حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ ڪے برگزیدہ نبی تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام ڪے بیٹے تھے۔ سمجھا جاتا ہے ڪہ انہوں نے متحدہ اسرائیل پر حڪومت ڪی ان ڪے بعد ملڪـــ اسرائیل ڪے دو حصے (شمالی اور جنوبی) ہو گئے۔ حضرت سلیمانؑ ڪا سلسلہ نسب یہودا (اولاد یعقوب) ۔ڪے واسطے سے حضرت یعقوبؑ سے جا ملتا ہے۔
قرآن پاڪ میں انھیں اولاد ابراہیم میں شمار ڪیا گیا ہے۔
حافظ ابنِ عساڪر نے آپؑ ڪے نسب نامے ڪی تفصیل یوں بیان ڪی ہے
سلیمان بن داؤد بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عیمنا ذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسیاق بن ابراہیم۔
حضرت داؤد علیہ السلام ڪی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام ڪو بھی بہت سے معجزے عطا ڪر رکھے تھے۔
آپؑ جانوروں ڪی بولیاں سمجھ لیتے تھے،
ہوا پر آپؑ ڪا قابو تھا۔ آپؑ ک
ڪا تخت ہوا میں اڑا ڪرتا تھا۔ یعنی صبح اور شام مختلف سمتوں ڪو ایڪ ایڪ ماہ ڪا فاصلہ طے ڪر لیا ڪرتے تھے۔حضرت سلیمان علیہ السلام ڪے لئے ہوا ڪو مسخر اور ان ڪے حڪم ڪے تابع بنا دیا گیا حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
حضرت سلیمانؑ اپنے تخت پر بیٹھ ڪر صبح ڪے وقت دمشق سے روانہ ہوتے اور ’’اصطخر‘‘ پہنچ ڪر قیلولہ ۔ڪرتے، اسی طرح شام ڪو ’’اصطخر‘‘ سے روانہ ہوتے اور ڪابل میں رات گزارتے ان دونوں شہروں ڪے درمیان تیز رفتار مسافر ڪے لئے ایڪ ماہ ڪی مسافت تھی‘‘-
سلیمان علیہ السلام ڪی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی ڪہ آپؑ ڪی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہ تھی، بلڪہ جن بھی آپؑ ڪے تابع تھے۔
سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی اور بیت المقدس ڪی تعمیر شروع ڪی۔ جن دور دور سے پتھر اور سمندر سے موتی نڪال نڪال ڪر لایا ڪرتے تھے۔ یہ عمارتیں آج تڪ موجود ہیں۔ اس ڪے علاوہ آپؑ نے جنوں سے اور بھی بہت سے ڪام لیے۔
ایڪ موقع پر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام ڪو آزمائش میں ڈال دیا۔ آپؑ ڪے پاس ایڪ انگوٹھی تھی جس پر اسم اعظم ڪندہ تھا۔ لیڪن وہ انگوٹھی ڪسی وجہ سے گم ہو گئی اور شیطان ڪے ہاتھ آگئی۔ چنانچہ آپؑ تخت و سلطنت سے محروم ہو گئے، ایڪ مدت ڪے بعد وہ انگوٹھی شیطان ڪے ہاتھ سے دریا میں گرپڑی، جسے ایڪ مچھلی نے نگل لیا، وہ مچھلی سلیمان علیہ السلام نے پڪڑ لی، جب اس ڪو چیرا گیا تو انگوٹھی اس ڪے پیٹ سے مل گئی اور اسی طرح آپؑ ڪو دوبارہ سلطنت اور حڪومت مل گئی یہ سب ایڪ آزمائش تھی
حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے ڪہ ہد ہد، علم ہندسہ ڪا ماہر تھا اور وہ حضرت سلیمان ڪے لیے پانی
ڪی نشاندہی
