"یہ گھر تو بہت بڑا اور خوبصورت تھا” سدرہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ مزمل سے کہا۔
"تمہیں پسند آیا؟” مزمل نے پوچھا۔
"ہاں بہت، مگر یہ تو کافی مہنگا ہوگا” سدرہ نے کہا۔
"ہاہاہا، یہ ہی تو حیرانی کی بات ہے کہ یہ گھر بلکل بھی مہنگا نہیں ہے، بہت مناسب قیمت ہے اسکی” مزمل نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"وہ کیوں؟” سدرہ نے حیرانی سے پوچھا۔
” تم وہ چھوڑو، یہ بتاؤ کہ گھر اچھا لگا نا تمہیں؟”مزمل نے پھر سے پوچھا۔
"ہاں گھر تو بہت پیارا ہے” سدرہ نے جواب دیا۔
"بس پھر تم تیاری کرو، ہم جلد یہاں آ رہے ہیں” مزمل نے کہا۔
سدرہ اور مزمل کی شادی کو چھ سال ہوگئے تھے۔ انکا ایک بیٹا تھا جسکا نام احتشام تھا، اسے سب "شامی” کہہ کر بلاتے تھے۔ شامی چار سال کا تھا۔ مزمل اور سدرہ دونوں پڑھے لکھے تھے۔ مزمل ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کرتا تھا۔ اسکی ابھی نئی نئی لاہور میں جاب ہوئی تھی۔ وہ لاہور میں اپنے لئے گھر ڈھونڈھ رہے تھے۔ پراپرٹی ڈیلر نے انھیں کافی گھر دیکھائے تھے مگر انھیں کوئی پسند نہیں آیا تھا مگر اب وہ جو گھر دیکھ کر آ رہے تھے وہ ان دونوں کو بہت پسند آیا تھا اور اسکی قیمت بھی حیران کن طور پر بہت کم تھی۔ اس لئے مزمل کسی طور بھی اس گھر کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
وہ گھر دیکھ کر واپس آ رہے تھے، گاڑی مزمل ڈرائیو کر رہا تھا جب کہ ساتھ والی سیٹ پر سدرہ تھی۔ شامی پیچھے والی سیٹس پر موجود تھا۔ دسمبر کی شام تھی، ہلکی ہلکی دھند ہر طرف پھیلنی شروع ہو چکی تھی۔ اچانک ان کی گاڑی کی ونڈ اسکرین پر ایک بڑی ساری کالی بلی نے چھلانگ ماری، مزمل نے گاڑی کو روک لیا۔ سدرہ اور شامی کے حلق سے چیخ نکل گئی۔ بلی انکی طرف دیکھ کر غرائی اور ایک طرف بھاگ گئی۔
"کیا ہو گیا یار، بلی تھی ایک” مزمل نے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"مگر یہ اچانک کہاں سے آ گئی” سدرہ نے کہا۔
"یہ بعد میں سوچنا، پہلے شامی کو چپ کرواؤ” مزمل نے کہا۔ شامی نے رونا سٹارٹ کر دیا تھا۔ سدرہ نے شامی کو چپ کروانا شروع کر دیا۔
مزمل نے ایک گھر کرایہ پر لیا ہوا تھا جب تک وہ اپنے لئے نیا گھر تلاش کر رہا تھا۔
کالا بابو کا شمار علاقے کے مشہور عاملوں میں ہوتا تھا۔ اس کے گھر میں ہر وقت لوگوں کی لائینیں لگی ہوتی تھی۔ کالا بابو کالے جادو کا بہت بڑا ماہر تھا۔ اس نے بہت خطرناک چلے کاٹے ہوۓ تھے، لوگوں کے مسئلے وہ بہت آسانی سے حل کر دیتا تھا۔ شام کو سورج غروب ہونے کے بعد وہ کسی سے نا ملتا تھا۔ اسکے گھر میں آنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اس کے گھر کی رکھوالی جنات کرتے ہیں۔ایک دفعہ رات کو کسی چور نے اس کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی تھی مگر صبح کو اسکی لاش گھر کے سامنے والے درخت پر لٹکی ملی تھی اور جسم پر تشدد کے نشان بھی تھے جیسے کے بہت اذیت دے کر مارا ہو۔کالا بابو پوری پوری رات اپنے عمل میں مصروف رہتا تھا۔ کالا بابو بہت بڑے جن کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس سے غلطی ہو گئی تھی اور وہ اپنے حفاظتی حصار سے کسی وجہ سے باہر آ گیا تھا جس کی وجہ سے اس جن نے کالا بابو کی گردن توڑ دی تھی۔ صبح کالا بابو کے ایک چیلے نے کالا بابو کی لاش کو دیکھا تھا۔ اس واقعے کو بیس سال گزر گئے تھے مگر اب بھی وہ گھر ویران تھا لوگ کہتے تھے کہ اس گھر میں جنات نے بسیرا کیا ہوا ہے اور وہ کسی کو یہاں نہیں آنے دینا چاہتے۔ ایک دو دفعہ لوگوں نے یہاں رہنے کی کوشش کی تھی مگر اس گھر میں عجیب واقعات پیش آتے تھے اس لئے یہاں کوئی بھی زیادہ دیر ٹک نہیں پایا تھا۔ اس گھر کے اصل مالک تو امریکا میں رہتے تھے کالا بابو کو صرف انہوں نے رہنے کی اجازت دی ہوئی تھی کیوں کہ وہ خود کالا بابو کے بہت ماننے والے تھے۔ اس گھر کو بیچنے کی کوشش کی جا رہی تھی مگر کوئی بھی اس گھر کو لینے کو تیار ہی نہیں تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ رات کو اس گھر میں رنگ برنگی روشنیاں نظر آتی ہیں، کبھی اس گھر کی دیوار پر کوئی عورت پاؤں لٹکائے بیٹھی نظر آتی ہے۔ مگر اب یہ گھر بک چکا تھا، کافی سستا بکا تھا مگر پھر بھی یہ ہی کافی تھا کہ گھر بک چکا تھا۔ سارے محلے والے حیران تھے کہ کون پاگل لوگ ہیں جنہوں نے یہ بھوتیا گھر خریدا ہے۔
مزمل نے وہ گھر خرید لیا تھا اور اب اپنا سامان وہاں شفٹ کر رہا تھا۔ مزمل نے کام سے چھٹی لی ہوئی تھی اور پورا دن اسی کام میں مصروف رہا تھا۔ شام کو مزمل تھک چکا تھا۔
” یار چاۓ بنا دو، آج اتنا کام کیا ہے میں نے تھک گیا ہوں” مزمل نے سدرہ کو کہا۔
” جی ابھی بنا کر لاتی ہوں” سدرہ اٹھی اور کچن میں چلی گئی۔ شامی پورے گھر میں گھوم رہا تھا اور ایک ایک کمرے میں جا جا کر اسے دیکھ رہا تھا۔
” مزمل ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ اتنا بڑا گھر کوئی اتنا سستا کیوں بیچے گا؟” سدرہ نے چاۓ کا ایک کپ مزمل کو دیتے ہوۓ کہا۔ اب وہ چاۓ کا ایک کپ پکڑ کر مزمل کے سامنے بیٹھی تھی۔
” تم اپنے چھوٹے سے دماغ پر زور کیوں ڈال رہی ہو، کچھ لوگ وہمی ہوتے ہیں، لوگوں کا کہنا ہے کہ اس گھر میں بھوت رہتے ہیں” مزمل سے ہنستے ہوۓ کہا۔
” آر یو سیریس؟” سدرہ نے پوچھا۔
"ہاں لوگ یہ ہی کہتے ہیں، حالاں کہ اب سائنس کا زمانہ ہے، لوگ اب بھی پتھر کے دور میں ره رہے، اگر کوئی بھوت ہوتا تو ہمیں نہیں ملنا تھا” مزمل نے کہا۔
"اگر یہاں سچ میں بھوت ہوۓ تو؟” سدرہ نے کہا۔
"تو تم سے ڈر کہ بھاگ جایں گے، تم سے بڑا کوئی بھوت ہو سکتا بھلا” مزمل نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"اچھا آپ زیادہ باتیں نا کریں اور جا کر شامی کو دیکھیں” سدرہ نے مصنوعی غصے سے کہا۔
” پہلے آپ کو تو غور سے دیکھ لیں” مزمل نے شرارتی لہجے میں کہا۔
” جائیں شاباش، شامی کب سے اوپر گیا ہوا ہے” سدرہ نے مزمل کو بازو سے کھینچتے ہوۓ کہا۔
"جاتا ہوں بابا” مزمل نے کہا۔
اچانک اوپر سے شامی کے چیخنے کی آواز آئی۔
"شامی کیا ہوا؟” مزمل نے اونچی آواز میں کہا اور اوپر کی طرف بھاگا، سدرہ بھی مزمل کے پیچھے اوپر کی طرف بھاگی۔۔۔
شامی ایک کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا چِلا رہا تھا۔
"شامی کیا ہوا؟” مزمل بھاگ کر شامی کے پاس آیا۔
"وووووو—-وہ اندر اندر اتنی اتنی بڑی بڑی پتا نہیں کیا تھی” شامی بولا۔
سدرہ بھی بھاگ کر اوپر آ چکی تھی۔
"کیا ہوا میرے بچے کو” سدرہ نے شامی اپنی گود میں اٹھا لیا۔
"شامی نے اندر کچھ دیکھا ہے، رکو میں دیکھتا ہوں” مزمل نے کہا اور آگے کمرے کی طرف بڑھا۔
اچانک کمرے اندر سے بڑی بڑی چمگادڑیں نکلی اور اوپر کو اڑ گیں۔ چمگارڑوں کو دیکھ کر شامی نے پھر رونا شروع کردیا۔ سدرہ بھی ایک دم ڈر گئی۔
"کچھ نہیں ہے، بس چمگادڑیں تھیں، گھر کافی دیر سے بند ہے اسی لئے آ گئی ہوں گی کہیں سے، تم ڈرو مت” مزمل نے کہا۔ اور کمرے کے اندر کچھ نہیں تھا۔
"چلو نیچے اور کچھ نہیں ہے یہاں، ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے” مزمل نے کہا اور وہ سب دوبارہ نیچے آگئے۔
