خلائی چٹانوں (Meteorites) کے ٹکرانے سے صرف چاند اور دوسرے سیارے ہی داغدار نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ اپنی ساڑھے چار ارب برسوں پر محیط زندگی میں زمین بھی خلاء میں پھرتی اِن آوارہ چٹانوں کی ٹکروں کو سہتی آئی ہے۔ اب بھی ہر سال چھ ہزار سے زائد شہابیے زمین پر گِرتے ہیں۔ خلاء سے آیا ہوا سب سے بڑا شہابیہ (خلائی چٹان) جو ہمارے پاس محفوظ ہے، اس کا وزن 60 ٹن سے زیادہ ہے اور اسے Hoba نام سے جانا جاتا ہے۔ زمین کی طرف آتے ہوئے ان خلائی چٹانوں کی رفتار اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ چند ٹن وزنی چٹان زمین پر اپنے وجود سے بیسیوں گُنا بڑا گڑھا بنا دیتی ہے۔
آج ہم زمین پر موجود خلائی چٹانوں کی ٹکروں سے بنے ان گڑھوں کے مناظر کو مصنوعی خلائی سیارچوں (Satellites) اور ہوائی جہازوں کے ذریعے با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ گو کہ دوسرے سیاروں اور چاند کی نسبت زمین پر بہت کم گڑھے ملے ہیں۔ سیارہ مریخ پر اس طرح کے تین لاکھ سے زیادہ گڑھے موجود ہیں۔ چاند پر مریخ سے بھی کہیں زیادہ گڑھے پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے گڑھے زمین پر اس قدر کم کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر ہونے والی بارشوں، آندھیوں، زلزلوں اور طوفانوں نے زمین پر موجود ماضی کے زیادہ تر نشانات کو مٹا کر ختم کر دیا ہے۔ تاہم 190 کے لگ بھگ گڑھوں کو ہم اہل زمین نے جان لیا ہے کہ یہ تمام گڑھے ماضی میں خلاء سے آئے مہمانوں (Meteorites) کی آمد کے نشانات ہیں۔
سائنسی ترقی کی بدولت آج ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ زمین کے فلاں حصے پر بنے گڑھے کی عمر کیا ہے؟ اور اس سے ٹکرانے والی خلائی چٹان کس دھات پر مبنی تھی۔ مزید یہ کہ فلاں خلائی چٹان جب زمین کے اس حصے سے ٹکرائی تو اس وقت زمین کی طرف آتے ہوئے اس خلائی چٹان کی رفتار کیا تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر کے ساتھ منسلک پہلی تصویر امریکہ کی ریاست ایریزونا Arizona میں موجود Meteor crater کی ہے۔ جسے Barringer crater بھی کہتے ہیں۔ خلائی چٹان کی ٹکر سے بنے اس زمینی گڑھے کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ پچاس ہزار سال پہلے خلاء سے ایک آوارہ چٹان زمین کی طرف نہایت سست رفتاری (خلاء میں پھرتی باقی چٹانوں کی نسبت اس کی رفتار سست تھی) سے آئی اور امریکی ریاست Arizona کے اس حصے سے ٹکرا گئی جسے آج ہم Meteor crater کہتے ہیں۔ زمین کی طرف آتے ہوئے اس خلائی چٹان کی رفتار رائفل کی گولی سے دس گُنا زیادہ تھی۔
خلاء سے آنے والی 150 فٹ لمبی چوڑی یہ چٹان نِکل آئرن (Nickel-iron) پر مبنی تھی۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چٹان (جتنے ماس کے ساتھ زمین سے ٹکرائی) اس سے دُگنے حجم (Size) کی تھی لیکن زمین کی طرف آتے ہوئے یہ زمین کی فضاء (Atmosphere) سے رگڑ کھا کر آدھی فضاء میں ہی جل کر تحلیل ہو گئی تھی اور باقی کا بچا ہوا حصہ زمین سے آ ٹکرایا تھا۔ اس گڑھے کو دیکھنے کی غرض سے آنے والے سیاحوں کے لئے اس چٹان کا یہاں سے ملنے والا سب سے بڑا حصہ نمائش کے طور پر رکھا گیا ہے۔ خلاء سے آنے والی چٹانوں کی باقیات شاذ و نادر ہی ملتی ہیں۔ اس کی وجہ ان چٹانوں کی انتہائی تیز رفتار ہے۔ فضاء کی رگڑ سے گرم ہوئی چٹان جب ہزاروں کلومیٹر کی رفتار سے زمین کی سطح پر ٹکراتی ہے تو مزید گرم ہونے پر پگھل کر فضاء میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اگر چٹان بہت بڑی ہو تو اس کے بچے ہوئے حصے آس پاس سے مل جاتے ہیں۔ چٹان مکمل طور پہ ختم ہو گئی، مکمل طور پہ بچ گئی یا کچھ حصے بچ گئے۔ یہ اس چٹان کے میٹیریل، رفتار اور حُجم پہ منحصر کرتا ہے۔
