” اَللَّهُ اَكْبَرُ اَللَّهُ اَكْبَرُ ” فجر کی اذان کچھ دیر بعد سنائی دے رہی تھی۔ اس خاموشی میں اذان کی آواز انتہائی مسحور کن تھی۔
” اشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ ” یہ پراثر آواز جیسے روح میں اتر رہی تھی۔
” اشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللهِ ” سدرہ اور مزمل دونوں خاموشی سے اذان سن رہے تھے۔ انکی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔ سدرہ نے اپنا سر دوپٹے سے ڈھانپا ہوا تھا۔
” حَىَّ عَلَى الصَّلَوةِ ” خدا کی طرف سے اپنے بندے کو بلایا جا رہا تھا۔
” حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ ” کامیابی کی طرف بلایا جا رہا تھا، جس کے پیچھے انسان پوری زندگی بھاگتا ہے، محنت کرتا ہے، خوار ہوتا ہے مگر پھر بھی کامیابی یقینی نہیں ہوتی۔ مگر اس وقت کامیابی دینے والا خود انسان کو بلا رہا تھا اسکو دعوت دے رہا تھا کہ آو کامیابی کی طرف مگر پورا دن محنت کرنے کے بعد کامیابی کے وقت انسان سو رہا تھا۔
” اَلصَّلَوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ ” ہر طرف مکمل خاموشی میں یہ آواز گونج رہی تھی۔
” لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ ” اذان کے بعد دونوں نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھا لئے تھے۔ انکی زندگی کی سب سے قیمتی چیز ان سے دور تھی وہ اپنے بچے سے اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے۔
"میں اب نماز پڑھنے جا رہا ہوں، قاری صاحب نے کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ آ جائیں گے تم بلکل بھی پریشان نا ہونا اگر خدا نے چاہا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا” مزمل نے کہا اور نماز پڑھنے کے لئے چلا گیا۔
سدرہ نے بھی نماز پڑھی۔ کچھ دیر بعد مزمل گھر آ گیا تھا اور اس کے ساتھ قاری صاحب بھی تھے اور ان کے پاس ایک لکڑی کا ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا۔ قاری صاحب نے ایک دفعہ پھر پورا گھر دیکھا تھا۔ اوپر والے کمرے میں آ کر قاری صاحب رک گئے تھے۔
"آپکا بیٹا یہیں کہیں ہے، صرف ہماری نظروں سے اوجھل ہے” قاری صاحب نے کہا۔
"پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟” مزمل سے قاری صاحب سے پوچھا۔
” میں کوشش کرتا ہوں آپ لوگ بھی خدا سے دعا کرو ” قاری صاحب سے کہا اور لکڑی کے ڈبے سے ایک چھوٹی سی پانی کی بوتل نکال لی اور پانی اس کمرے کی چاروں طرف پھینک دیا۔ قاری صاحب کمرے کے عین درمیان میں آ کر کھڑے ہو گئے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگے۔ اچانک کمرے کا دروازہ اور کھڑکی زور زور سے کھلنے اور بند ہونے لگے۔ زمین پر بھی تھڑتھڑاہٹ سی پیدا ہو گئی تھی۔ قاری صاحب لگاتار منہ میں کچھ پڑھی جا رہے تھے اب ہی طرف سے تیز آوازیں آ رہی تھی جیسے کچھ لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہوں۔ اچانک روشنی کا ایک جھماکا ہوا اور اس میں شامی نمودار ہوا۔ شامی قاری صاحب کے بلکل سامنے زمین پر بیٹھا تھا اسکا سر نیچے کو جھکا ہوا تھا۔ شامی کو دیکھ کر سدرہ آگے بڑھی مگر قاری صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
"کون ہو تم؟ اور کیا چاہتے ہو اس بچے سے؟” قاری صاحب نے سختی سے پوچھا۔
"میں شملاک ہوں، اور مجھے بدلہ چاہیے” شامی کے گلے سے انتہائی بھیانک آواز نکل رہی تھی۔
"کس بات کا بدلہ کیا بگاڑا ہے اس نے تیرا؟”قاری صاحب نے پھر پوچھا۔
"میرے بچے کو مارا ہے اسکے باپ نے، وہ اس کے ساتھ کھیل رہا تھا مگر اسے مار دیا اس شخص نے” شامی نے مزمل کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا۔
شامی کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں۔ مزمل نے اپنے جسم میں سردی کی ایک لہر اترتی محسوس کی۔ مزمل کو فوراً وہ رات کا بلی والا واقعہ یاد آ گیا تھا۔ جب اس نے لاٹھی سے بلی کو مارا تھا۔ اس سردی میں بھی سدرہ اور مزمل کے کپڑے پسینے سے بھیگ چکے تھے۔
"چھوڑ دو اس معصوم بچے کو” قاری صاحب نے شامی سے کہا۔
"نہیں میں بدلہ لئے بغیر نہیں جاؤں گا” شامی کا لہجہ بہت خوفناک تھا۔
"میرے شامی کو چھوڑ دو ہم اس گھر کو چھوڑ کر چلے جائیں گے پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے بس میرے بچے کو چھوڑ دو” سدرہ نے گڑگڑاتے ہوۓ کہا۔
” نہیں میں نہیں چھوڑوں گا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا” شامی چیخ رہا تھا۔
” اگر تم نے اس بچے کو نا چھوڑا تو میں تمہیں ختم ختم کر دوں گا، جلا کر راکھ کر دوں گا تم کو” قاری صاحب نے کہا۔
"کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کوئی بھی نہیں” شامی نے کہا۔
قاری صاحب نے ایک اور پانی کی بوتل نکال لی مگر شامی نے قاری صاحب پر حملہ کردیا۔ قاری صاحب کے ہاتھ سے پانی کی بوتل نکل کر دور گر گئی۔ شامی نے اپنے ہاتھ سے قاری صاحب کی گردن کو دبانا شروع کردیا۔ قاری صاحب کے چہرے کا رنگ سرخ ہو چکا تھا۔ سدرہ اور مزمل ایک طرف کھڑے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔
"اس پر پانی پھینکو بوتل والا” قاری صاحب نے مزمل کو کہا۔ تو جیسے مزمل کو ہوش آئی۔ مزمل پانی کی بوتل کی طرف بھاگا مگر اب شامی نے قاری صاحب کو چھوڑ کر شامی پر حملہ کردیا تھا۔ مزمل کو ایک زور دار دھکا دے کر شامی مزمل کے سینے پر سوار ہو گیا تھا۔ شامی اپنے پنجوں سے مزمل کے چہرے پر وار کرنے ہی والا تھا کہ سدرہ نے پانی کی پوری بوتل شامی کے اوپر انڈیل دی۔ شامی نے مڑ کر خوفناک نظروں سے سدرہ کو دیکھا تھا مگر اچانک شامی بیہوش ہو کر مزمل کے سینے پر ہی لیٹ گیا تھا۔
"اب یہ ٹھیک ہے، مگر یہ جن اتنی جلدی اسکو نہیں چھوڑے گا اسے نیچے بستر پر لٹا دو” قاری صاحب نے اپنے ہاتھ سے اپنی گردن کو مسلتے ہوۓ کہا۔
مزمل اور سدرہ شامی کو اٹھا کر نیچے والے کمرے میں لے گئے تھے۔ شامی کو تیز بخار ہو گیا تھا۔
"آپ لوگ اسکے سر پر پٹیاں کریں اور یہ پانی اپنے پورے گھر میں چھڑک لیں” قاری صاحب نے پانی کی بوتل مزمل کو پکڑاتے ہوۓ کہا۔
"شامی ٹھیک تو ہو جائے گا نا؟” سدرہ نے قاری صاحب سے پوچھا۔
"آپ اللّه پر بھروسہ رکھیں بس، میں اپنے مرشد سے بات کرتا ہوں وہ ضرور ہماری مدد کر سکتے ہیں” قاری صاحب نے کہا۔
"قاری صاحب آپکا بہت شکریہ، آپ اس مشکل میں ہماری مدد کر رہے ہیں” مزمل نے تشکرانہ لہجے میں قاری صاحب سے کہا۔
"بیٹا یہ کہہ کر تم مجھے شرمندہ کر رہے ہو، یہ تو میری خوش قسمتی ہو گی کہ میں کسی کے کام آ جاؤں” قاری صاحب نے کہا۔
"اب میں چلتا ہوں، میں اپنے مرشد سے بات کروں گا، یہ جنات ویسے آپکے بیٹے کا پیچھا نہیں چھوڑے گا چاہے آپ گھر بھی تبدیل کرلیں، مزمل بیٹا تم ظہر کی نماز کے وقت مسجد میں مجھے ملنا” قاری صاحب نے کہا۔
"ٹھیک ہے قاری صاحب” مزمل نے کہا اور قاری صاحب کو باہر تک چھوڑ کر آیا۔
شامی کا ماتھا تپ رہا تھا، سدرہ اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کر رہی تھی۔ اور قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر شامی پر دم کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں شامی کا بخار کچھ کم ہو گیا۔ اب شامی کا چہرہ بھی پرسکون نظر آ رہا تھا۔ اب شامی آرام سے سو رہا تھا۔
"میں کھانا بنا کر لاتی ہوں آپ شامی کے پاس بیٹھیں” سدرہ نے مزمل کو کہا تو مزمل شامی کے پاس بیٹھ گیا۔ اور سدرہ کچن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد سدرہ ناشتہ لے کر آ گئی۔ اور انہوں نے وہیں بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ شامی ابھی بھی سو رہا تھا۔ انہوں نے شامی کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ کچھ دیر بعد شامی کو جاگ آ گئی تھی شامی بلکل نارمل تھا۔
"ہمیں یہ گھر چھوڑ کر چلے جانا چاہیے” سدرہ نے مزمل سے کہا۔
"قاری صاحب نے کہا تھا کہ وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گا چاہے ہم یہ گھر چھوڑ بھی دیں، میں ایک دفعہ دوپہر کو قاری صاحب سے ملتا ہوں پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں، ہمیں اپنے طور پر کچھ نہیں کرنا چاہیے” مزمل نے کہا۔
مزمل مسجد میں قاری صاحب کے پاس گیا ہوا تھا۔ سدرہ بھی ابھی نماز پڑھ کر بیٹھی تھی۔ شامی سدرہ کے سامنے بیٹھا اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ اچانک شامی کے کھلونوں کو آگ لگ گئی۔ شامی چیخ رہا تھا۔ سدرہ نے جلدی جلدی جا کر شامی کو اپنے سینے سے لگا دیا۔
"میرے بچے تم ٹھیک ہو نا؟” سدرہ نے شامی سے پوچھا۔
"ہوں” شامی نے کہا۔ شامی ابھی بھی رو رہا تھا۔
اچانک دروازے پر دستک ہونے لگی۔
"لگتا ہے تمھارے پاپا ہیں میں دیکھتی ہوں” سدرہ نے شامی سے کہا اور باہر جا کر دروازہ کھول دیا۔
مگر دروازہ کھولتے ہی سدرہ کو اپنا سانس رکتا محسوس ہونے لگا۔ سدرہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ سدرہ کو لگ رہا تھا جیسے اس گھر میں ره کر اسکے دماغ پر کوئی اثر ہو گیا ہے۔ دروازے پر سامنے اسکی چھوٹی بہن آمنہ موجود تھی۔ اور مسکرا رہی تھی۔