"آج ہم رات کا کھانا باہر کھائیں گے” مزمل نے اعلان کیا۔
"کس خوشی میں جناب؟” سدرہ نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔
"ہم نے لاہور میں اپنا گھر لیا ہے، کیا کم خوشی کی بات ہے یہ” مزمل نے بھی مسکراتے ہوۓ کہا۔
"چلیں ٹھیک ہے، میں چینج کر کے آتی ہوں” سدرہ نے کہا اور اٹھ کر چلی گئی۔ شامی اب کمرے میں بیٹھا اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں سدرہ تیار ہو کر آ گئی۔
"یہ گھر آپ لوگوں نے خریدا ہے؟” ایک آدمی نے پوچھا۔ مزمل نے ابھی گاڑی باہر نکالی تھی جب کہ سدرہ ابھی باہر نہیں آئی تھی۔
"جی ہم نے ہی خریدا ہے” مزمل نے جواب دیا۔
"شاید آپ جانتے نہیں ہیں۔ اس گھر پر جنات کا بسیرا ہے” اس آدمی نے اس طرح کہا جیسے کوئی انکشاف کر رہا ہو۔
” جی میں نے سنا ہے کہ لوگ اس گھر کے بارے میں ایسا ہی کہتے ہیں، مگر میں ایسی باتوں پر یقین نہیں کرتا” مزمل نے آرام سے جواب دیا۔
” پہلے جو لوگ اس گھر میں آئے تھے وہ بھی یہ ہی کہتے تھے مگر انھیں بعد میں ایسی باتوں پر یقین ہو گیا تھا” اس آدمی نے عجیب سی مسکراہٹ سے کہا اور ایک طرف چلا گیا۔
تب ہی سدرہ گھر سے نکلی اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی شامی پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
"وہ آدمی کون تھا؟ جو ابھی تمھارے پاس کھڑا تھا” سدرہ نے پوچھا۔
"پتا نہیں کون تھا۔ کہہ رہا تھا کہ اس گھر میں بھوت ہیں” مزمل نے کہا۔
"تو پھر تم نے اسے کیا کہا” سدرہ نے پوچھا۔
"میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں میرے پاس بھی ایک بھوت ہے” مزمل نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
” نائیس جوک” سدرہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔
"شکریہ شکریہ” مزمل نے دانت نکلتے ہوۓ کہا تو سدرہ بھی ہنس پڑی۔
وہ اسی طرح باتیں کرتے کرتے قریبی ہوٹل پہنچ گئے۔
رات کے گیارہ بجنے والے تھے جب وہ گھر واپس پہنچے۔ گھر میں ان کے برتن الٹ پلٹ گرے پڑے تھے۔ کچھ برتن ٹوٹے ہوۓ تھے جبکہ کچھ ٹوٹے نہیں تھے ویسے ہی گرے ہوۓ تھے۔
"یا خدا، یہ کیا ہے” سدرہ نے دیکھتے ہی کہا۔
” ضرور کسی بلی وغیرہ کا کام ہو گا، تم اوپر والا دروازہ بند رکھا کرو، ضرور بلی چھت سے ہی آئی ہو گی” مزمل نے کہا اور برتن اٹھانے لگا۔
” بلیاں تو ہر گھر میں آ جاتی ہیں مگر ایسا تو نہیں کرتی” سدرہ نے کہا۔
” نہیں تو اور کون کر سکتا ہے، رکو میں دیکھتا ہوں” مزمل نے کہا اور سارے گھر کو دیکھنے لگا۔ سارا گھر خالی تھا اوپر چھت پر بھی کوئی نہیں تھا۔
"یہاں اور کوئی نہیں ہے، کسی بلی کا ہی کام ہے یہ، تم پریشان مت ہو” مزمل نے چھت سے نیچے آ کر کہا۔
مزمل نے واپس آتے ہوۓ چھت کا دروازہ بند کردیا تھا۔
سدرہ نے سارے برتن سمیٹ لئے تھے۔
اب وہ سونے والے کمرے میں جا چکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد شامی اور مزمل تو سو گئے تھے مگر سدرہ کو نیند نہیں آ رہی تھی شاید نئی جگہ تھی اس لئے سدرہ سو نہیں پا رہی تھی۔
شامی چھت پر گیا ہوا تھا اور اسے گئے ہوۓ کافی دیر ہو چکی تھی۔ سدرہ بھی اس کہ پیچھے اوپر چلی گئی مگر وہاں شامی کہیں بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
"شامی، شامی بیٹا کہاں ہو تم” سدرہ شامی کو آوازیں دے رہی تھی۔
سدرہ سامنے موجود کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی سامنے اندھیرا تھا مگر شامی کا سایہ واضح نظر آ رہا تھا۔
"شامی تم یہاں ہو۔ میں کب سے تمہیں ڈھونڈھ رہی ہوں” سدرہ نے کہا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
