میں جاگی تو میرے ذہن میں وہ آواز موجود تھی۔
” اس نرس کا کام تمام کردو "
اس تیز نوکیلی آواز نے مجھے مشورہ دیا تھا۔
” سرنج اسکی آرٹری میں گھسا دو۔ اسکے جسم میں ایمبولسم ( بُلبُلہ ) چھوڑ دو۔ اسے اذیت ناک موت دیدو "
مجھے اپنا نام نہیں پتہ تھا۔ مجھے نرس کا نام بھی نہیں پتہ تھا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ایمبولِسم ہوتا کیا ہے۔ بس وہ آواز مجھے یہ سب کرنے کو کہہ رہی تھی۔ وہ مجھے بتا رہی تھی کہ وہ سب کیسے کرنا ہے۔
نرس نے مجھے بتایا تھا۔
” تم دریا کے کنارے ملی تھیں۔ تمہارے کپڑے اور جسم کیچڑ سے سَنا ہوا تھا۔ وہ تمہیں بے ہوش لاۓ تھے۔ یہ تمہارا آئی ڈی ملا تھا۔ اسکے مطابق تمہارا نام میرا ہے "
اس نے وہ کارڈ میرے سامنے کیا تھا۔
وہ چہرہ غیر شناسا تھا۔ لمبے بال۔ گندمی سی جلد۔
” تمہارے سر پہ زخم تھا تو تمہارے بال ہم نے کاٹ دئیے ہیں "
میں نے اپنے ہاتھوں کی رنگت دیکھی۔ وہ اس تصویر سے میل کھاتی تھی۔ تو واقعی وہ میں تھی ؟
” اس کمرے میں پانی بھر دو تاکہ یہ سانڈ جیسی نرس ڈوب کے مر جاۓ "
وہ آواز پھر سے چلائی تھی۔
میں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اسکی بجاۓ میں نے نرس سے پوچھا
” کیا ایسا ممکن ہے کہ دماغ کی سرجری کے بعد آپکو مختلف آوازیں سنائی دیں ؟؟ "
اس نے کندھے اچکا دئیے
” یہ تم ڈاکٹر سے پوچھنا "
” اس ڈاکٹر کے گلے پہ ایسا گھونسہ مارو کہ اسکی سانس کی نالی بند ہو جاۓ "
ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اس آواز نے میرے کان میں سرگوشی کی تھی۔
” یا پھر اسکا سر اتنی زور سے دیوار سے دے مارو کہ اسکا بھیجا باہر نکل آۓ "
میں بس اسے دیکھتی رہی تھی۔ وہ مجھ پہ جھکا میرا معائنہ کرتا رہا اور آخر میں کہا کہ میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔
انہوں نے مجھے چار دن بعد ڈسچارج کردیا تھا۔ میں ٹیکسی میں آ بیٹھی اور اسکے ڈرائیور کو مجھے اس ایڈریس پہ پہنچانے کو کہا جو میری آئی ڈی پہ درج تھا۔ راستے میں وہ آواز میرے ذہن میں پھر سے جاگ گئی۔
” اپنے جوتے کا تسمہ نکالو اور اس کم بخت ڈرائیور کے گلے میں پھندے کی طرح ڈال کر اسکا کام تمام کردو "
میں نے ایسا نہیں کیا۔
میں نے اسے مطلوبہ پیسے ادا کئیے اور شکریہ بھی کہا۔
میرا مطلوبہ فلیٹ دوسری منزل پہ تھا۔ میں لفٹ میں تھی جب وہ آدمی اور چھوٹا بچہ میرے ساتھ تھے۔
” اس موٹے بڈھے کو تو دیکھو۔ اسکا تھیلے جیسا بیگ۔ اسکے پیٹ پہ ایسی زور دار مار مارو کہ یہ پھٹ جاۓ اور ساری لفٹ اسکے ناپاک خون سے بھر جاۓ "
آواز نے نیا مشورہ دیا تھا۔
میں نے جان بوجھ کر بچے کی طرف نہیں دیکھا تھا کہ وہ آواز مجھے اسکی بابت جانے کیا کچھ کہتی۔
آئی ڈی کے ساتھ مجھے چابیاں دی گئی تھیں جو انہیں میری جیب سے ملی تھیں۔ ان میں سے ایک فلیٹ نمبر بائیس کی تھی۔ میں اندر آگئی۔ سب صاف ستھرا تھا۔ ہر شے ترتیب سے تھی۔ بیڈ کی نئی چادر، تکیے، میز پہ رکھا لیپ ٹاپ۔ کچن میں ترتیب سے رکھے برتن۔ سفید دیواریں۔ میز پہ رکھا میگزین۔ پھلوں کی باسکٹ۔ وہ چاقو۔
میں نے چاقو کو اٹھایا اور ڈسٹ بن میں اچھال دیا اس سے پہلے کہ وہ آواز مجھے اسکے بارے میں کوئی نصیحت کرتی۔
لیکن وہ خلافِ معمول خاموش تھی۔
کوئی بات نہیں۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔
میں نے وہیں میز پہ رکھا فون اٹھا اور سرچ بار میں لکھا۔