آٹھ سال پہلے سدرہ اور اسکی چھوٹی بہن آمنہ کو ان کے والدین گھر چھوڑ کر بازار چلے گئے تھے۔ سدرہ آمنہ سے تین سال بڑی تھی۔ آمنہ جب سو رہی تھی تو سدرہ اسکے کمرے کو لاک کر کے ساتھ والے گھر اپنی سہیلی کے پاس چلی گئی تھی۔ محلے والوں کے شور پر جب وہ باہر نکلی تو دیکھا تھا کہ اس کے گھر میں آگ لگ چکی تھی۔ لوگوں نے ریسکیو والوں کو بلایا تھا مگر جب آگ بجھائی گئی تو وہاں سے آمنہ کی جلی ہوئی لاش ملی تھی۔ آگ آمنہ کے کمرے میں ہی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی تھی۔ سدرہ ہمیشہ آمنہ کی موت کا ذمہ دار خود کو سمجھتی تھی۔ اگلے کافی سال تک وہ رات کو سو نہیں پاتی تھی کہتی تھی کہ اسکے خواب میں آمنہ آتی ہے۔ اسے ہمیشہ لگتا تھا کہ کبھی کہیں سے آمنہ آئے گی اور اسے مار دے گی۔ باقاعدہ نفسیاتی ڈاکٹرز سے علاج کروانے کے بعد سدرہ آمنہ کو بھول پائی تھی۔ مگر آج آمنہ اس کے سامنے موجود تھی اور سدرہ کو واقعہ پھر سے یاد آگیا تھا۔
"کیسی ہو میری پیاری بہنا؟” آمنہ نے مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔
"تت تم ککک کیسے” سدرہ کو ایکدم چکر آیا تھا اور وہ وہیں گر کے بیہوش ہو گئی۔
سدرہ کی جب آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں تھی اور مزمل اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔
"چلو شکر ہے تمہیں ہوش تو آئی” مزمل نے سدرہ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔ شامی بھی مزمل کے پاس ہی موجود تھا۔
"تمہیں ہوا کیا تھا ویسے” مزمل نے پوچھا۔
"وہ دروازے پر دستک ہوئی تھی میں سمجھی کے آپ آئیں ہوں گے، میں نے جب دروازہ کھولا تو وہاں آمنہ تھی” سدرہ نے جواب دیا۔
"کون آمنہ؟” مزمل نے حیرانی سے پوچھا۔
"میری بہن آمنہ” سدرہ نے کہا۔
"کیا کہہ رہی تو تم، وہ تو مر چکی ہے” مزمل نے کہا۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں وہ ہی تھی وہاں، وہ وہ مجھے مار دے گی مجھے نہیں چھوڑے گی وہ” سدرہ نے روتے ہوۓ کہا۔
"کچھ نہیں ہو گا، تم حوصلہ رکھو” مزمل نے سدرہ کے چہرے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
"تھوڑی دیر میں قاری صاحب آ رہے ہیں، پھر دیکھتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے” مزمل نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے سدرہ کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا۔
"یہ سب ٹھیک ہو جائے گا نا؟ جنات ہمارے بچے کا پیچھا چھوڑ دیں گے نا؟” سدرہ نے شامی کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
” سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ” مزمل نے کہا۔
تھوڑی دیر بعد قاری صاحب آ گئے۔
"میری بات ہوئی تھی میرے مرشد سے، انہوں نے کہا ہے کہ بچے کو لے کر ان کے آستانے پر آیا جائے، اور انہوں نے مجھے آپ لوگوں کے ساتھ وہاں آنے کا حکم دیا ہے” قاری صاحب نے کہا۔
"آپکے مرشد کا آستانہ کہاں ہے؟” مزمل نے پوچھا۔
” یہاں سے اسی کلو میٹر دور ایک گاؤں میں مرشد کا آستانہ ہے، اگر آپ جانے پر راضی ہو جائیں تو میں آپکے ساتھ جاؤں گا، اگر آپکو اعتراض نا ہو تو” قاری صاحب نے کہا تو مزمل، سدرہ کی طرف دیکھنے لگا۔
"جی ہم جائیں گے، میں اپنے بچے کے لئے کچھ بھی کروں گی” سدرہ نے کہا۔
"تو بس آج شام کو ہمیں نکلنا ہو گا” قاری صاحب نے کہا اور اجازت لے کر چلے گئے۔
گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر مزمل تھا جب کہ ساتھ والی سیٹ پر قاری صاحب بیٹھے ہوۓ تھے۔ شامی، اور سدرہ پیچھے بیٹھے تھے۔
"ہمیں جلد سے جلد وہاں پہنچنا ہو گا، وہ جنات ہمیں روکنے کی پوری کوشش کریں گے مگر ہمیں ہر حال میں وہاں جانا ہی ہے” قاری صاحب نے کہا۔
"جی ہم ضرور جائیں گے” مزمل نے کہا۔
گاڑی ایک سنسان سڑک پر چل رہی تھی۔آسمان پر ہر طرف بادل چھائے ہوۓ تھے۔ انھیں گھر سے نکلے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا ابھی تقریباً آدھے گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ گاڑی اچانک ایک جھٹکے سے بند ہو گئی۔
"کیا ہوا؟” سدرہ نے گاڑی کے رکنے پر پوچھا۔
"پتہ نہیں میں دیکھتا ہوں جا کر” مزمل نے کہا اور اتر کر گاڑی کو چیک کرنے لگا۔ اچانک گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہو گئی۔ مزمل بار بار گاڑی کو سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر گاڑی کسی طور بھی سٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
"وہاں دور ایک گھر نظر آ رہا ہے، شاید وہاں ہمیں کوئی مدد مل جائے” مزمل نے کہا اور چھتری نکال لی۔ وہ تینوں، شامی کے ساتھ چھتری میں بارش سے بچتے ہوۓ اس گھر کی طرف چل دیے۔ مزمل نے گاڑی کو سڑک کی ایک سائیڈ پر لاک کر دیا تھا۔