اس گڑھے کی گہرائی سطح زمین سے 560 فٹ ہے جبکہ اس گڑھے کی ایک طرف سے دوسری طرف یعنی اس کے پار جانے کے لئے جو فاصلہ بنتا ہے وہ کم و بیش چار ہزار فٹ یا سوا کلومیٹر ہے۔ زمین کے جس حصے پر یہ گڑھا موجود ہے (امریکی ریاست ایریزونا Arizona کا علاقہ Winslow) زمین کا یہ حصہ سطح سمندر سے تقریبا پانچ ہزار چھ سو فٹ بلند ہے۔ زمین سے ٹکرانے والی اس خلائی چٹان (Meteorite) کی زمین سے ٹکراتے وقت رفتار انتیس ہزار میل فی گھنٹہ تھی۔ گو کہ زمین اور اس خلائی چٹان کا تصادم (چٹان کے چھوٹا ہونے اور اس کے زمین کی طرف آنے کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے) اس قدر شدت والا نہیں تھا لیکن پھر بھی اس تصادم نے Meteor گڑھے کے کناروں کو آس پاس کی زمین سے کم و بیش ڈیڑھ سو فٹ تک بلند کر دیا تھا۔ اس گڑھے کی سطح زمین سے اوسط گہرائی 560 فٹ ہے لیکن اس گڑھے کا مرکز (Center) کہیں کہیں سے سات سو 700 فٹ سے لے کر آٹھ سو 800 فٹ تک گہرا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلا سے آنے والی یہ چٹانیں ماس میں کم (چھوٹی جسامت) ہونے کے باوجود بہت بڑی تباہی پھیلا سکتی ہیں۔ 30 جون 1908 میں روس (سائبیریا) کے علاقے میں Podkamennaya Tunguska دریا کے پاس دو سو سے تین سو فٹ چوڑی خلائی چٹان جنگل میں آ کر گری۔ اس تصادم نے دو ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے کو تباہ کر دیا تھا۔ تصادم والی جگہ کے ارد گرد موجود تقریبا 80 لاکھ درخت زمین پر لیٹ گئے تھے۔ اس علاقے میں زمین زلزلے کی طرح حرکت میں آ گئی تھی۔ ایک صدی بعد بھی یہاں بہت سے درخت ابھی تک زمین پر لیٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (اس وقت کی اس تصادم والی جگہ کی اصل تصاویر موجود ہیں۔ تحریر کے ساتھ منسلک تصاویر میں سے آپ ایک پرانی اور ایک نئی تصویر میں درختوں کو زمین پر لیٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے) سائبیریا میں وقوع پذیر ہوئے اس واقع کو Tunguska event کہا جاتا ہے۔
زمین اور دوسرے فلکی اجسام پر ماضی میں ہوئی ان خلائی چٹانوں کی ٹَکروں کے سبب پڑنے والے گڑھے جہاں ہمیں ہمارے نظام شمسی کی عمر بتاتے ہیں وہیں یہ گڑھے ہمیں یہ بھی یاد دلاتے رہتے ہیں کہ "پورے نظام شمسی میں انسان کے لئے زمین جہاں محفوظ ترین گھر ہے، وہیں غیر محفوظ بھی ہے” چند ہزار میٹر لمبی چوڑی اپنے راستے پر گامزن کوئی ایک خلائی چٹان ہمارے گھر (زمین) کی طرف مُڑ کر اور پھر زمین سے ٹکرا کر زمین پر موجود مکمل نا سہی لیکن آدھی سے زیادہ اقسامِ زندگی کا صفایا کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری تمام تر ٹیکنالوجی اور زندگی موافق ماحول کو ختم کر سکتی ہے۔ معلوم کائنات (Observable universe) میں برپا تخلیق و فنا کی طرف اگر نگاہ ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ "ہماری اس کائنات کے اندر اس کی پیدائش کے وقت سے شروع ہونے والا تخلیق و فنا کا یہ سلسلہ اس کائنات کی موت تک یونہی جاری و ساری رہے گا”
"ہمارے سروں پر ہر وقت کائناتی ملبہ شہابیوں وغیرہ کی صورت میں موت بن کر ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے” کیا یہ سوچ کر میری طرح آپ کی ریڑھ کی ہڈی میں بھی سنسناہٹ دوڑ رہی ہے؟؟؟