دادی کہتی ہیں کہ وہ بڑی خوفناک رات تھی شام سے بارش ہوئی تھی اور ایک طوفان آیا ہوا تھا ۔میرے گھر میں کوئی مرد نہیں تھا میرا بیٹا دلی میں ایک اسکول میں سروس کرتا تھا ۔۔بھتیجے کی بہوک امی کا میرے مکان سے نزدیک تھا وہ بچے کی پیدائش پر میرے ہی پاس آکر رہتی تھی.. کیونکہ اس کے ماں باپ مر چکے تھے.. اس لئے اپنے میکے نہیں جاتی تھی.. اس وقت بھی بچی پیدا ہوئی تھی اس کی…. وہ اور بچے میرے پاس تھے اب بارش کے ساتھ ہوا کے جھکڑ بھی چلنے لگے تھے جس کی وجہ سے رات کی تاریکی اور تنہائی بہت خوفناک محسوس ہو رہی تھی اور بچے سوئے ہوئے تھے اور ایک رشتہ دار خاتون بھی سو رہی تھی ۔ایسے لگتا تھا جیسے یہ بارش اب کبھی نہیں رکے گی بجلی بار بار کڑکتی ۔اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔میں جاگ رہی تھی.. میں نے ٹائم دیکھا تو 12 بجے تھے ابھی کافی رات باقی تھی ۔.
اچانک میں نے محسوس کیا کہ باہر دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے میں نے سوچا اتنی رات میں طوفانی بارش میں کون آ سکتا ہے جبکہ گاؤں کی کچی گلیاں کیچڑ اور پانی سے بھری ہوئی ہے ۔میں سمجھی میرا وہم ہے لیکن واقعی کوئی دروازہ بجا رہا تھا اور اب اونچی اونچی بجا رہا تھا ۔بہو بھی جاگ گی اور ہماری ایک رشتے دار عورت جو آئی ہوئی تھی وہ بھی جاگ گئی ۔میں نے چادر سر پر ڈالی اور دروازہ کھولنے پہنچ گئی کنڈی کھول کر دیکھا تو وہاں دروازے پر کالا برقعہ . پہنے انوری کھڑی تھی
۔میں نے کہا ارے انوری خیریت تو ہے چل اندر…
انوری نے کہا.. کھالا میں نے کھیر پکائی تھی سوچا دے اوں… بچے گرم گرم کھا لیں گے..
۔اس نے ایک بڑا پیالہ میرے ہاتھ میں دیا اور خود بہو کی چارپائی پر بیٹھ گئی اور بولی خالہ پوتی ہوئی ہے.. مجھے بھی تو دکھاؤ ۔..
میں نے کہا انوری تم ابھی ابھی باہر سے آئی ہو ۔تمہیں پتا ہے کہ ایسے وقت اور موسم میں کون کون سی ارواح آجاتی ہیں اس لیے دن میں آنا بچی کو بھی دیکھ لینا اور گود میں بھی اٹھانا ۔میں نے بے مروتی سے کہا اور دل میں جھنجلائی بھی کہ اتنی بڑی عورت کو گاؤں کے قائدے کا نہیں پتا.
۔۔انوری فورا اٹھ گئی.. خالہ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا.. پیالہ میں کل لے جاؤں گی.. یہ کہ کر وہ یہ جا.. وہ جا…
میں جب تک دروازے پر گی.. انوری کا کہیں پتہ نہیں تھا… بارش اندھیرا اور کالا برقع ۔انوری کیسے نظر آتی ۔
بچے بھی اٹھ گئے تھے.. میں نے بہو سے کھیر کھانے کو کہا مگر اس نے معذرت کرلیں.. تھوڑی سی کھیر میں نے چکھی.. باقی بچوں کو کھلائی.. اچھی بنی تھی مگر نہ جانے کیوں مجھے بار بار خیال آرہا تھا کہ اتنی بھیانک رات میں آئی جبکہ اس کا گھر بھی ہمارے گھر سے کچھ دور تھا.
