑے ہوئے گوشت کی بساند اٹھ رہی ہے۔ ایک جانب پرانے کپڑوں کی دھجیاں اور مٹی کے برتن بھی دکھائی دیے۔ جلتے ہوئے الاؤ کی روشنی جھونپڑی کے اندر پہنچ تو رہی تھی مگر اس قدر مدھم تھی کہ میں پوری طرح اندرونی حصہ نہ دیکھ سکتا تھا۔ میں نے ٹارچ نکالی اور اسے روشن کیا۔ جونہی روشنی کا یہ مختصر، مگر تیز دائره ٹارچ سے خارج ہوا اور میری نگاہ
جھونپڑی کے بائیں گوشے میں گئی تو فرطِ خوف سے میرا جسم لرز گیا۔ اور ایک لمحے کے لیے مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے خون میری رگوں میں سرد ہو کر جم رہا ہے۔
انسانی ہڈیوں، کھوپڑیوں اور گوشت کے بڑے بڑے لوتھڑوں کا ایک اونچا ڈھیر تھا جو مجھے دکھائی دیا اور وہ ناقابل برداشت بد بو اسی ڈھیر میں سے اٹھ رہی تھی۔ میں نے چاہا کہ وہاں سے نکل بھاگوں۔
مگر میرے پیروں میں جیسے جان ہی نہ تھی، اپنی قوت ارادی جمع کر کے میں جھونپڑی سے باہر نکلا۔ اب یہاں ٹھہرنا جان بوجھ کر موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ خدا معلوم یہ کیا بلا تھی جو انسانوں کو کھایا کرتی تھی اور یہ خیال مجھے بار بار آیا کہ شاید ایسی ہی آدم خور چڑیلیں قریب ہی کہیں موجود نہ ہوں۔ ابھی میں اسی کیفیت میں گم تھا کہ ناگہاں دور جنگل کی بیکراں اور پرہول تاریکی میں شیروں کے دھاڑنے کی آوازیں آئیں۔ ان کی آوازوں نے رہے سہے ہوش بھی اڑادیے۔
میری چھٹی حس ایسے موقعوں پر اچھی طرح بیدار ہو جایا کرتی ہے۔ چنانچہ اضطراب اور بے چینی کی ایک زبردست لہر یک لخت میرے اعصاب میں دوڑنے گی۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب کسی بھی لمحے کوئی نامعلوم خطرہ نازل ہونے والا ہے۔ دفعتاً میں نے پہاڑ کے دامن میں ایک ہلکی سی آہٹ سنی۔ جیسے کوئی درندہ اپنے پنوں سے زمین خرچنتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ آواز لمحہ بہ لمحہ میرے قریب آرہی تھی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ نظر نہیں آیا۔ دہشت سے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ رائفل میرے دائیں ہاتھ میں تھی اور یہی میرا آخری سہارا تھا، جسے میں خطرے کے وقت استعمال کر سکتا تھا۔
میں جھونپڑی سے باہر نکلا تو الاؤ سے تھوڑے فاصلے پر شائیکا کا بے ہوش جسم پڑا دکھائی دیا۔ خدا معلوم وہ مر چکا تھا ،ابھی اس میں زندگی کی کوئی رمق باقی تھی۔ یہ میں کبھی نہ جان سکوں گا کیوں کہ چند ہی لمحوں بعد جو منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاص وہ مجھے خوف سے پاگل کر دینے کے لیے کافی تھا۔ وہ پراسرار اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی آواز دراصل کسی
درندے کی قدموں کی نہ تھی بلکہ بہت سے جنگلی انسانوں کی تھی جو پہاڑی پر چل رہے
تھے۔ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا مگر بلندی پر ہونے کے باعث میں انہیں دیکھ چکا تھا۔ میرے سامنے فرار کی ایک راہ تھی اور وہ یہ کہ میں جھونپڑی کی پشت پر ہو کر پہاڑی سے نیچے اتر جاؤں۔ ٹارچ میرے پاس تھی جس کی مدد سے راستہ تلاش کرنا کچھ مشکل نہ تھا مگر آہ! جب میں ادھر آیا تو معلوم ہوا کہ پہاڑی کا یہ حصہ اس قدر دشوار اور عمودی ہے کہ قدم کی ایک لغزش مجھے تحت الثرٰی میں پہنچا دینے کے لیے کافی ہو گی۔ جھونپڑی اب مجھ سے بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھی اور میں جس جگہ کھڑا تھا وہاں اس قدر گھپ اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دیتا تھا۔ اس میں وہیں پیٹ کے بل لیٹ گیا اور رائفل کا رخ جھونپڑی کی طرف کر کے انگلی ٹریگر پر رکھ دی۔
سوکھی شاخوں کا جلتا ہوا الاؤ اب بجھنے کے قریب تھا اور اس کی مدھم روشنی میں شائیکا کا بے ہوش جسم صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں وہ وحشی اوپر چڑھ آئے۔ وہ تعداد میں پانچ
تھے۔ سب کے سب بالکل ننگ دھڑنگ۔ بالوں سے ان کا سارا جسم ڈھکا ہوا تھا۔ داڑھی، مونچھ اور سر کے بال اس طرح آپس میں مل گئے تھے کہ سوائے آنکھوں کے چہرے کا کوئی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ بالکل ایک قد آور ریچھ کی مانند تھے اور حقیقت یہ ہے اگر میں نے
انہیں دونوں پیروں کے سہارے چلتے نہ دیکھتا تو انہیں ضرور ریچھ ہی کی نسل کا کوئی درندہ سمجھ لینے پر مجبور ہو جاتا۔
شاید وہ اس بوڑھی چڑیل کی تلاش میں یہاں آئے تھے ، جو انہی کے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، مگر وہ انہیں کہیں نظر نہ آئی۔ شائیکا کو انہوں نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ پہلے میرے جی میں آیا کہ رائفل سے اندھادھند فائر کر کے ان خون آشام موذیوں کا ہمیشہ کے لیے قصہ پاک کر دوں لیکن اس خدشے سے رک گیا کہ اگر میرانشانہ خطا ہو گیا اور ان جنگلیوں کو میری موجودگی کا پتہ چل گیا تو ان کے منہ کا لقمہ تر بننے سے مجھے کوئی معجزا ہی بچا سکے گا۔
دفعتاً انسانی شکلوں کے ان درندوں کے منہ سے بھیانک چیخیں نکلیں اور میرا کلیجہ لرز گیا۔ انہوں نے شائیکا کو وہاں پڑا ہوا دیکھ لیا تھا اور اب خوشی سے چلا رہے تھے۔ وہ خونخوار بھیڑیوں کی طرح اس بد نصیب سپاہی کی طرف جھپٹے اور جونکوں کی مانند اس سے چمٹ گئے۔ شاید وہ اس کا خون پی رہے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ کسی ہتھیار کے زریعے انہوں نے لاش
کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور جلدی جلدی کچا گوشت چبانے لگے۔ یہ منظر اس قدر دہشت انگیز تھا کہ میرا بدن برف کی مانند سرد پڑ گیا۔ میری آنکھوں کے آگے پہلے شرارے ناچنے لگے اور پھر میں جیسے تاریکی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا۔
ڈاکٹر نے لاڈبل کی یہ پراسرار داستان کچھ اس انداز سے سنائی کہ ایک مرتبہ تو دہشت کی لہر میرے جسم میں بھی دوڑ گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، لاڈبل اب کہاں ہے؟”
اس نے بتایا، لاڈبل کی جان تو
To be Continue…