کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ وہ آئینہ کہاں سے آیا تھا میرا مطلب ہے کہ آپ وہ آئینہ کہاں سے لاۓ تھے ؟؟ شیزا نے پوچھا ،جی نہیں میں اس بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا کیوں کے یہ آئینہ میں نہیں میرا بھائی کسی سے خرید کر لایا تھا اور و آج دکان پر نہیں آیا اگر آپ اس آئینے کے بارے میں تفصیلات جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو پرسوں آنا ہوگا کیوں کہ میرا بھائی دکان پر پرسوں کو آۓ گا ،دکاندار نے تجویز پیش کی جس کے جواب میں صائقہ اور شیزا نے اثبات میں سر ہلایا اور دکان سے چلی گئیں ،دکان دار پیچھے کھڑا ان کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ،اس کی مسکراہٹ میں چالاکی اور عیاری نمایاں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے تھے ،آدھی رات کا وقت تھا کے شیزہ کو محسوس ہوا کے اس کے پاؤں پر کسی نے نے ہاتھ لگایا ہو وہ بھوکلا کر اٹھ گئی ،اس نے دیکھا کے سامنے دروازے میں صائقہ کھڑی ہے جو اس کو باہر آنے کے لئے اشارہ کر رہی تھی ،شیزا نے اپنا دوپٹہ اوڑھا اور صائقہ کے پیچھے پیچھے چل دی ،صائقہ ٹی وی لاؤنج میں جا کر رک گئی ،صائقہ آپ مجھے یہاں کیوں لائی ہیں ؟؟ شیزا نے صائقہ سے پوچھا ،تمہیں کچھ دکھانا تھا ،شیزا کو اپنے پیچھے سے ایک آواز آئ ،یہ دیکھ کر شیزا حیران رہ گئی کے اس کے پیچھے بھی صائقہ تھی ،تمہیں کچھ بتانا تھا، ایک بار پھر شیزا کو اپنے دائیں جانب سے آواز آئ ،شیزہ نے ڈرتے ڈرتے اپنا منہ دائیں جانب کو موڑا تو وہاں بھی صائقہ کھڑی تھی ،شاید تم سے کچھ چھپانا تھا ،ایک اور صائقہ شیزہ کی بائیں جانب کھڑی تھی ،یہ یہ کیسے ہو سکتا ہے تم کون ہو م م میں جانتی ہوں تم میں سے کوئی بھی صائقہ نہیں ہے ،شیزہ ڈر کے مارے لرز رہی تھی ،ہاہاہاہا تم نے سہی کہا کیوں کے صائقہ تو مر گئی ،ان سب نے بیک وقت ٹی وی لاؤنج میں رکھی میز کی طرف اشارہ کیا ،شیزا نے دیکھا کے میز پر صائقہ کا کٹا ہوا سر ایک جانب پڑا تھا جب کہ خون آلود جسم دوسری طرف ،اب تو شیزا کی آواز دب گئی تھی و چیخنا چاہ رہی تھی مگر چیخ نا پائی ،وہ بھاگنا چاہتی تھی مگر ڈر کی وجہ سے اپنی جگہ پر منجمند ہو گئی ،وہ ایک لاچار مجسمے کی طرح ٹی وی لاؤنج میں کھڑی تھی ،پھر آئینے میں سے ایک تیز روشنی نکلی اور وہ سب بدروحیں اونچی اونچی قہقہہ لگاتی آئینے کے اندر چلے گئی اور شیزا کو چکر آۓ اور وہ وہیں بیہوش ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی کرنیں جب شیزا کی آنکھوں پر پڑی تو اس کو حوش آگیا ،اس نے اپنے آپ کو ٹی وی لاؤنج میں پایا ،وہ بھاگ کر صائقہ کے کمرے کی جانب گئی اور یہ دیکھ کر اس کے دل کو راحت آگئی کے صائقہ فجر کی نماز ادا کر رہی تھی ،شیزہ نے بھی وضو کیا اور صائقہ کے ساتھ ہی فجر کی نماز ادا کی ،صبح کے ناشتے پر شیزا بہت بھوکلائی ہوئی تھی ،اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کے جو رات کو اس کے ساتھ ہوا وہ خواب تھا یا حقیقت اور اگر خواب تھا تو وہ ٹی وی لاؤنج میں کیسے آگئی ،ناشتے کے بعد شیزا اپنے کمرے میں چلی گئی، صائقہ اس کی حالات بھانپ گئی ،وہ بھی شیزہ کے پیچھے اس کے کمرے میں چلی گئی ،کیا بات ہے شیزا تم مجھے بہت پریشان لگ رہی ہو ،صائقہ نے شیزہ سے سوال کیا ،دراصل رات کو ۔۔۔۔