آکسجن ایک بے رنگ,بے بو اور بے ذائقہ گیس ہے. یہ ہماری بقا کے لیے نہاہت ہی ضروری عنصر ہے.ہم پانی کے بغیر کئ دن زندہ رہ سکتے ہیں لیکن آکسجن کی غیر موجودگی میں ہم پانچ منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتے.جو ہوا ہم سائنس کے ذریعے جسم میں لے جاتے ہیں,یہ ہوا دراصل آکسجن ہوتی ہے اور جو گیس ہم سانس کے ذریعے باہر خارج کرتے ہیں اس ہوا کو کاربن ڈائ آکسائیڈ کہتے ہیں.سانس کے ذریعہ جسم میں آکسجن کا داخل ہونا اور کاربن ڈائ آکسائیڈ کا جسم سے خارج ہونے کے عمل کو ریسپائریشن کہتے ہیں.آپ کے ذہن میں شاید یہ سوال بھی آتا ہوگا کہ ہمیں آکسجن کی کیوں ضرورت ہوتی ہے یا آکسجن ہماری بقا کے لیے اتنی کیوں ضروری ہے.اسکا جواب دینے کے لیے ایک مثال فرض کرتے ہیں.مثال کے طور پر آپ لکڑی سے حرارت یعنی انرجی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم لکڑی(فیول) سے کیسے حرارت حاصل کرسکتے ہیں,اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم لکڑی کو جلائیں گے یعنی اس کو گرم کریں گے اور اس عمل کو کمبسچن کہتے ہیں.جب لکڑی جلے گی تو ہم حرارت اور روشنی(آگ) حاصل ہوگی.لیکن یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ لکڑی سے حرارت حاصل کرنے یعنی لکڑی کو جلنے کے لیے بھی ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے آکسیجن.فرض کریں کہ لکڑی کو آپ ایسی جگہ جلاتے ہیں جہاں آکسجن باکل بھی نہیں ہے تو لکڑی کو آگ نہیں لگے گی یعنی لکڑی نہیں جلے گی اور ظاہر ہے کہ جب لکڑی نہیں جلے گی یعنی آگ نہیں پکڑے گی تو ہم حرارت کیسے حاصل کرسکتے ہیں.اسکا مطلب یہ ہے کہ لکڑی سے حرارت یعنی انرجی حاصل کرنے کے ہمیں آکسجن کی ضرورت ہے.آکسجن کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی لکڑی آگ پکڑے گی اور اتنی زیادہ حرارت پیدا ہوگی جس کو ہم اپنے مقصد کے لیے استعمال کرپائیں گے.یہاں پر لکڑی ایک فیول ہے یعنی جس کو جلا کر ہم حرارت حاصل کرسکتے ہیں لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ صرف لکڑی کو جلا کر ہی ہم حرارت یعنی انرجی حاصل کرسکتے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جیسا کہ کوئلہ,ڈیزل,تیل اور قدرتی گیس وغیرہ جس کو جلانے سے ہم حرارت حاصل کرتے ہیں اور اس حرارت کو ہم کارآمد مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں.اس مثال سے ہم یہ سمجھے کہ لکڑی یا کوئ بھی دوسرے فیولز سے حرارت حاصل کرنے کے لیے ہمیں آکسجن کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے جسم میں جو خوراک ہے,اس سے کیسے انرجی حاصل کرتے ہیں.جس طرح لکڑی کا جلنے کے عمل کو کمسچن کہتے ہیں اور اس کے لیے آکسجن کی ضرورت ہوتی ہے اور نتیجہ کے طور پر ہمیں حرارت یا انرجی حاصل ہوتی ہے جس کو ہیٹ انجن میں استعمال کر کے بڑی بڑی گاڑیوں کو حرکت دی جاتی ہے,اسی طرح ہمارے جسم میں موجود سیلز خواراک سے انرجی حاصل کرتے ہیں تاکہ اسکو استعمال کر کے مختلف افعال انجام دے پائیں اور یہاں بھی خوراک(گلوکوز) سے انرجی حاصل کرنے کے لیے آکسجن کی ضرورت ہوتی ہے اس عمل کو سیلولر ریسپائریشن کہتے ہیں.