کامنی کے سامنے لگی آگ بھڑکنے لگی ،کامنی کی آنکھوں میں آمنہ کے لئے کدورت ،نفرت ،جلن واضح دکھائی دے رہی تھی ،جیسے جیسے کامنی منہ میں کچھ بڑبڑاتی جاتی ویسے ویسے آمنہ کو لگی آگ شدت اختیار کرتی جاتی ،بد قسمتی سے اس دن صفدر بھی گھر مین نہیں تھا اور فاطمہ بھی چھوٹی تھی ،آمنہ باہر کی جانب بھاگی مگر دروازہ اپنے آپ بند ہو گیا ،آمنہ چیخی چلائی مگر اس کی مدد کو کوئی نا آیا،اچانک آمنہ کو محسوس ہوا کے اس کو کوئی پیچھے سے کھینچ رہا ہے ،وہ اندیکھی قوت آمنہ کو گھسیٹ کے ایک کمرے مین لے گئی ،جہاں مکمل اندھیرا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک آئینے میں نظر آنے والا منظر اپنے آپ بند ہوگیا ،آگے کیا ہوا ؟؟؟ شیزہ کے منہ سے خود بخود نکلا ،جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتی ،شیزہ کو ایک خوفناک آواز سنائی دی ،شیزہ نے اپنے چاروں اطراف دیکھا مگر اس کو کوئی نظر نا آیا ،شیزہ حواس باختہ ہو گئی ،شیزہ کے چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا ،ہمت کر کے شیزا کھڑی ہوئی اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں ،کون ہو تم سامنے آؤ ،مشکل سے شیزہ کے گلے سے ایک جملہ نکلا ،اتنی جلدی بھی کیا ہے دیکھ لینا مجھے بعد میں ،ویسے بھی اب تمہیں اس آئینے میں ہی ہمیشہ کے لئے رہنا ہے ،ایک بار بھی وہی خوفناک آواز شیزہ کو سنائی دی ،مینا اور فائقہ کہاں ہے ؟مجھ مجھ مجھے انہیں لے کر جانا ہے ،خوف میں اضافہ ہونے کی وجہ سے شیزا کی آواز لرزنے لگی ،اچھا تو تمہیں انکو یہاں سے لے جانا ہے! چلو ایک سمجھوتا کرتے ہیں ،تمہارے پاس صرف ایک دن بچا ہے اگر اس ایک دن کے اندر تم نے انکو ڈھونڈ لیا تو میں تم تینوں کو یہاں سے جانے دوں گی اور اگر تم ان دونوں کو نا ڈھونڈ سکی تو تم لوگ ہمیشہ کیلئے یہیں رہو گی،اور ایک بات اور دھیان رکھنا کہیں مینا اور فائقہ کو ڈھونڈھتے ہوئے کوئی تمہیں نا مار دے ہاہاہاہا ،کیا تمہیں منظور ہے ؟؟ بہت سوچ بچار کے بعد شیزا نے ہاں میں جواب دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیخوں کی آواز سن کر میاں بشیر اور صائقہ جیسے ہی سمیرہ کے کمرے میں داخل ہوئے ،خوف سے انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ،انہوں نے دیکھا کے باسط کے ہاتھ میں چاقو تھا جس سے وہ سمیرہ کے پیٹ میں لگاتار وار کر رہا تھا ،سمیرہ کے پیٹ سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے ،باسط سمیرہ کے پیٹ سے نکلنے والا خون پیتا جاتا اور اسکے پیٹ سے گوشت نکال کر کھاتا جاتا ،وہ کوئی انسان نہیں بلکہ آدم خور بھیڑیا لگ رہا تھا ،صائقہ اور میاں بشیر میں اتنی ہمت نا تھی کہ وہ آگے بڑھ کر باسط کو روک سکیں ،وہ دونوں تو بے جان لاش کی طرح کھڑے یہ خونی کھیل دیکھتے رہے اچانک باسط