شیزا نے پھر رات کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ صائقہ کو بتایا ،صائقہ نے شیزا کو حوصلہ دیا پر اندر سے وہ خود بھی بہت ڈر گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو صائقہ اور شیزہ پھر آئینے کا معائنہ کر رہی تھیں تو آئینے کی نچلی سطح پر شیزہ کا ہاتھ لگا اور آئینے کی نچلی سطح والا فریم فرش پر گر گیا ،یہ دیکھیں صائقہ مجھے لگتا ہے کے یہ کسی طرح کا تالا ہے دیکھیں یہاں چابی لگانے کی جگہ بنی ہوئی ہے ،شیزہ آئینے کی نچلی سطح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بول رہی تھی ،ہاں واقعی شیزہ یہاں کوئی چابی لگے گی میرے خیال میں ،صائقہ اور شیزہ بہت خوش ہوئیں انھیں امید کی ایک کرن نظر آرہی تھی ،پھر انہوں نے اچھی طرح سے آئینے کا معائنہ اس امید کے ساتھ کے شاید ان کو کہیں سے چابی مل جاۓ مگر ساری محنت رائیگاں چلے گئی کیوں کہ ان کو چابی نہیں ملی ،شیزا ہمارے پاس صرف چھے دن رہ گئے ہیں اب اس دکاندار سے ہی ہمیں کچھ پتہ چلے گا ،صائقہ بہت پریشان دکھائی دے رہی تھی ،ہاں صائقہ ہمیں کل antique shop دوبارہ جانا پڑے گا ،شیزہ بولی اور صائقہ نے اثبات میں سر ہلا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اگلی صبح)
السلام عليكم بھیا ہم آگئے ہیں آپ اپنے بھائی کو بلا دیں ،شیزا بولی ،جی اچھا میں بلاتا ہوں ،وہ دکاندار اٹھا اور دکان کا شٹر بند کرنے لگا، یہ دکان کا شٹر آپ کیوں بند کر رہے ہیں بھیا ،صائقہ اور شیزا کے پسینے چھوٹ گئے ،اب اتنی مشکل سے تتلیاں ہاتھ لگی ہیں اب کیا ان کو ایسے ہی جانے دوں ؟؟دکاندار کے چہرے پر خباثت نمایاں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیا تمہیں خدا کا واسطہ ہے ہمیں جانے دو آخر تمہارے گھر میں بھی عورتیں ہوں گی ،صائقہ نے دکان دار کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے ،بکواس بند کر میرے گھر کی عورتوں کا نام اپنی گندی زبان سے مت لینا ،دکان دار چلایا ،شاید وہ بھول چکا تھا جو کچھ وہ کرنا چاہ رہا ہے دراصل وہ سب سے گندہ فعل ہے ،وہ آگے بڑھا اور اس نے شیزہ کئ کلائی پکڑ لی ،یا میرے اللّه مجھے بچا لے بیشک تیری ذات بڑی پاک ہے ،شیزہ چلا اٹھی ،اچانک دکان کے شٹر پر کسی نے زور سے دستک دی ،کون ہے ؟؟دکان دار نے پوچھا ،صاحب میں اشرف ہوں آپ نے خود ہی تو مجھے بلایا تھا ،اشرف نے باہر سے جواب دیا ،دراصل دکان دار نے اس گندے فعل میں اپنے ملازم اشرف کو بھی ساتھ ملا لیا تھا ،دکاندار نے جونہی شٹر کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کے اشرف کے ساتھ پولیس کھڑی تھی ،ت ت تم اشرف تم پولیس کو …….