اس عمل میں خوراک میں موجود نیوٹرینٹس کو جب آکسجن کی مدد سے توڑا جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں انرجی پیدا ہوتی ہے جس کو سیلز ایک ATP نامی مالیکیولز میں سٹور کرلیتے ہیں.اس کے ساتھ پانی اور بائے پراڈکٹ کے طور پر کاربن ڈائ آکسائیڈ خارج ہوتی ہے جو ہم سانس کے ذریعہ باہر خارج کرتے ہیں.اس کے برعکس پودوں میں فوٹو سنتھیسز کا عمل ہوتا ہے جس میں وہ کاربن ڈائ آکسائیڈ کی بجائے آکسجن خارج کرتے ہیں اور کاربن ڈائ آکسائیڈ کو گلوکوز بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں.رات کو وہ آکسجن خارج نہیں کرتے کیونکہ رات کو سورج کی روشنی نہیں ہوتی اور سورج کی روشنی کی غیر موجودگی میں فوٹو سنتھیسز کا عمل نہیں ہوتا .کیا آپ جانتے ہیں کہ ماضی میں ، کیمیادانوں نے "آکسیڈیشن” کی اصطلاح کو اس رد عمل کی وضاحت کرنے کے لئے استعمال کیا تھا جس میں آکسیجن دوسرے عنصر کے ساتھ ملتی ہے یعنی کیمائ تعامل کرتی ہے ۔ آکسیجن کو "آکسائڈائزر” کہا جاتا تھا ، اور کہا جاتا تھا کہ دوسرے عنصر کو "آکسائڈائزڈ” کہا جاتا تھا ۔ بعد میں ، "آکسیڈیشن ” کی اصطلاح کی وضاحت کسی عنصر کے ذریعہ (رد عمل کے دوران) الیکٹرانوں کے نکلنے یا خارج ہونے کے لئے کی گئی تھی۔
آکسیجن کائنات میں پایا جانے والا تیسرا بڑا عنصر ہے جو سب سے زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے اور ہم زمین پر پایا جانے والا دوسرا بڑا عنصر ہے.آپ نے شاید اووزن کا نام سنا ہوگا جس کا کیمکل فارمولا O3 ہے.یہ دراصل آکسجن کی ایک ایلوٹروپک فارم ہے جس میں آکسجن کے تین ایٹمز مل کر ایک مالکیول بناتے ہیں.یہ دراصل ایک تہہ ہوتی ہے جو ہمارے ایٹمو سفیر یعنی کرہ ہوائ سے اوپر موجود ہوتی ہے.ہم جانتے ہیں کہ سورج روشنی اور حرارت کا سب سے بڑا منبع ہے.لیکن اس کے علاوہ سورج سے نقصان دہ شعاعیں بھی نکلتی ہیں جن کو الٹروائیلٹ ریڈی ایشنز کہا جاتا ہے.یہ شعاعیں زمین تک نہیں پہنچ پاتیں کیونکہ کرہ ہوائ کے اوپر موجود اووزن کی تہہ ان نقصان دہ ریڈی ایشنز کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے.
دریافت
ہوا کیا ہے؟ قدیم لوگ اس سوال کے بارے میں گہرای سوچتے تھے۔ اور یہ حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ یہ دیکھنا آسان ہے کہ بہت سارے عمل کے لئے ہوا کتنی ضروری ہے۔ آبجیکٹ ہوا کے بغیر نہیں جل سکتے۔ انسانی ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ در حقیقت ، قدیم لوگوں کا خیال تھا کہ ہوا "عنصر” ہے۔ لیکن انہوں نے جدید سائنسدانوں کی نسبت "عنصر” کا لفظ مختلف انداز میں استعمال کیا۔ قدیم لوگوں کے نزدیک ایک عنصر ایسی چیز تھی جو بہت اہم اور بنیادی تھی۔وہ آگ,ہوا پانی اور مٹی کو عنصر سمجھتے تھے ان کا یہ خیال باکل غلط تھا.کیونکہ جدید سائنس سے ہمیں علم ہے کہ پانی ایک مرکب ہے نہ کہ عنصر اسی طرح ہوا مختلف گیسوں بالخصوص آکسجن اور نائیٹروجن کا مکسچر ہے.
