عمرو عیار کا یہ روز کا کام تھا کہ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد صبح کی سیر کے لیے جنگل میں آجاتا تھا اور کافی دیر جنگل کی سیر کرنے کے بعد واپس اپنےگھر آجاتا تھا۔
اس وقت بھی عمر اپنے گھوڑے پر سوار جنگل کی سیر کر کے واپس اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا۔مشرق سے سورج طلوع ہو چکا تھا جس کی روشنی آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی تھی۔
عمرو اپنی ہی دھن میں میں آگے جا رہا تھا کہ یکدم اسکی نظرایک درخت کے قریب اوندھے منہ لیٹے ہوے آدمی پر پڑی تو عمرو نے اپنے گھوڑے ٹانگو کو رکنے کا اشارہ کیا۔
ٹانگو گھوڑے کے رکتے ہی عمرو نیچے اتر آیا اور اس درخت کی طرف بڑھنے لگا جس کے نیچے وہ آدمی لیٹا ہوا تھا۔قریب جا کر عمرو نے اسے سیدھا کیا تو اگلے ہی لمحے وہ حیران رہ گیا
وہ آدمی بوڑھا اور بہت زخمی تھا۔اس کے سر سے خون بہہ کر اس کے چہرے پر جم چکا تھا۔وہ زخمی ہونے کی وجہ سے تڑپ رہا تھا۔اس نے اپنی آنکھیں کھول کر عمرو کی طرف دیکھا۔عمرو نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور اپنی زنبیل سے کپڑا نکال کر اس نے اس بوڑھے کے منہ سے خون صاف کیا اور پھر مرہم پٹی لگادی۔
"بابا۔تم کون ہو اور تمھاری اسیی حالت کس نے کی”۔عمرو نے اسے پوچھا۔
"وہ۔وہ”بوڑھے نے خوفزدہ کرتے ہوے کہا۔
"ہاں۔ہاں بتاؤ”عمرو نے کہا لیکن وہ عمر کا جواب دینے کی بجاۓ ادھر اودھر دیکھنے لگا۔
"مجھے ان بھیانک چڑیلوں نے زخمی کیا ہے جو ابھی یہاں کھڑی تھیں۔”بوڑھے آدمی نے بتایا۔
چڑیلوں کا سن کر عمرو حیران ہوگیا۔اس نے ابھی ادھر اودھر دیکھا لیکن اسے اس جگہ کوئی چڑیل دکھائی نہ دی۔
"یہاں تو کوئی چڑیل دکھائی نہیں دے رہی بابا۔”عمرو نے بوڑھے آدمی کو دیکھتے ہوے کہا۔
"وہ تینوں چڑیلیں ابھی یہاں تھیں۔تم۔تمچلے جاؤ ورنہ وہ تمہیں بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔”بوڑھے آدمی نے اس بار پھر خوفزدہ ہو کر کہا۔
وہ چڑیلیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں بابا۔تم مجھے بتاؤ۔ وہ چڑیلیں کون ہیں؟
اور انہوں نے تمہیں کیوں زخمی کیا ہے۔پریشان مت ہو۔میں تمھارا دوست ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوسکا تو میں تمھاری مدد ضرور کروں گا۔عمرو نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔بوڑھا آدمی تھوری دیر اسے پریشانی سے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چڑیلیں بہت ظالم اور شیطان ہیں۔انہوں نے ہماری پوری بستی کو تباہ کر ڈالا ہے۔میرا نام ساگر ہے۔اور میں اپنی بستی کا سردار ہوں۔ہماری بستی اس جنگل میں دائیں طرف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دن پہلے تین چڑیلیں ہماری بستی میں آگئی تھیں۔اور انہوں نے ہمارے اور نوجوانوں کو اٹھانا شروع کردیا۔
ہر روز وہ کسی نہ کسی نوجوان اور بچوں کو اٹھا کر لے جاتی تھیں۔۔۔۔۔
ہمارے نوجوانوں نے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں ختم کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔۔۔۔۔
اب میرے حکم پر بستی کے لوگ اپنی جانوں کو بچانے کے لیے جنگلوں میں جا کر چھپ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ تینوں چڑیلیں ہمیں تلاش کرتی پھر رہی ہیں۔اتفاق سے انہوں نے مجھے دیکھ لیا اور مجھے پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے لگا اور بھاگتے بھاگتے مجھے ایک زور دار ٹھوکر لگی ۔جس کی وجہ سے میں ایک درخت سے ٹکر کھا کر گرگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں چڑیلیں ہوا میں اڑ سکتی تھی