،دکان دار کے گلے میں الفاظ اٹک گئے جی صاحب میں ہی پولیس کو لایا ہوں تاکہ آپ کو بے نقاب کر سکوں کیوں کے میں کبھی بھی آپ کا ساتھ نہیں دوں گا ،مجھے اپنے اللّه کا خوف ہے جس کا انصاف بڑا ہی سخت ہے ،اشرف پر جوش انداز میں بولا ،پولیس نے شٹر اٹھایا اور دکان کی چھان بین کی ،شیزا اور صائقہ نے تمام کہانی پولیس کو بتا دی جس کے بعد پولیس دکاندار کو گرفتار کر کے لے گئی ،میں اس آئینے کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا البتہ اتنا جانتا ہوں کے یہ آئینہ دو سال پہلے بھارت سے آیا تھا ،اشرف نے شیزہ اور صائقہ کو آئینے کی تفصیلات بتا دیں ،صائقہ اور شیزا کو تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ اشرف کا کیسے شکریہ ادا کریں خیر صائقہ نے اشرف کو 5 ہزار دیے اور گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئیں ،صائقہ مجھے تو یقین نہیں آرہا کے ہم کیسے بچ گئی ،شیزا صائقہ سے مخاطب ہوئی ،ہمیں اللّه نے بچا لیا دیکھا تم نے اللّه سے دعا کی اور اس نے تمہاری دعا فورا قبول کرلی ،جی صائقہ آپ نے بالکل سہی کہا اللّه ہر ایک کئ دعا قبول کرتا ہے بس کسی کی جلدی اور کسی کی دیر سے ،اچھا صائقہ ہم یہ بات گھر میں کسی کو نہیں بتاۓ گے کیوں کے گھر میں پہلے ہی بہت پریشانی ہے ،ہاں ٹھیک ہے ،صائقہ نے اثبات میں سر ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیزا کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کے میاں بشیر صوفے پر بیٹھے رو رہے ہیں ،شیزا باہر جانے لگی مگر وہ میاں بشیر کی تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کر رہی تھی ،میں مانتی ہوں کے آپ نے میرے ساتھ زبردستی نکاح کیا مگر اب ہم شریعت اور قانون کے لحاظ سے میاں بیوی ہیں آپ کی ہر پریشانی اب میری پریشانی ہے آپکا ہر دکھ میرا دکھ ہے اگر آپ اپنا دل ہلکا کرنے کے لئے مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں ،شیزا میاں بشیر سے مخاطب تھی اس کے لہجہ میں محبت تو نہیں مگر ہاں ہمدردی ضرور موجود تھی ،جب سے تم میرے گھر میں آئ ہو میرے گھر سے خوشیاں رخصت ہو گئی ہیں تمہاری وجہ سے آج ہم یہ عذاب جھیل رہے ہیں تم منحوس ہو سنا تم نے تم منحوس ہو ،بشیر صاحب شیزا پر چیخ رہے تھے ،یہ تو انسان کی فطرت ہے کے گناہ وہ خود کرتا ہے اور اس کا ذمہ دار کسی اور کو ٹہراتا ہے جس طرح میاں بشیر اب کر رہے تھے ،شیزا کی آنکھوں میں آنسو آگۓ اور وہ مجبور و لاچار لڑکی اٹھ کر باہر چلے گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(شام کا وقت )