شامی کی آنکھوں میں سے سرخ رنگ کی روشنی نکل رہی تھی۔ سدرہ نے کمرے کی لائٹ جلائی تو کمرے کا منظر دیکھ کر سدرہ کی روح کانپ گئی۔ کمرے کی چھت پر ہر طرف پھندے لٹک رہے تھے۔ سدرہ کے دیکھتے ہی دیکھتے شامی بھی ایک پھندے سے لٹک گیا اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئیں تھیں۔ اور گلے میں سے خڑخڑ کی آواز آرہی تھی۔ یہ منظر دیکھتے ہی سدرہ کے گلے سے بھیانک چیخ نکل گئی۔
سدرہ کی ایک جھٹکے سے آنکھ کھلی۔ یہ خواب تھا، ایک بھیانک خواب۔ سدرہ نے دیکھا تو شامی اس کے ساتھ ہی لیٹا ہوا تھا۔ سدرہ، شامی کا منہ چومنے لگی۔
سدرہ کو پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ سدرہ نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھایا مگر جگ خالی تھا۔ سدرہ بیڈ سے اٹھی اور کچن کی طرف چل دی۔ سامنے لگی گھڑی رات کے تین بجے کا وقت دکھا رہی تھی۔ دسمبر کی سرد رات تھی۔ سدرہ اتنی سردی میں اٹھنا نہیں چاہتی تھی مگر پیاس کی شدت نے اسے اٹھنے پر مجبور کردیا تھا۔ سدرہ جب کچن سے پانی پی کر نکلی تو اسے اچانک ایک سایہ سا نظر آیا جو صحن میں جا کر غائب ہو گیا۔ سدرہ بھی باہر گئی مگر باہر کوئی نہیں تھا۔
"لگتا ہے اس خواب کا اثر اب تک میرے دماغ پر ہے” سدرہ نے سوچا اور واپس مڑی مگر اچانک اسے لگا جیسے کسی نے اس کا نام لے کر اسے پکارا ہے۔ آواز نہایت باریک تھی۔ سدرہ واپس مڑی مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ سدرہ سمجھی کے وہم ہے اور دوبارہ اندر جانے لگی مگر پھر سے اسے آواز آئی۔ پھر اسے کوئی نام لے کر پکار رہا تھا۔ سدرہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے آواز اوپر سے آئی ہے۔ سدرہ سیڑھیوں کے پاس گئی اور اوپر دیکھا اوپر والا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سدرہ کو اچھی طرح یاد تھا کہ رات کو مزمل نے دروازہ بند کیا تھا تا کہ بلی دوبارہ آ کر کوئی نقصان نا کرے۔
"سدرہ” نہایت باریک اور پرکشش آواز تھی۔ اب سدرہ کو یقین ہو گیا تھا کہ آواز اوپر سے آ رہی ہے۔ نا چاہتے ہوۓ بھی سدرہ اوپر جانے لگی۔ اس کے پاؤں خودبخود اسے اوپر لے کر جا رہے تھے۔ اس آواز میں کشش ہی ایسی تھی۔ اوپر جاتے ہوۓ سدرہ کو بہت سردی محسوس ہو رہی تھی، سدرہ کو لگ رہا تھا جیسے وہ کسی نشے کی حالت میں ہے وہ رکنا چاہتی تھی مگر رک نہیں پا رہی تھی۔
اب سدرہ چھت پر پہنچ چکی تھی۔ چھت پر کوئی نہیں تھا۔ آسمان پر ہر طرف دھند پھیلی ہوئی تھی۔
اچانک سدرہ کو محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی ہے اور اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تو خوف سے سدرہ کے حلق سے چیخ نکل گئی۔
"تم اتنی سردی میں اوپر کیا کر رہی ہو؟” مزمل نے سدرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کہ کہا۔
"مممم میں پپپ پانی پینے اٹھی تھی تو مجھے لگا جیسے اوپر کوئی ہے” سدرہ نے ہڑبڑاتے ہوۓ کہا۔
"چلو نیچے کوئی نہیں ہے یہاں، اتنی سردی میں بیمار ہو جاؤ گی” مزمل نے کہا اور سدرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے لے گیا۔
