راستے پر آہستہ سے چلتے ہوئے جیسے ہی مزار کا گُنبد نظر آنے لگا میرے قدموں میں تیزی آگئی۔ مزار جس کا میں زکر کر رہا ہوں بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ جس میں اس کی مرکزی عمارت جس میں کسی بزرگ کی قبر شریف تھی …تھی تو مختصر مگر اس کا احاطہ بہت بڑاتھاجو سُرخ اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ کچھ حِصہ بلکل کچا بھی تھا جس پر کچھ خستہ حال قبریں موجود تھیں جو نہ جانے کن کی تھیں کچھ حِصے پر جا بجا پُرانے برگد ، پیپل اور نہ جانے کون کون سے قدیم درخت تھے۔
مزار شریف ہمارے علاقے کے لوگوں کے مطابق کسی بہت بڑے بزرگ کا تھااس مزار پر صبح سے رات تک کوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ بے اولاد جوڑے اولاد کی منتیں مانگتے، منت جو کہ عموماََ پوری ہی ہو جاتی تھی تو چڑھاوے چڑھانے والوں کا تانتا بند جاتا ۔ کوتی اپنی بیٹی کی شادی کی منت مانگتا تو شادی ہونے پر باقاعدہ عروسی لباس تک میں دُلہن منت پوری کرنے آتی تھیں۔
مگر مزاراپنی جس خصوصیت کے لئے بے حد مشہور تھا وہ آسیب زدہ لوگوں کا علاج تھا۔ دور دور سے لوگ اپنے آسیب زدہ بیٹے، بیٹیوں کے علاج کے لئے مزار شریف آتے اور یہیں پڑجاتے اور اپنے مکمل صحت مندمریضوں کو لے کر واپس جاتے۔
مزار کے احاطے میں ، میں نے بارہا اپنی آنکھوں سے نوجوان (آسیب زدہ ) لڑکے، لڑکیوں کو اس طرح مسلسل قلابازیاں کھاتے دیکھا تھا جو کوئی عام انسان کر ہی نہیں سکتا تھا۔
میری والدہ کے بقول صاحب مزار آسیب زدہ کے اوپر چڑھی بدورح کو اس طرح سزائیں دیتے تھے کہ وہ بیمار کو چھوڑ کر چلا جائے۔ کبھی شدید تپتی سی دھوپ میں ننگے پاؤں اُلٹا یعنی پاؤں اوپر کر کہ ہاتھوں کے بل لڑکے۔ لڑکیاں اس طرح تیزی سے چلتے تھے کہ کیا کوئی کرتب دکھانے والاچلتا ہو گا۔ ان کے ساتھ آنے والے شدید پریشان چہرے لئے ایک طرف بیٹھے یہ تماشے دیکھتے۔
ہم یعنی میں اور میرے کچھ دوست اس وقت بلکل نوجوان تھے۔
ہمارے لئے ان مناظر میں بے حد کشش ہوتی تھی۔
اکثر اوقات کوئی نوجوان آسیب زدہ لڑکا یا لڑکی مسلسل تہ تکرار کرتا سُنائی دیتا ’’نہیں جاؤں گا‘‘، ’’ نہیں جاؤں گا‘‘۔
میرے والد صاحب ان باتون کے بے حد خلاف تھے۔ وہ مزاروں پر جانے،منتیں مانگنے، چڑھاوے چڑھانے کے سخت مخالف تھے۔
وہ آسیب کو بھی نہیں مانتے تھے۔ یہ سب زہنی بیماریوں کی اقسام ہیں۔ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ میں یا میری امّی کبھی مزار پر جائیں۔
مگر مزار میرے کالج کے عین راستے میں پڑتا تھا۔
کالج آتے جاتے اس کے احاطے پر مطر پڑنا لازمی بات تھی۔
اور احاطے میں آسیب زدہ نوجوانوں کی ایسی حرکات جو کوئی بڑا کرتط باز بھی مشکل کر پائے ان میں میری دل چسپی ظاہری بات تھی۔
ایسے ہی ایک دن جب میں کالج سے واپس آرہا تھاتو اس پر میری نظر پڑی۔ وہ مزار کے باہر احاطے سے ہٹ کر جہاں اینٹوں کا فرش ختم ہو کرکچی زمین شروع ہوتی تھی… بیٹھی ہوئی تھی۔ گو کہ اس کے سر پر دوپٹہ اوڑھ کر اپنے اِرد گرد اچھی طرح لپیٹا ہوا تھا مگر بھر بھی خود اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ بلکل جوان لڑکی ہے۔ اس نے اپنی ہتھلیاں آپس میں جوڑی ہوئی تھیں۔ چہرے کا زیادہ حصہ دوپٹے میں چھپا ہوا تھا مگر جتنا حصہ نظر آرہا تھا وہ بے حد گورااور خوبصورت تھا۔
گھر آکر مزار شریف اور اس پر بیٹھی وہ لڑکی بلکل زہن سے نکل گئی۔
مگر دوسرے دن صبح جب میں کالج جا رہا تھاتو اچانک میری نظر اس پر دوبارہ پڑی ۔ وہ اسی طرح مزار کے احاطے میں زمین پر بیٹھی تھی۔ اس مرتطہ اس کا چہرہ پورا کُھلا تھا۔
اوہ میرے خُدایا اس قدر خوبصورت چہرہ میں نے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ میرے قدم جیسے زمین نے پکڑلئے۔ میں کافی دیر وہیں کھڑا رہا مگر اس نے آنکھ اُٹھا کر میری طرف نہیں دیکھا۔۔۔
کالج سے واپسی پر مزار کے قریب آتے ہوئے میری دھڑکن تیز ہونے لگی ’’کاش وہ نظر آجائے‘‘۔ میں نے دل سے دُعا کی مگر اس وقت میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ احاطہ تقریباََ خالی تھا۔
ِاکّا دُکّا موالی ٹائپ لوگ اینٹوں کے فرش پر دراز تھے مگر وہ لڑکی کہیں نہیں تھی۔ مجھے مایوسی ہوئی۔ کچھ دیر میری نظریں اس کو تلاش کرتی رہیں بھر میں گھر چلا آیا۔ دوسرے دن کالج کی چھٹی تھی۔ تیسرے دن جب میں کالج جا رہا تھا تو مزار کے قریب پہنچ کر میں نے اندر جھانکا احاطہ بلکل خالی تھا۔ میرا دل بیٹھ گیا۔
-تو کیا وہ لڑکی اپنے کسی مریض کے ساتھ آئی تھی اور اب واپس چلی گئی؟میں نے سوچا
مجھ پر اُداسی چھا گئی۔
اس دن میرا دل پڑھائی میں بھی نہیں لگا۔ واپس آتے ہوئے میں نے مبہم سی اُمیّد پر مزار کے احاطے میں جھانکا۔ اور میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