کولمبس تیس اکتوبر چودہ سو اکاون اٹلی میں پیدا ہوا
یہ سپین کے شاہی خاندان کا تنخوا دار ملازم تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ کافی لالچی بھی تھا۔ اس دور میں ہندوستان کی عمارت کے کافی چرچے تھے تو اس نے سپین کے بادشاہ کو طرح طرح کی کہانیاں سنا کر ہندستان کے سفر کے اخراجات اٹھانے کے لئے راضی کر لیا اس نے سپین کی بندر گاہ سے سفر کا آغاز کیا اور بہت دنوں تک مشکل سفر کرنے کے بعد ایک جزیرے پر پہنچا انہوں نے اسے ہندستان سمجھا اور اسی جزیرے پر رک گۓ کولمبس کہتا ہے کہ یہ لوگ بہت سادہ اور محنتی لوگ تھے جب وہ کشتی پر سوار اس جزیرے پر پہنچے جس کو یہ ہندوستان سمجھتا تھا یہاں کے لوگوں کو ریڈ انڈینز کہہ کر بلاتا۔ ان لوگوں نے کولمبس کے قافلے کی بہت خدمت کی اور تیروں اور دوسری اشیا کے بدلے ان سے ڈیکوریشن پیسز لے لئے کولمبس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ شاید لوہے کے استمعال سے ناواقف تھے کیوں کہ بہت ساروں نے
اس کی تلوار سے اپنے ہاتھ زخمی کر لئے تھے اس نے سپین کی۔ ملکہ کو خط لکھا جس میں یہاں کی۔ تفصیل بھی لکھی اور بتایا کہ یہ لوگ بہت زیادہ پر امن ہیں ہم پچاس لوگ اس پورے جزیرے پر قبضہ کر سکتے ہیں اور ان کو غلام بنا کر ان سے خدمت بھی کروائی جا سکتی ہے یہ چند ماہ یہاں رہا جب واپس پہنچا تو بندر گاہ پر اس کا استقبال ایک رائل ایڈمرل کے طور پر کیا گیا۔
اس نے تحفہ کے طور پر آٹھ دس ریڈ انڈین غلام سونا تمباکو اور طرح طرح کے پرندے بھی لے کر گیا اسے شاہی خاندان میں اب بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا
اس نے ملکہ کو ایک تحریری رپورٹ دی جس میں لکھا تھا کہ یہ لوگ اپنے دفاع کے قابل نہیں ہیں ان کے ہاں ملکیت کا کوئی تصور بھی نہیں یہ وسائل کو مل بانٹ کر استمعال کرتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو وہاں کے وسائل کو آپ کے قدموں میں نچھا ور کر دوں ۔ ملکہ اس کی باتوں سے متاثر ہوئی اور اس کے سفر کے سارے اخراجات شاہی حکومت کو اٹھانے کا حکم دیا ایک ایڈمرل کی حیثیت سے اس نے سترہ بحری جہاز لیے جن میں بارہ سو سفاک قاتلوں کو ساتھ لیا اور واپس اس جزیرے کی طرف سفر کرنے لگا اس کے جہازوں پر تیر انداز مال مویشی تعمیرات کا سمان گھوڑے اناج پودوں کے بیچ وغیرہ بھی تھے اس کا مطلب تھا کہ یہ وہاں اب آباد کاری کہ لئے جارہا ہے
فرانس کی ملکہ اس سے بہت خوش تھی کیوں کہ اس نے اپنا ملک مجرموں سے خالی کرلیا تھا اور ساتھ ایک لگ جزیرہ پر حکومت بھی قائم کرنے جا رہی تھی
دوسری طرف جب یہ سفاک مجرم جزیرے ور اترے تو وہاں کے معصوم لوگوں پر تو جسے قیامت اتر آئی ہو ایک ہی دن میں وہاں جلی جھومپڑیاں اور کٹی پھٹی لاشیں پڑھیں تھیں
یہ ظلم ایسا شروع ہوا کہ صدیوں تک ایسا ہی چلتا رہا
کہا جاتا ہے پندرہ سالوں پر چالیس لاکھ ریڈ اینڈینز قتل کیے گئے
کولمبس کے ساتھ جانے والے ایک پادری لاک كیسز نے لکھا ہے کہ وہاں کے لوکل لوگوں کو اجتماعی پھانسیاں دی جاتیں
ان کے بچوں کو مار کر کتوں کی خوراک کے طور پر استمعال کیا جاتا ان کے لڑکوں کو یا تو غلام بنا لیا جاتا یا ان پر تیر اندازی کی مشقیں کر کے قتل کیا جاتا ان کی خواتین کی ابرو ریزی کی جاتی اور تب تک تشدد کیا جاتا جب تک وہ مر نہ جاتیں جو ریڈ اینڈینز بچ گۓ اور افریقہ سے لاۓ گۓ غلاموں کو انیس سو پینسٹھ تک انسان ہی تصور نہیں کیا جاتا تھا
اور آج یہ غنڈہ امریکا انسانی آزادی کا علمبردار بنا پھرتا ہے