سدرہ نے صبح اٹھ کر ناشتہ تیار کیا تھا۔ مزمل کام پر چلے گئے تھے جبکہ شامی اسکول گیا ہوا تھا۔ اب گھر میں سدرہ اکیلی تھی۔ سدرہ کے ذہن میں رات والے واقعات چل رہے تھے، وہ ابھی بھی سوچ رہی تھی کہ رات کو دروازہ بند کیا تھا تو کھل کیسے گیا اور وہ آواز جو سدرہ کا نام لے کر پکار رہی تھی۔ یہ ہی سوچتے سوچتے سدرہ نے ٹی وی لگا لیا۔ ٹی وی پر مورننگ شو لگا ہوا تھا، ٹی وی دیکھتے ہوۓ ٹائم گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور 12 بج گئے۔ شامی کو 1 بجے اسکول سے چھٹی ہونی تھی۔ سدرہ نے ٹی وی بند کیا اور باہر صحن میں آ گئی۔ سدرہ کو پتا نہیں کیوں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے گھر میں اس کے علاوہ اور کوئی بھی ہے۔ سدرہ واشروم میں گئی اور منہ دھونے لگی۔
سدرہ نے منہ دھو کر جب شیشے میں دیکھا تو اس کے جسم میں سنسنی پھیل گئی۔ شیشے میں کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ سدرہ نے دوبارہ نیچے پانی کی طرف دیکھا تو وہاں پانی کی جگہ خون تھا۔ اور اچانک ہر طرف سے عورتوں کی ہنسنے کی آوازیں بھی آنے لگی، سدرہ بھاگ کر واشروم سے نکلی اور اسی وقت ڈور بیل بجنے کی آواز آئی۔
سدرہ نے جلدی جلدی دروازہ کھولا تو سامنے مزمل کھڑا تھا۔ سدرہ بھاگ کر مزمل کے گلے لگ گئی۔
"مزمل،وہ وہ وہاں، اندر کچھ ہے” سدرہ ہکلا رہی تھی۔
"کیا ہوا تمہیں، کیسے رنگ اڑا ہوا ہے تمہارا، چلو اندر میں دیکھتا ہوں” مزمل نے کہا اور اندر آ گیا۔
"وہ اندر واشروم میں خون آ رہا تھا پانی کی جگہ” سدرہ نے کہا۔
"چلو اندر میں دیکھتا ہوں” مزمل واشروم میں گیا اور پانی کا نل چلا دیا۔
"دیکھو، کہاں ہے خون؟، تم بلاوجہ پریشان ہو رہی ہو” مزمل نے نل سے پانی نکلتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔
"میں سچ کہہ رہی ہوں، یہاں سے خون آ رہا تھا پانی کی جگہ” سدرہ نے کہا۔
"میں چینج کرلوں پھر بات کرتے ہیں” مزمل نے کہا اور اندر چلا گیا۔
اچانک سدرہ کے موبائل کی بیل بجنے لگی، سدرہ نے موبائل نکال کر دیکھا تو مزمل کی کال آ رہی تھی۔سدرہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی۔مزمل ابھی اس کے سامنے سے اندر گیا ہے اور اس سے کوئی بات کرنے کے لئے فون کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
"ہیلو” سدرہ نے کال اٹھا کر کہا۔
"سدرہ وہ میں نے اس لئے فون کیا تھا کہ آج میں لیٹ آوں گا تم کھانا کھا لینا” دوسری طرف سے مزمل کی آواز آئی۔
"آپ مذاق کر رہے ہیں میرے ساتھ؟” سدرہ نے کہا۔
"نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں، میری آج امپورٹنٹ میٹنگ ہے اس لئے، بائی” مزمل نے کہا۔
"سنیے تو” سدرہ نے کہا مگر اس وقت تک دوسری طرف سے کال ختم کردی گئی تھی۔
"اگر مزمل دفتر میں ہے تو پھر یہ کون تھا” سدرہ نے سوچا۔ یہ سوچتے ہی سدرہ کا خوف سے برا حال ہو گیا تھا۔ سدرہ کا جسم خوف کی وجہ سے باقاعدہ کانپ رہا تھا۔ خوف کی وجہ سے سدرہ کو اپنا دماغ ماوف ہوتا محسوس ہو رہا تھا، اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
اچانک دروازے پر پھر سے دستک ہوئی۔ سدرہ گھبرائی ہوئی تھی۔
"کون؟” سدرہ نے اونچی آواز میں پوچھا۔
"ممی میں ہوں” باہر سے شامی کی آواز آئی۔
سدرہ نے دروازہ کھول دیا۔ اور شامی کو اندر آنے پر اپنے گلے سے لگا لیا۔ سدرہ نے شامی کو اندر نہیں جانے دیا۔
"ممی میں یونیفارم چینج کرنا ہے، اتنی دیر ہو گئی ہے” شامی نے کہا۔
سدرہ اور شامی کو کافی دیر ہو گئی تھی باہر بیٹھے۔ اندر سے کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔
"اچھا رکو میں اندر دیکھ کر آتی ہوں” سدرہ نے کہا۔ اور اندر چلی گئی۔ سدرہ نے پورا گھر دیکھ لیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
سدرہ صبح سے مزمل کے گھر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اب اسے پورا یقین ہو چکا تھا کہ یہ گھر آسیب زدہ ہے۔ اور وہ اب یہاں نہیں ره سکتی تھی۔ سدرہ مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی تب مزمل گھر آیا۔