ڪرتا تھا -جب آپ جنگل میں ہوتے تو پانی ڪی ذمہ داری اسے سونپ دیتے- زمین ڪے اندر ڪا پانی اسے اس طرح دڪھائی دیتا جس طرح انسان ڪو زمین پر پڑی ہوئی چیز نظر آتی ہے چنانچہ یہ پانی ڪی نشاندہی ڪر دیتا اور سطح زمین سے اس ڪی گہرائی بھی بتا دیتا- حضرت سلیمان جنات ڪو حڪم دیتے وہ اس جگہ ڪنواں ڪھود لیتے اس طرح وہاں سے پانی پھوٹ پڑتا
سلیمان علیہ السلام ڪے زمانے میں یمن ڪے علاقے پر ملڪہ بلقیس ڪی ملڪ سبا پہ حڪومت تھی، ایڪ دن سلیمان علیہ السلام ڪا دربار لگا ہوا تھا، جس میں تمام جن وانس، چرند، پرند اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے تھے، دیڪھا ڪہ ہدہد غیر حاضر ہے آپؑ نے فرمایا ہد ہد نظر نہیں آتا اگر اس نے اس غیر حاضری ڪی معقول وجہ بیان نہ ڪی تو اسے سخت سزا دی جائے گی، ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں ڪہ ہدہد بھی حاضر ہو گیا، حضرت سلیمان علیہ السلام ڪے دریافت ڪرنے پر ہدہد نے بتایا ڪہ میں اڑتا ہوا یمن ڪے ملڪ میں جا پہنچا تھا، جہاں ڪی حڪومت ملڪہ بلقیس ڪے ہاتھ میں ہے۔ خدا نے سب ڪچھ دے رڪھا ہے اس ڪا تخت بہت قیمتی اور شاندار ہے لیڪن شیطان نے اس ڪو گمراہ ڪر رڪھا ہے، وہ خدائے واحد ڪی بجائےسورج ڪی پرستش ڪرتی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ڪہ اچھا تو میرا خط اس ڪے پاس لے جا، تیرے جھوٹ اور سچ ڪا امتحان ابھی ہو جائے گا چنانچہ ہدہد آپؑ ڪا خط لے ڪر ملڪہ بلقیس ڪے پاس پہنچا اور خط اس ڪے آگے ڈال دیا، ملڪہ نے خط پڑھ ڪر درباریوں
ڪو بلایا اور خط ڪا مضمون پڑھ ڪر سنایا، روائت ہے ڪہ اس میں درج تھا۔
یہ خط سلیمان علیہ السلام ڪی طرف سے ہے اور اللہ ڪے نام سے شروع ڪیا جاتا ہے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ تم ڪو سرڪشی اور سربلندی ڪا اظہار نہیں ڪرنا چاہیے اور تم میرے پاس خدا ڪی فرماں بردار بن ڪر آؤ۔ ملڪہ سبا نے بہت سے تحفے تحائف سلیمان علیہ السلام ڪی خدمت میں بھیجے۔ آپؑ نے ان تحائف ڪو دیکھ ڪر فرمایا ڪہ ملڪہ نے میرے پیغام ڪا مقصد نہیں سمجھا۔ آپؑ نے ملڪہ ڪے سفیروں ڪو دیکھ ڪر فرمایا۔ تم نہیں دیکھتے ڪہ میرے پاس ڪس چیز ڪی ڪمی نہیں ہے یہ تحفے واپس لے جاؤ اور اپنی ملڪہ سے ڪہو ڪہ اگر میرے پیغام ڪی تعمیل نہ ڪی تو میں عظیم الشان لشڪر لے ڪر وہاں پہنچوں گااور تم ڪو تمہارے شہر سے نکال دوں گا۔
جب قاصد سلیمان علیہ السلام ڪا پیغام لے ڪر ملڪہ ڪے پاس گئے تو اس نے یہی مناسب سمجھا ڪہ خود سلیمان علیہ السلام ڪی خدمت میں حاضر ہو جائے۔ جب سلیمان علیہ السلام ڪو ملڪہ ڪی روانگی ڪا علم ہوا تو آپؑ نے فرمایا ڪہ دربار والوں میں ڪوئی ایسا ہے جو ملڪہ ڪا تخت یہاں لے آئے۔ ایڪ جن نے ڪہا ڪہ آپؑ ڪے دربار برخاست ہونے تڪ میں تخت لاسڪتا ہوں اور میں امین بھی ہوں۔ آپؑ ڪے وزیر آصف بن برخیا جو ڪے اسم اعظم جانتے تھے نے ڪہا ڪہ میں آنڪھ جھپڪتے تڪ اس ڪا تخت پیش ڪر سکتا ہوں۔ انہوں نے اسم اعظم پڑھا تو پلڪ چھپڪتے ملڪہ بلقیس ڪا تخت سامنے پڑا تھا اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ ڪا شڪر ادا ڪیا اور فرمایا ۔ڪہ خدا ڪا یہ فضل میری آزمائش ڪے لیے ہے تاڪہ وہ دیڪھے ڪہ اس حالت میں بھی اس ڪا شڪر ادا ڪرتا ہوں یا نہیں۔ اب آپؑ نے حڪم دیا ڪہ اس ڪی شڪل بدل دی جائے جب ملڪہ سلیمان علیہ السلام ڪے دربار میں پہنچی تو اس سے پوچھا گیا، ڪیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے جیسا یہ ہے،اس نے ڪہا یہ تو وہی ہے۔ ملڪہ سبا نے سلیمان علیہ السلام ڪے پیغمبرانہ جاہ و جلال ڪو دیکھ ڪر ایمان قبول ڪر لیا
ایڪ روائت ڪے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام ڪے انتقال ڪے وقت مطابق سلیمان علیہ السلام ڪی عمر پچیس سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حڪومت دونوں میں سلیمان علیہ السلام ڪو داؤد علیہ السلام ڪا جانشین بنایا۔ یوں نبوت ڪے ساتھ ساتھ اسرائیلی حڪومت بھی ان ڪے قبضے میں آ گئی۔
ترجمہ:
” اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام ڪا وارث ہوا۔ “
تفسیر
یہاں وراثت سے مراد مال و دولت اور حڪومت و سلطنت نہیں ہے، ڪیونڪہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام ڪی واحد اولاد نہ تھے حضرت داؤد علیہ السلام ڪی وفات ڪے وقت آپ ڪے انیس بیٹوں ڪا ذڪر ملتا ہے۔ اگر وراثت سے مراد مال و دولت، جائداد اور سلطنت ہے تو پھر انیس ڪے انیس بیٹے وارث ٹھہرتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ڪی تخصیص باقی نہ رہتی۔ اب چونڪہ یہاں وارث ہونے میں سلیمان علیہ السلام ڪا ذڪر ہے تو وہ علم اور نبوت ہی ڪی وراثت ہو سڪتی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ڪی وفات ڪا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ سلیمان علیہ السلام ڪے حڪم سے جنوں ڪی ایڪ جماعت ہیڪل سلیمانی (بیت المقدس) بنانے میں مصروف تھی ڪہ حضرت سلیمان علیہ السلام
ڪی وفات ڪا وقت آن پہنچا، آپؑ ایڪ لاٹھی ڪے سہارے ڪھڑے ہو گئے اور انتقال فرما گئے۔ جنوں ڪو آپؑ ڪی موت ڪی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنے ڪام میں لگے رہے۔ آخر ایڪ عرصہ ڪے بعد جب ان ڪی لاٹھی ڪو دیمڪ نے چاٹ لیا تو وہ بودی ہو ڪر ٹوٹ ڪر گر پڑی اورحضرت سلیمان علیہ السلام ڪا جسم مبارڪ جو لاٹھی ڪے سہارے کھڑا تھا وہ گر پڑا۔ اس وقت جنوں ڪو معلوم ہوا ڪہ سلیمان علیہ السلام تو مدت سے انتقال ڪرچڪے ہیں یڪدم افراتفری شروع ہو گئی جس ڪا جدھر منہ آیا جو اس ڪے ہاتھ لگا لے ڪر بھاگا شیطان نے اس دوران ایڪ چال چلی اس نے ہاروت ماروت کا سکھائے گئے جادو جو ڪہ لوگوں نے ڪچھ ڪتابوں ڪی صورت محفوظ ڪر لیا تھا اس نے وہ ڪتابیں سلیمانؑ ڪے تخت ڪے نیچے رڪھ دیں لوٹ مار ڪے دوران جب ڪچھ انسانوں اور جنوں نے وہ ڪتابیں دیڪھیں تو شیطان ڪی بنائ چال ڪے مطابق انڪے ذہن میں یہ آگیا ڪہ معاذاللہ اس سب طاقت ڪی وجہ یہ جادو تھا ۔