نے ایک ہولناک چیخ ماری اور زمین پر گر کر بیہوش ہوگیا ،اسی اثنا میں سعد اور اسلم چیخیں سن کر کمرے میں آگئے ،انہوں نے جلدی جلدی سمیرہ اور باسط کو اٹھایا اور ہسپتال لے گئے ،میاں بشیر بھی ان دونوں کے ساتھ چلے گئے ،جب کہ صائقہ اپنی جگہ بت بنی کھڑی رہی ،اس کی آنکھوں میں بے یقینی سی تھی ،جو منظر اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا وہ اسے خواب لگ رہا تھا ،کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بجنے لگی ،بے جان ٹانگوں کو فون کی جانب گھسیٹتے ہوئے جب صائقہ فون کے پاس پہنچی اور اسنے فون اٹھایا تو ایک نہایت درد ناک خبر اس کی منتظر تھی ،اس کو فون پر بتایا گیا کے سمیرہ اور باسط اب اس دنیا میں نہیں رہے ،یہ خبر سنتے ہی صائقہ زمین پر گر گئی اور زار و قطار رونے لگی اور روتی بھی کیوں نا اس کا اپنا جوان بھائی جس کو اس نے اپنی گود میں کھلایا تھا اسکو چھوڑ کر چلا گیا تھا ،اگلے روز بشیر ہاؤس میں صف ماتم بچھ گیا ،صائقہ ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی ،اس کی آنکھوں کے سامنے میاں بشیر کا چہرہ مسلسل گردش کر رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیزہ نے لال ٹین اٹھائی اور مینا اور فائقہ کی تلاش شروع کر دی ،شیزہ نے ایک کمرے کا دروازہ کھولا ،پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ،کمرے کی ایک پوری دیوار بڑے سے آئینے سے ڈھکی ہوئی تھی ،شیزا ابھی تھوڑا ی آگے بڑھی تھی کے کسی چیز نے اسکے پاؤوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا ،ڈرتے ڈرتے جب شیزہ نے نیچے دیکھا تو ایک نہایت بدصورت عورت جس کی آنکھوں اور منہ سے خون رس رہا تھا ،اس کا پورا بدن زمین کے اندر دھنسا ہوا تھا صرف اس نے اپنا منہ باہر نکالا ہوا تھا ،آآہ شیزا نے اس عجیب سی مخلوق کو دیکھتے ہی زوردار چیخ ماری ،شیزہ خوف سے کانپنے لگی ،خوف کے ساۓ اس کے ارد گرد منڈلانے لگے ،اس نے ایک جھٹکے سے اپنا پاؤں اس عجیب سی مخلوق سے چھڑوایا اور کمرے سے باہر کی جانب بھاگی ،باہر آکر uاس نے سکھ کا سانس لیا
،خیر اس نے ایک بار پھر ہمت باندھی اور فائقہ اور مینا کی تلاش دوبارہ شروع کردی ،وہ ایک بہت ہی باہمت ،نڈر اور بہادر لڑکی تھی اگر اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو کب کی بھاگ چکی ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لال ٹین ہاتھ میں تھامے چلتی جا رہی تھی کہ اچانک اس کو کسی کے اونچی اونچی چیخنے کی آواز آنے لگی ،اس نے دیکھا کے سیڑہیوں سے ایک لمبے قد کی عورت تیزی سے اترتی ہوئی شیزہ کی جانب آرہی تھی ،اس کے چہرے کو سیاہ رنگ کے بالوں نے ڈھکہ ہوا تھا ،وہ مسلسل چیختی جا رہی تھی اس نے ہاتھوں میں ایک کلہاڑی پکڑی ہوئی تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا ،شیزہ کو لگا کے اب تو وہ نہیں بچے گی ،پھر بھی اس نے ہمت کا مظاہرہ کیا ،وہ بھاگی اور ایک بڑے سے بت کے پیچھے چھپ گئی ،وہ عورت ادھر ادھر منہ گھماتی شیزا کو تلاش کر رہی تھی ،شیزا مسلسل قرآن مجید کا ورد کرتی رہی ،شیزا کو زمین پے ایک ڈنڈہ پڑا ہوا نظر آیا ،اس نے وہ ڈنڈہ اٹھایا اور پوری قوت سے اس چڑیل کے سر پر دے مارا،وہ چڑیل لڑ کھڑا کر زمین پر گر گئی اور شیزا وہاں سے بھاگ گئی ،غرض شیزا نے اپنی تلاش جاری رکھی اس دوران شیزا کا سامنا کئی شیطانی طاقتوں سے ہوا مگر اس نے جوان مردی سے سب کا مقابلہ کیا ،مگر اتنی چھان پٹخ کے بعد بھی اس کو فائقہ اور مینا نا ملی ،اچانک اس کے ذہن میں کچھ آیا اس نے زمین پر پڑا ہوا ایک ڈنڈہ اٹھایا اور اس کمرے کی جانب چل پڑی جہاں بہت بڑا آئینہ تھا ،اس کمرے میں پہنچ کر اس نے دیکھا کے وہ عجیب مخلوق جو زمین کے اندر دھنسی ہوئی تھی وہ اب وہاں نہیں تھی ،وہ اس بڑے سے آئینے کے پاس گئی اور زور سے ڈنڈہ اس آئینے پر مارا ،آئینہ دھڑام سے ٹوٹ کر نیچے گر پڑا ،آئینے کے پیچھے مینا اور فائقہ بیہوش پڑی تھیں ،شیزا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا ،اب جیسا کے تم نے دیکھا کے میں نے ان دونوں کو ڈھونڈھ لیا ہے ،اب تم اپنا وعدہ پورا کرو اور ہمیں یہاں سے جانے دو ،شیزا نے اس غیبی مخلوق سے بات کرنا چاہی ،ہاہاہاہا تم کو جانے دوں ؟؟ ہر گز نہیں اگر میں نے تم لوگوں کو یہاں سے جانے دیا تو میرا مقصد کبھی پورا نہیں ہوگا ،وہ غیبی مخلوق اپنے وعدے سے مکر گئی ،شیزا کو اچانک سے ٹھپ کی آواز آئ جب شیزا نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا تو وہ بند ہو چکا تھا ،اف یا اللّه اب میں کیا کروں ،شیزہ بے بس ہو چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیزا نے مینا اور فائقہ کو اٹھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ دونوں نہیں اٹھی ،دروازہ کھولنے کی بھی بہت کوشش کی مگر وہ نا کھلا ،تھک ہار کر شیزا نے موم بتی دان کو پکڑ لیا جو دیوار سے جڑا ہوا تھا ،وہ موم بتی دان ہلکا ہلکا ہل رہا تھا ،شیزا نے زور لگایا تو وہ موم بتی دان نیچے کی جانب گھوم گیا ،کمرے کے بالائی حصّے سے ایک زور دار آواز آئ اور ایک رستہ بن گیا جو سیڑھیوں کے ذریعے نیچے کی طرف جا رہا تھا ،شیزا نے لال ٹین پکڑی اور ڈرتے ڈرتے نیچے اتری نیچے جا کر اس نے دیکھا کے چار آئینے ایک دوسرے کے سامنے رکھے ہیں ،شیزہ نے ان میں سے ایک کو انگلی لگائی تو اس کی انگلی آئینے کے اس پار چلے گئی ،شیزا نے فوری طور پر آئینے سے انگلی نکال لی ،بہت سوچ بچار کے بعد شیزا ان میں سے ایک آئینے کے اندر داخل ہوگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیزہ اس آئینے میں داخل ہوئی تو دوسرے آئینے سے واپس اسی جگہ پر آگئی جہاں سے وہ آئینے میں داخل ہوئی تھی ،جب وہ دوسرے اور تیسرے آئینے میں داخل ہوئی تب بھی ایسا ہی ہوا مگر چوتھے آئینے کی دفعہ ایسا نہیں ہوا ،چوتھے آئینے میں وہ داخل ہو ہی نہیں پائی
