جیسے ہی فائقہ نے اس آئینے کو دیکھا اس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی ،کتنا خوبصورت کتنا دلفریب ہے یہ آئینہ ،من ہی من میں فائقہ نے سوچا ،فائقہ اس وقت ایک antique shop میں کھڑی تھی ،شروع سے ہی اسے antiques بہت پسند تھے ،بھیا یہ آئینہ کتنے کا ہے ؟؟ فائقہ نے سوالیہ نظروں سے دکان دار کی طرف دیکھا ،جی ویسے تو 70،000 کا ہے لیکن آپ کے لئے 63,000 ،فائقہ نے ناک چڑھاتے ہوئے اپنے بیگ سے 80,000 نکالے اور دکاندار کے سامنے رکھ دیے ،یہ لو اپنے پیسے اور یہ آئینہ میرے گھر آج ہی پہنچ جانا چاہیے ،یہ کہتے ہی فائقہ دکان سے نکلی اور گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئ ،دکاندار حیران و پریشان کھڑا رہا ،رنگ ڈھنگ سے فائقہ خاصے امیر گھر کی لگ رہی تھی ،اس کی گاڑی اس کی شان و شوکت میں مزید اضافہ کر رہی تھی ،مغربی لباس زیب تن کیے ہوئے اس لڑکی میں غرور کوٹ کوٹ کر بھرا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشیر ہاؤس میں آج کافی گہما گہمی تھی ،کافی بڑا فنکشن تھا ،رات کو فنکشن سے فارغ ہونے کے بعد پوری فیملی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی تھی ،بشیر صاحب گھر کے سربراہ تھے ان کی تین کنواری بیٹیاں فائقہ ،صائقہ اور مینا تھیں چار بیٹے تھے اکبر اور اسلم شادی شدہ تھے جبکہ آصف اور باسط کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی ،بشیر صاحب کی گھر والی کو مرے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا تھا ،بابا دیکھیں آج میں کیا لائی ہوں ،فائقہ گردن اکڑاتے ہوئے بولی ،کیا لائی ہے میری بچی ،بشیر صاحب نے بڑے پیار سے پوچھا ،ایک بہت ہی خوبصورت آئینہ ،فائقہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ،دکھاؤ تو سہی ،مینا بولی ،رفیق وه آئینہ لے کر آؤ جو میں آج لے کر آئ ہوں ،کچھ دیر بعد بشیر صاحب کی نظروں کے سامنے وہ آئینہ حاضر کیا گیا ،کچھ دیر کے لئے تو سب چپ ہو گۓ ،واہ واہ کیا خوبصورت آئینہ ہے ،اسلم عش عش کر اٹھا ،پھر کیا تھا سب گھر والے تعریفوں کے پل باندھنے لگے اور فائقہ تو تعریفیں سن سن کر ہواؤں میں اڑنے لگی ،آئینے کو ٹی وی لاؤنج میں آویزاں کر دیا گیا ،کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد سب اپنے کمروں میں چلے گۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تین بج رہے تھے ،اچانک اس آئینے میں سے ایک عجیب سی روشنی نکلی جو پورے ٹی وی لاؤنج میں پھیل گئ ،دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی لاؤنج میں بارہ آئینے اپنے آپ ہی آویزاں ہو گۓ ،ٹی وی لاؤنج چیخوں کی آواز سے گونج اٹھا ،اچانک ایک آئینے میں سے ایک بہت ہی ادھیڑ عمر کی عورت رینگتے ہوئے باہر آئ جس کا چہرہ بری طرح مسخ ہوا تھا ،اس کے لمبے لمبے نوکیلے دانت تھے جن میں سے خون رس رہا تھا ،ایک کالی بلی اس ادھیڑ عمر کی عورت کے سامنے سے گزری ،اس عورت نے بلی پر ایک جھپٹا مارا اور اپنے لمبے لمبے نوکیلے دانت