ویرانی میں موجود یہ گھر انتہائی پراسرار لگ رہا تھا۔ گھر کافی پرانا تھا مگر اسکے جلال میں کمی نہیں آئی تھی۔ گھر کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہاں کوئی رہتا ہو گا۔
"بہت عجیب لگ رہا ہے یہ گھر” سدرہ نے گھر کو دیکھتے ہی کہا۔
"میں یہاں سے کافی دفعہ گزرا ہوں، مگر مجھے حیرانی ہے کہ کبھی میں نے اس گھر کو دیکھا ہی نہیں” قاری صاحب بھی اس گھر سے کافی مرعوب نظر آ رہے تھے۔
"ہمیں دستک دے کر دیکھنا چاہیے، پتہ نہیں یہاں کوئی موجود بھی ہے یا نہیں” مزمل نے کہا اور آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور اندر سے ایک بوڑھا شخص برآمد ہوا۔
"جی فرمایے” اس بوڑھے کی آواز بہت بھیانک تھی
"دراصل یہاں ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے اور باہر کا موسم بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے، ہمیں کچھ مدد کی ضرورت ہے کیا یہاں کوئی گاڑی کا میکینک مل سکتا ہے؟” مزمل نے پوچھا۔
"نہیں یہاں دور تک کوئی میکینک نہیں ہے، آپ یہاں رات گزار سکتے ہیں صبح میں میکینک کا انتظام کردوں گا” اس بوڑھے نے آفر کی۔
"جی آپکا بہت شکریہ، کیا گھر میں کوئی اور رہتا ہے” مزمل نے پوچھا۔
"ہاں میری بیوی اور ہمارے دو بچے بھی یہاں رہتے ہیں” بوڑھے نے کہا اور دروازہ کھول کر اندر آنے کا اشارہ کیا۔
مزمل گھر میں داخل ہو گیا پیچھے ہی سدرہ بھی شامی کے ساتھ آگئی اور قاری صاحب بھی اندر آ گئے۔
"میں آپکو کمرہ دیکھا دیتا ہوں” وہ بوڑھا مزمل کے آگے آگے جا کر اسے ایک کمرے تک لے گیا۔
"آپ دونوں اس کمرے میں ٹھہر سکتے ہیں، اور آپ اس ساتھ والے کمرے میں” اس بوڑھے نے پہلے سدرہ اور مزمل کو کہا اور پھر قاری صاحب کو کہا۔
گھر میں شاید بجلی کا کنکشن نہیں تھا اس لئے جگہ جگہ موم بتیاں لگی ہوئی تھی۔ جسکی وجہ سے گھر کافی پراسرار سا لگ رہا تھا۔
"اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو کمرے کے اندر سے ہی مجھے آواز دے لیجیے گا، اور صبح ہونے سے پہلے کمرے سے باہر نہیں آئیے گا” بوڑھے نے مسکراتے ہوۓ کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ قاری صاحب اپنے کمرے میں چلے گئے جب کہ مزمل اور سدرہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔
باہر بارش ابھی بھی بہت تیز ہو رہی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد شامی کو پیاس لگ گئی۔ مگر وہاں کمرے میں پانی کا انتظام نہیں تھا۔
"ان بابا جی کو آواز دے لیتے ہیں” سدرہ نے کہا۔
"اتنی سی بات کے لئے انہیں کیوں تنگ کرنا، میں لے آتا ہوں” مزمل نے کہا اور باہر چلا گیا۔
باہر مزمل کو کہیں بھی پانی نظر نہیں آ رہا تھا۔ مزمل پانی کی تلاش میں آگے چلا گیا۔ زمین پر مزمل کو خون کی ایک لکیر نظر آنے لگی۔ مزمل خون کا پیچھا کرنے لگا۔ خون کی لکیر ایک کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ مزمل نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر ایسا بھیانک تھا کہ مزمل کا جسم خوف سے کانپنے لگا۔ ایک طرف قاری صاحب کی لاش پڑی ہوئی تھی اور وہ بوڑھا ہاتھ میں ایک کلہاڑی پکڑے لاش کے ٹکڑے کر رہا تھا۔
اس بوڑھے نے ابھی مزمل کو نہیں دیکھا تھا۔ اس منظر کو دیکھتے ہی مزمل پیچھے کو بھاگا۔ بھاگتے ہی مزمل کسی چیز سے ٹکرا گیا۔
"کون ہے یہاں؟” کمرے کے اندر سے بوڑھے کی آواز آئی۔
مگر مزمل بھاگ کر کمرے میں گیا اور شامی کو گود میں اٹھا لیا۔
"چلو یہاں سے، وہ بوڑھا قاتل ہے اس نے قاری صاحب کو مار دیا ہے، ہمیں جلد سے جلد یہاں سے نکلنا ہے” مزمل نے ہانپتے ہوۓ کہا اور باہر کو بھاگا۔ سدرہ بھی اس کے ساتھ باہر کو لپکی۔ وہ دونوں گیلری میں بھاگ رہے تھے۔ اچانک آگے دیوار آ گئی۔ راستہ بند تھا۔ مزمل دوسری طرف بھاگنے کے لئے پلٹا مگر ان کے پیچھے بھی دیوار تھی۔ دونوں اطراف دیوار سے بند تھے۔ مزمل کا تو جیسے دماغ گھوم گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ سدرہ کی حالت بھی بلکل مزمل جیسی تھی۔ سدرہ پاگلوں کی طرح دیواروں کو پیٹ رہی تھی۔
"کوئی ہے؟ ہماری مدد کرو” سدرہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہی تھی۔ اچانک زمین ہلنے لگی اور زمین کی طرف سے وہ بوڑھا نمودار ہوا۔ اسکے ہاتھ میں ایک بڑی ساری کلہاڑی تھی جس پر خون لگا ہوا تھا۔
"میں نے کہا تھا کہ صبح تک کمرے سے باہر مت آنا” اس بوڑھے نے کہا۔
"کون ہو تم؟ اور کیا چاہتے ہو” سدرہ نے چیختے ہوۓ کہا۔
"بدلہ، صرف بدلہ، تم لوگوں نے میرے بچے کو مارا تھا۔ وہ تو صرف تمھارے بچے ساتھ کھیل رہا تھا اور تم نے اسے مار دیا” بوڑھے نے غصے میں کہا۔ اسکی آنکھیں انگارے برسا رہیں تھیں۔