بوڑھے ساگر نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔جسے سن کر عمرو کے چہڑے پر غصہ آگیا۔اسے ان چڑیلیوں پر بہت غصہ آرہا تھا۔جنہوں نے بستی کے لوگوں پر ظلم ڈھا رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو چونکہ ایک رحم دل اور حمدرد انسان تھا اسکی زیادہ کوشش ہوتی تھی۔کہ جہاں ظلم دیکھےتو اسکو ختم کر دے۔۔۔۔۔۔۔
عمرو نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ان چڑیلیوں کا خاتمہ کرکے بستی والوں کو ان سے نجات دلائے گا۔
بابا۔کیا تمھیں معلوم ہے کہ وہ چڑیلیں کہاں رہتی ہیں؟
عمرو نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں۔ مگر اتنا پتا ہے کہ وہ شمال کی طرف سے اتی ہیں اور اسی طرف لوٹ جاتی ہیں۔بوڑھے ساگر نے بتایا۔۔۔
ہوں ۔میں ان خبیث چڑیلوں کو اسی سزا دوں گاکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی کسی کو نقصان دینے کا سوچ بھی نہیں سکیں گی۔عمرو نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا تم ان چڑیلوں کا مقابلہ کروگے ۔بوڑھے ساگر نے حیرانی سے کہا۔
ہاں۔بابا میں ان چڑیلوں کا خاتمہ کرنے جارہا ہوں۔اور جلدی ہی ان کی موت کی خبر سنانے آؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر تم ہو کون۔بوڑھے نے حیرانی سے پوچھا؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ واپس آکر بتاؤں ۔کہ میں کون ہوں۔۔پھر عمرو نے بوڑھے ساگر سے اجازت مانگی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔
تھوڑی دور جانے کے بعد عمرو گھوڑے کو روک کر نیچے اترا اور اس نے زنبیل سے سلیمانی تختی نکالی۔اور ان چڑیلوں کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی وقت سلیمانی تختی پر لکھے الفاظ آگئے۔۔۔
لکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ جنگل کے ختم ہوتے ہی ایک پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے اس پہاڑی علاقے کے اخر پر ایک وادی ہے۔جو چڑیلوں کی وادی کے نام سے مشہور ہے۔وہ تینوں چڑیلیں اس وادی میں رہتی ہیں۔
عمرو نے اثبات میں سر ہلایا دیا اور سلیمانی تختی واپس زنبیل میں رکھ دی اور پھر وہ گھوڑے پر سوار ہو کر اسے تیزی سے دوڑانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل کے اخر پر پہنچ کر عمرو نے اپنے گھوڑے کو وہیں چھوڑ دیا اور خود پیدل ہی پہاڑی علاقے کی طرف بڑھنے لگا۔
وہاں پر بلند و بالا پہاڑ ہی پہاڑ تھے
عمرو کافی دیر تک پیدل ہی چلتا رہا۔پھر کافی دیر بعد اخر وہ چڑیلوں کی وادی میں پہنچ ہی گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو ایک بڑی سی چٹان کے پیچھے چھپ کر چڑیلوں کی وادی کو غور سے دیکھنے لگا۔اسے کوئی چڑیل دکھائی نہیں دے رہی تھی۔لیکن دیو بہت زیادہ نظر آرہے تھےجو ادھر اودھر پھیلے ہوے تھے۔گویا وہ وادی کی حفاظت کر رہے تھے۔
عمرو وادی کے اندر جانے کی کوئی ترکیب سوچنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ترکیب اس کے ذہن میں اتے ہی عمرو نے زنبیل سے روغن عیاری نکالا۔اور خود کو ایک خوفناک چڑیل کی شکل میں بدلنے لگا۔چڑیل کا بھیس بدلنے کے بعد عمرو چٹان کے پیچھے سے نکلا اور وادی کی طرف جانے لگا۔وادی میں موجوددیو اسے حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
عمرو ایک دیو کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو؟
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ چڑیلوں کی وادی میں ملکہ چڑیل کی اجازت کے بغیر اندر انا منع ہے۔
اس دیو نے عمرو کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
معلوم ہے بھائی دیو۔میں ملکہ چڑیل کو ایک بات بتانے آئی ہوں۔۔۔
میرا نام شتوری ہے کیا تم مجھے ملکہ چڑیل تک پہنچا دو گے۔
عمرو نے زنانہ آواز میں کہا۔!!!
کیا بات بتانا چاہتی ہو مجھے بتادو میں ملکہ چڑیل کو بتا دوں گا۔میں دیووں کا سردار ہوں۔۔
اسنے دیو سے کہا ۔۔۔۔
میں کیوں بتاوں۔میں تو یہ بار صرف ملکہ چڑیل کو ہی بتاؤں گی۔تاکہ میں ان سے انعام لے سکوں۔اور سنو!!!!!!
اگر تم نے مجھے ملکہ چڑیل تک نہ پہنچایا۔تو میں ملکہ چڑیل سے تمھاری شکایت کروں گی۔پھر تم سزا لینے کے لیے تیار رہنا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شتوری چڑیل کو محل میں نہ پہنچایا تو وہ اسے زندہ زمین میں دفن کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
کس سوچ میں پڑ گیے بھائی دیو۔عمرو نے اسے سوچ میں پڑے دیکھ کر کہا!!!!!!
جاؤ۔ملکہ چڑیل کا محل دائیں جانب لال پہاڑ کے پاس ہے۔سردار دیو نے ملکہ چڑیل کے محل کا پتا بتاتے ہوئے عمرو سے کہا!
عمرو نے ہاں میں سر ہلایا دیا اور پھروہ اگے بڑھنے لگا۔وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہا تھا۔کہ اس نے کتنی اسانی سے سردار دیو کو الو بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دیو عمرو کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔عمرو ان کی پروا کیے بغیر اگے برھتا چلا گیا۔
تینوں چڑیلوں نے اس وادی میں تھکانا بنا رکھا تھا۔جو چڑیلوں کی وادی سے مشہور ہو چکی تھی سب سے بڑی ملکہ چڑیل تھی ۔انہوں نے وادی کی حفاظت کے لیے دیو رکھے ہوئے تھے۔
اور کوئی بھی ملکہ چڑیل کی اجازت کے بغیر اندر نہیں آسکتا تھا۔لال پہاڑ کے قریب جا کر عمرو نے دیکھا کہ لال پہاڑ کے ساتھ ایک بڑا سا محل بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کا دروازہ کھلا تھا ۔عمرو اندر چلا گیا۔اسی وقت ایک موٹی کالی چڑیل کمرے سے باہر نکلی۔اس نے جب عمرو کو دیکھا تو حیران رہ گئی۔
کون ہو تم اور کس سے ملنے ائی ہو ۔اس کالی چڑیل نے حیرانی سے پوچھا!!!!
میرا نام شتوری چڑیل ہے ۔اور میں ملکہ چڑیل سے ملنے ائی ہوں۔عمرو نے زنانہ انداز میں کہا۔
مگر تم وادی کے اندر کسے ائی۔ملکہ چڑیل کی اجازت کے بغیر اندر انے والے کو ملکہ چڑیل آگ کے کنویں میں زندہ ڈال دیتی ہے۔کالی چڑیل نے کہا!!!!