۔ہم سب سونے لیٹ گئے.. میں ابھی نیم غنودگی میں تھی تو میں نے دیکھا کہ جیسے چھت پھٹ گئی ہے اور اس میں سے انوری نے سر نکالا اور پھر وہ ایک گٹھری کی طرح سے میری بڑی پوتی پر گری ۔ساتھ ہی پوتی نے چیخ ماری.. بہو بھی اٹھ گئی.. میں گھبرا کر جاگ گئی ۔بہو گھبرائی ہوئی تھی.. بولی دادی انوری ہمیں دبا رہی ہے ۔ایسا لگا جیسے انوری میرے سینے پر کود رہی ہے ۔ہم لوگ دعائیں پڑھ کر پھر لیٹ گئے کافی دیر بعد سب کو نیند آئی..
انوری دوسرے دن کیا کئی دن تک نظر نہیں آئی.. ایک روز دوپہر کو انوری آ گی.. اس وقت انوری نے سفید برقع پہنا ہوا تھا ۔بولی خالہ پوتی مبارک ہو.. کب سے مبارکباد کو آنا چاہتی تھی لیکن آ نہ سکی..
۔میں نے کہا.. اس دن تو کیچڑ پانی میں کھیر دینے چلی آئیں اور اتنے دنوں بعد آئی ہو اور باتیں بنا رہی ہو..
وہ حیرانگی سے بولی کونسی کھیر..
۔۔بہو بولی.. ہاں انوری باجی.. مسلسل بارش ہو رہی تھی.. رات کے بارہ بجے کھیر لے کر ائی تھی..
۔انوری نے کہا.. غضب خدا کا اس وقت جانور بھی باہر نکلتے ہوئے خوف کھاتے ہیں.. بھلا میں کیوں نکلتی اور اتنی رات گئے مجھے کھیر پکانے کی کیا ضرورت تھی..
میں نے پوچھا تو تم نہیں آئی تھی.
وہ بولی نہیں آئی تھی.. میں نے کہا… کھیر بھی نہیں پکائی تھی..
کہتی… نہیں پکائی تھی.
میں نے یہ جو پیالہ تمہاری نشانی ہے.. میں نے ثبوت میں اس کو وہ پیالا دے دیا ۔۔وہ جیسے اچھل گی..
بولی… خالا سچ کہوں گاؤں میں تو مٹی کے برتن استعمال ہوتے ہیں پھر سفید چینی کا پیالہ میں غریب کے ہاں کیسے آیا… نہ پیالا میرا ہے اور نہ میں لے کر آئی تھی.. میرا یقین کرو
۔اب ایک دم مجھے کچھ سمجھ میں آنے لگا.. میں نے کہا چھوڑو اس بات کو بھول جاؤ ۔شاید ہمیں غلطی لگی ہے
۔اپنی اب میرا ذہن الجھا ہوا تھا کہ کھیر کس نے بھیجی.. انوری کی شکل میں کون آیا… بہو کو اور پوتی دیکھنے پر انوری کا اصرار کیوں تھا ۔کون بہو کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا..
مجھے یاد تھا کہ بہو کے نانا پر بھی اسی طرح جادو کیا گیا تھا اور جادو بادل کے ٹکڑے کی شکل میں بھیجا گیا تھا.
ہوا کچھ یوں تھا کہ پیر جی یعنی بہو کے نانا ایک دن دوپہر کے وقت لیٹے ہوئے تھے.. ان کی بیوی قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی.. اچانک پیر جی نے دیکھا کہ ایک سفید بادل کا ٹکڑا سامنے لگے درخت پر سایہ کئے ہوئے ہے.. جبکہ آسمان بالکل صاف تھا ۔انہوں نے حیرانگی سے اپنی بیوی کو کہا.. اس وقت ایک بادل.. بڑی عجیب بات ہے ۔۔.
۔اتنے میں آہستہ آہستہ وہ بادل صحن میں اترا اور پیرجی پر برس گیا.. لیکن پانی نہیں صرف گردوغبار ۔۔
پیر جی کی بیوی کا کہنا تھا کہ میں یہ سب دیکھ کر ابھی حیران بھی نہ ہو پائی تھی کہ پیر جی تڑپ کر چارپائی سے نیچے گرے اور جب تک حکیم صاحب آتے وہ اس دنیا سے گزر چکے تھے ۔.