بلی کے جسم میں گھونپ دیے ،بلی تڑپنے لگی ،وه چڑیل تڑپتی بلی کو آئینے کے اندر لے گئ ،ٹی وی لاؤنج میں ایک روشنی پیدا ہوئے اور ایک آئینے کے سوا تمام آئینےغایب ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیزا ظہر کی نماز ادا کر کے اٹھی تو اس کو کسی انجان شخص کی آواز آئ ،وہ شخص شیزا کا نام لے رہا تھا جس کی وجہ سے شیزا کی توجہ اس کی طرف مبزول ہو گئ ،شیزہ نے جب کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو میاں بشیر باہر بیٹھے تھے ،دیکھئے عتیق صاحب مجھے آپ کی بیٹی شیزا پسند ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں بدلے میں میں آپ کو پچاس لاکھ دوں گا ،عتیق کے منہ سے رال ٹپکنے لگی ،عتیق نے شیزا کی اماں یعنی اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو نفی میں سر ہلا رہی تھی ،جی جی مجھے منظور ہے ،عتیق نےاپنی بیٹی کا سودا کر دیا ،آج ہی نکاح پڑھوا لیتے ہیں ،میاں بشیر 68 سال کا بوڑھا خوشی سے بولا ،یہ سن کر شیزہ صدمے کے مارے نیچے بیٹھ گئ ،اس کا دل ٹوٹ گیا خواب چکنا چور ہو گئے ،اس میں اس کا قصور نہیں تھا کہ وائے ایک غریب گھر میں پیدا ہوئی تھی ،شیزا ایک خوبرو لڑکی تھی جو میاں بشیر کے ہاں کام کرتی تھی ،مانا کے وہ غریب تھی مگر انسان تو وہ بھی تھی ،وہ کس قدر روئی کتنا گڑگڑائی اپنے باپ کے آگے ہاتھ جوڑے اس کو واسطے دیے مگر باپ تو پیسے کا بھوکا تھا ،اس نے بے بس شیزہ کی ایک نا سنی اور زبردستی اس کا نکاح میاں بشیر سے کر دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیزا کو میاں بشیر کے ساتھ رخصت کر دیا گیا ،بابا یہ شیزا کو آپاپنے ساتھ کیوں لاۓ ہیں ،صائقہ نے حیرت سے پوچھا ،بیٹا میں نے اس سے شادی کر لی ہے اور اب یہ تمہاری ماں ہے ،یہ کیسی باتیں کر رہیں ہیں بابا اس کی عمر آپ نے دیکھی ہے ،اس بیچاری پر آپ نے اتنا بڑا ظلم کیسے ڈھایا ؟؟ صائقہ کے چہرے پر حیرت اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات واضح تھے ،بابا آپ ہماری ماں کو بھول گئے ،مینا کی آنکھوں میں آنسو تھے ،نہیں بچو ایسی کوئی بات نہیں میں نے اس پر کوئی ظلم نہیں ڈھایا ہے اس کے باپ کی رضا مندی پر میں نے اس سے شادی کی ہے ،چلو میرے ساتھ ،میاں بشیر نے شیزا کا ہاتھ پکڑا اور اس کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا ،مینا اور صائقہ اپنے باپ کا چہرہ دیکھتی رہ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائقہ بابا نے شیزا سے شادی کرلی مینا روتے ہوئے بولی ،کیا؟ ؟؟بابا نے اس دو ٹکے کی لڑکی سے شادی ……. ،نہیں نہیں تم جھوٹ بول رہی ہو نا ؟؟ فائقہ نے مینا سے پوچھا ،نہیں میں سچ بول رہی ہوں ،مینا نے جواب دیا ،میں اس شیزہ سے ابھی پوچھتی ہوں اسکو میں چھوڑوں گی نہیں،ہمارے بھولے بھالے بابا کو پھانس لیا ،فائقہ چیختی ہوئی باہر کی جانب بھاگی تو صائقہ نے اسے پکڑ لیا ،اس میں شیزا کا کوئی قصور نہیں اس بیچاری کو تو بابا 50 لاکھ کے عوض خرید کے لاۓ ہیں ،صائقہ نے فائقہ کو سمجھانے کی کوشش کی ،مگر تمہیں کیسے پتہ ؟؟ فائقہ نے سوال کیا ،میں نے بابا کو کسی سے بات کرتے ہوئے سنا تھا ،صائقہ نے جواب دیا ،خیر جو بھی ہو صبح ہوتے ہی میں اس شیزا کو دھکے دے کر اس گھر سے نکال دوں گی ،فائقہ چلاتے ہوئے بولی لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینا تم نے فائقہ کو دیکھا ہے ؟؟صائقہ نے مینا سے پوچھا ،نہیں دیکھا میں نے تو ،مینا نے جواب دیا ،مینا اور صائقہ سمیت سب ملازموں نے پورا گھر چھان مارا لیکن فائقہ نا ملی ،حیرت کی بات تو یہ تھی کے فائقہ کی گاڑی بھی گھر میں ہی موجود تھی ،پورا گھر فائقہ کی گمشدگی کی وجہ سے فکر مند تھا ،شیزا اپنے کمرے میں بیٹھی تھر تھر کانپ رہی تھی ،جیسے ہی اس کے ذہن میں رات والا منظر آتا وہ کانپ کر رہ جاتی ،مجھے بشیر کو بتا دینا چاہیے ،پر اگر کسی نے میرا یقین نا کیا اور مجھے قصور وار سمجھا نہیں مجھے یہ بات کسی کو نہیں بتانی چاہیے ،شیزا نے اپنے دل میں سوچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ایک رات پہلے)
شیزا کو گھبراہٹ ہوئی تو وہ اپنے کمرے سے باہر آگئی ،اس نے دیکھا کے فائقہ اپنے ہاتھ میں گلاس پکڑے اپنے کمرے کی جانب جا رہی تھی ،جیسے ہی فائقہ ٹی وی لاؤنج میں آویزان آئینے کے سامنے سے گزرنے لگی تو آئینے میں سے ایک روشنی نکلی اور آواز آئ، فائقہ کہاں جا رہی ہو ؟؟؟ فائقہ ٹھٹک کر رہ گئی ،آئینے کے سامنے خود بخود ایک اور آئینہ آگیا ،جس میں سے ایک ہیبت ناک بوڑهیا نکلی اور کانپتی فائقہ کو دبوچ لیا اور اپنے ساتھ آئینے کے اندر لے گئی ،اور آئینہ بند ہو گیا اور سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا ،شیزا یہ پورا ہولناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر گھر میں فائقہ کی گمشدگی کئی وجہ سے کافی پریشانی چل رہی تھی ،فائقہ کی گمشدگی کو ایک دن بیت چکا تھا تو دوسری طرف شیزا نے سوچا کہ اسے کسی کو فائقہ کے بارے میں بتا دینا چاہیے ،گھر میں فائقہ کے علاوہ سب کا رویہ شیزا سے اچھا تھا لیکن صائقہ شیزا کے زیادہ قریب تھی لہذا شیزہ نے صائقہ کو اعتماد میں لینے کا سوچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صائقہ اپنے کمرے میں بیٹھی فائقہ کے متعلق سوچ رہی تھی کہ اسی اثنا میں کسی نے کمرے کا دروازہ بجایا ،جی اندر آجائیں ،صائقہ چلائی ،صائقہ جی میں اندر آجاؤں ،شیزا نے سوال کیا ،آجاؤ اور مجھے صائقہ جی نہیں صائقہ کہا کرو آخر تم بھی میری بہنوں کی طرح ہو ،صائقہ کا لہجہ محبت اور شفقت سے لبریز تھا ،صائقہ اگر میں آپ کو فائقہ کے متعلق کچھ بتاؤں تو کیا آپ میرا یقین کریں گی؟؟ شیزا نے سوال کیا جس کے جواب میں صائقہ نے اثبات میں سر ہلایا ،پھر شیزا نے سارا ماجرہ صائقہ کو سنا ڈالا ،صائقہ کے چہرے پہ پریشانی واضح تھی ،صائقہ ایسا کرتے ہیں کے رات کے 12 بجے کے قریب میں اس آئینے کے قریب جاؤں گی اور اگر کچھ ہوا تو ثبوت کے طور پر آپ ویڈیو بنا لینا ،شیزا نے تجویز پیش کی ،مگر شیزہ اگر …… ،اگر مگر کچھ نہیں جو ہوگا دیکھا جاۓ گا ،یہ کہہ کر شیزا کمرے سے چلی گئی اور صائقہ سوچوں میں ڈوب گئی ،رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے شیزا آئینے کے سامنے کھڑی تھی جب کہ صائقہ ہاتھ میں موبائل پکڑے ویڈیو بنانے کے لئے تیار تھی………..