"مزمل میں اس گھر میں نہیں ره سکتی” سدرہ نے کہا۔
"کیا ہوا؟” مزمل نے حیرانی سے پوچھا۔
"یہ گھر سچ میں آسیب زدہ ہے” سدرہ نے کہا۔
"یار تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” مزمل نے سدرہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
"میری طبیعت ٹھیک ہے، اس گھر میں بہت کچھ عجیب ہو رہا ہے” سدرہ نے کہا۔
"کیا ہو رہا ہے؟” مزمل نے پوچھا تو سدرہ نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
"تمہیں ضرور کوئی وہم ہوا ہو گا، اکثر ایسا ہوتا ہے جب بندہ کسی چیز کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے وہم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس شخص کو لگتا ہے کہ سچ میں ایسا ہو رہا ہے” مزمل نے سب کچھ سن کر جواب دیا۔
"آپ میری بات کا یقین کریں، مجھے کوئی وہم نہیں ہوا، میں سچ کہہ رہی ہوں” سدرہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوۓ کہا۔
"اچھا تم پریشان مت ہو اب مجھے کام سے ایک ہفتے کی چھٹی ہے اور میں یہاں ہی رہوں گا، اگر ایسا کچھ مجھے محسوس ہوا تو ہم سوچیں گے اس بارے میں کچھ” مزمل نے جواب دیا۔
"میری بات” سدرہ کہہ ہی رہی تھی کہ مزمل نے اسکی بات کاٹ دی۔
"کہا تو ہے میں نے، اب ہم اس بارے میں بات نہیں کریں گے” مزمل نے کہا۔
"ٹھیک ہے” سدرہ نے ہار مان لی۔
سدرہ کی آنکھ شامی کے رونے کی آواز سے کھلی تھی۔ رات دو بجے کا وقت تھا، سدرہ نے دیکھا تو شامی کمرے میں نہیں تھا، اور اس کی رونے کی آواز باہر سے آ رہی تھی، سدرہ نے مزمل کو اٹھایا اور بتایا کہ شامی یہاں نہیں ہے اور باہر صحن سے اسکے رونے کی آواز آ رہی ہے وہ دونوں باہر چلے گئے۔
صحن میں ایک جگہ شامی کھڑا رو رہا تھا جب کہ اسکے اردگرد تین چار بلیاں تھی جو غرا رہی تھیں۔ مزمل نے انھیں ڈرانے کی کوشش کی مگر وہ بلیاں اور زیادہ غرانے لگیں۔ قریب ہی ایک لاٹھی پڑی تھی مزمل نے وہ لاٹھی اٹھائی اور پوری قوت سے ایک بلی کے سر پر ماری۔ وہ بلی زمین پر گر کر تڑپنے لگی اور تھوڑی دیر میں ساکت ہو گئی۔ سدرہ نے جلدی جلدی جا کر شامی کو اٹھا لیا اور اپنی گود میں اٹھا لیا۔ اس بلی کے مرتے ہی دوسری بلیاں بھی غائب ہو گئی۔ اب پورے گھر سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں اور وہ بلی کی لاش بھی دھواں بن کر غائب ہو گئی۔
"یہ یہ کیا تھا؟” مزمل نے کہا۔
"میں کہا تھا کہ یہ اگر ٹھیک نہیں ہے، یہاں بھوتوں کا بسیرا ہے، ہمیں یہاں نہیں رہنا” سدرہ نے روتے ہوۓ کہا۔
"ہم صبح ہی یہ گھر چھوڑ دیں گے، چلو اب اندر” مزمل نے کہا اور وہ سب اندر چلے گئے۔ ابھی بھی گھر کی چاروں طرف سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں جیسے بہت سی عورتیں اکٹھی رو رہی ہوں۔ سدرہ اور مزمل جاگ رہے تھے نیند ان سے کوسوں دور تھی۔ باہر سے لگاتار رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شامی اب سو چکا تھا۔ اچانک باہر سناٹا چھا گیا۔ اب باہر سے کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔
"چلو شکر ہے کچھ تو سکون ہوا” مزمل سے کہا۔
"چلو ابھی صبح ہونے میں دیر ہے، سونے کی کوشش کرتے ہیں” مزمل نے سدرہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ہمممم” سدرہ نے کہا اور بیڈ سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلی۔ نیند کا نام و نشان بھی نہیں تھا اسکی آنکھوں میں۔ سدرہ نے اپنی تھوڑی سی آنکھیں کھول کر شامی کی طرف دیکھا۔