۔پیر جی کے دوست مولانا دوسرے گاؤں میں رہتے تھے.. انہیں اطلاع ملی تو وہ فورا گھوڑے پر دوڑے چلے آئے.. وہ پیرجی کا منہ دیکھنے جھکے تو فوراً جھٹکے سے سیدھے ہو کر بولے فورا کورا مٹکا لاؤ ۔۔ جلدی..
۔۔اس وقت کفن دفن کا سامان.. مٹکے.. چٹائیاں کافور.. سب آ چکا تھا..
پیر جی کے داماد نے فورا مٹکا مولانا جی کو دیا.
مولانا نے دو رکعت نماز پڑھی.. پھر مٹکا توڑا اور کچھ قرآنی آیات زعفران سے لکھیں ۔اور پیر جی کے داماد سے کہا.. اسے بہتے ہوئے پانی میں پھینک آؤ.. لیکن کوئی بھی آواز دے.. نہ اس کو جواب دینا اور نہ ہی پیچھے مڑ کر دیکھنا ۔۔اب دیکھتے ہیں کہ پہلے تم آتے ہو یا پیر جی اٹھتے ہیں
۔۔بعض لوگ مولانا صاحب کے دماغ پر شک کرنے لگے کہ بھلا مرنے کے بعد بھی کوئی زندہ ہوا ہے ۔۔لیکن جب ان کا دماد واپس آیا تو پیرجی زندہ ہوچکے تھے.. مولانا صاحب نے بتایا کہ پیر جی پر جادو کیا گیا تھا ۔اور یہ جادو اس شخص نے کیا تھا جس کے خلاف کچھ دن پہلے پنچایت نے فیصلہ کیا تھا اور پیر جی اس پنچایت کے سربراہ تھے.
۔۔۔یہ بات مجھے یاد آئی تو میرا دل کانپ اٹھا ۔۔مگر ابھی میرے پاس کوئی بھی واضح ثبوت نہیں تھا ۔
۔ایک روز شام کے وقت میری بہو چولھے کے پاس بیٹھی چائے بنا رہی تھی ۔بڑا پوتا چھت پر پتنگ اڑا رہا تھا.. اتنے میں دروازہ کھلا اور بہو کی خالہ زاد بہن داخل ہوئی اور سیدھی بہو کی طرف آئی ۔میں نے اس کے عجیب انداز پر کہا.. ارے کبراں خیر تو ہے نہ سلام نہ دعا ۔۔میری آواز سن کر کبرا پلٹ کر بھاگ گئی.. میں بھی اس کے پیچھے گی مگر کبرا مکان میں داخل ہوچکی تھی.
۔۔میری بہو کے نانا بڑے صاحب جائیداد تھے ۔میں جب اندر آئی تو دیکھا کہ بہو چولھے کے پاس بے ہوش پڑی ہے.. بچے رو رہے ہیں ۔۔بہو کو پلنگ پر بڑی مشکل سے لٹایا گیا.. قرآن کی ہوا دی.. دعائیں پڑھ کر دم کیا تو تب کہیں جاکر بہو کو ہوش آیا ۔.
۔میرا بڑا پوتا چھت اترا تو اس نے ایک عجیب بات کی.. بولا.. اماں کیا ممانی بھی بھائی جان کی طرح ورزش کرتی ہیں
۔۔میں نے ڈانٹا میں نے کہا پاگل ہوگئے ہو.. وہ بولا.. نہیں دادی میں نے خود دیکھا ہے ۔ممانی صحن میں ایک ٹانگ پر کھڑی تھی اور اپنے سامنے تین مرتبہ انگلی کما کر ایک دفعہ الٹی طرف اشارہ کرتی تھی.. یہ کون سے ورزش ہوئی
۔۔الٹی طرف ہمارا گھر تھا ۔۔میں نے پوچھا یہ بتاؤ کبرا آئی تھی.. وہ بولا… میں تو جب سے چھت پر گیا ہوں میں نے خالہ قبراں کو نہیں دیکھا ۔۔اور ممانی کے پاس کہیں سے ایک سفید کاغذ اڑتا ہوا آیا اور ممانی اس کو لے کر اندر چلی گئی ۔
۔اب مجھے یقین ہو چکا تھا کہ یہ سارے ہتھکنڈے دلہن کی بھابھی کر رہی ہے ۔۔میری بہو خطرے میں تھی.. اس تمام معاملے کی اصل وجہ یہ تھی کہ پیر جی میری بہو کے نانا تقریبا آدھے گاؤں کے مالک تھے ۔۔میری بہو آدھی جائیداد کی حق دار تھی اور اس کا بھائی ایسا نہیں دینا چاہتا تھا ۔اور اس کی بیوی انتہائی چالاک عورت اور جادو ٹونے کے ذریعے میری بہو کو مارنا چاہتی تھی… جبکہ میری بہو ایک سمجھدار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی ۔۔وہ کسی بھی طرح گاوں کی نہیں لگتی تھی.. اس کی گفتگو رہن سہن بہت اچھا تھا.
