کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست کو موٹرسائیکل کی گدی بنانے کا شوق پیدا ہوا. جیسا کہ آپ سب آگاہ ہیں گدی کا ایک حصہ لوہے کا اور ایک فوم کا بنا ہوتا ہے اور اس کے اوپر ریگزین کا غلاف چڑھا ہوتا ہے. لوہے اور ریگزین تک تو کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا لیکن فوم کیلئے ہمیں کچھ تگ ودو کرنا پڑی.
فوم کے استعمال کے حساب سے کئی اقسام ہوتی ہیں جیسا کہ فرج اور ڈیپ فریزر میں حرارت کو روکنے والا، یہ تھوڑا سخت اور کم طاقت کا فوم نسبتاً کم قیمت ہوتا ہے اسے ریجڈ فوم بھی کہتے ہیں. دوسرا عام نرم فوم. جس کے گدے، گدیاں اور تکیے وغیرہ بنتے ہیں. ایک سخت مگر لچکدار جس سے گاڑی اور موٹرسائیکل کی گدیاں اور ڈیش بورڈ وغیرہ بنے ہوتے ہیں.
ساری اقسام کے فوم پولی یوراتھین ہوتے ہیں جو بنیادی طور پر دو اجزاء سے ہی بنے ہوتے ہیں. ایک جزو پولی اول polyol اور دوسرا میتھائل آئسوسائیانیٹ methyl diisocyanate یا MDI کہلاتا ہے. بیشتر اوقات پولی اول میں فرق ہوتا ہے جس سے فوم کی مختلف اقسام بنتی ہیں جبکہ آیسوسائیانیٹ میں زیادہ فرق نہیں ہوتا.
موٹرسائیکل کی گدی کے لیے جب ہم نے پولی اول تلاش کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ تمام معیاری گدیاں بنانے والی کمپنیاں صرف ایک کمپنی آئی سی آئی سے پولی اول لیتی ہیں. بازار میں چینی ساختہ پولی اول بھی دستیاب ہے مگر اس کا معیار ایسا نہیں کہ او ای ایم کے سٹینڈرڈ کے مطابق گدیاں بنائی جاسکیں.
آئی سی آئے کے مارکیٹنگ مینیجر کو بارہا فون کیے گئے، جو کہ ریسیو نہ ہوئے. انہیں پیغام چھوڑا کہ ہم گدیاں بنانے کی فیکٹری لگانا چاہتے ہیں ہمیں خام مال درکار ہے. کوئی رابطہ نہ کیا گیا. پھر اسی ادارے میں کسی شناسا سے کہلوایا گیا.
تب موصوف نے ایک بار بات کی. اور اطلاع یہ دی کہ ہمارے پاس مال فراہم کرنے کی گنجائش نہیں، آپ فیکٹری بنالیں، ہم فیکٹری دیکھیں گے، اگر آپ کی فیکٹری اس قابل ہوئی تو ہم آپ کو مال فراہم کرنے کا معاہدہ کریں گے وہ اس شرط پر کہ جتنا مال چاہیے ہوگا اس کی ساری رقم ہمارے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے ایک ماہ بعد مال دیا جائے گا.
سوال پھر وہی گھسا پٹا، ہمارے تعلیمی ادارے لاکھوں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سالانہ مارکیٹ میں بھیج رہے ہیں. ہزاروں پی ایچ ڈیز بھی. لیکن کسی بھی عملی ہدف کو لیکر کوئی کوشش نہیں. یونیورسٹیاں اس بات کی ذرا سی کوشش بھی نہیں کرتیں کہ جان سکیں کہ مارکیٹ کی ضرورت کیا ہے اور اس ضرورت کے مطابق اپنے طلباء کو تیار کرکے فیلڈ میں بھیجیں.
دوسری طرف سیٹھ ہے. اس کا بس ہدف روپیہ کمانا ہے. اسے کیا لگے کہ کہ کوئی چیز پاکستان میں بنے یا باہر سے آئے، ایل سی کھولو، ڈیوٹی اور رشوت بھرو اور مال بیچو. بس منافع کماؤ. ایک کڑی درمیان سے غائب ہے. جو یہ تعین کرے کہ یہ چیز ملک میں نہیں بنتی. اس پر کام کیا جائے. جامعات میں ایم فل کے طلباء کوایک دو سال تک اس کی تحقیق پر لگایا جائے. جو طلباء کامیابی سے بنالیں انہیں اینجل انوسٹرز سے ملا کر چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگائی جائیں. نہ طلباء ڈگریاں لیکر نوکریاں تلاش کرتے رہیں، نہ ہم زرمبادلہ کے ذخائر پھونک کر اشیاء درآمد کرتے رہیں.
یقین کریں کہ محض چند قابل لوگوں کا ایک گروپ چند ماہ میں ایسے ہزاروں پراجیکٹ تلاش کرکے جامعات کو دے سکتا ہے جس پر نیک نیتی سے محنت کرکے صرف دس سال میں خوشحالی کا سیلاب لایا جاسکتا ہے. کوئی سرکاری ادارہ کوئی فلاحی ادارہ ہو جس کی میں اس سلسلے میں معاونت کروں اور اسے عملی جامہ پہنایا جاسکے ورنہ یہ شیخ چلی کا سپنا تو ہے ہی.