"بیٹھ جاؤ نیچے "چوتھے آئینے سے ایک اونچی آواز شیزہ کی سماعت سے آکر ٹکرائی ،شیزہ فوری طور پر نیچے بیٹھ گئی ،اس آئینے میں دیکھو اور پوری کہانی جان لو ،ایک بار پھر چوتھے آئینے سے آواز آئ
"آگ کی شدت زیادہ ہونے کی وجہ سے آمنہ خود کو نا بچا پائی اور آگ میں جھلس کر مر گئی ،کامنی آمنہ کے گھر آگئی اور آمنہ کا روپ دھار لیا ،اب وہ صفدر کو مارنے کا فیصلہ کر چکی تھی ،کیوں کے صفدر تو پہلے ہی کسی کا ہو چکا تھا ،اور اسے محبت بھیک میں نہیں چاہیے تھی ،اب اس کا مقصد وہ شاہی خزانہ حاصل کرنا تھا جس کی سہی جگہ کا صرف اور صرف صفدر کو ہی پتہ تھا ،غرض جب صفدر گھر آیا تو کامنی نے آمنہ بن کر باتوں باتوں میں اس شاہی خزانے کے بارے میں ساری تفصیلات معلوم کر لیں ،جب کامنی نے صفدر سے خزانے کے بارے میں سب کچھ جان لیا تو وہ اپنے اصلی روپ میں آگئی ،کامنی کو دیکھ کر صفدر حیران رہ گیا ،اس سے پہلے کے صفدر کچھ بولتا کامنی نے تلوار اٹھائی اور ایک کے بعد دوسرا وار کر کے صفدر کو مار دیا ،رہ گئی فاطمہ ،تو جب کامنی فاطمہ کو مارنے کے ارادے سے کمرے میں گئی تو فاطمہ وہاں تھی ہی نہیں یعنی فاطمہ غایب ہو گئی تھی ،کامنی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی ،نا جانے فاطمہ کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ، خیر کامنی نے صفدر اور آمنہ کی لاشیں اسی گھر میں دفنا دیں ،پھر جب کامنی صفدر کی بتائی ہوئی جگہ پر خزانہ ڈھونڈنے گئی تو اسکو وہاں کوئی خزانہ نہیں ملا ،ہو سکتا ہے کے صفدر نے اسکو غلط جگہ بتائی ہو یا پھر پہلے سے ہی کوئی وہ خزانہ نکال کر لے گیا ہوگا ،جب کامنی کو یہ معلوم ہوا تو اسکو بہت غصہ آیا ،خیر وہ کالے جادو میں مزید مہارت حاصل کرنے لگی ،ایک روز جب وہ کالے جادو کے منتر پڑھ رهی تھی تو غلطی سے اس نے ایک ایسا منتر بول دیا کے جس سے وہ اور اس کے سب شیطان چیلے اس آئینے میں قید ہو گئے ،اور جو غیبی مخلوق تم سے بات کر رهی تھی وہ کوئی اور نہیں کامنی ہی تھی ،اور جس گھر میں تم اب موجود ہو وہ کسی اور کا نہیں آمنہ کا گھر ہے ،جو کے اس آئینے سے جڑ چکا ہے ،کامنی نے ایک ایسا شربت پی رکھا ہے کہ جس سے وہ 500 سال تک زندہ رہ سکتی ہے ،آج رات بارہ بجتے ہی کامنی 500 سال کی ہو جاۓ گی ،جانتی ہو اس نے تم تینوں کو یہاں قید اس لئے کر رکھا ہے کے رات کے بارہ بجتے ہی وہ تم تینوں کو مار کر تم لوگوں کا خون پی سکے جس سے اس کو مزید 500 سال کی عمر مل جاۓ گی ،اور پھر وہ اس آئینے سے آزاد ہو جاۓ گی ،مگر ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر کیا؟ ؟ "شیزا نے آئینے سے سوال کیا "