چینی اسکالروں نے آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں ، ہوا کے بارے میں سوچا تھا کہا اس کے دو حصے ہیں۔ انہوں نے ان حصوں کو ہوا کا "ین” اور "یانگ” کہا۔ چینی ین اور یانگ کی خصوصیات کا موازنہ آکسیجن اور نائٹروجن کی خصوصیات سے کیا جاسکتا ہے۔
مغربی یورپ میں ہوا کے "ہوا کے حصہ ” کو بیان کرنے والا پہلا شخص اطالوی فنکار اور سائنسدان لیونارڈو ڈ ونچی (1452-1519) تھا۔ لیونارڈو نے نشاندہی کی کہ جب اس میں کوئی چیز جل جاتی ہے تو ہوا کا مکمل استعمال نہیں ہوتا ہے یعنی جلانے میں مکمل ہوا استعمال نہیں ہوتی بلکہ اسکا ایک حصہ ہوتا(جو کہ ظاہر کہ وہ حصہ آکسجن ہی ہے) ۔ انہوں نے کہا کہ ہوا کو دو حصوں پر مشتمل ہونا چاہئے: ایک حصہ جو جلانے یعنی کمبسچن میں مدد دیتا ہے اور دوسرا حصہ اس عمل میں حصہ نہیں لیتا اور آج ہمیں علم ہے کہ وہ حصہ دراصل نائیٹروجن ہے جو ہوا کا 78 فیصد حصہ پر مشتمل ہوتی ہے.
بہت سالوں سے ، لیونارڈو کے نظریات علماء کے مابین زیادہ مقبول نہیں تھے۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ابتدائی کیمیا دانوں کے پاس بہت اچھا سامان نہیں تھا۔ ان کے لئے ہوا کے نمونے جمع کرنا اور پھر اس کا مطالعہ کرنا مشکل تھا۔
جوزف پریسلی۔
1700 کی دہائی کے اوائل میں ، کیمیادانوںہ نے ہوا کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا شروع کیں۔ مثال کے طور پر ، 1771 اور 1772 میں ، شیل نے متعدد مختلف مرکبات پر حرارت کے اثر کا مطالعہ کیا۔ ایک تجربے میں ، اس نے سلور کاربونیٹ (Ag 2 CO 3) ، مرکری کاربونیٹ (HgCO 3) ، اور میگنیشیم نائٹریٹ (Mg (NO 3) 2) استعمال کیا۔ جب اس مرکبات کو گرم کیا تو اس نے پایا کہ ان تینوں مرکبات کو جب جلایا جاتا ہے یعنی گرم کیا جاتا ہے تو ان تینوں میں سے ایک ہی قسم کی گیس خارج ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس نے اس گیس کی خصوصیات کا مطالعہ کیا۔ اسے معلوم ہوا کہ یہ گیس جلانے کے عمل میں مدد دیتی ہے یعنی اسکی موجودگی میں آگ بھڑک آٹھتی ہے یہ جتنی زیادہ مقدار میں موجود ہوتی ہے اتنا ہی کسی فیول کو جلانے سے آگ کے بڑے شعلے پیدا ہوتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی پایا کہ اس گیس کی موجودگی میں جانور زندہ یعنی سانس لے پاتے ہیں۔
تقریبا دو سال بعد ، پریسلی نے اسی طرح کے تجربات کو ایک شعلے میں مرکری آکسائڈ (HgO) کو گرم کیا۔ کمپاؤنڈ ٹوٹ گیا ، جس میں مائع پارا دھات اور گیس پیدا ہوئی:
جب پریسلی نے نئی گیس کا تجربہ کیا تو اسے وہی خصوصیات ملی جو شیلے نے بیان کی تھیں۔
پریسلی نے اپنی تیار کردہ نئی گیس کو بھی سانس لینے کی کوشش کی۔ اس تجربے کی ان کی تفصیل اب مشہور ہوگئی ہے:
انٹونائن-لارینٹ لاوائسئر | فرانسیسی کیمسٹ
ایک نوٹین-لارینٹ لاوائسئر (1743-94) کو اکثر جدید کیمیا کا باپ کہا جاتا ہے۔ متعدد وجوہات کی بنا پر اسے یہ لقب دیا گیا ہے۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس نے جلنے یعنی کمنسچن کے عمل کی درست وضاحت کی۔
لاوائسئر کی تحقیق سے پہلے ، کیمیا دانوں کا خیال تھا کہ جلتی ہوئی چیز سے ایک مادہ ہوا میں چلا جاتا ہے یعنی ان کے خیال کے مطابق کوئ چیز اس لیے جلتی ہے یعنی آگ پکڑتی کیونکہ اس چیز میں سے ایک مادہ ہوا میں جاتا ہے ۔ انہوں نے اس مادے کو فلگسٹن کہا۔مثال کے طور پر جب لکڑی جلتی ہے تو اس میں ایک مادہ ہوا میں جاتا ہے.
لاوائسئر نے ظاہر کیا کہ یہ خیال غلط تھا۔ جب کوئی چیز جلتی ہے تو ، یہ دراصل ہوا میں آکسیجن کے ساتھ مل جاتی ہے۔ لاوائسیر نے کہا کہ دہن ، واقعی محض آکسیکرن ہے (جس عمل سے کسی چیز میں آکسیجن مل جاتی ہے)۔یعنی اس نے وضاحت کی کہ کسی چیز کا جلنا آکسجن کی موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے اگر آکسجن موجود نہاں ہوگی تو وہ چیز نہیں جلے گی.
اس دریافت سے کیمیا دانوں کو کیمیائی تبدیلیوں کو دیکھنے کا ایک نیا نیا طریقہ ملا۔ فلگسٹن تھیوری آہستہ آہستہ مرنا شروع ہوگیا۔ جدید کیمسٹری میں استعمال ہونے والے بہت سارے نظریات تیار ہونا شروع ہوگئے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ لاووائسیر کو اس انقلاب کا باپ کہا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں شیلے کو آکسیجن دریافت کرنے کا سہرا ملنا چاہئے۔ اس نے پریسلی سے پہلے اپنے تجربات مکمل کیے۔ لیکن اس کے ناشر شائیل کی رپورٹس کو چھاپنے میں بہت سست تھے۔ وہ دراصل پریسلی کی اطلاع کے بعد سامنے آئے تھے۔ لہذا زیادہ تر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ شیلے اور پریسٹلی کو آکسیجن دریافت کرنے کا سہرا بانٹنا چاہئے۔
نہ ہی شیلے اور نہ ہی پریسلی ان کی دریافت کی اہمیت کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں۔ یہ قدم فرانسیسی کیمسٹ ماہر انٹونائن-لارینٹ لاوائسئر (1743-94) نے اٹھایا تھا۔ لاوائسئر پہلا شخص تھا جس نے اعلان کیا کہ نئی گیس عنصر ہے۔ آکسیجن جلانے میں کس طرح شامل ہے اس کی وضاحت کرنے والا وہ پہلا شخص بھی تھا۔ اس کے علاوہ ، انہوں نے گیس کے لئے ایک نام تجویز کیا۔ یہ نام ، آکسیجن ، یونانی الفاظ سے نکلتا ہے جس کا مطلب ہے "تیزابیت” (آکسی-) اور "تشکیل” (-جن)۔ لاوائسیر نے اس نام کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ تمام تیزابوں میں آکسیجن ہوتا ہے۔ لہذا ، نیا عنصر "تیزاب کی تشکیل” کے لئے ذمہ دار تھا۔ تاہم ، اس سلسلے میں لاوائسیر غلط تھا۔ تمام ایسڈ میں آکسیجن نہیں ہوتا ہے.ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ درحقیقت آکسجن کی دریافت کا سہرا ان تینوں کیمیادانوں یعنی ولہم شیلے,پریسلی اور لاوائسئر کو جاتا ہے.
استعمالات
آکسجن کا ایک دلچسپ استعمال راکٹ فیول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.جب اس کو ہائیڈروجن کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو پانی بنتا ہے اور ساتھ بہت زیادہ مقدار میں انرجی(حرارت) پیدا ہوتی ہے جس کو راکٹ کو اوپر اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے(شکل میں دیکھا جاسکتا ہے).تجارتی پیمانے پر اس کا سب سے اہم استعمال دوسری دھاتوں بالخصوص سٹیل کی تیاری میں ہوتا ہے.سٹیل دراصل لوہے اور کاربن کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر آپس میں پگھلانے کے نتیجہ میں بنتا ہے.آکسیجن کا ایک اہم استعمال ٹارچ ویلڈنگ میں ہوتا ہے.ٹارچ ویلڈنگ ایک ایسا سلنڈر ہوتا ہے جس کو استعمال کر کے ہم دھاتوں کو کٹ کرسکتے ہیں اور پگھلا سکتے ہیں.اس سلنڈر میں عام طور پر ایک ایسیٹالین (C2H2) فیول کے طور پر استعمال ہوتی ہے جبکہ آکسجن گیس کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کمبسچن کے عمل کو تیز کرتی ہے یعنی اسکی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اتھالین کو جلانے سے اتنی ہی حرارت پیدا ہوگی جس کو ایک فلیم یعنی شعلہ کی صورت میں دھاتوں کو کاٹنے اور پگھلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے(شکل میں دیکھا جاسکتا).اس کے علاوہ میڈیکل فیلڈ میں اسکو آکسجن تھیراپی میں استعمال کیا جاتا ہے.دھواں کی بہت زیادہ آلودگی کا جہاں بہت زیادہ لکڑی جلتی ہے تو اس کے نتیجہ میں کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہوجاتی ہے جو خون کی نالیوں میں آکسیجن کو ہٹا دہتی اور سیلز کے فنکشنز میں چونکہ اسکا کوئ کام نہیں ہوتا ہے جس سے افراد کی موت واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے.اس لیے اسے مریضوں کی خون کی نالیوں میں کاربن مونو آکسائیڈ کو ہٹانے کے لیے اور ان میں آکسیجن ڈالنے کے لیے زبردستی آکسجن فورس کی جاتی ہے.اس کے علاوہ اگر مریضوں میں آکسیجن کی کمی واقع ہوجائے تو اس وجہ سے ان کی موت واقع ہونے میں چند منٹ ہی لگیں گے.جسم میں آکسجن کی مقدار کو پورا کرنے کے لیے ان کی آکسجن تھیراپی کی جاتی ہے یعنی ان کے جسم میں مصنوعی طریقہ سے یعنی سلنڈر کی مدد سے آکسجن کو ڈالا جاتا ہے.
آسوٹوپس
آکسیجن کے قدرتی طور پر پائے جانے والے آسوٹوپ میں تین ہیں: آکسیجن 16 ، آکسیجن 17 اور آکسیجن 18۔ آاسوٹوپس عنصر کی دو یا زیادہ شکلیں ہیں جس میں ان کا اٹامک نمبر ایک جیسا جبکہ اٹامک ماس مختلف ہوتا ہے.
آکسیجن کے پانچ تابکار آئسوٹوپس کو بھی جانا جاتا ہے۔ ایک تابکار آاسوٹوپ وہ ہوتا ہے جو ٹوٹ جاتا ہے اور تابکاری کی کچھ شکل دیتا ہے۔ تابکار آاسوٹوپس اس وقت تیار ہوتے ہیں جب ایٹموں پر بہت چھوٹے ذرات جیسا کہ پروٹانز اور نیوٹرانز کی بوچھاڑ کی جاتی ہے ایٹم ریڈیو ایکٹو ہوجاتا ہے ۔ آکسیجن کے کسی بھی تابکار آاسوٹوپ کا کوئی تجارتی استعمال نہیں ہے۔
آکسیجن کی تیاری
آکسیجن گیس حاصل کرنے کے لئے دو کلیدی طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ پہلے طریقہ میں مائع ہوا کی ڈسٹیلشن کی جاتی ہے یعنی مائع ہوا کو گرم کر کے بخارات میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر دوبارہ سے ان بخارات کو مائع حالت میں لایا جاتا ہے اس پراسس کو ڈسٹیلشن کہتے ہیں اس طرح یہ پراسس استعمال کر کے ہم ہوا سے آکسجن کو الگ کرسکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صاف ، خشک ہوا کو زاولائٹ سے گزرنا ہے جو نائٹروجن جذب کرتا ہے اور آکسیجن چھوڑ دیتا ہے۔ ایک نیا طریقہ ، جو اعلی طہارت کو آکسیجن دیتا ہے ، یہ جزوی طور پر قابل رسام سیرامک جھلی کے اوپر ہوا سے گزرنا ہے۔
لیبارٹری میں یہ پانی کے الیکٹرولیسیس سے بھی آکسجن کو الگ کیا جاتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پانی میں آکسیجن اور ہائیڈروجن موجود ہوتے ہیں سو جب کرنٹ گزارا جاتا ہے تو پانی ان اجزا میں ٹوٹ جاتا ہے.