شامی ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"شامی کیا ہوا؟” مزمل نے شامی سے پوچھا۔
شامی کا چہرہ نیچے کی طرف تھا۔
"میں شامی نہیں ہوں” شامی کے حلق سے ایک گرجدار آواز آئی۔ شامی نے اپنا منہ اوپر کی طرف کرلیا شامی کی آنکھیں پوری سفید تھی آنکھوں کی پتلیاں غائب تھیں۔ سدرہ کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ مزمل بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شامی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شامی کے معصوم چہرے پر شیطانی عکس آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔
شامی اٹھا اور جلدی جلدی کمرے سے باہر نکل گیا۔ مزمل بھی آوازیں دیتا ہوا کمرے سے باہر نکلا مگر باہر کوئی نہیں تھا۔
"شامی کہاں ہو تم؟” مزمل صحن میں شامی کو آوازیں دے رہا تھا مگر شامی کا کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ سدرہ بھی باہر صحن میں آ گئی تھی۔
"میرا شامی کہاں ہے؟” سدرہ نے پریشانی سے پوچھا۔
"ابھی میرے سامنے باہر آیا تھا مگر اب کہیں بھی نظر نہیں آ رہا” مزمل بھی بہت پریشان تھا۔ ان دونوں نے گھر کا نیچے والا سارا پورشن دیکھ لیا تھا مگر شامی کہیں بھی نہیں تھا۔
"اوپر دیکھتے ہیں شاید اوپر ہو” مزمل نے کہا اور اوپر آ گیا۔ سدرہ بھی مزمل کے ساتھ ہی اوپر آ چکی تھی۔ چھت پر غیر معمولی سردی تھی۔ ان کے دانت آپس میں ٹکرا رہے تھے۔ انہوں نے اوپر والے کمرے کا دروازہ کھولا تو انھیں ایسی آواز آنے لگی جیسے کوئی بہت زور زور سے سانس لے رہا ہو۔
” شامی کیا تم یہاں ہو؟” سدرہ نے کہا اور کمرے کی لائٹ جلا دی مگر اندر کوئی بھی نہیں تھا۔اچانک سامنے والی دیوار پر بہت زیادہ خون کے چھینٹے گرے، سدرہ کی یہ منظر دیکھ کر چیخ نکل گئی اور اسی وقت لائٹ بھی بند ہو گئی۔ اب پورے کمرے میں اندھیرا تھا، کچھ سیکنڈز بعد لائٹ خودبخود جل پڑی۔ مگر اب سامنے والی دیوار بلکل صاف تھی۔
"ووو وہ خون، ککک کہاں گگ گیا” سدرہ بڑی مشکل سے بول رہی تھی۔
"پتا نہیں، ہمیں پہلے شامی کو ڈھونڈھنا چاہیے” مزمل نے کہا۔ اور پھر شامی کو آوازیں دینے لگا۔ ان دونوں نے گھر کا چپہ چپہ چھان مارا تھا مگر شامی کا کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔ باہر والا دروازہ اندر سے لاک تھا۔
"میں نے کہا تھا کہ یہ گھر ٹھیک نہیں ہے” سدرہ رو رہی تھی۔
"حوصلہ رکھو، شامی ٹھیک ہوگا” مزمل سدرہ کو تسلیاں دے رہا تھا۔
پورے گھر کی لائٹس خودبخود جل بجھ رہی تھیں۔ سدرہ کی سانس اسکے سینے میں اٹک رہی تھی۔ وہ ابھی بھی شامی کو آوازیں دے رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں تہجد کی اذان سنائی دینے لگی۔
"چلو تم نماز پڑھو اور اللّه سے دعا کرو میں مسجد سے قاری صاحب کو لے کر آتا ہوں میں ان سے مل چکا ہوں بہت نیک انسان ہیں” مزمل نے سدرہ کو کہا۔
"لیکن میں اکیلی یہاں کیسے رہوں گی؟” سدرہ نے کہا۔
"تم وضو کرو اور نماز پڑھو میں بھی نماز پڑھ کر قاری صاحب کو لے کر آتا ہوں، ڈرنے کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے” مزمل نے کہا تو سدرہ نے "ہاں” میں سر ہلا دیا۔
مزمل کے جانے کے بعد سدرہ نے دروازہ بند کرلیا اور وضو کرنے لگی۔ سدرہ بہت پریشان تھی اور ڈری ہوئی بھی اور وہ اس وقت ایک آسیب زدہ گھر میں اکیلی تھی اور اسکا بچہ لاپتہ تھا۔ پورا گھر چھان مارنے کے بعد بھی شامی کہیں نہیں ملا تھا اب صرف اور صرف اللّه تھا جس سے سدرہ کو امید تھی۔