"مگر یہ کے تم اپنی اور ان لڑکیوں کی جان بچا سکتی ہو اور یہاں سے آزاد ہو سکتی ہو،تمہارے بارہ دن ختم ہونے کو ہیں آج رات بارہ بجتے ہی تمہیں بارہ دن کی ملی ہوئی مہلت ختم ہو جاۓ گی ،بارہ بجنے میں صرف تین گھنٹے رہ گۓ ہیں ،تمہیں بارہ بجنے سے پہلے پہلے یہاں سے نکلنا ہوگا ،مگر اس کے لئے تمہیں کامنی کا ایک بال ،کامنی کی ایک انگوٹھی جس کے ساتھ ہیرا جڑا ہوا ہے ،یہ دونوں چیزیں لانی ہوں گی اور ایک پہیلی بھی سلجھانی ہو گی ،مگر بارہ بجے سے پہلے ،اس آئینے میں ایک راستہ نکل آۓ گا جو تم کو کامنی کے کمرے تک لے جاۓ گا ،پر اس کے لئے تمہیں ایک سوال کا صحیح جواب دینا ہوگا تبھی تم کامنی کے کمرے تک پہنچ پاؤ گی اور جاتے وقت ان دونوں لڑکیوں کو اسی کمرے میں چھوڑ جانا وہ یہاں محفوظ رہیں گی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ٹھیک ہے ،میں تیار ہوں” ،شیزہ بہت پر جوش تھی ،اللّه کے بعد اسے خود پر پورا بھروسہ اور یقین تھا
آئینے کی ہدایت کے مطابق شیزہ فائقہ اور مینا کو اسی کمرے میں لے آئ
"اب مجھے سوال بتاؤ” ،شیزہ آئینے سے مخاطب ہوئی
تو سنو ” وہ کیا ہے جو تمہیں منزل تک لے جاتا ہے
لیکن خود آگے بھی بڑھتا "
یاد رکھنا تم صرف ایک مرتبہ ہی جواب دے سکتی ہو ،اگر جواب غلط ہوا تو موت ہی تمہارا مقدر ہے ،اس لئے بہت سوچ سمجھ کر جواب دینا ، تمہارے پاس صرف 10 منٹ ہیں ،”آئینے نے شیزہ کو جواب دینے کے لئے دس منٹ کا وقت دے دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو بشیر میاں میں صحیح سمجھی تھی ،میری ماں کے قاتل آپ ہی ہیں نا ،میں جانتی تھی کے آپ میرے سگے باپ نہیں مگر پھر بھی میں نے ہمیشہ آپ کو اپنا سگا باپ ہی تصور کیا ،اور وہ آئینہ وہ آئینہ بھی آپ ہی نے دکان دار سے کہہ کر وہاں رکھوایا تھا نا تا کہ فائقہ اس کو گھر لے آۓ اور اس آئینے میں بسی ہوئی مخلوق ایک ایک کر کے ہم سب کو مار دے اور پھر ہماری جائیداد پر آپ اپنا قبضہ جما لیں ،خود تو آپ نے اپنی حفاظت کے لئے تعویذ پہن لیا تا کہ آپ کو کچھ نا ہو ،اور اس دکان دار کی میرے اور شیزہ کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش اس کے پیچھے بھی آپ کا ہی ہاتھ تھا نا ،میری معصوم ماں جو آپ کو اپنے سر کا سائیں سمجھ کر آپ پر اندھا اعتماد کرتی تھی اس کو بھی آپ نے بے دردی سے مار دیا ،میں تمہاری اصلیت جان چکی ہوں بشیر میاں ،صائقہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گئی ،اس کے چہرے پر غصّہ واضح تھا جب کہ آنکھوں میں آنسو تھے جو کے اس کی اداسی کو واضح کر رہے تھے ،اس کی آنکھوں کے سامنے کبھی تو اپنی معصوم ماں کا چہرہ آتا تو کبھی مرحوم بھائی اور بھابھی کا ،کبھی اپنی پیاری بہنوں کا تو کبھی اپنی بہنوں جیسی دوست شیزہ کا ،وہ اکیلی جان ایک ہی وقت میں کتنے دکھ جھیل رهی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی ،اب جب کے تم میری اصلیت جان چکی ہو تو اپنا منہ بند ہی رکھنا ورنہ ۔۔۔۔
