امریکا کی دریافت
مشرق وسطیٰ کی پالیسی کونسل نے 540 صفحات پر مشتمل کتاب عرب ورلڈ اسٹڈیز نوٹ بک شاءع کی ، جو کہ نوجوان امریکی طلباء کے لیے عرب ثقافت کو پیش کرنے کے لیے استاد کا درجہ رکھتی ہے، پانچ سال قبل شاءع ہونے والی اس کتاب کے متن میں ایک عنوان موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ;;ابتدائی مسلم دنیا بھر میں تحقیق ،کولمبس سے پہلے نئی دنیا میں مسلمانوں کے پہنچنے کا ثبوت ۔ اس کتاب کے متن میں کہا گیا ہے کہ عرب مسلمان ایکسپلورریا سیاح کولمبس سے پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے، انہوں نے الگونکوئن انڈین سے شادی کی ۔ ان ابتدائی شادیوں نے جواولاد پیدا کی جو 17 ویں صدی تک عبدالرحیم اور عبداللہ ابن مالک کی طرح الگونکوئن کے سردار بن گئے ۔ مگر امریکا میں اس کتاب کو افسانونی کہا جاتا ہے، جو صرف عربوں کو امریکہ میں گھر دینے کے لیے بنائی گئی ہے ، تاکہ انہیں امریکی تہذیب کی بنیاد کا حصہ بنایا جا سکے ۔ کیا عرب مسلم امریکی تہذیب کے بانی ہیں ، یا نہیں ، مگراس طرح عربوں کو امریکی ہندوستانیوں سے جوڑا جا رہا ہے، سب جانتے ہیں کہ 12اکتوبر 1492 کو امریکہ کرسٹو فر کولمبس نے دریافت کیا جسے اسپین کے بادشاہوں اور جینوا کے بینکروں نے مالی اعانت فراہم کی ۔ اپنے جرنل آف دی ڈسکوری میں ایڈمرل نے 139 مرتبہ لفظ ;سونا اور خدا یا ;ہمارا رب; 51 الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ ماہر بشریات نے ثابت کیا ہے کہ منسا موسیٰ کی ہدایات کے تحت منڈینکوس نے شمالی امریکہ کے بہت سے حصوں کو مسیسیپی اور دیگر دریاؤں کے نظام کے ذریعے دریافت کیا ۔ ایریزونا کے چار کارنرز میں ، تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ افریقہ سے اس علاقے میں ہاتھی بھی لائے تھے ۔ کولمبس نے خود اعتراف کیا کہ پیر 21 اکتوبر 1492 عیسوی کو جب اس کا جہاز کیوبا کے شمال مشرقی ساحل پر جبرا کے قریب سفر کر رہا تھا ، اس نے ایک خوبصورت پہاڑ کی چوٹی پر ایک مسجد دیکھی ۔ کیوبا ، میکسیکو ، ٹیکساس اور نیواڈا میں مساجد اور میناروں کے کھنڈرات جن میں قرآنی آیات کے شہواد موجود تھے، اکتوبر 1492 کو کولمبس نے اپنے جریدے میں لکھا کہ وہ کچھ ہندوستانیوں کو اسپین لے جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اسپینش زبان بولنا سیکھ سکیں ۔ موَرخین کے درمیان ایک قائم شدہ ، لیکن زیادہ عام معلومات نہیں ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ان ممالک کے لوگوں سے رابطہ تھا جنہیں اب امریکہ کہا جاتا ہے ۔ کولمبس سے 600 سال پہلے امریکہ میں مسلمانوں کی آمد کے بہت سارے ریکارڈ اور شواہد موجود ہیں ۔ مگر تاریخ کو ایک بار پھر مجبور کیا گیا کہ وہ پھر سے امریکا دریافت کر ے ،تاریخ دانوں نے تصدیق کی ہے کہ مسلم قوم کے سنہرے دنوں کے دوران ، مسلمان بحری جہاز بحر اوقیانوس پر چل رہے تھے ، جو اس وقت بحر نا انصافی کے نام سے جانا جاتا تھا ، اور وہ مغرب کی طرف سفر کر رہے ہو تے تھے،جس کا واضح ثبوت ، پیری محی ایدئن دین کا کا وہ نقشہ ہے جس میں 1513امریکا مغربی سمت میں مو جود ہے، 889 عیسوی میں خوشخش بن سعید بن اسود القر طوبی جس کا تعلق ہسپانیہ سے تھا، پالوس کی بندرگاہ سے سفر کرتے ہوئے مغرب میں موجود زمین پر پہنچا ، اورایک بڑے خزانے کے ساتھ واپس لوٹا، اس نے بحر اوقیانوس کے ان علاقوں کو ;نامعلوم سرزمین;; کہتے ہوئے دنیا کا نقشہ تیار کیا ۔ مسلم جیو لوجیکل و تاریخ دان المسعودی نے اپنی کتاب ;;مرج;;الذہب و مدین الجواہر (956 ;6568;) میں کہ ہے کہ مہم جوئی کرنے والوں نے اپنی زندگی کے خطرناک سفر کے دوران انہیں مغربی سمندر میں گھیر لیا، جس میں سے کچھ کوشش میں ہلاک ہو گئے ہیں ۔ ایسا ہی ایک شخص فن اندیشی کا باشندہ تھا جس کا نام خاشقش تھا ۔ وہ قرطبہ کا ایک نوجوان تھا جس نے نوجوانوں کا ایک گروہ جمع کیا اور اس سمندر پر مغربی سمت میں بحری سفر کیا اور ایک طویل عرصے کے بعد وہ ایک شاندار غنیمت کے ساتھ واپس آیا ۔ ہر ہسپانوی (اندلس) اس کی کہانی جانتا تھا ۔ فروری 999 عیسوی میں مسلم اسپین کے گریناڈا سے ابن فرخ گانڈو (عظیم کینری) میں اترے ، شاہ گواناریگا کا دورہ کیا اور مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ اسے دو جزیرے ملے، جنہیں اس نے کیپیریا اور پلویتانا کہا ۔ وہ اسی سال مئی کے مہینے میں واپس اسپین پہنچا ۔ بارہویں صدی عیسوی میں ، شمالی افریقی ملاحوں کا ایک گروہ: مشہور عرب جغرافیہ دان الشریف ال ادریسی کے مطابق (1097;1155) مغربی زمین دریافت کرنے اس کی حد ناپنے جن کی تعداد آٹھ افراد تھی، مغرب کا سفر کیا، وہ گیارہ دن تک سفر کرتے رہے یہاں تک کہ وہ بڑی لہروں اور تھوڑی روشنی کے ساتھ ہنگامہ خیز پانیوں تک پہنچ گئے ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ ہلاک ہو جائیں گے لہذا انہوں نے اپنی کشتی کو جنوب کی طرف موڑ دیا او،مزید ر بیس دن کا سفر کیا ۔ وہ بالآخر ایک جزیرے پر پہنچ گئے جس میں لوگ اور کاشتکاری تھی، مگر انہیں وہاں پکڑ لیا گیا ۔ چوتھے دن ایک مترجم جو عربی زبان بول رہا تھا! اس نے مقامی بادشاہ کے لیے ترجمہ کیا اور ان سے ان کے مشن کے بارے میں پوچھا ۔ مگر پھر مغربی ہوا چلنے پر تین دن کی کشتی رانی کے بعد زمین پر لایا گیا ۔ انہیں ساحل پر چھوڑ دیا گیا تھا ان کے ہاتھ ان کی پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے ، جب اگلے دن آیا تو ایک اور قبیلہ ان کو آزاد کرتا ہوا دکھائی دیا اور انہیں آگاہ کیا کہ ان کے اور ان کی زمینوں کے درمیان دو ماہ کا سفر ہے ۔ 1310 عیسوی میں ، ابوبکرجو، مالین سلطنت کا بادشاہ تھا ، اس نے افریقی اسلامی سلطنت مالی کے عالمی شہرت یافتہ حکمران مانسہ موسیٰ نے پڑوسی سمندر کی حدود کو دریافت کرنے کے لیے بحر اقیانوس میں سفر کیاجسے شہنشاہ نے 1324 میں اپنے مشہور حج کے موقع پر بیان کیا ۔ اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ مالی اور مغربی افریقہ کے دیگر حصوں (مینڈنگا) سے 1312 کے لگ بھگ مسلمان خلیج میکسیکو پہنچے ۔ انہوں نے دریائے مسی سیپی کے اندرونی حصہ کودریافت کیا اور رسائی کے راستے کے طور پر استعمال کیا،1421 میں چینگ ہی افسانوی چینی ایڈمرل جو مسلمان تھانے پندرہویں صدی میں دنیا بھر کا سفر کیا ۔ برطانوی سمندری تاریخ دان گیون مانزیز نے اپنی کتاب ’’1421 سال چین نے امریکہ کو دریافت کیا‘ میں ثابت کیا کہ چینگ کولمبس سے اکتر سال قبل امریکا دریافت کر چکا تھا ۔ ایک چینی تاریخی دستاویز جسے سنگ دستاویز کہا جاتا ہے میں کہا گیا ہے کہ ، 1178 میں مسلمان ملاحوں کا ایک علاقہ جس کا نام نیو دنیا میں ہے جس کا نام پی لان مو ہے ۔ امریکہ کا پہلا نقشہ عثمانی احمر اور بحر ہند کے بیڑے کے انچارج مشہور ترک ایڈمرل پیری محی الدین ریس نے 1513 میں بنایا اور اسے سلطان سیلم اول کے سامنے پیش کیا ۔ حالانکہ اس وقت تک کولمبس کی مہم شروع بھی نہیں ہوئی تھی،مگر نقشے میں کیریبین اور دیگر علاقے دکھائے گئے تھے، لہذا یہ منطقی ہے کہ عثمانی ایڈمرل ان علاقوں سے اچھی طرح واقف تھا، وہ ایک مشہور نیویگیٹر اور نقشہ ساز تھا اور اس نے ایجیئن اور بحیرہ روم کے سمندروں پر ایک کتاب بھی لکھی جسے پیری ریئس بہری کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ تاریخ میں ہے کہ امریکی سرزمین کو دیکھنے والے پہلے عیسائی ، روڈریگو ڈی ٹریانا یا روڈریگو ڈی لیپے ، اسپین واپسی پر مسلمان ہو گئے تھے ، کیونکہ کولمبس نے انہیں نہ تو کریڈٹ دیا اور نہ کوئی صلہ ، جس کا مطلب صاف ہے کہ کولمبس کے امریکا سفر سے پہلے ہی حیران کن ان گنت ثبوت موجود ہیں کہ مسلمانوں نے کولمبس سے پہلے امریکہ کو دریافت کر لیا تھا اور درحقیقت کولمبس نے خود امریکہ پر بھی قدم نہیں رکھا وہ ہندوستان جاتے ہوئے کیریبین جزائرجا پہنچا ۔ ابو الحسن المسعودی ایک مسلمان جغرافیہ نگار اور مورخ تھا جس نے اپنے ایک سفر میں اندلس سے لکھا کہ خاکش ابن سعید ابن اسود کا ایک سفر تھا جو اس نے ڈیلبا (پیلوس) سے مغرب کی طرف کیا ، پورے ایک مہینے سفر کے بعد بالآخر زمین کے ایک بہت بڑے میدان میں آیا ۔ انہوں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ تجارت بھی کی اور واپس اندلس واپس آئے ۔ اس نے اس زمین کو نامعلوم سر زمین یا تاریکی دھند میں بحر اقیا نوس کے سمندر کا زمینی علاقہ کا نام دیا، ابن فرخ جو اندلس کا ایک اور ایکسپلورر ہے اسے بھی امریکہ کی دریافت کا سہرا دیا جاتہے ۔ عمر الگواتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ابن فرخ قادش سے بحر اوقیانوس کی طرف روانہ ہوا اور سال 999 میں عظیم کینری جزائر میں اترا ، اس نے وہاں کے مقامی حکمران کنگ گواناریگا سے بھی ملاقات کی ۔ پھر اس نے مغرب کی طرف گنتی کی جہاں اس نے دو اور جزیروں کو دیکھا جسے اس نے کیپیریا اور پلوٹینیا رکا نام دیاجو اسپینی زبان میں موجود ;34;ریسومین ڈی لا جیوگرافیا فیسیکا و پولیٹیکا و ڈی لا ہسٹوریا نیچرل و سول ڈی لاس آئسس کیناری میں درج ہے،کیا کوئی درست طریقے سے امریکہ کا سفر بھی کرسکتا ہے وہ ا سپین کا مشہور نقشہ ساز محمد ال ادریسی ہی تھا ۔ جس نے سفر کے بعد انتہائی درست وضاحتیں لکھیں جو صرف امریکہ میں جانے والا ہی لکھ سکتا تھا ۔ ذیل میں اس نے کیا لکھا ہے،وہ امریکا کے بارے میں لکھتا ہے کہ سمندر میں بارہ دن مزید سفر کرنے کے بعد انہوں نے ایک جزیرہ دیکھا جو آباد تھا وہاں کاشت شدہ کھیت تھے ۔ مگریہاں انہیں بارکوں نے انہیں گھیر لیا اور انہیں قیدی بنالیا، اور انہیں ساحل پر واقع ایک دوسری بستی میں پہنچا دیا ۔ جہاں سرخ جلد والے لوگ تھے، ان کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے ، ان کے سر کے بال سیدھے تھے ، اور وہ اونچے قد کے تھے ۔ ان کی عورتیں غیر معمولی خوبصورت تھیں ۔ ادریسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہاں عربی بولنے والا ایک مقامی باشندہ تھا، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس نے وہاں بھیڑ جیسے جانور دیکھے، جو افریقہ اور اسپین سے ہی لائے جا سکتے تھے، اس کے علاوہ لسانی ثبوت بھی موجود ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو مقامی لوگوں کی ثقافت سے جوڑتے ہیں ۔ کولمبس جس جزیرے پر اترا تھا اسے اصل میں منڈیکا جزیرے والوں نے گوانانی کہا تھا ۔ کچھ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ لفظ گوانانی ایک عربی لفظ سے آیا ہے اور اسے یہ نام مسلمان ملاحوں نے اس وقت دیا جب انہوں نے مقامی لوگوں سے شادی کی تھی ۔ گانا کا مطلب ہے بھائی اور عربی میں ہانی کا مطلب ہے ;ایک خیال کو جنم دینا;، لہذا بنیادی طور پر گوانانی کا مطلب ہے ;ہانی بھائی; مشرق وسطیٰ پالیسی کونسل کے مطابق ایک درسی کتاب شاءع کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان متلاشی کولمبس سے پہلے امریکہ آئے اور الگونکوئن انڈینز کے ساتھ شادی کی اور کچھ قبائلی لوگوں کے اصل نام عبدالرحیم اور یہاں تک کہ عبداللہ ابن ملک بھی تھے ،نیز لویسا اسابیلا کے سالوں کے دوران پائی جانے والی دیگر دستاویزات کے مطابق ، ڈچس آف مدینہ سیڈونیا کا کہنا ہے کہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ کولمبس کے وجود سے پہلے ہی اندلس اور مراکش کے مسلمان امریکہ سفر کر چکے تھے، شمالی اور جنوبی امریکہ میں متعدد آثار قدیمہ موجود ہیں کہ منڈینکا (مالی کے لوگ) وہاں موجود تھے ۔ دریافت شدہ دستاویز میں ایک ہاتھی کی ڈرائنگ موجود تھی، اور نیچے لکھا تھا کہ یہاں لا کر;;ہاتھی بیمار اور ناراض ہیں ۔ جو امریکا باہر سے لائے گئے ۔ ڈاکٹر بیری فیل کے نام سے ایک سمندری ماہر حیاتیات نے بتایا کہ اسے کولمبس کے زمانے سے پہلے ایک اسلامی پیٹروگلیف ملا جس میں کہا گیا تھا کہ ;34;یاسس ابن ماریہ (عیسیٰ بن مریم) ، یہ فارسی قرآن میں بہت عام ہے ۔ اور ابن عربی زبان میں کا مطلب ہے ;بیٹا ۔ ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی ایک فارسی عالم تھے جنہوں نے ریاضی ، فلکیات ، معدنیات ، جغرافیہ ، کارٹوگرافی ، جیومیٹری اور مثلث کے مضامین میں مہارت حاصل کی تھی ۔ اسے امریکہ کی دریافت کا سہرا بھی دیا جاتا ہے ۔ لیکن اس کی دریافت جہاز پر نہیں بلکہ اس کی میز پر کی گئی تھی ۔ بیرونی نے یہ دریافت نئی دنیا کے وجود کے بارے میں 1037 تک کی ، ان کی بنیاد ان تحقیق پر مبنی تھی ، 1929 میں ترکی میں ایک حیرت انگیز نقشہ دریافت ہوا،جو کولمبس کے سفر سے اکیس سال قبل تیار کیا گیا تھا، آج تک تاریخ دانوں کو حیران کرتا ہے ۔ اس میں واضح طور پر جنوبی امریکہ اور افریقہ کے مشرقی حصے کو صحیح پوزیشن اور فاصلے پر دکھایا گیا ہے، جس میں جنوبی امریکہ کے ملک برازیل کے دریاؤں کو بڑی درستگی اور تفصیل موجود ہے، امریکن یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں نباتیات کے پروفیسرللن ہوئی کی طرف سے دریافت دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ جہاز سے آنے والے کرسٹوفر کولمبس سے پہلے اسلامی دنیا امریکہ پہنچ چکی تھی،، جہاں وہ مختلف قسم کے پودے بھی ساتھ لائے ۔ یہ تھیوری نوسال کی تحقیق کا ثمر تھی جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسلمان خطے میں انناس ، کدو اور ہندوستانی مکئی ، جو امریکہ کے کچھ حصوں سے مطابقت رکھتی ہے ۔