شدید سردی تھی اور سدرہ نے وضو بھی ٹھنڈے پانی سے کیا تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سدرہ جانماز پر کھڑی تھی۔ سدرہ پر عجیب رقت طاری تھی۔
” سُبْحَا نَكَ اللَّهُمَّ وَ بِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ ” سدرہ خشوع خضوع کے ساتھ پڑھ رہی تھی۔ سدرہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سدرہ کو اللّه اپنے بہت قریب محسوس ہو رہا تھا۔
” الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ "
سدرہ اب سورہ فاتحہ پڑھ رہی تھی۔ جیسے جیسے سدرہ نماز پڑھ رہی تھی اسکے دل کو سکون مل رہا تھا۔ وہ اب بھول چکی تھی کہ وہ اب گھر میں اکیلی ہے اور اس گھر میں جنات کا سایہ بھی ہے۔
” سُبْحَانَ رَبِّىَ الأَ عْلَى ” سدرہ اپنے خالق حقیقی کو سجدہ کر رہی تھی۔ اب وہ بلکل نارمل تھی۔ اسے یقین تھا کہ اسکا خدا اس کے ساتھ ہے۔
” اَلسَّلاَمُ عَلَيكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ ” سدرہ نے سلام پھیرا اور اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھا لئے۔
” اے میرے پروردگار میری مدد فرما۔ بیشک اولاد ہمارے پاس تیری امانت ہے مگر اولاد پر آنے والا ایک زخم بھی ماں باپ کو بے چین کردیتا ہے۔ میرے شامی کی حفاظت فرما۔” سدرہ گڑگڑا کر دعا مانگ رہی تھی۔
سدرہ ابھی دعا مانگ کر اٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہونے لگی۔
"کون؟” سدرہ نے دروازے کے پاس جا کر پوچھا۔
"میں ہوں، دروازہ کھولو” مزمل کی آواز آئی۔
سدرہ نے دروازہ کھول دیا۔
"آئیے قاری صاحب” مزمل نے کہا۔ مزمل کے ساتھ ایک بزرگ تھے جن کی سفید داڑھی تھی اور کافی نفیس نظر آ رہے تھے۔ مزمل کے ساتھ وہ بھی گھر میں داخل ہوۓ۔
"یہ میری بیوی ہے، سدرہ، اور یہ یہاں کی مسجد کے امام ہیں ابھی کچھ روز پہلے ہی یہاں آئے ہیں” مزمل نے تعارف کروایا۔
"السلام علیکم بیٹی کیسی ہو؟” قاری صاحب نے سدرہ کے سر پر پیار دیا۔
” وعلیکم السلام قاری صاحب میرا بیٹا نہیں مل رہا ابھی کچھ دیر پہلے گھر تھا مگر اچانک غائب ہو گیا ہے کہیں نہیں مل رہا” سدرہ نے کہا۔
"ابھی مجھے مزمل میاں نے بتایا ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، مجھے اس علاقے میں آئے بھی ایک ہفتہ ہوا ہے یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں جنات نے بسیرا کیا ہوا ہے” قاری صاحب بولے۔
” قاری صاحب میرا بیٹا مل جائے گا نا؟” سدرہ پوچھ رہی تھی۔
"آپ لوگ پریشان مت ہو، اللّه پر بھروسہ رکھیں وہ سب ٹھیک کردے گا” قاری صاحب نے کہا۔
"انشاءللہ” مزمل نے کہا۔
"مجھے ایک دفعہ پورا گھر دیکھنے دیں” قاری صاحب نے کہا۔
"جی آئیے میرے ساتھ میں دکھاتا ہوں” مزمل نے کہا اور قاری صاحب کو گھر دکھانے لگا۔ قاری صاحب نے پورا گھر دیکھا۔
” اس جگہ پر بہت خطرناک جنات نے قبضہ کیا ہوا ہے، یہ یہاں کسی اور کو رہنے نہیں دیتے، انکی کوشش ہوتی ہے کہ یہاں آنے والے لوگوں کو کسی طرح ڈرا کر بھاگا دیا جائے، آپ نے ضرور انکو کوئی نقصان پہنچایا ہے ورنہ یہ صرف ڈراتے ہیں” قاری صاحب نے پورا گھر دیکھنے کے بعد کہا۔
"نہیں ہم نے تو کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا” مزمل نے کہا۔
"شاید انجانے میں آپ سے کچھ ایسا ہو گیا ہو جسکی وجہ سے جنات نے آپ کے بیٹے کو غائب کیا ہے، ابھی فجر کا وقت ہونے والا ہے میں فجر کے بعد یہاں آوں گا آپ لوگ پریشان مت ہونا، اللّه بہتر کرے گا” قاری صاحب نے کہا تو مزمل نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
مزمل قاری صاحب کو دروازے تک چھوڑ کر آیا تھا۔