"ورنہ ،ورنہ کیا ،میں تو سب کو چیخ چیخ کر تمہاری اصلیت بتاؤں گی ،پولیس میں تمہارے خلاف پرچہ کٹواؤں گی” ،شیزہ چلائی
” لگتا ہے تجھے اپنی ماں کے پاس جانے کا بہت شوق ہے ” ،میاں بشیر کے چہہرے پر حیوانگی اور درندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے ،میاں بشیر نے پستول نکال لی اور صائقہ پر تان لی اب کر بکواس ،میاں بشیر غصّے سے چلایا
"تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا میرے ساتھ میرا اللّه ہے ،ویسے بھی تم نے وہ مشہور محاورہ تو سنا ہی ہوگا جسے اللّه رکھے اسے کون چھکے ” صائقہ بہت پر سکون دکھائی دے رہی تھی ،بشیر طیش میں آگیا ،اس سے پہلے کے میاں بشیر صائقہ پر گولی چلاتا ،پیچھے سے پولیس آگئی اور پولیس نے بشیر کو گرفتار کر لیا
"بھائی میں نے کیا کیا ہے مجھے گرفتار کیوں کر رہے ہو ،وہ سب تو تجھے تھانے جا کر ہی پتہ چلے گا ،ہم نے تیرا سارا بیان ریکارڈ کر لیا ہے جس میں تو نے خود اعتراف جرم کیا ہے ” پولیس بشیر کو گھسیٹتے ہوئے لے گئی ،اب تو صائقہ کو شیزہ کے آنے کا انتظار تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سوچ بچار کے بعد شیزہ نے جواب دیا ،”اس کا صحیح جواب ہے راستہ کیوں کہ راستہ ہی انسان کو اس کی منزل تک پہنچاتا ہے” اور تمہارا جواب درست ہے ،آئینے نے شیزہ کے جواب کو درست قرار دے دیا اور ایک راستہ آئینے میں بن گیا جو شیزہ کو کامنی جادوگرنی کے کمرے کے سامنے لے گیا ،شیزہ نے دیکھا کے دو پہرے دار کامنی کے کمرے کے سامنے کھڑے پہرہ دے رہے تھے جب کے ایک پہرے دار کچھ دور کرسی پر بیٹھا تھا ،بغیر آواز کیے دبے قدموں کے ساتھ شیزہ کرسی پہ بیٹھے ہوئے پہرے دار کے پاس گئی اور پاس ہی پڑا ہوا ڈنڈا اٹھا کر شیزہ نے اسکی گردن پر پوری قوت سے مارا ،وہ وہیں گر کر بیہوش ہوگیا ،ساتھ ہی شیزہ نے ایک زوردار چیخ ماری اور دیوار کے پیچھے چھپ گئی ،شیزہ بہت خوفزدہ دکھائی دے رهی تھی اس کے ہاتھ ور بازو کانپ رہے تھے ،چیخ کی آواز سن کر دونوں پہرے دار تیسرے پہرے دار کی جانب لپکے موقع پاتے ہی شیزہ کامنی کے کمرے میں داخل ہو گئی ،کامنی اپنے بستر پر لیٹی سو رہی تھی ،رنگ و روپ کے لحاظ سے کامنی ایک عام انسان لگ رہی تھی بس اس کے بال سفید تھے ،شیزہ نے پورا کمرہ چھان مارا لیکن اس کو ہیرے والی انگوٹھی کہیں پر بھی نہیں ملی ،پھر اس نے قینچی اٹھائی اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ بہت احتیاط سے کامنی کے کچھ بال کاٹ لئے
"کون ہے یہاں؟؟” کامنی کی آنکھ کھل گئی ،شیزہ جلدی جلدی کمرے میں رکھی الماری کے پیچھے چھپ گئی
