تیسرا اور آخری حصہ۔
میں فاتحہ پڑھ کر چہرے پر ہاتھ پھیرا تو جب میری نظر اچانک اوپر پڑی مزار کے بیچو بیچ قبر کے عین اوپر چھت کے ساتھ جی ہاں چھت کے ساتھ وہ الٹی لٹکی ہوئ تھی۔ میرے منہ سے اتنی خوفناک چیخ نکلی لگا میرا دل پھٹ جائے گا۔ اور میں بےہوش ہو جاؤ گا۔ اس کے کھلے بال جیسے زمین تک آرہے ہوں۔اس کی آنکھیں،جی ہاں وہیں آنکھیں جو مجھ سے اس دن ٹکرائ تھیں۔جس سے میں اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔آج ایسے لگ رہا تھا ان میں سے خون نکل رہا ہو۔آج اس کا حسین چہرہ باقاعدہ کسی بدروح کا چہرہ تھا۔اس کے ہاتھ آپس میں جڑے تھے جیسے وہ معافی مانگ رہی ہو۔میں پاگلوں کی طرح چیختا باہر بھاگا۔
جب باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہو کہ بہت سے لوگ باہر تھے جو آپس میں باتوں میں مصروف تھے۔سب نے ایک لمبی چادر کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھانپ رکھا تھا۔میں ایک دم چونکا کہ جب میں آیا تھا تو یہاں پہ کوئ نہیں تھا پھر اچانک اتنے سارے بندے میں حیران بھی تھا اور خوش بھی تھا۔خوش اس لیے کہ اتنے سارے لوگوں میں مجھے کچھ نہیں ہو گا میں کسی سے مدد لے لوں گا۔ اور حیران اس لیے جب میں آیا تھا تو یہاں پہ کوئ بندہ نہیں تھا۔ "کہی یہ بدروحیں تو نہیں۔؟؟” اپنے آپ سے سوال کیا اگر ایسا ہوا تو آج میرا بچنا ناممکن ہے۔ میں ہمت دیکھائ اور مزار برآمدہ سے باہر کی طرف جانے لگا۔ جب میں نے ایک دو قدم اٹھائے تو سب میری طرف متوجہ ہوئے۔اور میری طرف آنے لگے۔ ان سب نے چہرے سے چادر ہٹانا شروع کی تو میں دیکھ کے حیران راہ گیا۔یہ بد روحیں ہی تھی۔ میرے منہ سے ایک چیخ نکلی میرا دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگا جیسے ابھی باہر ہی آ جائے گا۔خوفناک آنکھیں جیسے آگ برسا رہی ہوں۔ہمت دیکھائ اور فوراً مزار کی طرف لپکا۔لیکن جب اندر دیکھا تو وہ لڑکی اور باہر سب بدروح۔
میں اپنے آپ کو کوسنے لگا آج میرا بچنا ناممکن تھا خدا سے معافی مانگنے لگا۔یا اللہ اگر مجھ سے کبھی کوئ غلط کام ہوا ہو تو مجھے معاف فرما۔میرے آنسوں نکل رہے تھے۔اتنے میں میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا میں ایک دم چونکا ڈرتے ڈرتے پیچھے کو گردن گھومائ تو کیا دیکھتا ہوں ایک بزرگ سفید لباس میں ملبوس چہرہ ایسے جیسے نور ہو روشنی کی طرح چمک رہا تھا۔وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔میں نے خیرت سے ان کو دیکھا۔
با۔۔۔۔با۔۔۔۔۔بابا جی۔۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ۔۔۔ آپ کون۔
میری آواز جو نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔
انہوں نے مجھے اوپر اٹھنے کا اشارہ کیا میں بمشکل کھڑا ہو پا رہا تھا میری ٹانگے کانپ رہی تھی۔میں اپنے آپ کو بےبس محسوس کر رہا تھا۔بزرگ بابا جی نے کہا اللہ کا ذکر کرو۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا ایک دفعہ بابا جی کو دیکھتا ایک دفعہ ان بدروحوں کو جو میری طرف آرہی تھیں۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کی اونچی آواز میں پڑھنے لگا جو جو مجھے آتا تھا میں پڑھتا رہا۔اور جب میں نے آنکھیں کھولیں تو وہاں کوئ نہیں تھا۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ذکر جاری رکھااور گھر کی طرف دوڑ لگا دی.گھر پہنچا اور بے ہوش ہوگیا۔
گھر والے بتاتے ہیں کہ مجھے تیز بُخار چڑھ گیا تھا۔ اور میں بہکی بہکی باتیں کرتا تھا۔ نہ جانے کتنے دنوں میں جاکر میں ٹھیک ہو سکا۔
اور میں نے دوبارہ کالج جانا شروع کیا۔ ہاں مگر ایک بات ہے۔ راستے سے گُزرتے ہوئے میں نے دوبارہ کبھی مزار کی طرف نگاہ نہیں اُٹھائ۔