اوہ! اب میں کیا کروں۔میں ملکہ چڑیل کے فائدے کی بات کرنے ائی ہوں۔اچھا سنو !میں تمھیں وہ بات بتا دیتی ہوں تم ملکہ چڑیل کق بتا دینا۔عمرو نے گھبراتے ہوئے لہجے میں کہا۔ پھر وہ اسے ایک طرف لے گیا۔اس نے ایک ہاتھ زنبیل میں ڈال کر بہوش کرنے والا سفوف نکالا ۔اس سے پہلے کہ کالی چڑیل عمرو سے کوئی بات کرتی۔عمرونے پھرتی سے وہ سفوف کالی چڑیل کے ناک پر چھڑک دیا۔اگلے ہی لمحے وہ کالی چڑیل بےہوش ہو کر گر پڑی۔عمرو اسے گھسیٹتےہوئے۔ایک کمرے میں لے گیا۔اور اس نے زنبیل سے روغن عیاری نکالا اور خود کو اس کے بھیس میں بدل لیا۔اور اسے اپنا یعنی شتوری چڑیل میں بدل دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر عمرو ملکہ چڑیل کو ڈھونڈنے لگا۔
ایک کمرے میں اسے تین چڑیلیں دکھائی دی۔جو انتہائی بھیانک اور بدصورت تھیں۔
تینوں کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھی۔ان کی عمروں میں بھی کوئی خاص فرق نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
یہ کالی چڑیل کہاں مر گئی ابھی تک کھانا لے کر نہیں ائی۔ایک چڑیل نے غصے سے کہا جس کا نام تارو تھا۔
کالی چڑیل ۔کالی چڑیل سب سے بڑی عمر والی چڑیل نے کالی کو آواز دی جس کا نام چارو تھا۔۔عمرو جو دروازے کے پاس تھا فورا ہی اندر داخل ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں مر گئی تم کھانا لے کر کیوں نہیں ائی ۔تیسری چڑیل نے غصے بڑے لہجے میں کہا۔۔۔مم۔ میں ابھی اتی ہوں عمرو نے کالی چڑیل کی آواز میں گھبراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔اور پھر وہ کمرے سے باہر ایا اور دوسرے کمرے میں گیا جہاں کھانا تیار رکھا ہوا تھا۔شاید کالی چڑیل کھانا لے جانے والی تھی۔
عمرو نے زنبیل سے زہریلا سفوف نکالا اور کھانے میں ملانا شروع کردیا۔کہ اسی وقت تارو چڑیل اس کے کمرے میں اگئی۔
اس نے عمرو کو کھانے میں سفوف ڈالتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
یہ تم کھانے میں کیا ملا رہی ہو کال چڑیل۔!تارو چڑیل نے غصے سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آواز سن کر عمرو ڈر گیا۔۔زہریلے سفوف کی پریاں ہاتھ سے نکل کر زمین پر گر گئی۔۔۔۔
تاڑو چڑیل نے اگے جاکر وہ سفوف اٹھاکر سونگھا ۔اگلے ہی لمحے وہ سفوف ناک سے ہٹایا اور خطر ناک نظروں سے عمرو کو گھو رنے لگی۔
یہ طلسم ہوشربا کا خالص ہاضمہ چورن ہے جو میرا بھائی لایا تھا۔عمرو نے مسکرارتے ہوئے کہا۔
اگر یہ چورن ہے تو اسے کھانے میں کیوں ملا رہی ہو۔چورن تو کھانے کے بعد کھایا جاتا ہے۔
وہ عمرو کو شک کی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یہ چورن صرف کھانے میں ملا کر کھایا جاتا ہے۔عمرو نے بات بناتے ہوئے کہا۔لیکن اسی وقت چڑیل نے اسے زوردار طمانچہ مار دیا۔عمرو کو دن میں تارے نظر انے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بکواس کرتی ہو یہ چورن نہیں ۔زہریلا سفوف ہے۔اس نے غصے سے کہا
تارو چڑیل کیا بات ہے۔ کیا اج کھانا نہیں ملے گا اسی وقت چارو چڑیل نے اندر اتے ہوئے کہا!!!
چارو بہن یہ دیکھو ۔کالی چڑیل کے کارنامے۔یہ ہمارے کھانے میں زہریلا سفوف ملا رہی تھی۔
تاکہ ہم ختم ہو جائے۔اور یہ ہمارا خزانہ لوٹ سکے۔یہ سن کر چارو چڑیل کی آنکھوں میں حیرانی کے ساتھ غصہ پھیل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عمرو کو گھورنے لگی
عمرو خود بھی بہت پریشان ہو گیا تھا۔واقعی وہ چڑیلیں بہت ہوشیار اور خطرناک تھیں۔۔۔۔۔
مجھے خود اس پر شک ہو رہا تھا۔لے چلو اسے۔
اس کا فیصلہ بہن ملکہ چڑیل ہی کرے گی۔
ملکہ چڑیل اپنے تحت پر بیٹھی ہوئی تھی ۔
اس نے اپنی بہنوں اور عمرو کو دیکھ حیران ہو گئی۔ارے اس کالی چڑیل نے کیا کر دیا ہے۔
ملکہ چڑیل نے پوچھا!!!
یہ ہمارے کھانے میں زہر ملا رہی تھی۔تارو چڑیل نے عمرو کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔
اگر میں اچانک اسے نہ دیکھتی تو اس نے مار دیا ہوتا۔تارو چڑیل نے ملکہ چڑیل سے کہا۔۔۔
بد بخت تمہاری یہ ہمت کہ تم ہمیں مارنے کا سوچو۔
میں تمہں اس کی بھیانک سزا دوں گی۔ملکہ چڑیل نے عمرو کے بالوں کو پکر کر اٹھاتے ہوئے کہا۔
اگلے ہی لمحے وہ حیران ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ عمرو کے بالوں کی وگ اس کے ہاتھوں میں اگئی۔اور عمرو کا گنجا سر نمایاں ہو گیا تھا۔ملکہ چڑیل کے ساتھ اس کی بہنیں بھی چونک پڑی تھیں۔
عمرو کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
ارے۔ یہ کیا۔ کالی چڑیل گنجی کیسے ہو گئی۔
ملکہ چڑیل کے منہ سے حیرانی سے آواز نکلی۔
مجھے لگتا ہے کہ کالی چڑیل کی شکل میں ہ کوئی اور ہے۔چاڑو چڑیل نے کہا۔
میں ابھی پتا کرتی ہوں یہ کون ہے۔ملکہ چڑیل نے غصے برے لہجے میں کہا!!!!
پھر اسنے اپنی انکھیں بند کرلی ۔عمرو کو سمجھ اگیا کہ ملکہ چڑیل جادو کی بدولت اس کے میں معلوم کرنا چاہتی تھی۔
اس لیے اس نے پھرتی سے زنبیل سے تلوار حیدری نکالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ملکہ چڑیل کی طرف بڑھنے لگا۔لکین اگلے ہی لمحے وہ زور دار دھکا لگنے کی وجہ سے وہ منہ کے بل زمین پر گر گیا۔
تارو چڑیل نے اسے تلوار نکالتے دیکھ لیا تھا۔
عمرو تیزی کے ساتھ کھڑا ہوا۔تارو اور چاڑو چڑیلوں نے اگے جا کر عمرو کو پکرنے کی کوشش کی۔
لیکن اسی وقت عمرو نے ان کے قریب انے پر تلوار گھما دی ۔لیکن اس کا حملہ ناکام رہا۔
کیونکہ دونوں بہنوں نے تیزی کے ساتھ خود کو بچایا بلکہ عمرو کو بھی اٹھا کر زمین پر مار دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو کے گلے سے چینخ نکل گئی تھی۔اس دوران ملکہ کی انکھیں کھل گئی اور عمرو کو خوفناک انکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
پکرلو اسے۔یہ کالی چڑیل کی شکل میں جادو گروں کا دشمن عمروعیار ہے۔
ملکہ چڑیل نے تارو اور چاڑو چڑیلوں سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں بہنیں عمرو عیار کا سن کر حیران رہ گئی۔اگلے ہی لمحے وہ عمرو کو پکڑنے کے لیے اس کی طرف گئی۔لیکن اس دوران عمرو نے زنبیل سے سلیمانی چادر نکال کر اپنے اوپر اوڑھ لی تھی۔جس کی وجہ سے وہ ان کو دکھائی نہیں دے رہا تھا
اوہ۔اوہ عمرو کہاں چلا گیا ۔اوہ ۔نکلو یہاں سے۔۔وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ملکہ چڑیل نے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ تینوں بھی دھواں بن کر غائب ہو گئ۔۔۔۔۔اور عمرو ہاتھ ملتا رہ گیا۔عمرو نے زنبیل سے سلیمانی تختی نکال کر ان چڑیلوں کے بارے میں پوچھا؟؟؟
اسی وقت سلیمانی تختی پر لکھے الفاظ اگئے
لکھا تھا وہ تینوں چڑیلیں اس سے ڈر کر وادی کی ایک غار میں چھپ گئی ہیں۔جس کا کوئی دروازہ بھی نہیں۔وہ غار چڑیلوں کے محل سے دو فر لانگ کی دوری پر ہے۔اور اسکی نشانی یہ ہے کہ غار کی دیوار پر کھوپڑی بنی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو نے سلیمانی تختی زنبیل میں رکھی اور سلیمانی چاڈر اوڑھ کر محل میں گھومنے لگا۔۔
وہاں بھی خزانہ نہ تھا۔عمرو نے اسے اپنی زنبیل میں رکھا اور محل سے باہر نکل کر اس نے سلیمانی چادر بھی زنبیل میں ڈال لی۔
اور وہ غار کو ڈھونڈنےلگا ۔جہاں چڑیلیں چھپ گئی تھی
عمرو کافی دیر تک غار کی تلاش میں رہا مگر وہ غار اسے مل ہی نہیں رہی تھی۔اس نے تقریبا ساری وادی میں پھر لیا تھا ایک ایک غار کو دیکھ لیا تھا۔لیکن کسی غار کی وہ دیوار نظر ہی نہیں ا رہی تھی جس پر کھوپڑی کا نشان بنا ہوا تھا۔