صائقہ میں آجاؤں ،شیزہ نے صائقہ کے کمرے میں جانے کے لئے اجازت طلب کی ،ہاں آجاؤ ،صائقہ بولی ،اچھا صائقہ میں سوچ رہی تھی کہ آپ کو یاد ہو گا کے ہم نے آئینے کے ارد گرد کچھ لکھا پایا تھا اور کل اشرف نے ہمیں بتایا کے یہ آئینہ بھارت سے آیا ہے ،ہاں پھر ،صائقہ بہت غور سے شیزا کی بات سن رہی تھی ،تو یہ کے ہوسکتا ہے کہ وہ ہندی زبان ہو ،شیزا نے اپنی راۓ دی ،ہاں یار یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ،صائقہ حیرانگی سے بولی ،چلو آئینے کے پاس چلتے ہیں اور اس پر لکھے گئے الفاظ کو انٹرنیٹ پر دیکھتے ہیں شاید کوئی مدد مل جاۓ ،صائقہ نے تجویز دی اور دونوں آئینے کے پاس چلیں گئی ،آئینے پر لکھے ہوئے الفاظ کو جب صائقہ نے انٹرنیٹ پر سرچ کر کے دیکھا تو کچھ پتہ نا چلا ،ارے یار یہاں تو کچھ نہیں پتہ چل رہا صائقہ افسردگی سے بولی ،مجھے ایک اور آئینہ ملے گا ،شیزہ نے سوال کیا ،ہاں مگر ،اگر مگر چھوڑیں آپ جلدی سے ایک اور آئینہ منگوا دیں ،شیزہ بولی ،اچھا اور صائقہ نے شیزا کو ایک اور آئینہ منگوا دیا ،شیزہ نے دوسرا آئینہ پہلے آئینے کے سامنے رکھا تو پہلے آئینے پر لکھے ہوئے الفاظ خود بخود پلٹ گئے ،شیزہ اور صائقہ نے ایک دوسرے کی طرف حیرانگی سے دیکھا ،صائقہ اب ان الفاظ کو انٹرنیٹ پر سرچ کریں شیزا بولی ،ہاں واقعی شیزہ یہ ہندی کے الفاظ ہیں ،صائقہ خوشی سے بولی ،اور اس کا مطلب ہے
"ایسی قدرتی روشنی جو سب اندھیروں کو چیر کر رکھ دے
جس کا عقس جب پڑے گا بارہ پر تو کھل جاۓ گا ہر راز "
اس کا کیا مطلب ہوا صائقہ ؟؟ شیزا نے صائقہ سے پوچھا ،صائقہ نے کندھے اچکاتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا ،خیر رات تک وہ دونوں اس کے بارے میں سوچتی رہی مگر کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا،چلو شیزا اب اس بارے میں کل سوچیں گے اب رات بہت ہو گئی ہے ،صائقہ بولی ،اور دونوں اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(رات کے دو بجے)
ہاہاہا ،باسط اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ اس کو کسی کے ہنسنے کی آواز آئ ،باسط بھوکلا کر اٹھ گیا ،مگر اس کے اس پاس کوئی نہیں تھا ،اچانک اس کو اپنے چہرے پر کوئی گیلی چیز محسوس ہوئی اس نے جب ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ خون تھا ،جب باسط نے ڈرتے ڈرتے اوپر کی جانب دیکھا تو ایک بوڑھی عورت جس کے لمبے لمبے نوکیلے دانت تھے جن میں سے خون رس رہا تھا وہ عورت ہوا میں لہرا رہی تھی ،باسط تھر تھر کانپنے لگا ،وہ عورت باسط کے اوپر گری اور اس نے باسط کو دبوچ لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اگلے روز)
صائقہ اور شیزا مسلسل اس پہیلی کو سلجھانے میں لگی تھیں ،پیچھے دن بھی صرف تین رہ گۓ تھے ،شام ہو گئی مگر ابھی تک ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ،صائقہ مجھے پتہ چل گیا ،شیزہ خوشی سے چلائی ،جلتی بتاؤ پھر ،صائقہ بھی بےتاب تھی ،دیکھو اندھیروں کو چیرنے والی روشنی سے مراد ہے چاند کی روشنی اور 12 سے مراد ہے 12 آئینے ،یعنی چاند کی روشنی جب بارہ آئینوں پر پڑے گی تو سب کچھ واضح ہو جاۓ گا،اس بار صائقہ بولی ،ہاں بالکل ٹھیک ،شیزہ نے جواب دیا مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد سب گھر والے ٹی وی لاؤنج میں جمع ہو گئے سواۓ باسط کے ،تمام کھڑکیاں کھول دی گئیں جس سے چاند کی روشنی آئینے پر پڑ رہی تھی اب اس آئینے کے