روسی ایڈمرلز اور جنرلز کی موت کا معمہ !
6 فروری 1981 ۔۔۔۔ روس کے اہم ترین شہر ” لینن گراڈ” (سینٹ پیٹرزبرگ) میں تب کے روس یعنی سوویت یونین کی بحری افواج کے Pacific Fleet یعنی بحر الکاہل کے بیڑے کے افسران کے لیے ایک اہم میٹنگ کا انعقاد کیا گیا ۔
اس میٹنگ میں پیسفک فلِیٹ کے تقریباً سینئیر افسر شامل تھے ۔
میٹنگ کے اختتام کے بعد 7 فروری 1981 ان سبھی افسران کی لینن گراڈ سے واپسی ہونا تھی۔۔۔۔ یہ واپسی لینن گراڈ میں قائم روسی بحریہ کے زیرِ استعمال Pushkin Airport سے روسی مسلح افواج کے زیرِ استعمال ایک Tupolev Tu-104 ٹرانسپورٹ طیارے کے زریعے ہونی تھی ۔
۔
شام پانچ بجے طیارے نے پشکین ایئرپورٹ سے اڑان بھری اس میں 44 مسافر اور عملے کے 6 افراد موجود تھے ۔
ان 44 مسافروں میں 16 مسافر روسی فوج کے ایڈمرل اور جنرلز تھے جن میں پیسفک فلِیٹ کے سربراہ Emil Spiridonov بھی شامل تھے ۔۔۔۔ 22 مسافر کرنل اور بریگیڈئیرز کے عہدوں پر تھے اور 6 مسافر سویلنز تھے جن میں امیل سپردونوف کی بیوی اور دیگر چند افراد موجود تھے ۔
رن وے پر اڑان بھرنے کے ٹھیک 8 سیکنڈ بعد طیارہ اچانک غیر معمولی تیزی سے بلند ہوا اور بتدریج بلندی کی طرف بڑھنے کے بجائے یکایک صلیب کے نشان کی طرح اس کا رخ اوپر کی جانب ہوگیا ۔۔۔ پھر وہ دائیں طرف کو مڑا اور ایک زوردار دھماکے کے ساتھ زمین بوس ہوگیا ۔۔۔ چند لمحوں کے اندر اندر حادثے کا شکار طیارہ بھڑکتی آگ کے شعلوں میں گھِر چکا تھا ۔۔۔۔
50 میں سے 49 مسافر موقعے پر مارے گئے اور پائلٹ اتفاق سے آخری لمحات میں طیارے کی ونڈ سکرین کو توڑتا ہوا باہر جا گرا اور شدید نوعیت سے زخمی ہوگیا ۔۔۔ یہ آخری سوار بھی ہسپتال لے کر جاتے ہوئے ، راستے میں دم توڑ دیا ۔
۔
اس حادثے نے روسی حکومت اور فوج کو لرزا کے رکھ دیا ۔ پیسفک فلِیٹ کے سربراہ سمیت روسی افواج کے 16 ایڈمرلز اور جنرلز چند لمحے میں راکھ ہوگئے تھے اور دیگر کئی افسران بھی یونہی لقمہ اجل بن گئے ۔
اس حادثے پر روسی حکومت کا پہلا خیال یہ تھا کہ ” ا°مر°°یکا و نیٹو بحر الکاہل کے محاذ سے ہم پر جنگ مسلط کرنے جارہے ہیں اور یہ سانحہ اتحادیوں کی ہی طرف سے سبوتاژ کی ایک سازش تھی جس کا مقصد پوری پیسفک کمانڈ کا صفایا کردینا تھا تاکہ جنگ کی صورت میں ہائی کمان کی عدم موجودگی سے پیسفک فلِیٹ موثر مزاحمت کر پانے کی پوزیشن میں نہ ہو”.