عمرو کو ان چڑیلوں پر بہت غصہ آ رہا تھا پھر وہ تھک کر ایک چٹان پر جا کر بیٹھ گیا۔
عمرو کو ابھی وہاں بیٹھے تھوری دیر ہوئی تھی
کہ یکدم ایک پتھر عمرو کی پیٹھ پر زور سے لگا۔اور عمرو کے حلق سے ایک چینخ نکل گئی۔عمرو کھڑا ہو گیا اور اسنے دیکھا کہ اسمان سے اس پر پتھر برسا رہا ہے۔عمرو چٹان سے اتر ایا اور ایک طرف دوڑنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو ان پتھروں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا عمرو کی سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ یہ پتھر کون پھینک رہا ہے۔
پھر عمرو نے اپنے اپ کو بچانے کے لیے زنبیل سے طلسمی چھتری نکالی اور اسے کھول کر اپنے اوپر کر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی طرح عمرو پھتروں سے بچ رہا تھا۔
عمرو روک گیا اور ادھر اودھر دیکھنے لگا لیکن پتھر بر سانے والا اسے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ تھوڑا اگے گیا کہ یکدم اسے پہاڑوں کی اوٹ سے بادل اٹھتے ہوئے نظر آئے جو تیزی سے اسمان پر پھیل رہے تھے۔
عمرو نے سارے اسمان پر دیکھا لیکن وہ بادل ایک طرف سے ہی اسکی طرف ارہے تھے۔
عمرو اگے بھاگنے لگا ۔اسی وقت وہ بادل اسکے سر پر پہنچ گئے۔
اور ان بادلوں میں سے چڑیلیں ظاہر ہوئی تھی۔
اسیا لگتا تھا جسیے وہ ان بادلوں پر سوار ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چڑیلوں کی شکلیں پہلے سے بھی زیادہ بھیانک ہو چکی تھی۔ان کی زبانیں باہر کو نکل رہی تھی۔عمرو ان کی لمبی لمبی زبانیں دیکھ کر گبھرا گیا۔
چڑیلوں نے عمرو کے قریب ا کر خوفناک چینخیں مارنا شروع کردیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے ہی لمحے ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکل کر عمرو کی طرف بڑھنے لگے۔
عمرو پھرتی سے ہٹا اور شعلے سیدھے ایک چٹان پر جا پڑے جس سے وہ چٹان فورا راکھ بن گئی۔
یہ دیکھ کر عمرو بہت پریشان ہو گیا۔عمرو آج تمہیں جلا کر راکھ کر دیں گے ۔ کب تک تم اپنے اپ کو آگ کے شعلوں سے بچاتے رہو گے۔
ملکہ چڑیل نے خوفناک اواز میں کہا۔
عمرو نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور پھرتی سے زنبیل میں ہاتھ ڈال کر تلوار نکالی ۔
اور ان چریلوں کی طرف دیکھنے لگا۔یکدم ملکہ چڑیل نے اپنی زبان پھر باہر نکالی اور عمرو کی اگ کا شعلہ پینکھا لیکن عمرو نے تلوار حیدری اگے کر دی۔
اگ کا شعلہ تلوار سے ٹکرا کر غائب ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے تینوں چڑیلیں ایک ہی وقت میں عمرو پر اگ کے شعلے پینکھنے لگے۔
لیکن عمرو بہادری سے ان کا مقابلہ کر رہا تھا۔
یکدم عمرو نے موقع ملتے ہی اچھل کر تلوار تارو چڑیل کی گردن پر ماری تو اسکی گردن کٹ کر چٹان کے قریب جا کر گری۔
اس کا دھڑ زمین پر گر گیا اور بری طرح تٹرپنے لگا اسکی بہنوں نے جب اسکی حالت دیکھی تو اور غصے میں اگئی۔
اور ان کی انکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
دوسرے ہی لمحے میں چاڑو اور ملکہ چڑیل اسکی طرف بڑھنے لگے۔۔۔۔۔۔
عمرو ان کی طرف سے ہوشیار ہو چکا تھا۔اسلیے جسیے وہ اس کے قریب آئیں تو اس نے ایک بار پھر تلوار حیدری گھمادی تلوار چاڑو چڑیل کے دائیں بازو پر جا لگی اور اسکا بازو کٹ کر ڈور جا گرا۔
اس کے بازو سے خون کے فوارے نکلنے لگے اور وہ تکلیف سے زوردار چیخنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکہ چڑیل ۔میرا بازو۔ ملکہ چڑیل میرا بازو عمرو نے کاٹ دیا ہے۔مکلہ چڑیل ۔چاڑو نے چینختے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اگر کہو تو میں تمھارا دوسرا بازو بھی کاٹ دوں
عمرو نے مسکراتے ہوئے کہا!!!!