” مجھے آوازیں سنائی دیتی ہیں "
پہلا جواب جو نمودار ہوا وہ یہی تھا
” شیزوفرنیا "
” تم پاگل نہیں ہو "
اس آواز نے سرگوشی کی تھی۔
اور یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے مجھے کسی کو مارنے کے لئیے نہیں کہا تھا۔
میں اس کے بارے میں سرچ کرتی رہی۔ میں نے اپنے نزدیک ڈاکٹرز کا پتہ کیا۔ مجھے اگلے دن کا وقت ملا تھا۔
گھر سے ڈاکٹر کے کلینک تک مجھے نو چہرے دکھائی دئیے جن کے بارے میں اس آواز نے مختلف سزائیں تجویز کی تھیں۔ ایک کے بارے میں کہا اسے ٹرک کے آگے دھکا دیدو۔ دوسرے کے بارے میں کہا کہ اسکے منہ میں پتھر ڈال کے زبردستی نگلنے کو کہو۔ اس عورت کے بارے میں کہا کہ اس پہ پیٹرول چھڑک کہ آگ لگا دو۔
میں چپ چاپ سنتی رہی۔
ڈاکٹر کی سیکٹری ایک خوبصورت لڑکی تھی۔
” اس ڈائن کی آنکھ میں اسکی پنسل گھسا کر اسے ہمیشہ کے لئیے اندھا کردو "
میں نے اسے اندھا نہیں کیا تھا۔
” مجھے آوازیں سنائی دیتی ہیں ڈاکٹر "
میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ آواز مجھے کہہ رہی ہے کہ اسکی زبان کھینچ کے اسکی تلی پہ رکھ دوں اور اسکے ہونٹ کھال سے نوچ ڈالوں
” کیا یہ اب شروع ہوا ہے یا پہلے سے ہے ؟؟؟؟ "
میں نے اسے بتایا کہ اس آئ ڈی پہ لکھے نام اور صورت کے علاوہ مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔
” شائد مجھے ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہو یا اس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے یہ سب شروع ہوا ہے ۔ مجھے کچھ پتہ نہیں ہے "
ڈاکٹر نے مجھے کچھ دوائیں لکھ دی تھی۔ میں فارمیسی سے دوا لیکر ٹھیک ٹھاک نکل آئ اور وہ فارماسسٹ بھی بچا رہا وگرنہ وہ آواز تو مجھے اکساتی رہی کہ اپنے ناخنوں سے اسکا چہرہ بگاڑ دوں یا کم از کم اسکے بال تو نوچ ہی ڈالوں۔
ایک گولی میں نے وہیں سٹور کے باہر لے لی تھی۔ پانی کے گھونٹ بھرتے ہوۓ اس بڑھیا نے مجھے مسکرا کر دیکھا۔ میں جواباً مسکرانا چاہتی تھی لیکن میں نے سامنے شیشے میں دیکھا۔ میرا چہرہ سپاٹ ہی رہا تھا۔ میں مسکرا بھی نا سکی تھی۔
میں سب چھوڑ کے بس میں آبیٹھی۔ سب ٹھیک ہی رہا۔ میں نے اس آدمی کو بس سے دھکا نہیں دیا جبکہ اس آواز نے تو بہت زور لگایا۔ میں نے اس پولیس والے کی پستول چھین کر اسکے بھیجے میں گولیاں بھی نہیں اتاری تھیں۔ گھر تک کے راستے میں سب بچے رہے۔
میں گھر پہنچ گئی۔
میں ایک ہفتے تک دوا لیتی رہی تھی۔ میں فلیٹ سے نہیں نکلی تھی۔ ایک دفعہ بھی نہیں۔ میں کھانا آڈر کرتی اور پیسے بند دروازے سے باہر پھینک دیتی تھی۔ میں کھانا تب اٹھانے جاتی جب باہر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ میں ٹی وی بھی نہیں دیکھتی تھی۔ میگزین کی سب تصویریں میں کتر چکی تھی۔ کسی کی ناک کسی کی آنکھ۔ میں اپنا لیپ ٹاپ توڑنا نہیں چاہتی تھی۔
پندرہ دن بعد مجھے ڈاکٹر سے ملنا تھا۔
میں نظریں جھکاۓ کلینک پہنچی۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ریسیپشن پہ وہ لڑکی بھی نہیں تھی۔ ایلیویٹر خالی تھی۔ میں اس میں جا کھڑی ہوئی۔ وہ شیشہ مجھے میرا عکس دکھا رہا تھا۔
سپاٹ چہرہ۔ نوکیلا جبڑا۔ تنے ہوۓ اعصاب۔ زرا زرا سے بال۔
میں کلینک کی طرف جا رہی تھی جب وہ آدمی مجھ سے ٹکرا گیا۔
” دیکھ کر چل بیوقوف عورت۔ میرے پیٹ میں کہنی گھسا دی تو نے اپنی "