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے 11 بج رہے تھے صائقہ اور شیزا antique shop کے سامنے کھڑی تھیں جہاں سے فائقہ نے آئینہ خریدا تھا ،مگر بد قسمتی سے shop بند تھی ،اوہ یار اب کیا کریں ،صائقہ نے غصّے سے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا ،شیزا کچھ سوچ کر بولی ،صائقہ میں ایک بابا جی کو جانتی ہوں جو آسیبی مخلوق کے بارے میں کافی علم رکھتے ہیں ہمیں ان کے پاس جانا چاہیے و بلا معاوضہ ہی کام کرتے ہیں ،صائقہ نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں گاڑی میں سوار ہو کر بابا جی کے آستانے کی طرف چل دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی بابا جی کے آستانے کے آگے رکی ،شیزا اور صائقہ آستانے کے اندر تشریف لے گئی ،سامنے ایک بہت نورانی چہرے والے بزرگ بیٹھے تھے اور تسبیح کرنے میں مشغول تھے انہوں نے دونوں لڑکیوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ،ہاں بیٹا بولو کس کام سے آنا ہوا ،بابا جی نے سوال کیا ،بابا جی وہ۔۔۔۔،رکو پہلے اپنے بارے میں سب سچ سچ بتاؤ پھر ہی میں تمہارے مسلے کا ہل نکال سکوں گا ،شیزا اور صائقہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ،پھر شیزا بولی ،جی بابا میں غریب ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہوں جسے میاں بشیر کو 50 لاکھ کے عوض بیچ دیا گیا ،میاں بشیر نے زبردستی مجھ سے نکاح کر لیا ،یہ صائقہ میری سوتیلی بیٹی ہے اس کی دو بہنیں فائقہ اور مینا ہیں چار بھائی اسلم جن کی بیوی سلمی ہے ،اکبر جن کی بیوی سمیرا ہے ،باسط اور آصف جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ،اکبر کے دو بیٹے بھی ہیں سب کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا ہے مگر فائقہ ،فائقہ ایک آئینہ لائی تھی ،پرسوں رات میں نے دیکھا کے فائقہ کو ایک ہیبتناک عورت آئینے کے اندر لے گئی جس کہ بعد و لا پتہ ہے ،کل رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے میں اس آئینے کے قریب گئی جونہی میں نے اس آئینے پے ہاتھ رکھا ایک تیز روشنی اس آئینے کے اندر سے نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے میرے ارد گرد بارہ آئینے آگۓ ،ایک آئینے پر جو میں نے نظر ڈالی تو دیکھا کے اس میں آگ جل رہی تھی ،دوسرے آئینے میں دیکھا کے ایک صندوق پڑی ہے جس میں بہت سا سونا موجود ہے ،تیسرے آئینے میں دیکھا کے ایک خون آلود تلوار زمین پر پڑی ہے ،چوتھے آئینے میں دیکھا کے ایک عورت بیٹھی تیز تیز کچھ پڑھ رہی ہے ،پانچویں میں دیکھا کے بہت تیز طوفان ہے اور درخت اکھڑ رہے ہیں ،چھٹے میں دیکھا کے ایک بہت خوبصورت لڑکی جس نے سر پر دوپٹہ اوڑھا ہوا ہے