جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کا چمٹنا کہا جاتا تھا اور ان بدروحوں کو نکالنے کے لئے چرچ لے جا کر سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھی، اس وقت مسلمان عراق میں بیٹھے جدید کیمسٹری اور ادویات کی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے،
جہاں ابن سینا "القانون فی الطب” کو تحریر کررہا تھا جسے آگے جاکر ایک ہزار سال بعد اکیسویں صدی میں بھی پڑھا جانا تھا، وہیں جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے اگلے سات سو سال تک کیمسٹری کی بائیبل کا خطاب ملنا تھا، وہ اس وقت ایسا تیزاب (Salphuric acid) بنا رہا تھا، جس کی پیداوار کسی ملک کی صنعتی ترقی کی عکاسی کہلانی تھی، وہیں مسلمان سیاح دنیا گھوم رہے تھے، مسلمان ماہر فلکیات (Astrologist) اپنا حصہ ڈال رہے تھے، کبھی اسپین کو صاف ترین شہر بنا رہے تھے، تو کبھی بغداد کو علم کا گہوارا بنا رہے تھے، تو کہیں نئے علاقے فتح ہورہے تھے،
اس ترقی کی وجہ ان کا اپنے نصاب یعنی قرآن و حدیث کی پیروی کرنا اور دینی علوم کے ساتھ تمام دنیاوی علوم کو ساتھ لے کر چلنا تھا، اور تمام تر ہنر مندوں کو اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کیلئے استعمال کرنا تھا.
پھر وقت بدل گیا ہمارے "اقابرین” کوے کے حلال و حرام پر مناظرے کرنے لگے، اور ہم نے اپنے نصاب میں وہ علوم شامل کردیے، جن میں نہ ہماری دنیوی ترقی تھی نا آخرت کی کامیابی، جہاد اور مجاہدین ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہونے لگے، کھیرے، ککڑی، کیلے، مسواک کا سائز، ہمارے اہم مسائل میں شامل ہوگئے،آمین تیز آھستہ پڑھنے پر کفر کے فتوے لگناشروع ھوگئے۔فرض کے بعد دعاجائز ھے ناجائزھے پر جھگڑے ھونے لگے۔اور پھر ھلاکوخان چنگیزی فوج نے مسلمانوں کے سروں سے فٹ بال۔کھیلے اور کوپڑیوں کے مینارکھڑے کردئے۔علمی کتابیں دریامیں بہادئے گئے۔اور مسلمان ایک ھزار سال پیچھے چلے گئے۔اور آج پھر وھی صورتحال ھیں
اور آج ہم اس حیرانگی کا شکار ہیں کہ "تبدیلی آ کیوں نہیں رہی۔”
جبکہ ھماراعلمی معیار یہ ھے کہ ھم لارڈ میکالے کے نصاب سے باھر ھی نہیں نکل سکے۔یا اللہ تمام امت مسلمہ کے حال پر اپنا کرم فرمإ