چنانچہ۔۔۔۔
فوری طور پر پیسفک فلِیٹ کو کسی ممکنہ اتحادی حملے کے پیشِ نظر ” ہائی الرٹ” کردیا گیا۔
لیکن۔۔۔
چند دن گزر جانے کے باوجود بھی نہ تو کوئی حملہ ہوا اور نہ ہی دشمن کی کوئی غیر معمولی سرگرمی سامنے آئی ۔
گویا یہ سانحہ کسی جنگ کا پیش خیمہ نہیں تھا۔
۔
تو پھر اس حادثے کی وجہ کیا ہوسکتی تھی ؟
اگر اس سبوتاژ میں دشمن کا ہاتھ نہیں تھا تو ممکن تھا کہ اس میں اندر کا ہاتھ ملوث ہو۔۔۔یعنی سوویت فوج کا ہی کوئی ایسا افسر کہ جو مہلوکین کے ساتھ تنازعہ رکھتا ہو ، یا پھر اس سانحہ اور ان سب کی موت سے اسے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہو تو ایسا شخص بھی ایسی سازش رچے جانے کا باعث بن سکتا تھا ۔۔۔
چنانچہ۔۔۔۔ اب اس سانحہ میں ملوث کسی ممکنہ اندرونی ہاتھ پر تحقیق کا آغاز کردیا گیا ۔
پیسنجرز لسٹ چیک کرتے ہی اتھارٹیز پر یہ انکشاف ہوا کہ ۔۔۔۔
” پیسفک فلِیٹ کا ‘چیف آف سٹاف’ نائب ایڈمرل رڈولف گالوسوف کا نام تو مسافروں کی لسٹ میں موجود ہے لیکن گالوسوف نہ تو طیارے پر سوار ہوا اور نہ ہی اس کی موت واقعہ ہوئی”.
اور امیل سپردونوف کے بعد گالوسوف کا پیسفک فلِیٹ کا سربراہ بننا اظہر من الشمس بات تھی ۔۔۔
تو کیا گالوسوف نے ہی پیسفک فلِیٹ کی سربراہی کے اس سانحہ کی سازش رچی اور روسی ہائی کمان تو تاریخ کے سب سے بھاری نقصان سے دوچار کیا ؟
اگر نہیں۔۔۔ تو وہ پیسنجرز لسٹ میں ہونے کے باوجود اس روز ائیرپورٹ سے غیر حاضر کیوں تھا ؟
جلد ہی گالوسوف کا پتا لگا لیا گیا اور اسے نزدیکی شہر Severomorsk میں اس کی بیٹی کے گھر کی طرف جاتے گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔۔تاہم۔۔۔۔تحقیقات کے دوران گالوسوف نے انکشاف کیا کہ ” اس نے میٹنگ سے قبل سپردونوف سے اس بات کی اجازت لی تھی کہ وہ میٹنگ کے بعد اپنی بیٹی سے مختصر ملاقات کے لیے سویرومورسک جائے گا اور پھر کسی مسافر طیارے کے زریعے واپس پہنچ جائے گا .”
گویا۔۔۔۔ گالوسوف مجرم نہ تھا لیکن انتہائی خوش قسمت ضرور تھا کہ جو اس سانحہ سے بچ نکلا۔
۔
لیکن پھر وہی سوال کہ اس حادثے کی وجہ کیا بنی ؟
بھلے ہی TU-104 طیارہ کافی پرانا اور اب تک موسٹلی متروک ہوچکا تھا لیکن حادثے کا شکار طیارہ تب تک زیرِ استعمال اور اچھی حاصل میں تھا ۔۔۔ اتنا ہی نہیں ۔۔۔ بلکہ اس کا پائلٹ ” اناطولی انیوشن” روسی فوج کے سنئیر ترین اور تجربے کار پائلٹس میں سے ایک تھا جو 17 سال سے اس طیارے کو چلانے کا تجربہ رکھتا تھا۔
اور پھر ۔۔۔ طیارے کے بلیک باکس کے معائنے اور حادثے کی بنیادی تحقیقات کے بعد ایک روح فرسا انکشاف ہوا ۔۔۔ اور وہ یہ کہ :
” مذکورہ طیارے یعنی TU-104 کے لیے یہ لازم ہے کہ ٹیک آف کے وقت طیارہ پہلے رن وے پر 220 کلومیٹر کی رفتار پکڑے اور اس کے بعد طیارے کو ہوا میں بلند کیا جائے ۔۔.”
تاہم۔۔۔۔
حادثے سے قبل مذکورہ طیارے نے وقت سے قبل ہی ، 220 کے بجائے 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر ہی اڑان بھر لی۔۔۔۔اور ظاہر ہے اس کیفیت میں اس کا قابو سے باہر ہو جانا ناگزیر تھا ".
