تمام تہذیبوں میں انسانی قوت بیان اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے اہم ذرائع میں ادب اور شاعری سرفہرست رہے ہیں۔دنیا کی تاریخ میں ایسے زمانے بھی گزرے ہیں جب شاعری اور ادب کو (معاشرے میں)ویسا ہی اعلٰی و ارفع مقام حاصل تھا جیسا کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کو حاصل ہے۔
غیرمسلم ماہرین لسانیات تک کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی ادب کا سب سے بلند پایہ نمونہ قرآن پاک ہی ہے۔یعنی اس روئے زمین پر عربی ادب کی بہترین سے بھی کہیں بڑھ کر بہترین مثال صرف قرآن پاک ہے۔نوع انسانی کو قرآن پاک کا چیلنج ہے کہ وہ آیات قرانی کے ہم پلہ کچھ بنا کر دکھائے۔۔۔
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۞ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
(القران:سورہ 2۔۔آیت 23 تا 24)
ترجمہ:۔”اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہو کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے،یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ،اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو،ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو،اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر دکھاؤ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا،اور یقینا” کبھی نہیں کرسکتے۔تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر۔جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔
”
قرآن پاک واضح الفاظ میں (تمام انسانوں کو ) چیلنج کر رہا ہے کہ وہ ویسی ہی ایک سورتہ بنا کر تو دکھائیں جیسی کہ قرآن پاک میں موجود ہیں یہ چیلنج قرآن پاک میں کئی مقامات پر دیا گیا ہے۔صرف ایک ایسی سورتہ بنانے کا چیلنج ،جو اپنی خوبصورتی،خوش بیانی ،معانی کی وسعت اور فکر کی گہرائی میں قرآن پاک کی برابری کرسکے،آج تک پورا نہیں کیا جاسکا ہے۔
تاہم جدید دور کا معقولیت پسند آدمی ایسے کسی مذہبی صحیفے کو قبول کرے گا،جو بہترین ادبی و شاعرانہ زبان استعمال کرنے کے باوجود یہ کہتا ہو کہ زمین چپٹی ہے۔یہ اس لئے ہے کہ ہم ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں انسان کے عقلی دلائل،منطق اور سائنس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو قرآن پاک کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں اس کی غیر معمولی اور بلند پایہ ادبی زبان کو بطور ثبوت کافی خیال نہیں کریں گے۔کوئی بھی ایسا صحیفہ ،جو آسمانی(اللہ کی طرف سے)ہونے کا دعویدار ہو،اسے اپنے دلائل اور منطقی استدلال کی مضبوطی کی بنیاد پر قابل قبول ہونا چاہیئے۔
مشہور ماہر طبیعات اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان البرٹ اسٹائن کے بقول”مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے۔سائنس کے بغیر مذہب اندھا ہے۔”لہذا اب ہم قرآن پاک کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا جدید سائنس اور قرآن پاک میں باہمی مطابقت ہے یا عدم مطابقت؟
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قرآن پاک کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے۔بلکہ یہ ”نشانیوں”(سائنز) کی کتاب ہے۔یعنی آیات کی کتاب ہے۔قرآن پاک میں چھ ہزار سے زاہد ”نشانیاں”(آیات)ہیں،جن میں ایک ہزار سے زاید خالصتا” سائنس سے (یعنی سائنسی موضوعات سے)بحت کرتی ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ کئی مواقع پر سائنس ”یوٹرن”لیتی ہے(یعنی سابقہ موقف کے بالکل الٹ بات کہنے لگتی ہے)لہذا میں نے اس کتاب میں صرف اور صرف تسلیم شدہ(ثابت شدہ)سائنسی حقائق ہی کو منتخب کیا ہے جب کہ ایسے تصورات و نظریات بر بات نہیں کی ہے جو محض مفروضات ہوں یا جن کی پشت پر کوئی (سائنسی)ثبوت نہ ہو۔
فلکیات
کائنات کی تخلیق ”بگ بینگ”:َ۔۔۔
فلکی طبعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر(فینومینن)کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے۔اور جس کا جانا پہچانا نام ”بگ بینگ”ہے۔بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔بگ بینگ نظریے کے مطابق ابتداء میں یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت(پرائمری نیبولا)کی شکل میں تھی۔پھر ایک عظیم دھماکہ یعنی”بگ بینگ”(سیکنڈری سیپریشن) ہوا جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا۔پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں ،سیاروں،سورج،چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔کائنات کی ابتداء میں اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ”اتفاق”(چانس) سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال(پروبابیلٹی)صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔
قرآن پاک کی درج زیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے۔
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ
(القران: سورہ 21۔۔۔آیت 30)
ترجمہ:”کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے،پھر ہم نے انہیں جدا کیا
”
اس قرآنی آیت اور ”بگ بینگ” کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400 سال پہلے عرب کے ریگیستانوں میں ظاہر ہوئی ،اپنے اندر ایسی غیر معمولی سائنسی حقیقت لیے ہوئے ہو؟۔
کہکشاؤں کی تخلیق سے پہلے،ابتدائی گیسی کمیت:۔۔۔
سائنسدان اس پر متفق ہیں کہ کائنات میں کہکشائیں بننے سے بھی پہلے،کائنات کا سارا مادہ ایک ابتدائی گیسی حالت میں تھا،مختصر یہ کہ کہکشاؤں کی تشکیل سے پہلے،وسیع و عریض(گیسی)بادلوں کی شکل میں وہ مادہ موجود تھا جسے کہکشاؤں کی شکل میں آنا تھا۔اس ابتدائی کائناتی مادے کی وضاحت میں گیس سے زیادہ موزوں لفظ ”دھواں”ہے۔درج ذیل آیت قرآن میں کائنات کی اسی حالت کا حوالہ ”دخان” یعنی دھوئیں کا لفظ استعمال کرکے دیا گیا ہے۔
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
(القرآن:سورہ41۔۔آیت 11)
ترجمہ:۔۔”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔اس نے آسمان اور زمین سے کہا۔”وجود میں آجاؤ،خواہ تم چاہو،یا نہ چا ہو”دونوں نے کہا ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح۔
”
ایک بار پھر یہ حقیقت بھی ”بگ بینگ” کی عین مطابقت میں ہے جس کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔(بگ بینگ کا نظریہ بیسویں صدی کی یعنی عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے 1300 سال بعد کی پیداوار ہے۔مترجم)اگر اُس زمانے میں کوئی بھی اس سے واقف نہیں تھا تو پھر اس علم کا ذریعہ کیا ہوسکتا ہے؟
زمیں کی کروی(گولا نما یا سفیئریکل) ساخت:َ۔۔۔
ابتدائی زمانوں کے لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ زمین چپٹی ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک انسان صرف اسی وجہ سے دور دراز کا سفر کرنے سے خوفزدہ رہا کہ کہیں وہ زمین کے کناروں سے گر نہ پڑے!سر فرانسس ڈریک وہ پہلا آدمی تھا جس نے 1597ء میں زمین کے گرد(سمندر کے راستے)چکر لگایا اور عملا” ثابت کیا کہ زمین گول(کروی)ہے۔
یہ نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا درج ذیل قرآنی آیت پر غور فرمایے جو دن اور رات کے آنے اور جانے سے متعلق ہے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
(القرآن:سورہ 31،آیت 29)
ترجمہ:۔۔”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔”
یہاں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے رات بتدریج دن میں ڈھلنے اور دن کے بتدریج رات میں ڈھلنے کا تذکرہ فرمایا ہے۔یہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب زمین کی ساخت کسی گولے جیسی یعنی کروی ہو۔اگر زمین چپٹی ہوتی تو دن کی رات میں یا رات کی دن میں تبدیلی بالکل اچانک ہوتی۔ذیل میں ایک اور آیت مبارک ملاحظہ ہو۔اس میں بھی زمین کی کروی ساخت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
القرآن: سورہ 39۔۔آیت 5)۔
ترجمہ:۔۔”اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے۔”
یہاں استعمال کیے گئے عربی لفظ ”کور” کا مطلب ہے کسی ایک چیز کو دوسری پر منطبق (اوور لیپ) کرنا یا (ایک چیز کو دوسری چیز پر) چکر دے کر (کوائل کی طرح) باندھنا دن اور رات کو ایک دوسرے پر منطبق کرنا یا یاایک دوسرے پر چکر دینا صرف اسی وقت ممکن ہے جب زمین کی ساخت کروی ہو۔
زمین کسی گیند کی طرح بالکل ہی گول نہیں بلکہ ”ارضی کروی(جیو سفیریکل)ہے یعنی قطبین(پولز)پر سے تھوڑی سے پچکی ہوئی ہے۔درج زیل آیت مبارک میں زمین کی ساحت کی وضاحت بھی کر دی گئی۔
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
(القرآن:سورہ 79۔۔۔آیت 30)
ترجمہ:”اور پھر زمین کو اس نے بچھایا۔
یہاں عربی عباردت”دحاھا”استعمال ہوئی ہے جس کا مطلب ہے ”شترمرغ کا انڈا”شترمرغ کے انڈے کی شکل،زمین کی ارضی کروی ساخت ہی سے مشابہت رکھتی ہے۔پس یہ ثابت ہوا کہ قرآن پاک میں زمین کی ساخت بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کی گئی ہے۔حالانکہ نزول قرآن پاک کے وقت مقبول عام تصور یہی تھا کہ زمین چپٹی ہے۔