میں نے اپنی رگیں کھنچتی محسوس کی تھیں۔ میں نے اپنے سارے جسم میں طوفان چلتے محسوس کئیے۔ ایک لمحے میں اس پہ جھپٹ کے میں نے اسے فرش پہ گرا لیا تھا۔
اگلے ہی لمحے میرے ہاتھ میں وہ چاقو تھا جو میں نے جانے کب اپنی جیب میں رکھا تھا۔
آن کی آن میں، پے در پے وار کر کے میں نے اسکا پیٹ پھاڑ ڈالا تھا۔ اسکی آنتیں باہر نکل آئ تھیں۔ اسکے خون سے میرے سارے کپڑے بھر چکے تھے۔
میرے کانوں میں وہ آواز قہقہے لگا رہی تھی۔
” تم اچھی لڑکی ہو۔۔۔۔ کمال کردیا۔۔۔۔ بہت اچھے۔۔۔۔ شاباش۔۔۔۔ تم بہت اچھی لڑکی ہو۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ "
میں جانے کیسے وہاں سے نکلی تھی۔
کلینک۔۔۔ روڈ۔۔۔ بس۔۔۔۔ میرا فلیٹ۔۔۔
میں اندر کمرے میں جا چھپی تھی اور اپنے خون سے بھرے ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھ لئیے تھے کہ میں کچھ دیکھ نا پاؤں۔ وہ آواز مسلسل ہنس رہی تھی، مجھے شاباش دے رہی تھی۔
اسکے ساتھ پولیس کے سائرن سنائی دینے لگے تھے۔
مسلسل۔۔۔۔
” وہ مجھے پاگل کہیں گے۔ جنونی بلائیں گے۔ وہ مجھے جیل میں بند کردیں گے۔ ڈاکٹر وہی دوائیں دے گا۔ روز گولی کھانی پڑے گی۔ وہ سب مجھ پہ ہنسیں گے۔ وہ مجھے پاگل کہیں گے "
” تم پاگل نہیں ہو "
فاتحانہ ہنسی کے درمیان آواز نے مجھ سے کہا تھا۔
میں نے کانپتے ہاتھوں میں جکڑا وہ چاقو دیکھا تھا۔ وہ ڈوڑتے قدم میرے نزدیک آتے جارہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ آواز مجھے کچھ کہتی، میں نے چاقو والا ہاتھ بلند کیا اور اپنا گلا چیر ڈالا تھا۔
وہ آواز خاموش ہوگئی تھی۔
ہر طرف اندھیرا چھانے لگا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ شیزوفرنیا کی مریضہ تھی "
پوسٹ مارٹم کی میز کے گرد کھڑے ان تین افراد میں سے ایک نے کہا تھا۔
” اسے آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ ڈاکٹر کے کلینک میں اس نے ایک معصوم آدمی کو بلاوجہ مار ڈالا اور پھر اپنی بھی جان لے لی "
” چہ چہ "
دوسرے نے تاسف سے کہا
” ایسے جنونیوں کو کھلا کیوں چھوڑتے ہیں ؟؟؟ "
وہ موٹا سا آدمی بولا تھا
” انہیں تو کہیں دور بند کردینا چاہئیے جہاں عام لوگ ان کے شر سے بچے رہیں "
” ارے دیکھو اسکے ناخنوں میں ابھی تک خون کے نشان ہیں۔ "
وہ پوسٹ مارٹم کر کے دیکھنا چاہتے تھے کہ اس مریضہ کے دماغ میں بیماری نے ایسی کیا تبدیلیاں کی تھیں کہ وہ ایسی خونخوار ہوگئی تھی۔ کھوپری کا گول حصہ کاٹ کے انہوں نے علیحدہ کیا تھا جس میں دماغ نظر آرہا تھا۔
” اس مینٹل اسائلم میں بھی تو ایسا ہی ہوا تھا جب۔۔۔۔۔ ارے یہ کیا ہے ؟؟؟؟ "
وہ آدمی بولتے بولتے ٹھٹھک کر رکا اور حیرت سے اس چیز کو دیکھنے لگا۔ باقی دونوں بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
” یہ کیا کوئی مائیکرو فون ہے ؟؟؟؟ "
اس موٹے آدمی نے دہشت سے اس عورت کی لاش کو دیکھا تھا۔ اس آدمی نے کانپتے ہاتھوں سے اس چھوٹی سی شے کو کھوپڑی سے علیحدہ کیا تھا۔
” یہ کیا چیز ہے ؟؟؟؟؟ "
وہ دوسرا آدمی بے یقینی سے پوچھ رہا تھا۔ اس آدمی نے وہ چیز کان میں لگائی اور اسے پریس کیا۔ وہ کھنکھناہٹ سی اسکے دماغ میں گونجی تھی۔
” اس موٹے آدمی کا سینہ قینچی سے پھاڑ کے اسکا دل کھینچ لو اور اس دوسرے مسٹنڈے کے منہ میں ٹھونس کے اسکا منہ بند کردو "
اس آواز نے اسکے کانوں میں سرگوشی کی تھی۔