طارق بن زیادہ نے احتیاط کے پیشِ نظر اپنے غلام سالار طریف کو 4 ہزار
سپاہیوں کا لشکر دے کر اندلس روانہ کیا تھا. طریف نے ابتدائ جنگی کامیابیوں
کی اطلاح بھیجیں اور اندلس آنے کا مشورہ دیا کہ حالات ھمارے لئے
ساز گار ہیں.ادھر اندلس کا حکمران راڈرک بھی اپنی ایک لاکھ سے زائد فوج لے کر
ساحل کی طرف روانہ ھوا.
طارق بن زیاد اپنی 13 ہزار فوج کو سمندر پار لے جانے سے ہچکچا رہے تھے
کہ اگر خدانخواستہ شکست ھو گئ تو ھمارا حال بھی وہی نہ ھو, جو
حضرت ابو عبیدہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی فوج کے ساتھ معرکہِ مدائن میں
دریائے فرات کے پار جا کر ایرانیوں کے ساتھ لڑائ میں ھوا تھا, اور فوج کی
اکثریت حضرت ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ سمیت شہید ھو گئ تھی.
طارق بن زیادہ کو اسی کشمکش میں ایک سہ پہر کو اونگ آ گئ اور کیا دیکھتے
ھیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ نہایت
شان سے آگے بڑھ رہے ہیں اور طارق بن زیاد کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں, کہ
طارق اس شان کے ساتھ آگے بڑھو. طارق فورا” بیدار ھوتے ھیں اور فوج کو سمندر
پار کرنے کا حکم دیتے ہیں اور سمندر کے دوسرے کنارے پر پہنچ کر حکم دیتے کہ
ساری کشتیوں کو آگ لگا دو, اب یہی ھمارا وطن ھو گا………. اللّٰہ اکبر