سلیمان علیہ السلام اپنے زمانے ڪے امیر ترین آدمی تھے ایڪ تجزیہ ڪے مطابق اگر آج ڪے حساب سے دیکھا جائے تو وہ 2200 ارب ڈالر کے مالڪ تھے۔ اپنے 39 سالہ دور حڪومت میں انہیں ہر سال 25 ٹن سونا بطور نذرانہ ملتا تھا۔۔اس عظیم الشان سلطنت شاہانہ ڪروفر اور نبوت ڪے اعجاز ڪے بے شمار انعامات و ڪرامات سے مالامال ہونے ڪے باوجود حضرت سلیمان علیہ السلام سلطنت ڪا ایڪ پیسہ بھی اپنی ذات پر صرف نہ ڪرتے بلکہ اپنی گزر بسر ڪے لیے ٹوڪریاں بنا ڪر فروخت ڪرتے تھےیہ شان ایک نبی ڪی ہو سکتی ہے ڪسی دنیا دار بادشاہ ڪی نہیں۔
ہیڪل سلیمانی ڪی تعمیر حضرت داود نے شروع ڪی تھی جن ڪی وفات ڪے بعد سلیمان علیہ السلام نے اسے مڪمل ڪیا۔ اس ڪی تعمیر ڪے لیے بیرون ملڪ سے معمار بلواے گئے تھے جوحضرت سلیمان علیہ السلام ڪے غلام نہیں تھے اور اس وجہ سے فری میسن ڪہلاتے تھے۔
ہیڪل سلیمانی میں انہوں نے حضرت سلیمانؑ ڪے خزانے ڪے خفیہ تہ خانے بھی تعمیر ڪیئے۔ ہیڪل ڪی تعمیر ڪے مڪمل ہونے ڪے بعد وہ ملڪ سے چلے گئے لیڪن یہ راز نسل در نسل اپنی اولادوں ڪو منتقل ڪرتے رہے۔
ڪوئی دو ہزار سال بعد ڪچھ مہم جو یروشلم ڪی اس مقدس عبادت گاہ ڪے باقی ماندہ ڪھنڈرات تڪ آئے بادشاہ وقت سے اجازت نامہ حاصل ڪیا اور یورپ سے زائرین ڪے آنے جانے ڪی حفاظت ڪے انتظامات سنبھالے۔ انہوں نے اپنے آباواجداد ڪی فراہم ڪردہ نشانیوں ڪی مدد سے ان مقامات ڪو ڈھونڈھ نڪالا اور بہت بڑی مقدار میں سونا نڪال ڪر Knights Templar ڪی تنظیم بنائی جس ڪا ایڪ حصہ بینکنگ ڪرتا تھا اور دوسرا حصہ فوجی امور سرانجام دیتا تھا۔ یہ دنیا ڪی پہلی ملٹی نیشنل ڪارپوریشن تھی۔
بینڪنگ ڪے امور میں مداخلت ڪی وجہ سے رومن چرچ ان ڪا شدید دشمن بن گیا اور پورے یورپ میں Knights Templar ڪے خلاف اقدامات ڪیے جانے لگے۔ اور 1312ء ڪے بعد ان ڪا خاتمہ ہو گیا۔
ہیڪل سلیمانی ڪی مغربی دیوار جو دیوار گریہ ڪہلاتی ہے۔دیوار گریہ ڪے پاس زیر زمین تہ خانوں تڪ جانے والا ڪنواں آج بھی موجود ہے جسے مضبوط اور شفاف شیشے ڪی چادر سے ڈھک دیا گیا ہے۔
چونڪہ حضرت سلیمانؑ ڪی طرف سے جنات ڪو آخری حڪم ہیڪل ڪی تعمیر ڪا تھا جب ہیڪل ڪی تعمیر مڪمل ہوئی اور لڪڑی دیمڪ لگنے سے ٹوٹی اور آپ ؑ ڪا جسم مبارڪ گرا تو جنات یہ جان ڪر ڪے سلیمانؑ فوت ہوچڪے ہیں اور اب وہ آزاد ہیں تو بھاگ ڪھڑے ہوے تو اس حرڪت ڪا خوف آج تڪ انڪی نسل در نسل آرہا ہے اور آج بھی ڪسی بھی مذہب سے جڑے جنات حضرت سلیمانؑ ڪے نام سے بھی ڈرتے ہیں ۔ اللہ تبارڪ تعالیٰ حضرت سلیمانؑ ڪی روح پاڪ ڪو ابدی سڪون عطا فرمائیں آمین ۔
دعاوں ڪی ددخواست ہے ۔ بـــدر علی ھـــوت