"پلیز ہمیں معاف کردو” سدرہ نے گڑگڑاتے ہوۓ کہا۔ مزمل شامی کو لے کر ایک طرف کھڑا تھا۔ مزمل نے شامی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوۓ تھے۔
سدرہ کی بات سن کر بوڑھا مسکرایا اور کلہاڑی کو اٹھا کر آگے بڑھنے لگا۔ اسکے چہرے پر خونی مسکراہٹ تھی۔ وہ آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔ سدرہ نے منہ ہی منہ مین آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا۔ وہ بوڑھا تبھی اپنی جگہ پر رک گیا اور دور سے ہی سدرہ کو گھورنے لگا۔ سدرہ نے آگے بڑھ کر بوڑھے پر پھونک ماردی۔ بوڑھا چیخنے لگا اور غائب ہو گیا۔ اب انھیں گیلری میں راستہ بھی نظر آنے لگا۔ وہ دونوں راستے کی طرف بھاگنے لگے۔ تھوڑی دیر میں ہی انھیں باہر جانے والا دروازہ نظر آ گیا۔ وہ دونوں بھاگ کر اس گھر سے باہر نکل گئے اور سڑک کی طرف بھاگنے لگے۔ بارش ابھی بھی تیز رفتاری سے ہو رہی تھی۔ مگر انھیں بارش کی کوئی ہوش نہیں تھی۔ وہ صرف اس بوڑھے سے اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔ بھاگتے بھاگتے مزمل نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو حیران ره گیا، پیچھے خالی جگہ تھی وہاں دور دور تک کوئی گھر نظر نہیں آ رہا تھا۔
وہ دونوں اپنے بچے کے ساتھ سڑک پر پاگلوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔ بارش ہو رہی تھی کافی اندھیرا بھی تھا مگر وہ ہر چیز سے بےنیاز تھے۔ وہ بھاگتے بھاگتے کافی دور نکل گئے تھے۔
"ہمیں کسی نا کسی طرح مرشد کے آستانے پر پہنچنا ہو گا” مزمل نے کہا۔
"مگر وہ راستہ تو صرف قاری صاحب جانتے تھے۔” سدرہ نے پریشانی سے کہا۔
"نہیں قاری صاحب نے مجھے گاؤں کا راستہ سمجھا دیا تھا، ہم اس گاؤں میں جا کر مرشد صاحب کو ڈھونڈھ لیں گے” مزمل نے کہا۔
"مگر ہم وہاں تک جائیں گے کیسے؟ ہماری تو گاڑی بھی پیچھے ہی کہیں ره گئی ہے” سدرہ نے کہا۔
"ہمیں انتظار کرنا ہوگا، ضرور یہاں سے کوئی گاڑی وغیرہ گزرے گی، ہم ان سے لفٹ لے لیں گے” مزمل نے کہا۔ اب وہ سڑک پر کھڑے کسی گاڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ دس پندرہ منٹ بعد انھیں دور سے گاڑی کی لائٹس نظر آنے لگیں۔
"وہ وہاں دیکھو کوئی آ رہا ہے” سدرہ نے کہا تو مزمل سڑک پر کھڑا ہو کر ہاتھ ہلانے لگا۔
گاڑی ان کے قریب آ کر رک گئی تو مزمل بھاگ کر گاڑی والے کے پاس چلا گیا۔
"ہماری راستے میں گاڑی خراب ہو گئی ہے، موسم بھی خراب ہے، ہمیں اگلے گاؤں جانا ہے کیا آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں؟” مزمل نے پوچھا۔
"جی میں اسی طرف جا رہا ہوں آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں میں آپکو اگلے اسٹاپ پر اتار دوں گا وہاں سے آپ چلے جائیے گا” گاڑی میں موجود آدمی نے کہا۔
گاڑی میں صرف وہ ایک آدمی ہی موجود تھا۔ مزمل نے اسکی بات سن کر سدرہ کو اشارہ کیا تو سدرہ شامی کو لے کر آ گئی۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔
"جی آپ کیا کام کرتے ہیں؟” اس آدمی نے مزمل سے پوچھا۔
"میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کرتا ہوں” مزمل نے جواب دیا۔
"اس طرح کے موسم میں آپ رات کو کیوں جا رہے ہیں؟ کوئی ضروری کام ہے کیا؟” اس آدمی نے استسفار کیا۔
"جی ایک ضروری کام تھا گاؤں میں بس اسی لئے” مزمل نے مختصر جواب دیا۔
اچانک گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی۔
"میں دیکھتا ہوں، بس ابھی ٹھیک ہو جائے گی” اس آدمی نے کہا اور باہر چلا گیا۔ مزمل بھی گاڑی سے باہر نکلا تا کہ اس آدمی کی کچھ مدد کر سکے۔ اس آدمی نے گاڑی کی ڈگی کھولی ہوئی تھی۔ مزمل بلکل اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ مزمل کے پاس ایک ٹارچ تھی جو کے اسکے کپڑوں کے اندرونی جیب میں تھی۔ مزمل کو ابھی ابھی اسکا خیال آیا تھا مزمل نے ٹارچ جلا لی۔
"یہ بہت اچھا کیا تم نے” اس آدمی نے روشنی کو دیکھ کر کہا۔
مزمل نے جیسے ہی اپنے سامنے زمین پر دیکھا تو اسے ایسے محسوس ہوا جیسے اسکی جان نکل رہی ہو۔ اس آدمی کا سایہ زمین پر نہیں تھا۔ مزمل اپنی جگہ ساکت کھڑا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس آدمی کو دیکھ رہا تھا جو ابھی گاڑی ٹھیک کرنے میں مصروف تھا۔
"ہاں یہ ہو گیا” اس آدمی نے پلٹتے ہوۓ کہا۔ مگر مزمل کو اس طرح کھڑے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
"تمہیں کیا ہوا اب” اس نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔
"کون ہو تم؟” مزمل نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔
"میں، میں کون ہوں، ہاہاہا، میں وہ ہی ہوں جس کے بچے کو تم نے بیدردی سے مارا تھا” اس آدمی نے گھورتے ہوۓ کہا۔
اس آدمی نے اپنے کوٹ کے اندر سے ایک آری نکال لی۔ وہ خوفناک انداز میں آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک گاڑی سٹارٹ ہوئی اور اس آدمی کو روندتی ہوئی آگے گزر گئی۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر سدرہ موجود تھی۔ اب اس آدمی کی خون سے بھری ہوئی لاش وہیں پڑی تھی۔ سدرہ نے مزمل کو آواز دی تو مزمل کو جیسے ہوش آ گئی۔ وہ بھاگ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس آدمی کی خون سے بھری لاش اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی۔ سدرہ نے گاڑی چلانی شروع کردی اب وہ لاش بھی انکی گاڑی کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ تھوڑی دور جا کر انکی گاڑی پھر سے بند ہو گئی۔ ابھی بھی وہ لاش انکے پیچھے آ رہی تھی۔ سدرہ نے بار بار گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر گاڑی سٹارٹ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
"ہمیں گاڑی چھوڑ کر بھاگنا چاہیے” مزمل نے کہا تو انہوں نے گاڑی کو وہیں چھوڑ دیا اور بھاگنا شروع کردیا۔ شامی کو مزمل نے اٹھایا ہوا تھا۔ قریب ہی انھیں ایک درختوں کا جھنڈ نظر آنے لگا تو وہ بھاگ کر ان درختوں کے پیچھے چھپ گئے۔ وہ لاش بھی انکے پیچھے ان درختوں میں داخل ہو گئی تھی۔ مزمل نے شامی کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ سدرہ بھی درخت کے پیچھے بلکل چپ ہو کر چھپی ہوئی تھی۔ انکی ہلکی سی آواز انکی جان کے لئے خطرہ بن سکتی تھی۔ اچانک شامی نے چھینک ماردی، مزمل کا ہاتھ بھی اس آواز کو روک نہیں سکا تھا۔ آواز سنتے ہی وہ لاش انکے سامنے آ گئی تھی، اسکے ہاتھ میں ابھی بھی وہ تیزدھار آری تھی۔ وہ لاش تیزی سے انکی طرف بڑھ رہی تھی۔ انھیں اپنی موت بہت قریب نظر آ رہی تھی۔ سدرہ اور مزمل نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی۔ اب وہ صرف اسکے وار کا انتظار کر رہے تھے۔ اب انکے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اس لاش کا آری والا ہاتھ ہوا میں اٹھا تھا اور اسکے بعد وہ پوری جگہ انسانی چیخوں سے گونج اٹھی تھی۔ وہ آوازیں بلکل ایسی تھی جیسے کسی کو بے رحم طریقے سے ذبح کیا جا رہا ہو۔
وہ پورا علاقہ اس دلخراش چیخوں سے گونج اٹھا تھا۔ وہ چیخیں اس لاش کی تھی۔ پیچھے سے کسی نے کلہاڑی کا وار کیا تھا۔ کلہاڑی کے دوسرے وار نے اس لاش کے سر کو گردن سے الگ کردیا تھا۔ مزمل اور سدرہ نے لاش کی چیخوں کی آواز سن کر اپنی آنکھیں کھول دی تھیں۔ اب سامنے ایک نوجوان کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ سدرہ اور مزمل ابھی بھی خوف زدہ تھے۔
"آپ ڈریں مت، میں آپکی مدد کرنے آیا ہوں، مجھے مرشد صاحب نے بیجھا ہے” اس لڑکے نے کہا۔
لڑکے نے کلہاڑی کو ایک طرف پھینک دیا۔ اب ان دونوں کی جان میں جان آئی تھی۔
"آپ میرے ساتھ آئیں مرشد صاحب آپکا انتظار کر رہے ہیں” اس لڑکے نے کہا تو سدرہ اور مزمل اس ساتھ چل دیے۔ سڑک پر ایک گاڑی موجود تھی۔ وہ دونوں اس میں بیٹھ گئے۔
اب گاڑی تیز رفتاری سے گاؤں کی طرف جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ گاؤں میں داخل ہو چکے تھے۔ انکی گاڑی گاؤں کی کچی سڑک پر تیزی سے چل رہی تھی۔ یہاں کی سڑک بلکل سوکھی تھی۔ جس سے پتہ چلتا تھا کہ یہاں بارش نہیں ہوئی تھی۔ وہاں سے کچھ دور ایک خوبصورت عمارت تھی۔ اس لڑکے نے گاڑی وہاں روک دی۔
"ہم پہنچ گئے ہیں، مرشد صاحب اندر آپکا ہی انتظار کر رہے ہیں” اس لڑکے نے کہا اور گاڑی سے نیچے اتر گیا۔ سدرہ اور مزمل بھی گاڑی سے اتر آئے۔ اب وہ دونوں اس لڑکے کے ساتھ عمارت میں داخل ہو گئے۔
پرنور چہرہ، سفید داڑھی اور سادے مگر صاف لباس میں ملبوس مرشد صاحب چٹائی پر بیٹھے تھے۔ ان کے اردگرد لوگوں کا مجمع تھا، اور وہ سب غور سے مرشد صاحب کی باتوں کو سن رہے تھے۔
سدرہ اور مزمل جب وہاں داخل ہوۓ تو مرشد صاحب بات کرتے کرتے رک گئے۔ مزمل نے مرشد صاحب کو سلام کیا۔ مرشد صاحب نے پیار سے سلام کا جواب دیا۔
"ہمارے ان مہمانوں کو کمرے ممیں بیٹھاو ہم آ رہے ہیں” مرشد صاحب نے اس لڑکے سے کہا جو مزمل اور سدرہ کے ساتھ تھا۔ اس لڑکے نے مزمل اور سدرہ کو ساتھ موجود ایک کمرے میں ٹھہرا دیا، شامی بھی ان کے ساتھ تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا ایک ٹرے میں شربت کے گلاس لے آیا اور انھیں ان کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے شربت پیا۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد مرشد صاحب کمرے میں داخل ہوۓ۔ مزمل اور سدرہ مرشد صاحب کو دیکھ کر اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ مرشد صاحب نے آگے بڑھ کر انھیں پیار دیا۔