دیوار کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی ہے ،ساتویں میں دیکھا کے ایک دھاگہ بندھا ہوا ہے ،آٹھویں میں دیکھا کہ ایک چھوٹی لڑکی بہت اونچی اونچی رو رہی ہے ،نویں میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا مگر چیخوں کی آوازیں آرہی تھی ،دسویں میں دیکھا کے کوئی انسان زمین پر لیٹا ہے جس کے پیٹ سے خون کا فوارہ پھوٹ رہا ہے ،گیارہویں میں دیکھا کہ ایک گھڑی ہے جس کی سوئی بہت تیز گھوم رہی ہے اور بارہویں آئینے میں لکھا تھا بارہ ،پھر ایک ایک کر کے آئینے غایب ہونے لگے اور پھر آخری آئینہ کے ساتھ ہی روشنی ختم ہوگئی اور میں ٹی وی لاؤنج میں کھڑی تھی ،صائقہ کو میں نے ویڈیو بنانے کا کہا مگر ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کے آئینے سے روشنی نکلی اور میں غایب ہو گئی جب دوبارہ روشنی نکلی تو میں نمو دار ہو گئی ،بابا جی شیزہ کی باتیں غور سے سنتے رہے اور پھر بولے ،دیکھو لڑکی تمہارے پاس بارہ دن ہیں ،فائقہ ابھی محفوظ ہے تم میں سے کسی کو اس آئینے کے اندر جانا ہوگا ،گھر میں نماز روزوں کا اہتمام کرو اور اب مجھ سے کچھ بھی پوچھے بغیر یہاں سے جاؤ بس ایک بات یاد رکھنا وہ آئینہ آسیبی ہے ،ایک دھاگے کا مطلب ہے کے تمہارا ایک دن ختم ہو گیا پیچھے گیارہ دن رہ گئے ،تمہارے گھر والے بہت خطرے میں ہیں ،یہ سن کر دونوں باہر آگئی اور گاڑی میں سوار ہو کر گھر کی جانب چل دیں ،گھر پہنچی تو ایک خوفناک منظر انکا منتظر تھا گھر کی ملازمہ رشیدہ کا پیٹ چاک تھا جن میں سے آنتیں باہر نکلی ہوئی تھی اور خون سے پورا صحن بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشیدہ کی موت سے سب گھر والوں کے اندر خوف بیٹھ گیا ،لیکن صائقہ اور شیزا کو سخت جھٹکا لگا کیوں کہ پورے گھر میں صرف حقیقت وہی دونوں جانتی تھیں ،شام کو پولیس بھی گھر تشریف لائی جن کو رشوت دے کر سارا معاملہ رفع دفع کردیا گیا ،دوسری طرف صائقہ اور شیزا نے سب گھر والوں کو حقیقت بتانے کا سوچا ،اگلی صبح جب سب گھر والے ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے تو صائقہ نے بات شروع کی اور الف سے ی تک ساری حقیقت کہہ سنائی ثبوت کے طور پر وہ ویڈیو بھی دکھائی جس میں شیزا آئینے کے سامنے کھڑی غایب ہو گئی ،مرتے کیا نا کرتے سب گھر والوں کو یہ خوفناک حقیقت تسلیم کرنا پڑی ،پہلے ہی دو دن گزر چکے ہیں اور ہمارے پاس صرف دس دن رہ گئے ہیں انہی دس دنوں کے اندر ہمیں کچھ نا کچھ کرنا پڑے گا ،شیزا بولی ،تو کیا ہم اس آئینے کو باہر نہیں پھینک سکتے ،سلمیٰ بھابھی نے پوچھا ،نہیں بھابھی پہلی بات تو اس میں فائقہ قید ہے دوسری بات یہ آئینہ اپنی جگہ پر منجمند ہو چکا ہے ،صائقہ نے جواب دیا ،ساتھ ہی ساتھ صائقہ گھور گھور کر میاں بشیر کی جانب دیکھ رہی تھی اور میاں بشیر اپنی نظریں کبھی دائیں جانب گھما لیتے کبھی بائیں جانب ایسے لگ رہا تھا کے کچھ تو صائقہ میاں بشیر کے بارے میں جان چکی تھی جس سے میاں بشیر انجان بن رہے تھے ،چلو بھئی لڑکو دفتر نہیں جانا کیا ؟؟