ساتھ گیارہ اور آئینے رکھ دیے گئے جب چاند کی روشنی ایک آئینے سے ٹکرا کر دوسرے آئینے پر پڑی اور دوسرے سے تیسرے پر اور پھر اس طرح کرتے کرتے جب بارہویں آئینے پر پڑی تو پہلے آئینے میں سے تیز روشنی نکلی اور ایک چابی فرش پر گر گئ ،شیزا نے جلدی جلدی وہ چابی اٹھائی اور پہلے والے آئینے میں جہاں چابی لگانے کی جگہ بنی ہوئی تھی وہاں وہ چابی لگا دی ،اچانک سے پورے گھر میں زلزلہ آگیا اور جب وہ زلزلہ ختم ہوا تو آئینہ اپنے آپ کھلنے لگا اب آئینہ مکمل طور پر کھل چکا تھا ،آئینے کے اس پار اندھیرا ہی اندھیرا تھا جو بہت خوفناک منظر پیش کر رہا تھا ،سب نے اس آئینے کے اندر جانے کی کوشش کی مگر کوئی نا جا پایا ،مگر جب شیزہ نے اندر جانے کی کوشش کی تو وہ باآسانی اندر چلے گئ ،شیزہ آئینے سے باہر آئ اور اس نے صائقہ کو اپنے گلے لگا لیا ،شیزا نے ہاتھ میں لال ٹین پکڑی اور سب گھر والوں کی رضا مندی سے وہ آئینے کے اندر داخل ہوگئ ،آئینے کے اندر داخل ہونے سے پہلے شیزا ایک بار پیچھے مڑی اس نے صائقہ کو الوداعی نظروں سے دیکھا ،شیزہ کی آنکھیں نم تھیں ،اس لال ٹین کی روشنی میں وہ حسن کی ملکہ لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
شیزا اپنے نازک سے ہاتھوں میں بھاری بھرکم لال ٹین تھامے آگے بڑھ رہی تھی ،اس تاریکی میں وہ معصوم سی لڑکی سر پہ دوپٹہ اوڑھے منہ میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی ،ایسا نہیں تھا کہ اس کو ڈر نہیں لگ رہا تھا ،اس کو ڈر تو لگ رہا تھا پر اسے اللّه پر پورا بھروسہ تھا ،لال ٹین کی مدھم روشنی میں سامنے اس کو ایک پرانا سا ٹوٹا ہوا دروازہ نظر آیا ،اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ وہ دروازہ کھولا تو اس کے گلے سے ایک دبی ہوئی چیخ نکلی جس نے ماحول کی خاموشی کو چیر دیا ،اس نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی پل میں اپنا منہ دوسری جانب کرلیا ،اس نے دیکھا کے کمرے میں انسانی جسم کے بہت سے ڈھانچے لٹک رہے تھے ،کمرے میں سے بہت بری بو آرہی تھی اس نے جلدی سے کمرے کا دروازہ بند کردیا اور آگے کی جانب بڑھنے لگی ،اچانک اس کی ٹھوکر کسی چیز سے لگی اور وہ نیچے گر گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمیرا بھابھی اپنے کمرے میں بیٹھی تھیں کے اتنے میں کسی نے دروازے پر زور سے دستک دی ،جی کون ہے ؟ اندر آجاؤ ،سمیرا چلائی ،سمیرہ نے دیکھا کے سامنے باسط کھڑا ہے ،کہاں تھے باسط آج صبح سے ؟؟سمیرا نے بے دھیانی میں سوال کیا ،آپ کو مارنے کی ترکیب سوچ رہا تھا ،باسط نے جواب دیا ،یہ کیا بکواس کر رہے ہو ،سمیرہ غصّے سے چلائی ،سمیرا نے جب باسط کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ بوکھلا گئ ،باسط کا چہرہ مکمل سپاٹ تھا ،اس کی آنکھوں سے خون کی لڑیاں نکل رہی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا میں سب جان گئ ہوں ،تو یہ سب سازش آپ کی تھی ؟؟