چودہ سو سال پہلے قران مجید نے آسمان کے متعلق ایک ایسی بات کہی تھی جو اب حقیقت بن چکی ہے نئ دور بینوں کی ایجاد سے پہلے کوئ نہیں جانتا تھا کہ ستاروں کی تعداد کتنی ہے ان میں کتنی مسافتیں حائل ہیں کہکشائیں کتنی ہیں اور اس کے شموس وکواکب کتنے ہیں
نئ دور بین کی ایجاد سے پہلے فلک بین اصطرلاب سے کام لیتے تھے یہ ایک چھوٹی دور بین تھی جو یونان کے ایک منجم اپالونیس (240 ق م) نے ایجاد کی تھی وہ اس سے ستاروں کی گردشیں، مسافتیں، شب وروز کا طول ناپنے اور کواکب کا مقام متعین کرنے کاکام لیتا تھا مسلمانوں میں اس کا استعمال چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوا مسلمانوں کی وساطت سے یہ یورپ میں پہنچا اور سب سے پہلے اسے پوپ سلوسٹر (930 -1003) نے استعمال کیا عصر رواں میں پہلی جدید دور بین ہالینڈ کے ایک منجم نے بنائ 1672 مین اسحاق نیوٹن (1632 -1727)نے بھی ایک دوربین تیار کی،،،،
(برطانیکا -جلد 2 ص 574)
(دائرہ المعارف اسلامیہ لاہور -1964 جلد 2 ص 626 )
(کامپلٹن انسائیکلو پیڈیا شکاگو 1956 جلد 14 ص 46)
یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ انگلستان کے افق سے ایک نیا ستارہ ابھرا نام تھا سر فریڈرک ولیم ہرشل (1738 -1822) اس نے یکے بعد دیگرے کئ دور بینیں تیار کیں بیسویں صدی میں یہ فن کمال کو پہنچ گیا امریکی شعبہ فلک شناسی کوہ ولسن پر ایک سوا انچ شیشے والی دوربین نصب کی 1948 میں کیلفورنیا یونیورسٹی نے کوہ پیلومر پر ایک ایسی دوربین نصب کی جس کے شیشے کا قطر دو سوا انچ تھا اس سے آسمانوں کی لامحدود وسعتیں نظر کے سامنے آ گئیں اور انسان نے وہ کچھ دیکھا جو اب تک چشم آدم سے پنہاں تھا
انسان نے کیا دیکھا کہ،،
ہماری کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال ہے سورج اس کے ایک کنارے پر واقع ہے مرکز کہکشاں سے تیس ہزار نوری سال دور سورج اپنے مرکز کے گرد 150 میل فی سیکنڈ 90 ہزار میل فی منٹ اور پانچ لاکھ چالیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہا ہے
ہماری کہکشاں کے علاوہ ایک ارب کہکشائیں اور بھی ہیں ان میں سے سورج کے قریب ترین دس لاکھ نوری سال کی مسافت پر واقع ہے اور بعید ترین 15 کڑوڑ نوری سال کی مسافت پر
نوٹ،،، روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل سفر کرتی ہے حساب کر کے بتائیے کہ وہ ایک دن میں کتنا سفر کرے گی اور ایک سال میں کہاں تک پہنچے گی؟ یہ ہو گا ایک نوری سال (چلڈرن انسائیکلو پیڈیا لندن 1915)،،
ہر کہکشاں میں ایک سو ارب ستارے ہیں
ہماری کہکشاں سے قریب ترین کہکشاں 20 لاکھ نوری سال کی مسافت پر واقع ہے یہ تمام کہکشائیں بڑی دوربین سے نظر آتی ہیں ہم اپنی آنکھ سے صرف چار کہکشائیں دیکھ سکتے ہیں
ہماری کہکشاں انیس دیگر کہکشاوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ بناتی ہے اس گروپ کا قطر پچاس لاکھ نوری سال ہے
یہ تم کہکشائیں ہم سے نیز ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں اور آسمانوں میں زبردست توسیع ہو رہی ہے فلک شناسوں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ تمام کہکشائیں ہم سے نیز ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ کائینات پھیل رہی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعید ترین کہکشاں 4400 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے جب کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ جاتی ہیں تو خالی جگہ میں نئ کہکشائیں بن جاتی ہیں کتنی حیرت انگیز، ہے یہ حقیقت کہ آج سے چودہ سو سال پہلے جب عربوں کے پاس فلک بینی کا کوئ آلہ موجود نہ تھا قرآن نے ایک ایسی بات کہہ دی جس کا انکشاف 1948 کے کوہ پیلو مر کی دوربین نے کیا یعنی یہ کائینات پھیل رہی ہے
ہم نے آسمان کو اپنے دست قدرت سے بنایا اور ہم اس میں وسعت دے رہے ہیں (الزاریات 47)
قران کے وحی ہونے پر اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے