شیشی جیما Chichi Jima جاپان کا ایک جزیرہ ہے جو مین لینڈ جاپان سے تقریباً 980 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ 35 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل اس جزیرہ کی آبادی 2000 نفوس پر مشتمل ہے۔
لیکن آج ، پرامن نظر آنے والا یہ جزیرہ دوسری جنگ عظیم میں نہ صرف ایک خون آلود اور تباہ کن میدانِ جنگ تھا بلکہ ایک ایسا خوفناک راز اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھا ، جس کی یاد امریکی فوج کے لیے ہمیشہ ایک ڈراؤنے خواب کی مانند رہے گی۔
۔
جولائی 1944, جاپان کے خلاف امریکہ کی فل سکیل جنگ اپنے عروج پر تھی اور جاپان کو ایک کے بعد ایک محاذ پر شکست کا سامنا تھا۔
جزیرہِ شیشی جیما پر جاپانی فوج نے اپنی کچھ مظبوط ترین عسکری تنصیبات بشمول 2 ریڈیو ٹاورز قائم کررکھی تھیں اور یہ جزیرہ سٹریٹجک اعتبار سے جاپان کے لیے بہت اہم تھا۔۔۔
جاپانیوں کی کمیونیکیشن لائنز تباہ کرنے کے لیے امریکی افواج نے اس جزیرے پر موجود دونوں ریڈیو ٹاورز کو بمباری کرکے تباہ کردینے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔۔لیکن۔۔۔اس پورے جزیرہ کے چپے چپے پر جاپانیوں نے طیارہ شکن گنز کا جال بچھا رکھا تھا ۔ جزیرہ کی فضاؤں میں پہنچ کر مطلوبہ ہدف پر بم گرا پانا تو درکنار ، جزیرے کے قرب پھٹک پانا بھی کسی دشمن جہاز کے لیے آسان نہ تھا۔
لیکن تمام خطرات کے باوجود امریکہ نے بحرالکاہل میں تعینات اپنے طیارہ بردار بحری جہازوں سے اپنے جدید جنگی جنگی طیاروں کے سکوارڈنز کو شیشی جیما پر بمباری کے لیے بھیجنے کا آغاز کردیا۔۔۔۔لیکن زبردست جاپانی مزاحمت نے امریکی حملے کا رخ موڑ دیا اور کئی طیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد امریکہ نے حملہ چند دن کے لیے ملتوی کردیا۔
2 ماہ تک امریکی افواج بار با شیشی جیما کے ٹاورز کو تباہ کرنے کے لیے فضائی حملے کرتی رہیں مگر ہر مرتبہ انہیں کئی طیاروں اور پائلٹس کا نقصان سہنا پڑرہا تھا۔
ستمبر 1944 میں امریکی فضائیہ ایساہی ایک تازہ حملہ کرنے جارہی تھی۔۔۔۔
اس حملے میں 15 امریکی Avenger طیارے حصہ لے رہے تھے جنہوں نے امریکی ائیر کرافٹ کیرئیر USS San Jacinto سے پرواز کی تھی۔۔۔
ان طیاروں کے پائلٹس میں ایک 20 سالہ پائلٹ "جارج” بھی شامل تھا۔ جوکہ اس وقت امریکہ بحریہ کے سبھی پائلٹس میں سب سے کم عمر تھا۔
حملے کی صبح جارج اپنے ریڈیو آپریٹر ڈیل اور جہاز کے گنر ٹیڈ کے ساتھ جہاز میں سوار ہوا گروپ کے باقی طیاروں سمیت شیشی جیما کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔۔جاپانی طیارہ شکن گنز سے بچنے کے لیے وہ سب 8 ہزار فٹ بلندی پے پرواز کررہے تھے تاکہ وہ انکی حدِ ضرب سے باہر رہیں۔
لیکن۔۔۔ہدف کے قریب پہنچ کر ، بم گرانے کے لیے جارج کو اپنا طیارہ کم بلندی پر لانا ہی تھا۔۔۔اس نے ایک خطرناک غوطہ لگاتے ہوئے طیارے کو ٹھیک ، ایک ریڈیو ٹاور کی طرف بڑھایا اور طیارہ شکن گنز کی گولیوں کی بوچھاڑ میں حتیٰ الامکان طیارے کو ہدف کے نزدیک سے نزدیک لیجانے کی کوشش کرنے لگا ، اس دوران طیارہ یکے بعد دیکھے تین چار طیارہ شکن گولیوں کا نشانہ بنا۔۔۔اپنی آخری حد تک غوطہ لگانے کے بعد جارج نے بم گرا دیے جوکہ پہلی مرتبہ ٹاور کے اتنے نزدیک گرے کہ ٹاور کو اس بمباری سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور وہ آؤٹ آف ایکشن ہوگیا ۔
لیکن جارج کو اس خطرناک غوطہ زنی کی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی ، کئی طیارہ شکن گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد اب اس کے طیارے میں آگ لگ چکی تھی ، وہ کسی بھی لمحے دھماکے سے پھٹ سکتا تھا یا زمین بوس ہوسکتا تھا۔۔ جارج نے طیارے کا رخ فوراً جزیرے سے باہر، سمندر کی طرف موڑ دیا ۔۔۔ وہ سمندر میں پہنچ کر ایجیکٹ کرنا چاہتا تھا اور اس بات کو یقینی بنا رہا تھا کہ ایجیکٹ کرنے سے قبل جزیرے سے زیادہ سے زیادہ دور جاچکا ہو۔۔۔۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسے کسی بھی معاملے میں جاپانی فوج ،سمندر میں نزدیک ایجیکٹ کرنے والوں کو جاکر سمندر میں ہی گرفتار کرلیا کرتی تھی۔ اور وہ کسی قیمت پر بھی زندہ، جاپانیوں کے ہتھے نہیں لگنا چاہتا تھا۔
تباہ ہوتا طیارہ اب تیزی سے نیچے کی جانب جاتا جارہا تھا اور سمندر برد ہونے سے قبل ان تینوں کا ایجکٹ کر جانا ضروری تھا۔
اور پھر جارج نے ایجیکٹ کردیا ، پیراشوٹ کی مدد سے سمندر میں اترنے کے بعد اس نے خود کو پیراشوٹ سے نجات دلائی ۔۔۔
اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر طیارے کا لائف رافٹ سمندر میں تیر رہا ہے جوکہ یقیناََ اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے ایجکٹ کرنے سے قبل خود ہی طیارے سے گرا دیا تھا تاکہ کھلے سمندر میں وہ ڈوبنے یا سردی سے ٹھٹھرنے سے بچ جائیں ۔
رافٹ پے چڑھنے کے بعد۔ جارج نے ادھر ادھر دیکھ کر اپنے دیگر دو ساتھیوں کا پتا چلانے کی کوشش کی۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔بدقسمتی سے وہ زندہ نہ بچ پائے تھے۔
جارج کے طیارے کے علاؤہ بھی 3 طیاروں کو مارگرایا گیا تھا اور ان کے پائلٹس و عملے کے دیگر افراد بھی پانی میں ایجکیٹ ہوئے تھے۔
کچھ ہی دیر میں جارج نے دور سمندر میں کچھ بوٹس کو اپنی سمت میں بڑھتے دیکھا۔۔۔۔اور اسکا دل دہل کر رہ گیا وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ جاپانی ہیں جو سمندر میں گرائے گئے طیاروں کے عملے کو گرفتار کرنے کے لیے آرہے ہیں۔
جارج اپنے ہاتھوں کو چپو کی طرح چلا کر پوری قوت سے رافٹ کو دھکیلنے لگا تاکہ رافٹ جتنا ممکن ہو جاپانیوں کی حدِ ضرب سے باہر جاسکے ۔
لیکن ہاتھوں سے چلائے جارہے رافٹ اور موٹر بوٹس کی رفتار کا کیا موازنہ ؟ فاصلہ ہر سیکنڈ کے ساتھ تیزی سے کم ہوتا جارہا تھا۔۔۔
لیکن پھر اچانک فضا میں طیاروں کی گرج اور پھر کان پھاڑ دینے والی ، گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجی۔۔۔۔ یہ تازہ دم امریکی طیارے تھے جو اپنی مشین گنز کی مدد سے جاپانی جنگی کشتیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔
جلد ہی بچی کھچی جاپانی کشتیاں تیزی سے واپس جزیرے کی طرف بھاگ رہی تھیں۔
جارج کی جان بچ گئی۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔اسے اس بات کی کوئی تصدیق نہ تھی کہ آیا ان طیاروں پر کسی نے سمندر میں اس کا رافٹ دیکھا بھی تھا یا نہیں۔۔۔اگر کسی نے اسے نہیں دیکھا تو گویا کوئی اسے بچانے نہیں آئے گا ۔
جارج پھر سے ہاتھوں کی مدد سے رافٹ کو دھکیلنے لگا تاکہ جزیرے سے زیادہ سے زیادہ دور جاسکے۔۔۔۔
شام تک اس کے بازو بری طرح بری طرح سے شل ہوچکے تھے ، اس کا جسم درد کرنے لگا تھا اور اس کے اعصاب ٹوٹنے کو تھے۔۔۔۔ لیکن دور دور تک کسی امریکی کشتی کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا ۔
پھر اچانک۔۔۔اسے اپنے نزدیک پانی میں ہلچل محسوس ہوئی ، اس نے دیکھا کہ پانی سے کوئی چیز باہر نکل رہی ہے۔۔۔۔۔یہ ایک پیری سکوپ تھا۔
اور پھر جب وہ آبدوز سمندر کی سطح پر ابھری تو یہ دیکھ کے جارج پھر سے جی اٹھا کہ وہ ایک امریکی آبدوز تھی ۔
جارج کو رافٹ سے آبدوز میں پہنچا دیا گیا ۔۔۔۔ اور اس کی جان بچ گئی۔
گویا یہ کہانی ایک خوش کن طریقے سے انجام پذیر ہوگئی۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔
پانی میں کودنے والے باقی پائلٹس و عملے کے دیگر افراد اتنے خوش قسمت نہ تھے۔
ان میں سے 8 امریکیوں کو جاپانیوں نے گرفتار کر لیا اور اپنے ساتھ ان بوٹس پر واپس شیشی جیما لے گئے ۔
ان کے نام ولہوف، گریڈی، جیمز، فرائزر ،مارویل، فلائیڈ ، فلائیڈ اور ارل تھے ۔
انہیں لا کر جزیرے میں واقع جنگی قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اتنا بھیانک تھا کہ امریکی حکومت نے یہ راز 2004 تک پوری دنیا سے چھپائے رکھا ۔۔۔۔
اپنے قیمتی اور اہم ترین کمیونیکیشن ٹاورز کی تباہی پر جاپانی غصے ، نفرت اور انتقام کی آگ میں جل بھن رہے تھے۔۔۔۔اور ان کا افسر تھا لیفٹیننٹ جنرل Yoshio Tachibana ۔ یہ درندہ صفت شخص ایک نفسیاتی مریض تھا اور جو پہلے ہی قیدیوں پر بدترین اور وحشیانہ تشدد کے معاملے میں بدنام تھا۔
اور اس واقعے کے بعد تو اس کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
اس نے اپنے سپاہیوں کو ایک قیدی کو اس حد تک مارنے پیٹنے کا حکم دیا کہ وہ قریب المرگ ہوجائے ۔ اور پھر اس کا سر قلم کرنے کے بعد اسے پکانے کا حکم دیا اور اس کا گوشت خود کھانے کے علاؤہ اپنے سپاہیوں کو بھی کھلایا۔
دیگر 3 قیدیوں پر زندہ حالت میں سنگین اندازی کرنے کے بعد انہیں یونہی پکا کر کھایا گیا ۔
یہاں تک کہ آخری 4 قیدیوں پر تو اس سے بھی بھیانک ظلم کیا گیا۔۔۔۔ انہیں زندہ رکھ کر ان کے اعضاء کو کاٹ کر پکا لیا جاتا تھا اور کاٹ کر بیںڈیج کر دی جاتی تھی تاکہ خون بہنے سے وہ نہ مرجائیں ۔ یہاں تک کہ آخری حد تک زندہ حالت میں رکھ کر ایسا سلوک کرنے کے بعد ہی انہیں ختم کیا جاتا تھا ۔
یہ سب درندگی اور آدمخوری ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ جاری رہی۔۔۔۔ہر سپاہی کا قتل، پکوائی اور اسے کھانے کا کام اس کے دیگر زندہ ساتھیوں کی نظروں کے سامنے کیا جاتا تھا۔
جنگ جیتے کے بعد جب امریکیوں کو اس بھیانک واقعے کا علم ہوا اور انہوں نے شیشی جیما میں گرفتار جاپانیوں کی نشاندہی پر کھدائی کرکے اپنے ساتھیوں کی ہڈیاں برآمد کیں تو ان پر سکتہ طاری ہوگیا ۔
حکومت نے سختی سے اس خبر کو چھپائے رکھنے کے احکامات دیے اور 2004 سے قبل یہ سانحہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انجام کار :
جنرل Yoshio Tachibana اور اس کے سبھی ساتھیوں کو اس درندگی اور دیگر جنگی جرائم کے عوض 24 ستمبر 1947 کو گوام میں تختہ دار پے لٹکا دیا گیا۔
۔۔۔۔
اور اس سانحہ میں زندہ بچنے والا واحد خوش قسمت پائلٹ ” جارج ایچ۔ ڈبلیو بش” آگے چل کر امریکہ کا 41واں صدر بن گیا۔
بحوالہ کتاب : Flyboys: A True Story of Courage
از ۔ James Bradley