جب کولمبس نے امریکہ کا سفر کیا تھا اسی سال اسپین پر حکمرانی کرنے والا آخری مسلم خاندان بے رحم انداز میں اسپین سے اقتدار سے الگ کیا گیا، کہتے ہیں کہ کولمبس جس خانقاہ میں رہتا تھا وہاں ایک مسجد موجو د تھی،یہیں اس نے مسلمان ملاحوں کے نقشے دیکھے ۔ سفر کے دوران اس نے وہ ہی آلات استعمال کیے جو مسلمانوں نے پیچھے چھوڑے تھے جیسے سیکسٹن اور ایسٹرو لیب ۔ بیشتر علمانے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کا گائیڈ ایک ہسپانوی مسلمان تھا ۔ اور کولمبس کے ساتھ سفر میں اسکے ساتھ بہت سے مور موجود تھے، جنہیں کیتھولک مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا یہ بھی ممکن ہے کہ کولمبس نے مسلمانوں کی کسی نامعلوم سرزمین پر جانے کی کہانیاں سنی ہوں ، مگر جب وہ امریکا پہنچا تو اندلس کے بہت سے لوگوں نے مقامی لوگوں سے عربی میں بات چیت کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے بیٹے فرڈیننڈ کا دعویٰ ہے کہ کولمبس کو جینوا (اٹلی) میں مسلمان جہاز والوں سے علم ہوا کہ دنیا کے مغربی کنارے پر ایک براعظم ہے ۔ یہاں تک کہ کولمبس حقیقت جانتا تھا ۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور امریکی مورخ اور ماہر لسان ویوینر اپنی کتاب ;;افریقہ اور دی ڈسکوری آف امریکہ;; (1920) میں لکھتے ہیں کہ کولمبس نئی دنیا میں منڈینکا کی موجودگی سے بخوبی واقف تھا اور یہ کہ مغربی افریقی مسلمان پوری دنیا میں پھیل چکے تھے ۔ کیریبین ، وسطی ، جنوبی اور شمالی امریکی علاقے ، بشمول کینیڈا ، جہاں وہ نئے ہندوستا نیوں کے ساتھ تجارت اور باہمی شادیاں کر رہے تھے ۔ جب کولمبس امریکہ پہنچا تو اس نے پہلے ہی زمین پر مسلمانوں کے اثر کو محسوس کیا ۔
1498 میں کولمبس نے بیان کیا کہ اس نے سامان سے لدے ایک جہاز کو دیکھا جو امریکہ کی طرف جا رہا تھا ، جو کہ افریقیوں سے بھرا ہوا تھا جو مقامی لوگوں کے ساتھ تجارت کے لیے جا رہے تھے ۔ یہاں تک کہ کولمبس کو بھی معلوم تھا کہ وہ امریکہ جانے والا پہلا شخص نہیں تھا ۔
ترکی کے صدر طیب ایردوان بھی کہ چکے ہیں کہ مسلمانوں نے کرسٹوفر کولمبس سے تین صدیوں پہلے امریکہ دریافت کر لیا تھا، پروفیسر یاوز نے 1934 کے ایک شمارے میں ایک مضمون کی طرف اشارہ کیا ۔ امریکہ کی دریافت میں ترکوں کی خدمت;; کے عنوان سے مضمون میں مصنف میرالی عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ;روڈریگو;; نامی ایک خاص فرد کولمبس کو نئی دنیا کی تلاش میں مدد کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ مبینہ روڈریگو ، جو آخری وقت میں کولمبس مشن میں شامل ہوا ، نے کپتان کو مشورہ دیا کہ کہاں جانا ہے اور اس کی تمام پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں ۔ نئی دنیا اس کی حکمت کی بدولت ملی ۔
ختم شدہ