عمرو میں تمھاری گردن مڑوڑ کے رکھ دوں گی میں تمھہیں ہر گز زندہ نہیں چھوروں گی۔۔۔۔
ملکہ چڑیل نے انتہائی غصے میں کہا
وہ سمجھ گئی کہ جب تک عمرو کے پاس تلوار ہے وہ اسکا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی
اس نے جب عمرو کو چاڑو کی طرف متوجہ پایا۔
تو اگلے ہی لمحے اس نے عمرو کی طرف ہاتھ جھٹکا تو اس کے ہاتھوں سے اگ کے شعلے نکلے۔اور عمرو کے جسم کو ایک زوردار جھٹکا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ زمین پر گر گیا
ملکہ چڑیل ہوا ارتی ہوئی اس کی طرف بڑھنے لگ گئی
٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫
عمرو پھرتی سے اٹھا۔اس سے کہ عمرو زنبیل سے حفاظت کے لیے کوئی چیز نکالتا۔ملکہ چڑیل نے اسے قریب جا کر اسے پکر لیا۔
اور اپنی زبان سے عمرو پر اگ کے شعلے ڈالنے لگی عمرو نے اس کی زبان پکر لی اور
پاؤں سے اسے نیچے گرا دیا۔
ملکہ چڑیل چینختی ہوئی زمین پر جا گری۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو اسے چھور کر تلوار کی طرف بڑھا اور اگلے ہی لمحے اس نے تلوار اٹھا لی۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکہ چڑیل اب تم میرے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتی۔تم تینوں چڑیلوں نے بستی کے لوگوں پر بہت ظلم کیے ہیں
عمرو نے غصے میں تلوار اٹھائے اس کی طرف برھتے ہوئے کہا۔
عمرو۔عمرو۔مم۔ مجھے معاف کردوں میں اگے سے کسی پر ظلم نہیں کروں گی۔
ملکہ چڑیل نے پیچھے ہٹھتے ہوئے کہا!!!!
جب اسے اپنی موت نظر ائی تو معافی مانگنا شروع کردی۔۔۔۔۔
میں تم جیسی مکار اور ظالم چڑیلوں کو اچھی طرح جانتا ہوں
اس لیے تمہیں مرنا ہی ہوگا۔۔
عمرو نے غصے سے کہا۔
اس سے پہلے عمرو اس پر حملہ کرتا ۔ملکہ چڑیل یکدم سیدھے ہو کر عمرو کی ٹانگیں پکر کر کھینچ لیں اور عمرو زمین پر جا گرا۔
اگلے ہی لمحے
ملکہ چڑیل اٹھی اور ایک طرف دور لگائی۔ عمرو پھرتی سے اٹھا اور تلوار حیدری کو فضا میں بلند کی اور دورتی ہوئی ملکہ چڑیل پر دےماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلوار سائیں کی اواز میں جا کر ملکہ چڑیل کی پشت پر جا لگی۔
اور ملکہ چڑیل منہ کے بل زمین پر گر کر تٹرپنے لگی۔جب عمرو اس کے قریب گیا تو اس وقت وہ ختم ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو نے تلوار ملکہ کی پشت سے نکالی اود چاڑو چڑیل کی طرف بڑھنے لگا ۔لیکن چاڑو چڑیل خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے پہلے ہی مر چکی تھی۔۔
"
"ہوں۔خس کم جہاں پاک”
اس نے زنبیل سے ارنے والے جوتے نکال کر پہن لیے اور پھر جنگل کی طرف بڑھنے لگا۔
اور آج عمرو کی وجہ سے بستی والے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