"میں معذرت چاہتا ہوں آپکو میری وجہ سے انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی” مرشد صاحب نے کہا۔
"آپ شرمندہ کر رہے ہیں، ہم آپکے شکر گزار ہے جو آپ نے ہمیں وقت دیا” مزمل نے جواب دیا۔
"ہمیں افسوس ہے جب ہم آ رہے تھے تو راستے میں اس بھوت نے ہمارے ساتھ مکر کیا، اور قاری صاحب ہم میں نہیں رہے” مزمل نے کہا۔
"ہر کسی کی موت کا دن معین ہے، اللّه ان کے درجات بلند کرے” مرشد نے کہا۔
"آمین” سدرہ اور مزمل نے یک زبان ہو کر کہا۔
"آپ کو اس آسیب سے نجات اس کے خاتمے پر ہی مل سکتی ہے، جب تک وہ زندہ ہے وہ آپکو تنگ کرتا رہے گا” مرشد صاحب نے کہا۔
” پھر اسکے لئے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟” مزمل نے پوچھا۔
” میں آپکو ایک وظیفہ دیتا ہوں، آج رات وہ وظیفہ آپکو پڑھنا ہو گا، میں بھی پڑھائی کروں گا، باقی اللّه بہتر کرے گا” مرشد صاحب نے کہا۔
"جیسا آپ کہیں مرشد صاحب” مزمل نے جواب دیا۔
مزمل ایک کمرے میں تھا، کمرے کا دروازہ بند تھا۔ کمرے میں چاروں طرف ایک ایک موم بتی جل رہی تھی۔ کمرے کے بلکل درمیان میں ایک حصار میں مزمل بیٹھا ہوا تھا۔مزمل اپنا وظیفہ پڑھ رہا تھا۔ مرشد صاحب نے سختی سے کہا تھا کہ چاہے جو ہو جائے اس حصار سے باہر نہیں آنا۔ مزمل کو پوری رات اس حصار میں وظیفہ پڑھتے ہوۓ گزارنی تھی۔ شامی اور سدرہ اس وقت مرشد صاحب کی بیٹیوں پاس تھی۔
تقریباً ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ ابھی چار گھنٹے باقی تھے اس وظیفے کو مکمل ہونے کے لئے۔ اچانک ایک ایک کر کے کمرے میں موجود چاروں موم بتیاں بجھ گئیں۔ اب کمرے میں بلکل اندھیرا تھا۔ مزمل اس سب کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا اس لئے مزمل نے اپنا وظیفہ جاری رکھا۔ اچانک مزمل کو اپنے اردگرد سے سرگوشیوں کی آوازیں آنے لگی جیسے بہت سے لوگ آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہے ہوں۔ آہستہ آہستہ یہ آوازیں تیز ہونے لگیں۔ اب ایسے لگ رہا تھا کوئی کمرے میں چیخ رہا تھا کبھی رونے کی آوازیں آنے لگتی کبھی ایسی آوازیں جیسے کوئی درد سے سسکیاں لے رہا ہو۔ مگر مزمل اپنی جگہ پر بیٹھا وظیفہ جاری رکھے ہوۓ تھا۔ ایکدم کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ اور ایک ایک کر کے کمرے میں موجود موم بتیاں پھر سے جلنے لگیں۔ اب پھر کمرے میں روشنی ہو گئی تھی۔ اب مزمل کو تھوڑا سا سکون ملا تھا۔ مگر یہ سکون زیادہ دیر ره نہیں سکا تھا۔ اب ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو، کمرے کی دیواریں زور زور سے ہل رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی کمرے کی چھت مزمل کے سر پر آ گرے گی۔ مزمل نے ایک بار سوچا کے وہ کمرے سے باہر چلا جائے مگر تبھی مزمل کے ذہن میں آیا کے مرشد صاحب نے اسے کسی بھی حالت میں باہر آنے سے روکا ہے۔ اس حصار کے اندر ایک گھڑی تھی جس پر ٹائم چل رہا تھا اس کے مطابق ابھی وظیفہ مکمل ہونے کو تین گھنٹے باقی تھے۔ زلزلے کے دوران بھی مزمل اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ زلزلہ بھی تھوڑی دیر میں ختم ہو گیا اب پھر کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔
تقریباً ایک گھنٹہ کمرے میں خاموشی رہی، اب صرف دو گھنٹے باقی تھے۔ اچانک کمرے میں ہر طرف سانپ ہی سانپ نکل آئے۔ ہر طرف سے سانپ نکل کر مزمل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مزمل نے اپنی آنکھیں بند کرلی۔ سانپ جیسے ہی حصار کے پاس پہنچتے غائب ہو جاتے۔ ایک ایک کر کے سارے سانپ غائب ہو گئے۔ آپ مزمل کا کچھ حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ مگر جو اس کے بعد جو منظر مزمل کی آنکھوں کے سامنے آیا، مزمل کو اپنے دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔
مزمل کو سامنے انتہائی خوفناک بھیڑئیے نظر آ رہے تھے، ان کے سامنے سدرہ تھی اور سدرہ نے گود میں شامی کو اٹھایا ہوا تھا۔
"مزمل، مجھے بچاؤ” سدرہ چیخ رہی تھی۔