میاں بشیر چلاۓ ،جی بابا چلیں ،اسلم نے جواب دیا ،میاں بشیر اپنی پیشانی پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے باہر کی جانب چل دیے جب کہ صائقہ کی نظریں باہر جانے تک ان کا تعاقب کرتی رہیں ،خیر سب مرد دفتر کے لئے روانہ ہو گۓ ،سمیرا اور سلمیٰ بھابھی کھانے کا انتظام کرنے کے لئے باورچی خانے میں چلی گئیں جبکہ شیزا ،مینا اور صائقہ آئینے پہ تحقیق کرنے کے لئے چلی گئیں ،شیزا اور صائقہ آئینے کا معائنہ کر رہی تھی ،شیزا یہ دیکھو یہ آئینے کے ارد گرد کچھ لکھا ہے، نہیں صائقہ یہ تو صرف ڈیزائن ہے ،مینا بولی ،نہیں مینا صائقہ سہی بول رہی ہے یہ کچھ لکھا ہے مگر کسی اور زبان میں ،شیزا بولی ،صائقہ کیوں نا ہم دوبارہ اسی antique shop پر چلیں شاید وہاں سے ہمیں کچھ معلوم ہو جاۓ ،ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کے باورچی خانے میں سے چیخوں کی آوازیں آنے لگی ،یہ کیا ہوا ؟؟ صائقہ اور شیزا باورچی خانے کی جانب بھاگیں ،باورچی خانے میں سلمیٰ بھابھی نے ایک بڑا چاقو اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا جو وہ سمیرا کے پیٹ میں مار رہی تھیں ،سلمیٰ سمیرا پر ایک کے بعد دوسرا وار کر رہی تھیں ،سمیرا کے خون سے پورا باورچی خانہ لال ہو چکا تھا ،مینا جو کہ ٹی وی لاؤنج میں کھڑی اپنے گھر کے بدتر حالات پر رو رہی تھی اس کو اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آئینے میں سے ایک لمبا جھلسا ہوا بازو نکلا تھا جو مینا کو آئینے کی جانب کھینچنے لگا ،آآہ بچاؤ مجھے مینا چیخنے لگی ،ادھر سلمیٰ بھابھی کسی کہ قابو میں نہیں آرہی تھی ،اتفاق سے اسلم اور باسط کسی کام سے گھر آۓ چیخوں کی آواز سن کر وہ دونوں باورچی خانے کی جانب بھاگے ،سلمیٰ کسی جانور کی طرح اونچی اونچی دھاڑ رہی تھی پورا کچن خون آلود ہو چکا تھا ،باسط اور اسلم نے جلدی جلدی سلمیٰ کو پکڑا اور شیزہ اور صائقہ ٹی وی لاؤنج کی جانب بھاگی مینا کو مسلسل کوئی آئینے کے اندر کھینچ رہا تھا شیزہ اور صائقہ نے پورا زور لگایا اور مینا کو باہر نکالنے کی کوشش کی مینا کا دھڑ آئینے کے اندر جب کے ٹانگیں باہر رہ گئی تھیں ،اچانک شیزہ اور صائقہ کو زوردار جھٹکا لگا اور وہ پیچھے جا کر گریں لاکھ کوششوں کے باوجود وہ مینا کو نا بچا سکیں اور مینا آئینے کے اندر چلے گئی ،سلمیٰ بھابھی بیہوش ہو گئی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دو دن بعد)
ایک معجزہ ہوا اور خوش قسمتی سے سمیرا بچ گئی ،مگر فائقہ اور مینا غایب ہو چکی تھی گھر کے بدتر حالات کی وجہ سے سب کو چپ لگ گئی تھی، مزید دو دن گزر گۓ تھے ،پیچھے آٹھ دن بچ گۓ تھے ،اگلی صبح شیزا اور صائقہ antique shop گئیں خوش قسمتی سے آج shop کھلی تھی ،السلام علیکم بھیا ایک لڑکی آپ سے آئینہ خرید کر گئی تھی اس کا نام فائقہ تھا،شیزہ نے سوال کیا ، جی پھر ؟ دکان دار نے اپنی اپنی پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے کہا
جاری ہے ۔۔۔