تو اتنے تجربے کار اور سینئیر پائلٹ نے اتنی بھیانک غلطی کیسے کر دی ۔۔۔۔؟
یہ بات تو مکمل تحقیقات کے بعد ہی واضح ہوسکتی تھی !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عقدہ کھل گیا :
آخر کار 2 برس کی تفصیلی اور جامع تحقیقات کے بعد یہ راز کھل ہی گیا کہ آخر” اس روز کیا ہوا تھا ۔”
اور حقیقت کا ادراک ہوتے ہی پوری دنیا نے اپنا سر پیٹ لیا ۔۔۔۔۔
1970 و 80 کی دہائی میں سوویت یونین میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ جات بشمول دفاع، ایٹمی پروگرام اور سپیس پروگرام بہت ترقی ہورہی تھی ۔۔۔ لیکن اس دن دگنی رات چوگنی ترقی میں روسی حکومت نے ایک "چھوٹی سی بات ” کو نظر انداز کردیا تھا کہ روس دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا (اور ہے ) اور اس کے عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری تھی ۔۔۔
لیکن ایک طرف جہاں ملک میں ٹیکنالوجی کی ریکارڈ تحقیق و ترقی جاری تھی وہیں ملک میں بھلے ہی قحط و کسمپرسی تو نہ تھی لیکن بنیادی ضروریات اور روز مرہ سازوسامان کی کافی قلت اور تنگی تھی ۔۔۔۔
عام استعمال کے راشن سے لے کر فاسٹ فوڈ تک۔
ٹوائلٹ پیپر سے لے کر واشنگ مشین، ٹی-وی ، ریفریجریٹر تک ہر چیز ضرورت سے بہت کم بنائی /درآمد کی جارہی تھی ۔۔۔
جس کے نتیجے میں گاؤں ، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں اس سب کی دستیابی نہ ہونے کے برابر تھی اور یہ سب روس کے بڑے شہروں میں ہی وافر دستیاب تھا ۔۔۔۔ چنانچہ لوگوں کو ان سب چیزوں کے حصول کے لیے ٹرین یا پھر گاڑیوں پر اپنے نزدیک ترین بڑے شہر کا رخ کرنا پڑتا تھا۔
چنانچہ جب بھی کسی شخص چاہے وہ سویلین ہو یا افسر ، کا چکر کسی بڑے شہر میں لگتا تو اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ آج گاڑی بھر کے ہر ممکن سامان لے جایا جائے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
اور اس روز بھی کچھ یوں ہی ہوا ۔
حتمی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اس روز وہ سبھی 44 افسر جو کہ ملک کے دوردراز اور ساحلی علاقوں میں تعینات تھے اور ان کا کسی بڑے شہر میں چکر کم کم ہی لگتا تھا تو جب میٹنگ کے سلسلے میں لینن گراڈ میں ان کی آمد ہوئی تو انہوں نے یہی سوچا کہ جی ” آج تو پورا لینن گراڈ خرید کے جہاز میں ٹھونس لیں گے۔۔۔۔”.
چنانچہ پھر یہی ہوا ۔۔۔۔ ہر ایک افسر نے مینٹنگ کے بعد شہر میں گھوم پھر کے ہر وہ ممکن چیز خرید لی کہ جس کی ان کو طلب یا ضرورت تھی ۔
فاسٹ فوڈ کے ڈبے ، مالٹوں کے کریٹ ، کپڑے، جوتے ، آفس کا سامان ، ٹی-وی ، فریج ، واشنگ مشینز ۔۔۔ یہاں تک کہ طیارے کے ملبے سے گاڑی کے کچھ سپیئر پارٹس بھی برآمد ہوئے اور تحقیق کار حیران رہ گئے کہ یہ پارٹس بھلا طیارے میں کس جگہ نصب ہوتے ہیں
گویا جہاز پہلے ہی خطرناک حد اوور لوڈڈ تھا۔
لیکن اتنا ہی نہیں۔۔۔۔ ایڈمرل صاحب نے طیارے میں اخباری کاغذ کے دو عدد بڑے رول جن کا وزن 5,5 سو کلو تھا وہ بھی خرید کر رکھوا دیے۔۔۔۔
اور باقی سامان کے ساتھ یہ دو رول بھی پچھلی سمت کارگو میں رکھ دیے گئے۔۔۔۔ بغیر ان کو اچھی طرح سے باندھے ۔۔۔
اور پھر جب طیارہ رن وے پر دوڑ رہا تھا تو وہ دونوں رول کھل گئے اور طیارے کے دوڑنے کی رفتار کے متضاد کارگو سپیس میں پیچھے کی طرف شوٹ کرگئے ۔۔۔۔ جب اس سپیڈ میں طیارے کی پچھلی سمت بیک وقت 1000 کلو کا وزن جا پڑا تو طیارے کا توازن بری طرح سے بگڑ گیا اور اس جھٹکے سے شاید پائلٹ سے وقت سے پہلے ہی اڑان کا ہینڈل دب گیا اور طیارہ عدم توازن کی کیفیت میں اضطراری حالت میں ہوا میں بلند ہوا۔۔۔۔ اور قابو نہ کیے جانے کی وجہ سے فی الفور زمین بوس ہوگیا ۔
اس طرح ان افسروں کی لالچ کی وجہ سے روسی افواج تاریخ کے بدترین نقصان سے دوچار ہوگئیں ۔
وہ سب مہلوکین ماسکو میں ایک ہی اجتماعی قبر میں مدفون ہیں۔