"پہرے دارو” اندر آؤ ،کامنی چیخی ،”جی محترمہ”
"کمرے میں کوئی ہے اچھی طرح کمرے کی تلاشی لو” کامنی نے حکم دیا اور پہرے دار کمرے کی تلاشی لینے لگے ،خوش قسمتی سے پہرے دار الماری کے پیچھے نہیں گئے جہاں شیزہ چھپی تھی ،”جی نہیں محترمہ کمرے میں کوئی نہیں ہے ” اچھا پھر تم یہاں سے جا سکتے ہو ،کامنی نے حکم دیا ، کامنی آئینے کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور اپنے بال سنوارنے لگی ،شیزہ نے دیکھا کے وہ ہیرے والی انگوٹھی کامنی نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنی ہے
"میں جانتی ہوں کے تم الماری کے پیچھے چھپی ہو”کامنی کا لہجہ غصیلہ تھا ،یہ سن کر شیزہ کانپ اٹھی
"میں جانتی ہوں کے تم الماری کے پیچھے چھپی ہو باہر آجاؤ”اس بار کامنی چیخی ،شیزہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ،اسے لگ رہا تھا کے اس کی موت قریب آگئی ہے ،ڈرتے ڈرتے شیزہ کامنی کے سامنے آگئی اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا ،اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھی
"م م میں آپ کا ساتھ دینا چاہتی ہوں ،میں جانتی ہوں کے آپ خزانے کی تلاش میں ہیں اور اسکا راستہ مجھے پتہ ہے ،میں تو پہلے بھی آپ سے یہی کہنا چاہ رہی تھی مگر آپ نے میری بات سنی ہی نہیں”نا جانے شیزہ کے دماغ میں یہ ترکیب کہاں سے آگئی
"کیا واقعی ؟؟مجھے بتاؤ کہاں ہے خزانہ”کامنی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ،شیزہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ "کہتے ہیں کے کوئی کتنا ہی شاطر کیوں نا ہو کسی نا کسی کا ہاتھوں تو بیوقوف بن ہی جاتا ہے”
"آپ کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں ہی ہے خزانے کا راستہ”شیزہ نے جواب دیا
"یہ لو میری ہتھیلی ،میرے پاس آؤ اور مجھے راستہ بتاؤ” کامنی نے شیزہ کو حکم دیا
"لائیں دکھائیں ،یہ انگوٹھی اتار دیں میں اس سے آپ کی ہتھیلی صحیح طرح دیکھ نہیں پارہی”بڑی چالاکی سے شیزہ نے سارا معاملہ سنبھال لیا
"لو اب دیکھو”کامنی نے انگوٹھی اتار کر ٹیبل پر رکھ دی
کامنی کا انگوٹھی رکھنا تھا کے شیزہ نے وہ انگوٹھی اٹھائی اور باہر کی جانب بھاگی
"پہرے دارو اسے پکڑ لو”کامنی چلائی ،شیزہ گرتی پڑتی بچتی بچاتی آئینے والے راستے کے اندر داخل ہوئی اور راستہ بند ہوگیا ،شیزہ کے پیچھے کتنی ہی قسم کی عجیب و غریب مخلوقیں بھاگ رہی تھیں مگر شیزہ نے سب کو چکما دے دیا
اب شیزہ آئینے کے سامنے موجود تھی ،”میں لے آئ دونوں چیزیں”،شیزہ آئینے سے مخاطب ہوئی ،”اب اس انگوٹھئی کو کامنی کے بال کے ساتھ بندہ دو”،آئینے نے شیزہ کو بتایا
شیزہ نے کامنی کے بال کے ساتھ انگوٹھی باندھ دی
"اب پہیلی سلجھاؤ ،تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں”
"وہ کیا ہے کے جیسے ہی انسان اس کے سامنے آۓ
اپنا آپ اس میں پاۓ”آئینہ بولا
جواب ہے "آئینہ” ،جواب درست ہے ،اب انگوٹھی آئینے پے مارو
شیزہ نے انگوٹھی جوں ہی آئینے پر ماری ایک راستہ آئینے میں بن گیا ،اب جاؤ اپنے گھر اور گھر جاتے ہی آئینے کو توڑ دینا اور سمجھنا میں تمہارا ساتھی ہوں ،میں تمہیں اپنے بارے میں اسکے سوا کچھ اور نہیں بتاؤں گا ،آئینے نے کہا
شیزہ نے آئینے کے راستے کے ذریعے پہلے مینا اور پھر جب فائقہ کو گھر پہنچانے لگی تو اتنے میں وہ شیطانی مخلوق بھی آگئی ،ادھر سے آئینہ بھی بند ہونا شروع ہو گیا ،اس مخلوق میں سے ایک نے شیزہ کا پیر پکڑ لیا ،شیزہ نے پوری قوت لگا کر اس سے اپنا پیر چھڑوایا اور آئینے کے بند ہونے سے پہلے آئینے سے باہر آگئی اور آئینہ بند ہوگیا ،اتنے میں صائقہ بھی آگئی ،صائقہ تینوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی ،صائقہ مجھے ایک ہتھوڑا جلدی سے لا دیں ،شیزہ نے صائقہ سے کہا ،صائقہ بھاگی گئی اور اسٹور سے ایک ہتھوڑا لے آئ ،شیزہ نے پوری قوت سے وہ ہتھوڑا آئینے پر مارا اور آئینہ ٹوٹ گیا ،اسی کے ساتھ ہی کامنی کا کھیل ختم ہوگیا اور شیزہ اپنے اس کٹھن سفر میں کامیاب ہوگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دو دن بعد)
میاں بشیر کے لئے عدالت نے سزاۓ موت کے احکامات جاری کر دیے ،فائقہ اور مینا دونوں ٹھیک ہوگئی اور فائقہ نے اپنے کیے کی شیزہ سے معافی مانگ لی ،شیزہ کو میاں بشیر کے بارے میں پتہ چلا تو اس کو بہت دکھ ہوا مگر اب وہ اللّه کی رضا میں راضی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دو سال بعد)
شیزہ کے بیوہ ہونے کے بعد اس نے اپنی عدت اپنے ماں باپ کے گھر کاٹی،شیزہ کے باپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور شیزہ نے اپنے باپ کو معاف کردیا ،شیزہ کے لئے صائقہ اپنے بھائی اکبر کا رشتہ لے کر آئ ،شیزہ کی رضا مندی پر شیزہ کو اکبر کا ہمسفر بنا دیا گیا اور آج شیزہ ایک خوشگوار اور پرسکون زندگی بسر کر رہی ہے ،شیزہ کی اب ایک بیٹی بھی ہے عائشہ ،اکبر شیزہ کو اور شیزہ اکبر کو دل و جان سے چاہتے ہیں ،صائقہ ،فائقہ اور مینا اپنے اپنے گھر کی ہو گئی ہیں ،شیزہ کا اپنی نندوں کے ساتھ بہنوں والا رشتہ ہے جو ہمیشہ بڑ قرار رہے گا اور آئینے کی کرچیاں اب ایک کوڑا دان میں پڑی ہوئی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان سوچتا کچھ اور ہے اور ہوتا کچھ اور ہے ،شیزہ نے سوچا کے بشیر سے شادی کے بعد اب اس کی زندگی برباد ہو گئی ہے مگر خالق کائنات کو کچھ اور منظور تھا ،اس نے شیزہ کے لئے کچھ بہت اچھا سوچ رکھا تھا اور اب شیزہ کو اللّه پر پورا توکل ہے
ایک چال وہ چلتے ہیں اور ایک چال اللّه چلتا ہے اور بیشک اللّه سب سے بہترین چال چلنے والا ہے (القرآن)
ختم شد