مزمل اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ مزمل اس حصار سے باہر آنے ہی والا تھا کہ اس کے دماغ میں مرشد صاحب کی آواز گونج رہی تھی کہ چاہے کچھ ہو جائے اس دائرے سے باہر نا جانا۔ مزمل پھر بیٹھ گیا اور اپنا ورد جاری رکھا۔ اچانک ان جانوروں نے سدرہ پر حملہ کردیا اور اس کے جسم کو بے دردی سے چیرنے لگے۔ پورے کمرے میں سدرہ کی چیخوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ ایک بھیڑیے نے شامی کو اپنے منہ سے اٹھایا ہوا تھا اور مزمل کے اردگرد گھوم رہا تھا۔ مزمل سے یہ منظر دیکھا نہیں جا رہا تھا مزمل نے اپنی آنکھیں بند کرلی۔ ایک بار پھر کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ مزمل نے آنکھیں کھولی تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ اب چلے کا وقت ختم ہونے والا تھا۔ دو سے تین منٹ باقی تھے کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور مرشد صاحب کمرے میں داخل ہوۓ۔
"آ جاؤ بیٹا ہم کامیاب ہو گئے ہیں اس آسیب کو ہرانے میں” مرشد صاحب نے کہا اور ہاتھ سے مزمل کو قریب آنے کا کہا۔
مزمل خوش ہو گیا اور کھڑا ہو کر حصار سے باہر ہی آنے والا تھا کہ دروازے میں مرشد صاحب نظر آنے لگے۔
"رکو وہیں، یہ تمہیں دھوکہ دے رہا ہے” مرشد صاحب نے کہا۔
یہ سن کر مزمل وہیں رک گیا۔ جو پہلے مرشد صاحب کا ہم شکل کمرے میں آیا تھا اس نے چیخنا شروع کر دیا اور اسکی شکل بھی عجیب انداز میں بدل گئی۔ اب وہاں ایک بدشکل سی ایک عجیب مخلوق کھڑی تھی جو تھوڑی دیر بعد غائب ہو گئی۔ تو مرشد صاحب دروازے سے کمرے میں داخل ہو گئے اور مزمل کو کامیاب ہونے پر مبارک باد دی۔
"تم اپنے کام میں کامیاب ہو گئے ہو۔ اب میرا کام ره گیا ہے” مرشد صاحب نے کہا اور اسے لے کر کمرے سے باہر چلے گئے۔
یہ ایک دوسرا کمرہ تھا۔ کمرے میں ہر طرف موم بتیاں جل رہی تھیں۔ مرشد صاحب کچھ پڑھ کر سامنے موجود پانی پر پھونک رہے تھے۔ مزمل، سدرہ اور شامی سامنے بیٹھے مرشد صاحب کو دیکھ رہے تھے۔ مرشد صاحب کی آنکھیں بند تھی وہ لگاتار منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر پانی میں پھونک رہے تھے۔ اچانک مرشد صاحب نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ انکی آنکھوں کا رنگ سرخ تھا۔ اسی وقت وہاں موجود موم بتیاں بھی خودبخود جلنے بھجنے لگی تھیں۔ آہستہ آہستہ کمرے میں سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اب وہ آوازیں چیخوں میں تبدیل ہو گیں تھیں۔ سدرہ نے شامی کو گود میں اٹھا کر اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ سدرہ خود بھی اس ساری صورتحال سے خوف زدہ ہو گئی تھی۔ اچانک ہر طرف سے کمرے میں دھواں اٹھنے لگا اور اس دھویں میں ایک سایہ نظر آنے لگا۔
مرشد صاحب نے اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور مخصوص انداز میں ہلایا تو تمام دھواں غائب ہو گیا۔ اب مرشد صاحب کے سامنے ایک عجیب الخلقت مخلوق موجود تھی۔
"چھوڑ دو انہیں اور یہاں سے چلے جاؤ” مرشد صاحب نے سختی سے کہا۔
"میں یہاں سے نہیں جاؤں گا، مجھے بدلہ چاہیے” اس مخلوق نے جواب دیا۔
"چلا جا ورنہ تجھے ختم کر دیا جائے گا، پہلے ہی چلے کے ذریعے تیری ساری طاقت کو ختم کردیا گیا ہے” مرشد صاحب نے گرجدار آواز میں کہا۔
"نہیں مجھے ہر حال میں بدلہ لینا ہے” اس نے کہا اور پیچھے موجود مزمل کی طرف بڑھنے لگا۔
مرشد نے اسے مزمل کی طرف جاتا دیکھ کر سامنے موجود پانی کے چھینٹے اس پر پھینک دیا۔ اس نے چیخنا شروع کردیا۔ مگر وہ مزمل کی طرف بڑھتا رہا اور ایک ہاتھ سے مزمل کی گردن کو پکڑ لیا۔ مگر اس آگے وہ کچھ کرتا مرشد صاحب نے پیچھے سے اس مخلوق کو پکڑ لیا اور سارا پانی اسکے چہرے پر انڈیلنا شروع کردیا۔
"رکو، مجھے چھوڑ دو، میں کچھ نہیں کہوں گا انہیں” اس نے چیختے ہوۓ کہا۔
"پہلے تم حضرت سلیمان کی قسم کھاؤ کہ یہاں سے چلے جاؤ گے اور کبھی انہیں تنگ نہیں کرو گے” مرشد صاحب نے کہا۔
"میں وعدہ کرتا ہوں، میں حضرت سلیمان کی قسم کھاتا ہوں کہ یہاں سے چلا جاؤں گا” اس نے کہا۔ تو مرشد صاحب نے اسے چھوڑ دیا۔
"اب تم نے قسم کھائی ہے اور تم اس بات کے پابند ہو کہ یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے جاؤ گے اور انہیں کچھ نہیں کہو گے” مرشد صاحب نے کہا۔
"جی میں اس بات کا پابند ہوں اور میں یہاں سے جا رہا ہوں” اس نے کہا اور غائب ہو گیا۔
"تو برخودار اب تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اب وہ تمہیں بلکل تنگ نہیں کرے گا” مرشد صاحب نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ یہ سن کر مزمل اور سدرہ بہت خوش ہوۓ۔ انہوں نے مرشد صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اگلے دن واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ بہت خوش تھے کہ اس آسیب سے انکی اور انکے بچے کی جان بچ گئی تھی۔ مگر وہ قاری صاحب کی موت پر دکھی بھی تھے جنہوں نے صرف انکی مدد کرتے ہوۓ اپنی زندگی کھو دی تھی۔