آپ نے اتنے سال ہمیں اندھیرے میں رکھا ،آپ کو شرم نہیں آئ ،صائقہ بہت غصّے سے اپنے باپ سے بات کر رہی تھی ،یہ کون سا طریقہ ہے بات کرنے کا صائقہ ؟؟ میاں بشیر بھی غصّے سے بولے ،یہ وہی طریقہ ہے جو ہمیں آپ سے پہلے ہی اختیار کر لینا چاہیے تھا ،صائقہ نے غصّے سے جواب دیا ،ابھی باپ بیٹی میں کھٹ پٹ چل ہی رہی تھی کے اتنی دیر میں ان دونوں کو دل خراش چیخوں کی آواز آئ ،وہ دونوں باہر کی طرف بھاگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب شیزا نے لال ٹین کی روشنی میں غور سے دیکھا تو اس کو زمین پر ایک آئینہ پڑا ہوا نظر آیا ،وہ زمین پر دو زانوں بیٹھ گئ اور آئینے کو اپنے سامنے رکھ دیا ،اچانک آئینے سے تیز روشنی نکلی اور شیزہ کے ارد گرد بارہ آئینے گھومنے لگے پھر وہ سب آئینے آپس میں مل گئے اور شیزہ کے سامنے ایک بہت بڑا آئینہ آگیا ،اس آئینے میں سے ہلکی ہلکی سنہرے رنگ کی روشنی نکل رہی تھی ،شیزہ وہاں سے اٹھ کر بھاگنا چاہ رہی تھی مگر وہ اٹھ نہیں پا رہی تھی اسے ایسا محسوس رہا تھا کے کسی چیز نے اسے مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے ،اب کی بار جب شیزہ نے آئینے کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ،شیزا کو آئینے میں ایک خوبرو مرد ،ایک بوڑھا مرد اور ایک بوڑھی عورت دکھائی دے رہے تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ سب کچھ شیزا اس آئینے میں دیکھ رہی ہے)
ہاں صفدر میاں تمہیں یہ رشتہ قبول ہے ؟؟منظور صاحب نے صفدر سے سوال کیا جس کے جواب میں صفدر نے شرماتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا ،آمنہ جو کہ دروازے سے کان لگاۓ سب کچھ سن رہی تھی ،صفدر کے ہاں کرتے ہی آمنہ کے چہرے پر ایک دلفریب مسکان نے ڈیرے جما لئے ،خوبصورت تو وہ بہت تھی دودھ جیسی رنگت کے ساتھ گھنگھریالے بال اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہے تھے ،،صفدر موقع پاتے ہی اس کمرے کے دروازے کے پاس آگیا جہاں آمنہ کھڑی تھی ،کہو تو تمہیں آج ہی رخصت کر کے نا لے جاؤں آمنہ ،صفدر دروازے کے باہر کھڑا آمنہ سے سوال کرنے لگا ،چل ہٹ اب میں اتنی بھی بےشرم نہیں ،آمنہ کھلکھلاتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئ اور صفدر پیچھے کھڑا آمنہ کو جاتا دیکھ کر مسکرانے لگا ،پیچھے کامنی یہ سب دیکھ کر آگ بگولا ہو رہی تھی کیوں کہ صفدر سے وہ شادی کرنا چاہتی تھی ،ادھر صفدر اور آمنہ کی شادی ہوگئی اور اب ان کے ایک بیٹی فاطمہ بھی ہوگئی ،یہاں کامنی اپنی محبت کو بھلا نا پائی،تھی تو وہ ایک ہندو جب کہ صفدر مسلمان، لیکن کہتے ہیں محبت میں تو انسان اپنا آپ بھول جاتا ہے تو مختلف مذاہب اس کے لئے کوئی اہمیت نا رکھتے تھے ،محبت کے ساتھ ساتھ کامنی صفدر سے کچھ اور بھی حاصل کرنا چاہتی تھی ،کامنی نے آگ چلائی اور منہ میں تیز تیز کچھ پڑھنے لگی ،آمنہ جو آئینے کے آگے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی اچانک اس کی قمیض کو آگ لگ گئ،باہر تیز آندھی چلنے لگی اتنی تیز کے درخت اکھڑنے لگے
جاری ہے