اس کے بھائی بھابی کو ہر وقت خوف رہتا تھا کہ بہو اپنی جائیداد نہ مانگ لے.. جبکہ بہو ذکر بھی نہیں کرتی تھی ۔
۔اب میں نے گھر میں ہر وقت دعاؤں کا حصار رکھتی تھی اور میں نے بہو کو باہر سے آئی ہوئی چیزوں کو کھانے اور باہر جانے سے منع کر دیا تھا ۔۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان بننے کی تحریک زور پکڑتی تھی.. ہر طرف سے ہندو مسلم فسادات کی خبریں آ رہی تھیں ۔میں بے حد پریشان تھی کہ کسی طرح بہو کو یہاں سے ہٹا دو.
۔اسی دوران ایک دن مغرب کا وقت تھا.. بہو سہن میں لیٹی ہوئی بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ اچانک اس کی چیخوں کی آواز سنی ۔میں نماز چھوڑ کر بھاگی…
میں نے دیکھا بہو اپنا پاؤں پکڑے چیخ رہی ہے اس کے پاؤں کے انگوٹھے سے خون بہ رہا ہے ۔۔میں نے پوچھا یہ کیا ہوا کیسے ہوا.. بہو اپنے حواسوں میں نہیں تھی.. میری بڑی پوتی بھی بھی کھڑی تھی.. مگر وہ بھی چپ تھی.. بہو کو پانی پلایا گیا.. تو اس نے بتایا کہ میں نے دیکھا کے سکینا یعنی میری بہن اندر آئی اور میرے پاؤں کی طرف کھڑی ہوگی اور فورا ہی چاقو نکال کر میرے انگوٹھے پر چار پانچ وار کئے اور بھاگتی چلی گئی.
۔میں نے پوتی سے پوچھا تو اس نے کہا برقع اوڑھے ہوئے دادی سکینہ تھی ۔
۔بعد میں پتہ چلا کہ سکینہ تو ایک ہفتے سے میرٹھ گئی ہوئی ہے
۔۔میں نے بہو کے پاؤں کی مرہم پٹی کروائی تقریبا آٹھ دن میں پاؤں ٹھیک ہوا لیکن ٹانگ کے جوڑ پر ورم آ گیا.. حکیم صاحب کو دکھایا تو انہوں نے کہا زخم ٹھیک ہو گا تو ورم اتر جائے گا ۔ہم مطمئن ہوگئے..
بہو اب لنگڑا کر چلتی تھی مگر مجھے نہیں پتا تھا کہ دشمن اپنا کام کر چکا ہے.
۔ہندو مسلم فسادات لوگ گاؤں چھوڑ کر بھاگنے لگے ۔ہم کراچی آگئے..
ورم آہستہ آہستہ پھوڑے کی شکل اختیار کرگیا ۔اور اس کے بعد ناسور بن گیا.. جس نے تمام ٹانگ کو لپیٹ میں لے لیا ۔اس طرح میری بہو دشمنی کی نظر ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی..
میں سوچتی تھی وہ لوگ کامیاب رہے ۔کیونکہ ساری دولت ان کو مل گئی.. اب بٹوارے والا کوئی نہ رہا ۔مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔میری بہو کی بھابھی جو کہ عمل کروا رہی تھی اس کو اس کے دونوں بیٹے تین سال کے اندر ٹی بی ہو کر مر گئے ۔بھابھی خود بارش میں چھت گرنے سے ہلاک ہوگئیں.. کوئی نام لینے والا نہ رہا ۔فائدہ وہ بھی نہ اٹھا سکے اور اپنا بوجھ الگ لے گئے ۔۔