1911 میں تاجِ برطانیہ نے ہندوستان میں اپنی راجدھانی کو کلکتہ سے دِلی منتقل کردیا ۔ آنے والے وقتوں میں ایک نیا مسئلہ سر اٹھانے لگا ، بلکہ پھن اٹھانے لگا ۔۔۔ اور وہ تھا دلی اور اس کے گرد و نواح میں ناگ کی بڑھتی ہوئی آبادی ۔
جو کہ ناصرف ایک زہریلا اور خطرناک خزندہ ہے بلکہ اس کی بڑھتی آبادی بھی لوگوں بھی خوف و ہراس اور بےچینی کا باعث بن رہی تھی ۔
چنانچہ برٹش حکومت نے اعلان کیا کہ جو شخص زندہ یا مردہ ناگ لے کر آئے گا اسے نقد انعام ملے گا۔
اس طرح لوگوں نے ناگ کا شکار کرنا اور انہیں مقررہ سرکاری دفاتر لیجا کر انعام حاصل کرنا شروع کردیا ۔
لیکن۔۔۔۔ کچھ عقلمند ہندوستانیوں نے اس موقع سے دگنا فائدہ اٹھانے کا سوچا اور انہوں نے خفیہ طور پر ناگوں کو پالنا شروع کر دیا تاکہ ان کی بریڈنگ کروا کر زیادہ سے زیادہ ناگ حکومت کو پیش کر کے خوب انعامی رقم حاصل کی جائے۔۔۔۔ اور اس طرح یہ سلسلہ چل نکلا۔
اہلِ دلی نے اس "زہریلی گنگا” میں خوب ہاتھ پیر دھوئے بلکہ ڈبکیاں لگائیں ۔
اور جب برطانوی حکومت کو پتا چلا کہ ہندوستانی گھر گھر ناگ پال کر انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔۔۔ تو انہوں نے ناگ لانے پر مقرر کی گئی انعامی رقم کو منسوخ کردیا ۔
لیکن پھر جن سینکڑوں لوگوں نے ہزاروں ناگ پال رکھے تھے اور کوئی چارہ نہ ہونے پر انہوں نے ان ناگوں کو یہاں وہاں جھاڑیوں ، درختوں ، مٹی کے ٹیلوں پر آزاد کردیا۔۔۔ اور جب آزاد کیے سانپوں نے قدرتی ماحول میں اپنی نسل بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا تو دلی اور اس کے گرد و نواح میں ناگوں کی آبادی میں پھر سے بےپناہ اضافہ ہوگیا ۔
اس رحجان کو آج تک Cobra effect کے نام سے یاد کیا جاتا ہے !!!