بہتات
آکسیجن بنیادی طور پر فضا میں ایک عنصر کی حیثیت سے واقع ہوتی ہے۔ یہ ماحول کا 20.948 فیصد بناتا ہے۔ یہ پانی کی شکل میں سمندروں ، جھیلوں ، ندیوں اور برف کے ڈھکنوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ پانی کا تقریبا 89 فیصد وزن آکسیجن ہے۔ آکسیجن بھی زمین کی پرت میں سب سے وافر عنصر ہے۔ زمین میں اس کی کثرت کا تخمینہ لگ بھگ 45 فیصد ہے۔ اس سے یہ اگلے عام عنصر ، سلیکن کی نسبت دوگنا پرچر ہوجاتا ہے۔
آکسیجن ہر طرح کے معدنیات میں پایا جاتا ہے۔ کچھ عام مثالوں میں آکسائڈ ، کاربونیٹ ، نائٹریٹ ، سلفیٹ ، اور فاسفیٹس شامل ہیں۔ آکسائڈ کیمیائی مرکبات ہیں جن میں آکسیجن اور ایک اور عنصر ہوتا ہے۔ کیلشیم آکسائڈ ، یا چونا یا کوئلی لائم (CaO) ، اس کی ایک مثال ہے۔ کاربونیٹس ایسے مرکبات ہیں جن میں آکسیجن ، کاربن ، اور کم از کم ایک اور عنصر ہوتا ہے۔ سوڈیم کاربونیٹ ، یا سوڈا ، سوڈا راھ ، یا سالل سوڈا (Na 2CO 3) ، اس کی ایک مثال ہے۔ یہ اکثر ڈٹرجنٹ اور صفائی ستھرائی کے سامان میں پایا جاتا ہے۔
نائٹریٹ ، سلفیٹس ، اور فاسفیٹس میں آکسیجن اور دیگر عناصر بھی ہوتے ہیں۔ ان مرکبات میں شامل ززدیگر عناصر نائٹروجن ، سلفر ، اورفوسورس کے علاوہ ایک اور عنصر ہیں۔ ان مرکبات کی مثالیں پوٹاشیم نائٹریٹ ، یا نمک پیٹر (KNO 3) ہیں۔ میگنیشیم سلفیٹ ، یا ایپسوم نمکیات (MgSO 4)؛ اور کیلشیم فاسفیٹ (Ca 3 (PO4) 2)۔
حیاتیاتی اثرات
جیسا کہ شروع میں بیاں کیا گیا ہے کہ آکسجن ہماری بقا کے لیے انتہائ ضروری عنصر ہے اور اگر آکسجن سیلز کو نہ ملے تو وہ مرجائیں گے جس سے ہماری موت واقع ہوجائے گی.تاہم اس کی بہت زیادہ مقدار میں موجودگی میں سانس لینے سے ہمارے پیھپڑے تباہ ہوسکتے ہیں.
چند معلومات
اسکا کیمیکل سمبل 0 ہے.اس کا اٹامک نمبر 8 جبکہ اٹامک ماس 15.994amuہے.اسکا میلٹنگ پوائینٹ منفی 219 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ بوائلنگ پوائنٹ منفی 183 ڈگری سینٹی گریڈ ہے.یہ تقریباً تمام میٹلز جیسا کہ آئرن,سوڈیم,ایلومینیم وغیرہ سے کیمیائ تعامل کرتی ہے.
گیس حالت میں اسکا کوئ رنگ نہیں ہوتا البتہ جب یہ مائع حالت میں اسکا رنگ نیلا ہوتا ہے.